افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے چین میں ہوگا
فریقین کے مابین امن بات چیت کا پہلا دور 7 جولائی کوپاکستان کے سیاحتی مقام مری میں ہوا تھا
افغان حکام اور طالبان کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے چین میں ہوگا جس میں طالبان سے عارضی جنگ بندی کی بھی درخواست کی جائے گی۔
افغان امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل قاسم یار کا کہنا ہے کہ کابل حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین بات چیت کے لیے چین کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں افغان حکومت کی جانب سے عارضی جنگ بندی کی بھی درخواست کی جائے گی جب کہ ان مذاکرات کا مقصد ملک میں گزشتہ 14 برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہے۔ محمد اسماعیل کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے شرکاء کے حوالے سے تفصیلات آئندہ چند دنوں میں طے کرلی جائیں گی، ہم جنگ بندی پر تیار ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگی کارروائیوں میں مصروف عسکریت پسند طالبان قیادت کی طرف سے جنگ بندی کے احکام پر عمل کرنے کو تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔
اس سے قبل فریقین کے مابین امن بات چیت کا پہلا دور 7 جولائی کوپاکستان کے سیاحتی مقام مری میں ہوا تھا جس میں امریکی اور چینی نمائندے بھی موجود تھے جب کہ طالبان کی جانب سے ملا عباس اخوند، عبدالطیف منصور اور حاجی ابراہیم حقانی شریک تھے۔
دوسری جانب افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام میں افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کوجائز قرار دیتے ہوئے اس کا مقصد افغانستان سے غیر ملکی قبضے کو ختم کرنا قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ چین اور افغانستان کی مشترکہ سرحد 76 کلومیٹر طویل ہے اور چین اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں عسکریت پسندی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انحلا کے بعد وہاں ایک فعال کرداربھی ادا کرنا چاہتا ہے اسی سلسلے میں چین نے گزشتہ 13 سالوں میں افغانستان میں کثیر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔
افغان امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل قاسم یار کا کہنا ہے کہ کابل حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین بات چیت کے لیے چین کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں افغان حکومت کی جانب سے عارضی جنگ بندی کی بھی درخواست کی جائے گی جب کہ ان مذاکرات کا مقصد ملک میں گزشتہ 14 برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہے۔ محمد اسماعیل کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے شرکاء کے حوالے سے تفصیلات آئندہ چند دنوں میں طے کرلی جائیں گی، ہم جنگ بندی پر تیار ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگی کارروائیوں میں مصروف عسکریت پسند طالبان قیادت کی طرف سے جنگ بندی کے احکام پر عمل کرنے کو تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔
اس سے قبل فریقین کے مابین امن بات چیت کا پہلا دور 7 جولائی کوپاکستان کے سیاحتی مقام مری میں ہوا تھا جس میں امریکی اور چینی نمائندے بھی موجود تھے جب کہ طالبان کی جانب سے ملا عباس اخوند، عبدالطیف منصور اور حاجی ابراہیم حقانی شریک تھے۔
دوسری جانب افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام میں افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کوجائز قرار دیتے ہوئے اس کا مقصد افغانستان سے غیر ملکی قبضے کو ختم کرنا قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ چین اور افغانستان کی مشترکہ سرحد 76 کلومیٹر طویل ہے اور چین اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں عسکریت پسندی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انحلا کے بعد وہاں ایک فعال کرداربھی ادا کرنا چاہتا ہے اسی سلسلے میں چین نے گزشتہ 13 سالوں میں افغانستان میں کثیر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔