ہراول انقلابی دستہ

یہ ہر اول دستہ نظام کو منظم طریقہ سے درست کرنے کے بجائے شخصیت پرستی کے جال میں پھنسا ہے۔

تحریکِ انصاف کی جانب سے عدالتی رپورٹ پر باقائدہ بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن یہ انقلابی دستہ اپنا فیصلہ سوشل میڈیا پر صادر کر چکا ہے۔ فوٹو :فائل

PESHAWAR:
دلچسپ بات یہ نہیں کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ نے 2013 کے عام انتخابات کو کلین چٹ دے دی ہے بلکہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد کیا بیانیہ اختیار کرتی ہے؟ آیا رپورٹ کو من و عن تسلیم کرلیا جاتا ہے یا رپورٹ کے مندرجات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے تسلیم کیا جاتا ہے یا پھر رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا جاتا ہے! آخر الذکر دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب عدلیہ کے کردار پر تحریکِ انصاف کی جانب سے سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے جو غیر مناسب بات ہے اور کسی نئی معرکہ آرائی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اس بات سے قطع نظر پاکستان تحریکِ انصاف کا ایک ہراول دستہ ایسا بھی ہے جو سوشل میڈیا پر انقلاب برپا کرنے میں کمال رکھتا ہے اور ہمہ وقت فیس بک اور ٹوئٹر پرفعال نظر آتا ہے۔ فکر دیکھئے کہ عدالتی رپورٹ آئے بمشکل ایک دن گزرا ہے اور اب تک چیئرمین تحریکِ انصاف کی جانب سے اس عدالتی رپورٹ پر باقائدہ بیان بھی جاری نہیں کیا گیا لیکن تحریکِ انصاف کا یہ انقلابی دستہ اپنا فیصلہ سوشل میڈیا پر صادر کرچکا ہے۔ عدالتی کمیشن بمع رپورٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ اس ہراول دستے کے نزدیک ایان علی کی چار ماہ قید کاٹنے کے بعد ضمانت دراصل اس بات کی دلیل اور ثبوت ہے کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ نا انصافی پر مبنی ہے۔

یہ پڑھا لکھا دستہ اتنا سمجھدار، سادہ لوح اور معصوم ہے جو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ عدالتی فیصلے شواہد کی بنیاد پر سنائے جاتے ہیں نہ کہ ہوائی یا سنی سنائی باتوں پر۔ ان کے نزدیک عدالت نے سوشل میڈیا، ٹی وی اور کنٹینر سے تشہیر کی گئیں تصاویر، بیانات، وائٹ پیپرز، 35 پنکچر کہانی، منظم دھاندلی داستان اور الزامات کو کسی خاطر میں نہ لا کر انتہائی کم ظرفی اور بد دیانتی کا ارتکاب کیا ہے!!!



یہ ہر اول دستہ نظام کی خرابیوں، کوتاہیوں یا بے ضابطگیوں کو منظم طریقہ سے درست کرنے کے بجائے شخصیت پرستی کے جال میں پھنسا پڑا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطے کے عوام عمومی طور پر شخصیت پرست و تماش بین واقع ہوئے ہیں، ایک ایسی قوم جو اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک ٹانگ پر کھڑی کسی مسیحا کے انتظار میں محو نظر آتی ہے۔ مسیحا آئے گا، ڈگڈگی بجائے گا اور تمام مسائل اڑن چھو ہو جائیں گے۔




پاکستانی قوم کی اسی نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحا کے روپ میں وارد ہوئے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ڈکٹیٹروں نے اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔ غیر ممالک خصوصاً یورپ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نظام کا پاکستان کے نظام سے موازنہ کرنا اور قصور وار سیاستدان کو ٹھہرانا بھی اسی ہر اول دستے کی اونچی دانش کی بھرپور نشانی ہے۔ حالانکہ امریکہ، یورپ یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا نظام جسے ہم پاکستانی بڑی رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں آسمان سے یکسر اتر کر ان ممالک میں لاگو نہیں ہوا اور نہ ان ممالک کے شہری ہمیشہ سے ہی تہذیب و تمدن و اعلی اقدار کا شاہکار رہے ہیں بلکہ یہ نظام اور معاشی و معاشرتی اقدار نظام کے تسلسل، سخت محنت اور نسلوں کی قربانیوں کا منطقی انجام ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ نظام تسلسل سے چلے گا تو وقت کے ساتھ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جائے گا لیکن جب اس اصول کی اپنے وطن میں اطلاق کی باری آتی ہے تو انہیں مسیحا کو سیڑھی چڑھانے کا شوق آن گھیرتا ہے اور اسی شوق میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر اپنے ملکی نظام کو تہہ و بالا کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔

ٹھیک اسی طرح ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر شواہد کے شواہد ہاتھوں میں پکڑ پکڑ کر لہرانے والی مسیحائی کی دعویدار شخصیات اور سائنسدان قسم کے انقلابی اینکر پرسنز پر فرض تھا کہ موجود شواہد کے انبار کو عدالتی کمیشن کے روبرو پیش کرکے قومی خدمت سرانجام دیتے تاکہ پانی سر سے گزر جانے کے بعد نا ہی ہزیمت اٹھانا پڑتی، نہ منہ بسور کر کربناک انداز میں ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہونا پڑتا اور نہ ہی بھرپور ایکٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمروں کے سامنے رپورٹ کے چیتھڑے اڑانے پڑتے۔

شعور کی بات یہی ہے کہ نتائج اپنی خواہشات کے برعکس آنے کے باوجود عمران خان صاحب عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو من و عن تسلیم کرکے مزید کسی نئی بحث اور معرکہ آرائی سے گریز کا رستہ اپنائیں۔ جماعت کے فیصلہ سازی کے عمل اور طریقہ کار کا از سر نو جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال میں لئے گئے تمام فیصلے ملک میں ہیجان پیدا کرنے اور بطور جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے لئے بدنامی کا سبب بننے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کرسکے جبکہ کپتان صاحب کی اپنی سیاسی ساکھ بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی جمہوریت کو مضبوط حزبِ اختلاف کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی جمہوریت پسند شخص یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کا سیاسی نظام سنگل پارٹی سسٹم بن جائے۔ دو سے تین مضبوط قومی سیاسی جماعتوں کی موجودگی ازحد ضروری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے ہے کہ کسی جرنیل کے کاندھے پر سوار یا طالبان کے دفاتر کھلوانے کی خواہشمند اپوزیشن کسی طور قبول نہیں کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کی بقاء جمہوری نظام کے تسلسل سے جڑی ہے۔نظام کے ارتقاء میں ہی قوم کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔

[poll id="558"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story