چترال … پل صراط اور پہلا مقتول
قدرت کی مرضی کہ شمالی پاکستان کی ایک بے پناہ خوبصورت وادی چترال کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔
قدرت کی مرضی کہ شمالی پاکستان کی ایک بے پناہ خوبصورت وادی چترال کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔ حالیہ بارشوں نے اس وادی کی شکل ہی بدل دی ہے اور ہر طرف تباہی اور بربادی کا منظر ہے۔ چترال کی اس تباہی میں مجھے اس جنت نظیر ریاست چترال کی یاد آ رہی ہے جو میں نے کئی برس پہلے دیکھی تھی اور جس کی حیرت اب تک باقی ہے۔
اسے ایک حیران کن وادی کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ ریاست چترال اب ایک ضلع ہے خیبرپختون خوا کا۔ لیکن جب یہ ایک ریاست تھی تو اس کے مالک کو مہتر کہتے تھے، 'مہتر چترال'۔ اسی زمانے کا ایک لطیفہ ہے کہ جب چترال کے والی ایک بار لاہور تشریف لائے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں علامہ اقبال بھی تھے۔ ہمارے ہاں مہتر لفظ کے معنی خاکروب کے ہیں، علامہ نے لاہور کارپوریشن کے میئر کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ 'ایں ہم مہتر لاہور است' یہ لاہور کے مہتر 'خاکروب' ہیں۔
میں نے صحافتی بے روزگاری کے ایک زمانے میں چترال کو گھوم پھر کر دیکھا تھا۔ ائر مارشل محمد اصغر خان اس زمانے میں اپنی جماعت چلا رہے تھے۔ وہ چترال کے سیاسی دورے پر روانہ ہونے والے تھے۔ مجھے یاد فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ میں تو ان دنوں کسی اخبار میں نہیں اور آپ کے لیے بے مصرف ہوں۔ اس پر انھوں نے پیغام بھیجا کہ میں پھر بھی آپ کو ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ ہوائی جہاز سے چترال پہنچے۔ خشکی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ چترال کی وادی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی اور بیچ میں دریا بہتا تھا اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دونوں حصوں میں آمد و رفت کے لیے دریا پر کوئی پل بھی نہیں تھا۔
میں نے دیکھا کہ ایک طویل پل ہے رسیوں کا جو دریا کے اوپر دونوں طرف پہاڑوں سے باندھ دیا گیا ہے اور دریا کے دونوں طرف آنے جانے کا راستہ یہی رسیوں کا پل ہے جس پر دونوں پاؤں تو رکھے جا سکتے ہیں لیکن بالکل ناک کی سیدھ میں چلنا پڑتا ہے۔ ورنہ نیچے بہتا دریا اس پل کے کسی مسافر کو اپنے تیز پانی میں بہا لے جانے پر تیار ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی سر پر کچھ سامان اٹھائے اس معلق پل پر سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ یہ حیرت انگیز سفر ہم سب دوست دیکھتے رہ گئے۔
وہ آدمی جو پل پر سے گزر رہا تھا بہت دیر بعد دوسری طرف پہنچ گیا۔ صحیح و سلامت اور معلوم ہوا کہ یہ سفر جاری رہتا ہے۔ کیونکہ دونوں حصوں میں دریا کے اوپر کوئی پل نہیں ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس پل کا دیہی نام یعنی عرف عام پُل صراط ہے اور یہ واقعی پُل صراط تھی جس پر سے گزرنا قیامت کی پُل صراط سے بھی شاید زیادہ مشکل تھا۔
ہمارے سامنے یہ پل جہاں سے شروع ہوتا تھا وہاں پہاڑ کے پیچھے کافرستان کی افسانوی وادی تھی جس کے لیے دوسری طرف ایک محفوظ الگ راستہ تھا لیکن چترال سے اگر کافرستان جائیں تو پھر اس کا راستہ یہی پُل صراط تھا جو یقینا تجربہ کار مسافروں کا راستہ تھا جنھیں اس پل سے گزرنے کا حیران کن ہنر آتا تھا جن کے دانشمند قدم اور مضبوط دل یہ سفر طے کیا کرتے تھے۔
دریا کے جس طرف ہم کھڑے تھے وہاں قریب ہی ایک مقبرہ زیر تعمیر تھا جو اس پُل صراط سے شاید زیادہ حیرت انگیز تھا۔ وہاں کے لوگوں سے پوچھا یہاں کے کون بزرگ فوت ہو گئے جن کا یہ مقبرہ تعمیر ہو رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ کسی بزرگ کا مقبرہ نہیں ہے بلکہ ریاست چترال کی تاریخ کے پہلے مقتول کا مقبرہ ہے۔
ریاست میں کوئی قتل نہیں ہوتا۔ ایک تو قانون سخت ہے، دوسرے قتل کا بدلہ لینا لازم اور حتمی ہوتا ہے۔ اس لیے لڑائی جھگڑے تو ہوتے ہیں مگر قتل تک نوبت نہیں پہنچتی لیکن یہ شخص گزشتہ عید کے دن کسی پرانی دشمنی کی وجہ سے لڑائی میں الجھ گیا اور وہیں قتل کر دیا گیا۔ یہ اس ریاست کا پہلا مقتول تھا۔ اسے لوگوں نے مسجد سے اٹھا لیا اور یہاں لے آئے جہاں اس کی تدفین ہوئی اور پھر اس کی قبر ایک مقبرے کی صورت میں بنانی شروع کر دی گئی۔ اب یہ قریب قریب مکمل ہے اور اس کا خرچ سب لوگوں نے مل کر ادا کیا ہے۔
چترال کے دریا کی پُل صراط کی طرح یہ ایک دوسری عجیب بات تھی کہ اس ریاست کی تاریخ میں پہلی بار کوئی قتل ہوا۔ میرا نہیں خیال کہ ملک میں کوئی دوسرا ایسا علاقہ ہو گا جہاں کبھی کوئی قتل نہ ہوا ہو سوائے چترال کے جو ایک ریاست تھی اور جس کے 'مہتر' نے ایسا نظام قائم کر رکھا تھا کہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ تھیں۔ ایک جنگلی سا علاقہ جہاں غالباً کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ بھی نہیں تھا اور جس علاقے کو نئے زمانے کی ہوا نہیں لگی تھی وہ حیرت انگیز حد تک پر امن تھا۔
دریا کے کنارے پُر امن پہاڑوں پر زندگی بسر کرنے والے صرف ایک گستاخی کرتے تھے کہ دریا کی لہروں کو کسی طرح قابو کر کے پکڑ لاتے تھے اور ان سے اپنے چھوٹے چھوٹے کھیت سیراب کر لیتے تھے۔ اسی دریا کی مچھلیاں تھیں اور اس میں بہہ کر آنے والی دوسری اشیاء جن کو پکڑ لیا جاتا تھا ان میں کچھ مال مویشی بھی ہوتے جو کسی طرح دریا میں گر جاتے اور بہتے بہتے چترالیوں کے ہتھے چڑھ جاتے۔
انسانی قتل کی طرح عام جرائم بھی بہت کم ہیں اب جب یہ ریاست ختم ہو چکی ہے اور یہ صوبہ کا ایک ضلع ہے تو نہ جانے یہاں امن و امان کی اب کیا حالت ہے اور یہاں کوئی ایسا 'مقتول' بھی ہوتا ہے جو کسی وجہ سے مقبرے کا حقدار ہو اور جسے 'پہلے مقتول' کا ناقابل یقین نام دیا جا سکتا ہو۔ تعجب ہے کہ ہمارے اسی ملک میں کچھ ایسے پرامن اور شریف علاقے بھی تھے جب کہ ہمارے ایک شہر لاہور کا کوئی دن کسی انسان کے خون کے بغیر غروب نہیں ہوتا۔ نہ جانے اب پُل صراط پر سے کوئی گزرتا ہے یا نہیں لیکن گزرتے ہوں گے کہ ہم نے اس ضلع میں ترقی کا کام کبھی نہیں کیا۔
میں نے مجبوراً ڈرائیور کی ضرورت ظاہر کی تھی۔ برادرم جمیل اطہر قاضی کے ڈرائیور نے اپنا ایک دوست بھجوا دیا ہے۔ خدا کرے ان کے اخباروں کی طرح میری گاڑی بھی چلتی رہے اور میں ان کا شکریہ ادا کرتا رہوں۔ گھٹنے کی بیماری کی وجہ سے میں نے ڈرائیونگ چھوڑ دی ہے ورنہ لاہور کا ہر اسپیڈ بریکر بھی میرا دیکھا بھالا تھا۔ زندگی کی گاڑی چلتی ہی رہتی ہے۔