کڑوا سچ
شور کیوں اٹھا تھا لوگ کیوں دوڑے تھے، اہل خانہ لاعلم تھے، کچھ ہی دیر بعد ایک رکشے میں لوگ بھرے پھر سے گزر گئے
عید کا تیسرا روز تھا، عید کی خوشیاں برقرار تھیں، ماحول قدرتی طور پر مسرتوں بھرا تھا کیونکہ یہ پروردگار کی طرف سے بندوں کے لیے خوشی کا تہوار قرار دیا گیا ہے، گھر مہمانوں کی آمد کے حوالے سے سجاوٹ کی آخری تیاریوں کے مراحل میں تھا کہ اچانک سڑک پر ایک شور سا اٹھا کچھ لوگ دوڑے اسی اثنا میں گیٹ کیسامنے سے ایک اسکوٹر پر سوار بھاری بھرکم صاحب دو خواتین کے ساتھ تیزی سے گزر گئے۔
شور کیوں اٹھا تھا لوگ کیوں دوڑے تھے، اہل خانہ لاعلم تھے، کچھ ہی دیر بعد ایک رکشے میں لوگ بھرے پھر سے گزر گئے۔۔۔۔ کیا ہوا؟ اسکوٹر والے نے بچے کے سینے پر اسکوٹر چڑھا دی۔ اوہو! بچہ کیسا ہے، زخمی تو نہیں ہوا، زخمی کیا ہونا ہے، سانس نہیں آرہی اسے، سمجھو نوے فیصد مرا ہوا ہے۔۔۔۔ کیا؟ بڑا بے رحم تھا! بچہ سامنے آگیا تھا تو بریک ہی لگا لیتا، وہ بچہ زمین پر ٹکر لگنے سے گرا تو اس کو دیکھو رکا نہیں، اسکوٹر اس کے سینے پر چڑھا دی اور ایسی تیزی سے رفوچکر ہوا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اکیلا تھا تو کسی نے پکڑا نہیں۔ اکیلا کہاں تھا پیچھے دو لیڈیز بھی بیٹھی تھیں،کیا، دو لیڈیز۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جو اسکوٹر گزری تھی ذرا موٹا سا آدمی دو عورتوں کو پیچھے لیے بیٹھا تھا وہ۔۔۔۔۔ ہاں جی وہی تھا۔ ہم تو خود ہی سمجھ نہ پائے تھے کہ وہ ہے۔ ہم نے تو دیکھا ہی نہ تھا وہ تو دوسرے بچے نے بتایا کہ وہ جا رہا وہ آدمی، اف خدایا،کیا قیامت ہے یار، کیسا ظالم تھا، کیا اس کے اپنے بچے نہیں،کیا کہیں صاحب، دس سال کا پلا پلایا بچہ چچ چچ،!یہ گفتگو پڑھ کر آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ معاملہ کیا تھا۔
اس حادثے کا ذمے دار کون تھا لاپرواہی، غفلت، غیر ذمے داری، یہ وہ خصوصیات ہیں کہ جن کے مجموعے سے ایک بے ترتیب، بے ضمیر اور سست معاشرہ وجود لیتا ہے اور ہم اور آپ آج کل اسی معاشرے کا حصہ ہیں کہ یہ خدمات بدرجہ اتم اس کا زنگ بن کر ہمارے وجود میں اترتا جا رہا ہے، کوئی سا بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کتنی خبریں ایسی ہوتی ہیں جو ایک نامعلوم گاڑی کی زد سے اتنے لوگ زخمی یا ہلاک ہوگئے، ٹرین کی زد میں آکر نامعلوم شخص کچل گیا، راستے میں فلاں فلاں شخص نے دم توڑ دیا، یہ خبریں روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔
ہم سب روز ہی ایسی خبریں پڑھتے ہیں، راستے میں دن دہاڑے لوٹ لیا، دن دہاڑے فائرنگ کرکے لوگوں کو زخمی کردیا، ہم ان تمام حادثات و سانحات میں محض ایک تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں، حادثہ ہوا لوگ ادھر ادھر سے آکر جمع ہوگئے، رش لگ گیا ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بے چارہ کہہ کہہ کر کارروائی دیکھتے ہیں، یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک ہٹا کٹا شخص سڑک پر بے سدھ پڑا ہے، اس کے وجود سے تازہ تازہ خون نکل رہا ہے، بس ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ تو ہوتا ہی رہتا ہے، ہمارا مذہب، ہماری اخلاقیات سب نجانے کہاں ہمارے وجود میں کہیں کھو جاتا ہے، بس رہ جاتا ہے تو تماش بینی کا شوق یا ایک انجانا سا جرم جو کبھی بھی ہم میں سے کسی سے بھی سرزد ہوجاتا ہے۔
اس وقت صرف اپنی جان بچانے کی فکر ہوتی ہے، یہ نہیں سوچا جاتا کہ جو شخص یا انسانی جان ابھی مجھ سے ہلکے سے بھی ہٹ ہوئی ہے، ٹکرائی ہے، ہوسکتا ہے معمولی سی خراش ہی ہو، رک جاؤں اور اس انسانی جان کی فکر کروں کہ میرے وجود کی فکر تو میرا رب کر رہا ہے اور اس لمحے اس پل مجھے اپنے رب کی تخلیق کی فکر کروں کہ یہ امتحان اوپر والا لے رہا ہے کہ اب میرا بندہ کیا کرتا ہے، یوں ہی تڑپتا چھوڑ دوں یا آگے بڑھ کر تھام لوں۔ یہ احساسات یہ جذبات بھی اسی رب کی دین ہیں کہ اس سے ہمارے عذابوں گناہوں کی کاٹ چھانٹ ہوتی ہے لیکن ہم مادیت کے سحر میں جکڑے اپنا چھوٹا سا دامن بچانے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور سرک جاتے ہیں۔مجھے اب بھی یاد ہے جب میں نے نئی نئی ڈرائیونگ سیکھی تھی۔
شوق کے ساتھ ایک خوف بھی تھا، لیکن احتیاط کا سبق ذہن میں پیوست تھا۔ رمضان کے دن تھے سڑک پر دوپہر کے وقت سے ہی ذرا رش بڑھ جاتا ہے، اتفاق سے اس دن رش اتنا نہ تھا نہایت احتیاط سے گاڑی کو پوری طرح گھما رہی تھی دور سے ایک صاحب ایک چھوٹی چار پانچ سال کی بچی کو بائیک پر بٹھائے تیزی سے مخالف سمت چلے آرہے تھے، ان کی آنکھیں میری جانب ہی تھیں، میں گاڑی گھما کر اس کا رخ اپنی راہ پر کرکے جانا چاہتی تھی، بس اتنی ہی دیر تھی کہ گاڑی پوری گھوم جاتی، انتہائی حیرت کا شکار ہوئی جب ان صاحب کی اسکوٹر میری گاڑی کے آگے والے حصے سے آکر ٹکرائی خوف کی سرائیت میرے وجود میں دوڑی، بچی جو اب بھی اسکوٹر پر سوار تھی ڈر کر رونے لگی، گاڑی پر ڈینٹ پڑ چکا تھا۔
گاڑی چلانی نہیں آتی تو کیوں سڑک پر نکلتی ہیں۔ ایک بزرگ زہر اگل رہے تھے، لیکن مجھے فکر تھی تو صرف اس بچی کی کہ اسے چوٹ تو نہیں لگی، ان صاحب کے چہرے پر شرمندگی عیاں تھی، غلطی ان کی تھی، لوگ جمع ہو رہے تھے، میرے ذہن میں صرف بچی سوار تھی اس کا رونا مجھے پریشان کر رہا تھا، چیخ کر ان صاحب سے پوچھا کہ بچی تو ٹھیک ہے، انھوں نے اپنے سرخ ہوتے منہ سے شرمندگی سے اتنا ہی ادا کیا ٹھیک ہے ڈر گئی ہے۔
دل میں سکون اترا میں نے کسی کی پرواہ نہ کی گاڑی آرام سے اسٹارٹ کی اور اپنی راہ پر چل دی۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی پیش آیا نقصان تو میری ہی گاڑی کا ہوا، غلطی رکشے والے کی تھی اس نے میرا نقصان پورا کرنے کی بجائے لمبا ڈرامہ بھی کیا، میں نے لوگوں کی نفرت انگیز باتیں بھی سنیں، جو محض تماشائی اور چھچھورے پن کا مظاہرہ کر رہے تھے اور ان لوگوں کی ہمدردیاں بھی محسوس کیں جنھوں نے اس موقعے پر میری مدد کی کیونکہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا تھا۔
ہمارے معاشرے میں ویسے ہی قوانین کے لیے جو اسٹینڈرڈ ہے اس پر شکر بھی ادا کرتے ہیں اور کبھی افسوس بھی ہوتا ہے لیکن شکر تو اس بات کا ادا کرنا چاہیے کہ اوپر والا آپ کی نیت دیکھ کر سب کچھ خود سنبھال لیتا ہے، بس اپنے رب کی رحمت پر یقین رکھنا چاہیے کہ ان پر یقین رکھتے ہوئے ہی ہمارے دلوں میں صلح رحمی، پیار، اخلاق، صبر، سکون اور امن کے جذبات ابھرتے ہیں جس سے ایک اچھا معاشرہ تخلیق پاتا ہے، اگر ہمیں اپنے معاشرے کو سدھارنا ہے تو ہمیں کھلے ذہن سے اپنے مذہب کا مطالعہ کرنا ہوگا ورنہ اجلے اجلے کالرز کے وحشی درندے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے جو ہم میں اور آپ کے وجود میں چھپے بیٹھے ہیں۔
شور کیوں اٹھا تھا لوگ کیوں دوڑے تھے، اہل خانہ لاعلم تھے، کچھ ہی دیر بعد ایک رکشے میں لوگ بھرے پھر سے گزر گئے۔۔۔۔ کیا ہوا؟ اسکوٹر والے نے بچے کے سینے پر اسکوٹر چڑھا دی۔ اوہو! بچہ کیسا ہے، زخمی تو نہیں ہوا، زخمی کیا ہونا ہے، سانس نہیں آرہی اسے، سمجھو نوے فیصد مرا ہوا ہے۔۔۔۔ کیا؟ بڑا بے رحم تھا! بچہ سامنے آگیا تھا تو بریک ہی لگا لیتا، وہ بچہ زمین پر ٹکر لگنے سے گرا تو اس کو دیکھو رکا نہیں، اسکوٹر اس کے سینے پر چڑھا دی اور ایسی تیزی سے رفوچکر ہوا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
اکیلا تھا تو کسی نے پکڑا نہیں۔ اکیلا کہاں تھا پیچھے دو لیڈیز بھی بیٹھی تھیں،کیا، دو لیڈیز۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جو اسکوٹر گزری تھی ذرا موٹا سا آدمی دو عورتوں کو پیچھے لیے بیٹھا تھا وہ۔۔۔۔۔ ہاں جی وہی تھا۔ ہم تو خود ہی سمجھ نہ پائے تھے کہ وہ ہے۔ ہم نے تو دیکھا ہی نہ تھا وہ تو دوسرے بچے نے بتایا کہ وہ جا رہا وہ آدمی، اف خدایا،کیا قیامت ہے یار، کیسا ظالم تھا، کیا اس کے اپنے بچے نہیں،کیا کہیں صاحب، دس سال کا پلا پلایا بچہ چچ چچ،!یہ گفتگو پڑھ کر آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ معاملہ کیا تھا۔
اس حادثے کا ذمے دار کون تھا لاپرواہی، غفلت، غیر ذمے داری، یہ وہ خصوصیات ہیں کہ جن کے مجموعے سے ایک بے ترتیب، بے ضمیر اور سست معاشرہ وجود لیتا ہے اور ہم اور آپ آج کل اسی معاشرے کا حصہ ہیں کہ یہ خدمات بدرجہ اتم اس کا زنگ بن کر ہمارے وجود میں اترتا جا رہا ہے، کوئی سا بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کتنی خبریں ایسی ہوتی ہیں جو ایک نامعلوم گاڑی کی زد سے اتنے لوگ زخمی یا ہلاک ہوگئے، ٹرین کی زد میں آکر نامعلوم شخص کچل گیا، راستے میں فلاں فلاں شخص نے دم توڑ دیا، یہ خبریں روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔
ہم سب روز ہی ایسی خبریں پڑھتے ہیں، راستے میں دن دہاڑے لوٹ لیا، دن دہاڑے فائرنگ کرکے لوگوں کو زخمی کردیا، ہم ان تمام حادثات و سانحات میں محض ایک تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں، حادثہ ہوا لوگ ادھر ادھر سے آکر جمع ہوگئے، رش لگ گیا ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بے چارہ کہہ کہہ کر کارروائی دیکھتے ہیں، یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک ہٹا کٹا شخص سڑک پر بے سدھ پڑا ہے، اس کے وجود سے تازہ تازہ خون نکل رہا ہے، بس ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ تو ہوتا ہی رہتا ہے، ہمارا مذہب، ہماری اخلاقیات سب نجانے کہاں ہمارے وجود میں کہیں کھو جاتا ہے، بس رہ جاتا ہے تو تماش بینی کا شوق یا ایک انجانا سا جرم جو کبھی بھی ہم میں سے کسی سے بھی سرزد ہوجاتا ہے۔
اس وقت صرف اپنی جان بچانے کی فکر ہوتی ہے، یہ نہیں سوچا جاتا کہ جو شخص یا انسانی جان ابھی مجھ سے ہلکے سے بھی ہٹ ہوئی ہے، ٹکرائی ہے، ہوسکتا ہے معمولی سی خراش ہی ہو، رک جاؤں اور اس انسانی جان کی فکر کروں کہ میرے وجود کی فکر تو میرا رب کر رہا ہے اور اس لمحے اس پل مجھے اپنے رب کی تخلیق کی فکر کروں کہ یہ امتحان اوپر والا لے رہا ہے کہ اب میرا بندہ کیا کرتا ہے، یوں ہی تڑپتا چھوڑ دوں یا آگے بڑھ کر تھام لوں۔ یہ احساسات یہ جذبات بھی اسی رب کی دین ہیں کہ اس سے ہمارے عذابوں گناہوں کی کاٹ چھانٹ ہوتی ہے لیکن ہم مادیت کے سحر میں جکڑے اپنا چھوٹا سا دامن بچانے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور سرک جاتے ہیں۔مجھے اب بھی یاد ہے جب میں نے نئی نئی ڈرائیونگ سیکھی تھی۔
شوق کے ساتھ ایک خوف بھی تھا، لیکن احتیاط کا سبق ذہن میں پیوست تھا۔ رمضان کے دن تھے سڑک پر دوپہر کے وقت سے ہی ذرا رش بڑھ جاتا ہے، اتفاق سے اس دن رش اتنا نہ تھا نہایت احتیاط سے گاڑی کو پوری طرح گھما رہی تھی دور سے ایک صاحب ایک چھوٹی چار پانچ سال کی بچی کو بائیک پر بٹھائے تیزی سے مخالف سمت چلے آرہے تھے، ان کی آنکھیں میری جانب ہی تھیں، میں گاڑی گھما کر اس کا رخ اپنی راہ پر کرکے جانا چاہتی تھی، بس اتنی ہی دیر تھی کہ گاڑی پوری گھوم جاتی، انتہائی حیرت کا شکار ہوئی جب ان صاحب کی اسکوٹر میری گاڑی کے آگے والے حصے سے آکر ٹکرائی خوف کی سرائیت میرے وجود میں دوڑی، بچی جو اب بھی اسکوٹر پر سوار تھی ڈر کر رونے لگی، گاڑی پر ڈینٹ پڑ چکا تھا۔
گاڑی چلانی نہیں آتی تو کیوں سڑک پر نکلتی ہیں۔ ایک بزرگ زہر اگل رہے تھے، لیکن مجھے فکر تھی تو صرف اس بچی کی کہ اسے چوٹ تو نہیں لگی، ان صاحب کے چہرے پر شرمندگی عیاں تھی، غلطی ان کی تھی، لوگ جمع ہو رہے تھے، میرے ذہن میں صرف بچی سوار تھی اس کا رونا مجھے پریشان کر رہا تھا، چیخ کر ان صاحب سے پوچھا کہ بچی تو ٹھیک ہے، انھوں نے اپنے سرخ ہوتے منہ سے شرمندگی سے اتنا ہی ادا کیا ٹھیک ہے ڈر گئی ہے۔
دل میں سکون اترا میں نے کسی کی پرواہ نہ کی گاڑی آرام سے اسٹارٹ کی اور اپنی راہ پر چل دی۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی پیش آیا نقصان تو میری ہی گاڑی کا ہوا، غلطی رکشے والے کی تھی اس نے میرا نقصان پورا کرنے کی بجائے لمبا ڈرامہ بھی کیا، میں نے لوگوں کی نفرت انگیز باتیں بھی سنیں، جو محض تماشائی اور چھچھورے پن کا مظاہرہ کر رہے تھے اور ان لوگوں کی ہمدردیاں بھی محسوس کیں جنھوں نے اس موقعے پر میری مدد کی کیونکہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا تھا۔
ہمارے معاشرے میں ویسے ہی قوانین کے لیے جو اسٹینڈرڈ ہے اس پر شکر بھی ادا کرتے ہیں اور کبھی افسوس بھی ہوتا ہے لیکن شکر تو اس بات کا ادا کرنا چاہیے کہ اوپر والا آپ کی نیت دیکھ کر سب کچھ خود سنبھال لیتا ہے، بس اپنے رب کی رحمت پر یقین رکھنا چاہیے کہ ان پر یقین رکھتے ہوئے ہی ہمارے دلوں میں صلح رحمی، پیار، اخلاق، صبر، سکون اور امن کے جذبات ابھرتے ہیں جس سے ایک اچھا معاشرہ تخلیق پاتا ہے، اگر ہمیں اپنے معاشرے کو سدھارنا ہے تو ہمیں کھلے ذہن سے اپنے مذہب کا مطالعہ کرنا ہوگا ورنہ اجلے اجلے کالرز کے وحشی درندے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے جو ہم میں اور آپ کے وجود میں چھپے بیٹھے ہیں۔