عوام اور عوام کی فلاح و بہبود
نفرت اور ناانصافیاں کسی بھی معاشرے کے لیے زہر سے کم نہیں ہوتیں۔
PESHAWAR:
خیر اور شکر کے ساتھ عید پورے ملک نے منائی۔ بجلی، پانی کی نایابی کے باوجود تاجر طبقے نے شکر ادا کیا ہے کہ بھتہ پرچیاں، قتل و غارت گری سے کسی حد تک شہر کراچی میں سکون رہا، شہریوں نے مشکلات کے باوجود عید کے سکون و خوشیوں کو محسوس کیا اور بھرپور طریقے سے اپنے بجٹ میں رہتے ہوئے عید کی خریداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کراچی کے بڑے بازاروں میں رمضان کے آخری دنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، بے انتہا خریداروں کا رش رہا اور دکانداروں نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا کہ کئی برسوں کے بعد انھیں بھی کمانے کا موقع ملا۔ خوف کے بادل چھٹے تو مسکراہٹیں چہروں پر نمودار ہوئیں اور سکون و امن کی فضا استوار ہوئی۔ پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب میں عید منائی، بڑے سیاستدان بھی اپنے ہی ملک سے غائب حالانکہ جمہوریت ہے۔
کیا کہیے ایسی جمہوریت کو جہاں صدر، وزیراعظم اور وزرا اپنی قوم کے ساتھ عید منانے کے بجائے، اپنی اپنی خوشیوں میں مست و مگن ہوں، اتنا کچھ ہونے کے باوجود ناانصافیوں کا مگرمچھ بے قابو، قانون سب کے لیے برابر، انصاف سب کے لیے برابر، یقیناً یہ دنوں کا کام نہیں مگر کچھ سکون کی فضا ضرور بنی ہے۔
نفرت اور ناانصافیاں کسی بھی معاشرے کے لیے زہر سے کم نہیں ہوتیں۔ یہ نہ صرف معاشرے کو کھوکھلا کردیتی ہیں بلکہ نئی نسل کا حال اور مستقبل تباہ کن حد تک ختم کردیتی ہیں۔ معاشرہ جنگل بن جاتا ہے اور انسان جانوروں کی طرح ادھر ادھر اپنی دنیا بنانے لگتا ہے۔ توازن اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے اور ایک عجیب بے ہنگم صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور یہ بے ہنگم صورتحال ایک نہ ایک دن بھونچال بن کر سامنے آجاتی ہے۔ جب سے کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے کرمنل اور کرپشن کے خلاف آپریشن شروع ہوا ہے تو بظاہر رزلٹ ابھی تک تو تسلی بخش نظر آتے ہیں۔
پورے ملک میں جو دہشت گردی اور بم دھماکوں کی فضا تھی وہ بھی کسی حد تک تسلی بخش ہے اور اللہ کرے کہ یہ فضا قائم و دائم رہے اور بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے۔ مگر پوری قوم کو ہی اب متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر اس ملک و قوم کی حفاظت کے لیے شب و روز تگ و دو کر رہے ہیں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اس ملک و قوم کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ضرورت ہے کہ ہم سب اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ ایک روشن پاکستان نہ صرف ہماری ضرورت ہے بلکہ تمام تر اسلامی ممالک کی آنکھیں بھی پاکستان پر مرکوز ہوتی ہیں ایک بہتر نظام حکومت اور انفرادی طور پر ہم سب کو اپنا اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا جس دوڑ میں لگے ہوئے نظر آتے اور جس طرح کی وہ پالیسی پر گامزن ہیں، ذرا ایک نظر اپنے آپ پر بھی ڈالیں، بہتر کارکردگی اور بہتر ڈلیوری یقینا کسی کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
ماضی پر ماتم ختم ہونا چاہیے اور آگے روشن مستقبل کی طرف خلوص نیت اور دیانت داری سے کام کی شدید ضرورت ہے۔ تمام مسئلے مسائل کے ساتھ جو اندرون ملک بھی ہیں اور بیرون ملک بھی ہیں موسم کے تغیرات بھی اب ہم سے سنجیدگی کے ساتھ توجہ چاہتے ہیں۔ پوری دنیا میں موسمی تغیرات وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور پاکستان میں بھی سنجیدگی کے ساتھ مختلف ڈیم بنانے کے لیے بہت تیزی اور پھرتی کی ضرورت نظر آتی ہے، سبزہ اور درخت زیادہ سے زیادہ اگائے جائیں، عام لوگوں کو پودے، درخت لگانے کی ترغیب دی جائے، حکومت سبزہ اور پودے، درخت لگانے کے لیے فنڈز مہیا کرے، جنگلات کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کا جو رجحان ہے اور جس طرح لکڑی کے حصول کے لیے درختوں کو اندھا دھند کاٹا جا رہا ہے ختم کیا جا رہا ہے ۔
اس کے رزلٹ بھی ہمیں اس ماہ نظر آئے، اب آنے والے دنوں کے لیے تیاریاں کی جائیں کہ عوام کو اس موسم کے تغیرات سے تیار کیا جائے، بارش نہ ہو تو نماز استسقا جگہ جگہ ادا کی جاتی ہے، حکومت اپیل کر رہی ہوتی ہے اور جب بارشیں شروع ہوجاتی ہیں تو حکومت کی کارکردگی ''صفر'' نظر آتی ہے، پورے پنجاب میں بارشوں کے بعد سیلابوں کا سلسلہ اور عوام کی تباہی کا سلسلہ، تمام سال کی کمائی عوام کی پانی بہا لے جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، یہ کہاں کی حکومت ہے اور بار بار یہ سلسلہ جاری رہے، پھر کون آئے گا اور کون عوام کے دکھ درد کا دوست ہوگا، جو مناظر پچھلے سال ٹی وی اسکرین پر بارشوں کے زمانے میں نظر آرہے تھے وہی مناظر آج کی بارشوں میں بھی نظر آرہے ہیں۔
آخر عوام کہاں تک سہے اور کہاں تک برداشت کرے، تقریباً ڈھائی سال ہوچکے ہیں موجودہ حکومت کو کہ اپنا آدھا دور حکومت کرچکے ہیں، میٹرو بس اور free laptop یہ دو صدائیں گونجتی ہوئی ملیں۔ ٹیکس کی بھرمار رہی، بجلی کی کمیابی کا یہ عالم رہا کہ شدید گرمی اور طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ ہزاروں لوگوں کی جان لینے کا باعث بنی، کروڑوں لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم اور صرف سیکڑوں عیش و آرام کی بلندیوں پر۔ عوام کے پیسے اور ٹیکس سے اپنے لیے عالی شان زندگیاں آخر کب تک ان کے ضمیروں کو اور ان کی سوچوں کو مفلوج رکھے گی اور یقیناً ان سیکڑوں عیش زدہ کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ عوام تو عوام آخر وہ اپنی نسلوں کو اپنی اولاد کو کتنے بڑے بوجھ تلے دبا رہے ہیں۔
وہ رہیں یا نہ رہیں مگر ان کے کیے کا تمام تر بوجھ ان کی اولاد کو اٹھانا ہوگا اور پل پل عوام کو جوابدہ ہونا ہوگا کہ ان کا ماضی، ان کا حال سب کچھ عوام کے سامنے ہیں، کل جو تھے اور آج جو ہیں تو یہ صرف اور صرف عوام کو کچل کر اس کے حقوق کو دبا کر ان کی بنیادی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر آخر کب تک چل سکیں گے؟
سیاسی کھیل تماشے اب ہمارے ملک میں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے، سالہا سال اپنائے ہوئے رویے بدلنے ہوں گے اور تمام اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے اندر موجود کرپشن کو نکالنا ہوگا۔ ہماری آیندہ نسل کی بقا کے لیے ہمیں اپنے لیے ایک راہ عمل متعین کرنے کی ضرورت ہے، پڑھے لکھے طبقے کو آگے لانا اور مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔
امن اور وطن عزیز کی کامیابی و کامرانی کے لیے اور خاص طور پر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین دماغ اور دل رکھنے والے افراد جوکہ کسی نہ کسی سیاسی وجہ سے گمنام ہوگئے ہوں ایسے تمام لائق اور قابل افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں، تعلیم کے فروغ کے لیے ہنگامی پروجیکٹ ہو اور اعلیٰ تعلیم کا حصول سب کی پہنچ تک ہو، تعلیم کے ساتھ ساتھ کونسلنگ بھی طالب علموں کے لیے بہت ضروری ہے کہ ان کی صحیح سمت میں رہنمائی ہوسکے۔ خواتین مضبوط پلر ہیں ان کو اور زیادہ مضبوط بنایا جائے، ان کو وراثت ملے اور شوہر کے مظالم سے بچنے کے لیے آسان اور لاگو قانون ہو، خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوں گی تو وہ اپنی اولاد کی زیادہ بہترین پرورش کرسکیں گی۔
موجودہ حکومت بہت اچھے رزلٹ دے سکتی ہے جب کہ جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ ان کے حق میں آگیا ہو اور چاروں طرف سے PTIاور عمران خان پر انگلیاں اٹھ رہی ہوں۔ وہ لوگ جو 126 دن دھرنوں میں شامل رہے کروڑوں روپے ان دھرنوں پر خرچ ہوئے تمام قوم ایک ہیجانی کیفیت میں رہی اگر اس تمام صورتحال کا مثبت پہلو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کو ایک اور موقع مل جاتا ہے کہ وہ ایسے فلاحی کاموں سے عوام کے دلوں میں جگہ بنائیں جو واقعی عوام کے بہترین مفاد میں ہوں۔
چھوٹے لیول سے بڑے لیول تک بنیادی ضرورتوں کا حصول تمام تر عوام کے لیے آسان ہوجائے، بڑے بڑے صاف ستھرے پینے کے پانی کے پروجیکٹ، بجلی کی وافر مقدار، صحت اور علاج کے لیے بہتر اسپتال اور دواؤں کا خالص ہونا، وقت کبھی کبھی موقع دیتا ہے کہ آپ تاریخ میں امر ہوجائیں، بے شمار غلطیوں کے باوجود اگر کچھ وقت اللہ کی طرف سے بہتر عمل کے لیے مل جائے تو اس سے بڑھ کر کیا۔
خیر اور شکر کے ساتھ عید پورے ملک نے منائی۔ بجلی، پانی کی نایابی کے باوجود تاجر طبقے نے شکر ادا کیا ہے کہ بھتہ پرچیاں، قتل و غارت گری سے کسی حد تک شہر کراچی میں سکون رہا، شہریوں نے مشکلات کے باوجود عید کے سکون و خوشیوں کو محسوس کیا اور بھرپور طریقے سے اپنے بجٹ میں رہتے ہوئے عید کی خریداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کراچی کے بڑے بازاروں میں رمضان کے آخری دنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، بے انتہا خریداروں کا رش رہا اور دکانداروں نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا کہ کئی برسوں کے بعد انھیں بھی کمانے کا موقع ملا۔ خوف کے بادل چھٹے تو مسکراہٹیں چہروں پر نمودار ہوئیں اور سکون و امن کی فضا استوار ہوئی۔ پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب میں عید منائی، بڑے سیاستدان بھی اپنے ہی ملک سے غائب حالانکہ جمہوریت ہے۔
کیا کہیے ایسی جمہوریت کو جہاں صدر، وزیراعظم اور وزرا اپنی قوم کے ساتھ عید منانے کے بجائے، اپنی اپنی خوشیوں میں مست و مگن ہوں، اتنا کچھ ہونے کے باوجود ناانصافیوں کا مگرمچھ بے قابو، قانون سب کے لیے برابر، انصاف سب کے لیے برابر، یقیناً یہ دنوں کا کام نہیں مگر کچھ سکون کی فضا ضرور بنی ہے۔
نفرت اور ناانصافیاں کسی بھی معاشرے کے لیے زہر سے کم نہیں ہوتیں۔ یہ نہ صرف معاشرے کو کھوکھلا کردیتی ہیں بلکہ نئی نسل کا حال اور مستقبل تباہ کن حد تک ختم کردیتی ہیں۔ معاشرہ جنگل بن جاتا ہے اور انسان جانوروں کی طرح ادھر ادھر اپنی دنیا بنانے لگتا ہے۔ توازن اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے اور ایک عجیب بے ہنگم صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور یہ بے ہنگم صورتحال ایک نہ ایک دن بھونچال بن کر سامنے آجاتی ہے۔ جب سے کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے کرمنل اور کرپشن کے خلاف آپریشن شروع ہوا ہے تو بظاہر رزلٹ ابھی تک تو تسلی بخش نظر آتے ہیں۔
پورے ملک میں جو دہشت گردی اور بم دھماکوں کی فضا تھی وہ بھی کسی حد تک تسلی بخش ہے اور اللہ کرے کہ یہ فضا قائم و دائم رہے اور بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے۔ مگر پوری قوم کو ہی اب متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر اس ملک و قوم کی حفاظت کے لیے شب و روز تگ و دو کر رہے ہیں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اس ملک و قوم کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ضرورت ہے کہ ہم سب اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ ایک روشن پاکستان نہ صرف ہماری ضرورت ہے بلکہ تمام تر اسلامی ممالک کی آنکھیں بھی پاکستان پر مرکوز ہوتی ہیں ایک بہتر نظام حکومت اور انفرادی طور پر ہم سب کو اپنا اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا جس دوڑ میں لگے ہوئے نظر آتے اور جس طرح کی وہ پالیسی پر گامزن ہیں، ذرا ایک نظر اپنے آپ پر بھی ڈالیں، بہتر کارکردگی اور بہتر ڈلیوری یقینا کسی کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
ماضی پر ماتم ختم ہونا چاہیے اور آگے روشن مستقبل کی طرف خلوص نیت اور دیانت داری سے کام کی شدید ضرورت ہے۔ تمام مسئلے مسائل کے ساتھ جو اندرون ملک بھی ہیں اور بیرون ملک بھی ہیں موسم کے تغیرات بھی اب ہم سے سنجیدگی کے ساتھ توجہ چاہتے ہیں۔ پوری دنیا میں موسمی تغیرات وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور پاکستان میں بھی سنجیدگی کے ساتھ مختلف ڈیم بنانے کے لیے بہت تیزی اور پھرتی کی ضرورت نظر آتی ہے، سبزہ اور درخت زیادہ سے زیادہ اگائے جائیں، عام لوگوں کو پودے، درخت لگانے کی ترغیب دی جائے، حکومت سبزہ اور پودے، درخت لگانے کے لیے فنڈز مہیا کرے، جنگلات کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کا جو رجحان ہے اور جس طرح لکڑی کے حصول کے لیے درختوں کو اندھا دھند کاٹا جا رہا ہے ختم کیا جا رہا ہے ۔
اس کے رزلٹ بھی ہمیں اس ماہ نظر آئے، اب آنے والے دنوں کے لیے تیاریاں کی جائیں کہ عوام کو اس موسم کے تغیرات سے تیار کیا جائے، بارش نہ ہو تو نماز استسقا جگہ جگہ ادا کی جاتی ہے، حکومت اپیل کر رہی ہوتی ہے اور جب بارشیں شروع ہوجاتی ہیں تو حکومت کی کارکردگی ''صفر'' نظر آتی ہے، پورے پنجاب میں بارشوں کے بعد سیلابوں کا سلسلہ اور عوام کی تباہی کا سلسلہ، تمام سال کی کمائی عوام کی پانی بہا لے جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، یہ کہاں کی حکومت ہے اور بار بار یہ سلسلہ جاری رہے، پھر کون آئے گا اور کون عوام کے دکھ درد کا دوست ہوگا، جو مناظر پچھلے سال ٹی وی اسکرین پر بارشوں کے زمانے میں نظر آرہے تھے وہی مناظر آج کی بارشوں میں بھی نظر آرہے ہیں۔
آخر عوام کہاں تک سہے اور کہاں تک برداشت کرے، تقریباً ڈھائی سال ہوچکے ہیں موجودہ حکومت کو کہ اپنا آدھا دور حکومت کرچکے ہیں، میٹرو بس اور free laptop یہ دو صدائیں گونجتی ہوئی ملیں۔ ٹیکس کی بھرمار رہی، بجلی کی کمیابی کا یہ عالم رہا کہ شدید گرمی اور طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ ہزاروں لوگوں کی جان لینے کا باعث بنی، کروڑوں لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم اور صرف سیکڑوں عیش و آرام کی بلندیوں پر۔ عوام کے پیسے اور ٹیکس سے اپنے لیے عالی شان زندگیاں آخر کب تک ان کے ضمیروں کو اور ان کی سوچوں کو مفلوج رکھے گی اور یقیناً ان سیکڑوں عیش زدہ کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ عوام تو عوام آخر وہ اپنی نسلوں کو اپنی اولاد کو کتنے بڑے بوجھ تلے دبا رہے ہیں۔
وہ رہیں یا نہ رہیں مگر ان کے کیے کا تمام تر بوجھ ان کی اولاد کو اٹھانا ہوگا اور پل پل عوام کو جوابدہ ہونا ہوگا کہ ان کا ماضی، ان کا حال سب کچھ عوام کے سامنے ہیں، کل جو تھے اور آج جو ہیں تو یہ صرف اور صرف عوام کو کچل کر اس کے حقوق کو دبا کر ان کی بنیادی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر آخر کب تک چل سکیں گے؟
سیاسی کھیل تماشے اب ہمارے ملک میں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے، سالہا سال اپنائے ہوئے رویے بدلنے ہوں گے اور تمام اداروں کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے اندر موجود کرپشن کو نکالنا ہوگا۔ ہماری آیندہ نسل کی بقا کے لیے ہمیں اپنے لیے ایک راہ عمل متعین کرنے کی ضرورت ہے، پڑھے لکھے طبقے کو آگے لانا اور مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔
امن اور وطن عزیز کی کامیابی و کامرانی کے لیے اور خاص طور پر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین دماغ اور دل رکھنے والے افراد جوکہ کسی نہ کسی سیاسی وجہ سے گمنام ہوگئے ہوں ایسے تمام لائق اور قابل افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں، تعلیم کے فروغ کے لیے ہنگامی پروجیکٹ ہو اور اعلیٰ تعلیم کا حصول سب کی پہنچ تک ہو، تعلیم کے ساتھ ساتھ کونسلنگ بھی طالب علموں کے لیے بہت ضروری ہے کہ ان کی صحیح سمت میں رہنمائی ہوسکے۔ خواتین مضبوط پلر ہیں ان کو اور زیادہ مضبوط بنایا جائے، ان کو وراثت ملے اور شوہر کے مظالم سے بچنے کے لیے آسان اور لاگو قانون ہو، خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوں گی تو وہ اپنی اولاد کی زیادہ بہترین پرورش کرسکیں گی۔
موجودہ حکومت بہت اچھے رزلٹ دے سکتی ہے جب کہ جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ ان کے حق میں آگیا ہو اور چاروں طرف سے PTIاور عمران خان پر انگلیاں اٹھ رہی ہوں۔ وہ لوگ جو 126 دن دھرنوں میں شامل رہے کروڑوں روپے ان دھرنوں پر خرچ ہوئے تمام قوم ایک ہیجانی کیفیت میں رہی اگر اس تمام صورتحال کا مثبت پہلو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کو ایک اور موقع مل جاتا ہے کہ وہ ایسے فلاحی کاموں سے عوام کے دلوں میں جگہ بنائیں جو واقعی عوام کے بہترین مفاد میں ہوں۔
چھوٹے لیول سے بڑے لیول تک بنیادی ضرورتوں کا حصول تمام تر عوام کے لیے آسان ہوجائے، بڑے بڑے صاف ستھرے پینے کے پانی کے پروجیکٹ، بجلی کی وافر مقدار، صحت اور علاج کے لیے بہتر اسپتال اور دواؤں کا خالص ہونا، وقت کبھی کبھی موقع دیتا ہے کہ آپ تاریخ میں امر ہوجائیں، بے شمار غلطیوں کے باوجود اگر کچھ وقت اللہ کی طرف سے بہتر عمل کے لیے مل جائے تو اس سے بڑھ کر کیا۔