ایران جوہری معاہدے کے مسلم دنیا پر اثرات

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق معاہدے کی روشنی میں ایران کے خلاف تمام پابندیاں ختم ہوجائیں گی

qakhs1@gmail.com

GILGIT:
ویانا میں اسلامی جمہوریہ ایران اور گروپ 5+1 کے درمیان ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ طے پاگیا، ایران کا عالمی طاقتوں امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے ایٹمی معاہدہ طے پانے کے بعد 700 خبر نگاروں نے اس معاہدے کو نشر کیا۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے اس معاہدے کو سراہا لیکن اسرائیل نے اس معاہدے کو سنگین غلطی قرار دیا۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق معاہدے کی روشنی میں ایران کے خلاف تمام پابندیاں ختم ہوجائیں گی، سلامتی کونسل میں یہ معاہدہ منظور ہونے کا قوی امکان ہے، امریکی سینیٹ میں اگر منظوری کے وقت کچھ دشواری آئی تو امریکی صدر ویٹو پاور استعمال کرسکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے خاتمے کے آغاز قرار دیا گیا ہے اور ایران نے دو سال کے طویل ترین مذاکرات کے بعد بالآخر ایٹمی ہتھیار بنانے سے ہاتھ اٹھالیا ہے، اقوام متحدہ کے انسپکشن افسران کو ایٹمی ری ایکٹر تک رسائی کی اجازت دے دی ہے لیکن معاہدے کی ایک شق کے مطابق کسی بھی تنصیب کے معائنے کی اجازت فوری طور پر نہیں دی جائے گی، جس کے نتیجے میں معاہدے کے نقادوں کو یہ موقع فراہم ہوسکتا ہے کہ وہ تہران پر الزام لگائیں کہ وہ اس شق کی آڑ میں معاہدے کی عدم تعمیل کے تمام نشانات مٹا دے گا۔

اہم بات یہ ہے کہ معاہدے میں ایران کی تمام ریڈ لائنوں کو مدنظر رکھا گیا اور معاہدے کے تحت ایران کو اقوام متحدہ کے نگرانوں کی درخواست چیلنج کرنے کا حق ہوگا اور اس صورت میں فیصلہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کا ثالثی بورڈ کرے گا۔ دیگر عالمی ممالک کی طرح پاکستان، متحدہ عرب امارات نے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے اس معاہدے سے پاک ایران گیس لائن منصوبے کی تکمیل میں مدد اور دونوں ممالک کی دو طرفہ تجارت میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔

اسرائیل نے اس معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن جتن کیے لیکن عالمی طاقتوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایرانی قوت کا اندازہ ایران، عراق جنگ سے لے کر امام خمینی انقلاب اور پھر تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں متواتر عسکری مداخلت سے اندازہ کرلیا تھا کہ ایران کے خلاف افغانستان، عراق کی طرح مہم جوئی نہیں کی جاسکتی۔

ایران نے تمام تر پابندیوں کے باوجود اپنا اثر و رسوخ عرب ممالک تک بڑھانے کے لیے جہاں فلسطین میں اسرائیل کو مسلسل پریشان رکھا تو دوسری جانب عراق سے امریکی انخلا کے بعد عراق میں ایران کا اثر و نفوذ بڑھ جانا اور بغداد میں ایران کی مداخلت حد درجہ بڑھتی چلی گئی۔ ایران نے عالمی طاقتوں سے بے پرواہ ہوتے ہوئے مملکت شام میں اسد کی ظالم جابر حکومت کا ساتھ دے کر دنیا کو باور کرادیا کہ عالمی پابندیوں کے باوجود ایران صرف اپنے ملک کا دفاع ہی نہیں کرسکتا بلکہ دوسرے ممالک میں ایرانی بلاک بنانے کے لیے اپنی تمام تر قوت کا استعمال بھی بخوبی کرسکتا ہے۔

افغانستان کے انتخابات میں تمام تر کوششوں کے باوجود ایران کو ناکامی کا سامنا ہوا لیکن طالبان 'مری مذاکرات' میں تسلیم کرلیا گیا کہ ایران کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن ناگزیر ہے۔ ایران نے عرب خطے کی سب سے بڑی قوت سعودی عرب کو چیلنج کیا اور یمن میں حوثی باغیوں کی کھلی حمایت کرتے ہوئے انھیں جنگی ساز و سامان سمیت اپنے پاسدارن انقلاب کی سپاہ بھی بھیجی ، یہی وجہ بنی کہ یمن، سعودی تنازعہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے منطقی انجام تک جلد نہیں پہنچ پارہا۔


ایران کے حمایت یافتہ بعض گروہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بندوقوں کا رخ اسرائیل کے بجائے شام، لبنان و یمن کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ سعود الفیصل جن کا چند روز قبل 75 سال کی عمر میں انتقال ہوا، ایران کے شدید ترین مخالف رہے۔ سعود الفیصل نے چار بادشاہوں کا دور دیکھا، ملک سلمان نے زمام حکومت سنبھالنے کے چند ہفتہ بعد سعود الفیصل کو وزرات خارجہ سے برطرف کردیا تھا، انھوں نے ایران کے خلاف اقتصادی اور معاشی پابندیاں عائد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

خطے میں صورتحال بڑی تیزی سے بدلنا شروع ہوگی کیونکہ ایران کو اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے جہاں واپس ملیں گے تو دوسری جانب اسے اپنے تیل کے ذخائر بلیک مارکیٹ میں آدھی قیمت پر فروخت نہیں کرنا پڑیں گے۔ عمومی خیال یہی ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے امریکا پر انحصار کم ہونے کی پالیسی اور روس، چین کی جانب جھکاؤ سمیت امریکی بلاک میں شامل بیشتر ممالک بشمول پاکستان کا چین اور روس کو امریکا پر اہمیت دینے کی وجہ سے امریکا ایران کی طاقت اور سیاست کا رخ عرب ممالک کی جانب پوری قوت سے موڑنا چاہتا ہے۔

1979 میں برپا ولایت فقیہ انقلاب سے قبل اسرائیل اور امریکا کے ساتھ گہرے دوستانہ مراسم تھے اور ان ممالک کے ساتھ تجارت، زراعت اور تکنیکی شعبوں میں اعلانیہ تعاون جاری تھا، مابعد انقلاب جہاں سفارتی تعلقات ختم ہوئے، امریکا بڑا بزرگ شیطان قرار پایا تو اسرائیل کے خلاف بھی ایران صف آرا ہوتا چلا گیا۔

دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔ ایران و امریکا کی دوستانہ قربتوں کے بعد اس تاریخی معاہدے سے مغرب نے سکون کا سانس لیا ہے لیکن ایران پر مکمل یقین نہ رکھنے کی پالیسی بہرحال برقرار رہے گی کیونکہ ایران نے ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن ایٹمی صلاحیت ختم نہیں کی۔ امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتیں اس معاہدے سے کیا فائدہ اٹھائیں گی، یہ آنے والا وقت ثابت کرے گا۔ لیکن ایران کی جانب سے مسلم دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مسلمانوں کو مختلف جنگی مہم جوئیوں کی وجہ سے شدید نقصانات پہنچے ہیں۔ 1943 سے 1945 تک بنگال میں مصنوعی قحط کے ذمے دار چرچل کی وجہ سے 70 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جس میں 95 فیصد مسلمان تھے۔

افغانستان میں امریکی حملے کے بعد اب تک 45 لاکھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، مرنے والوں میں 37 لاکھ وہ عورتیں، بچے اور بوڑھے ہیں جن تک جنگ کی وجہ سے ادویات کی رسائی نہ ہوسکی۔ عراق 1991 میں پہلی جنگ سے خوراک اور ادویات کی پابندی کی وجہ سے 25 لاکھ عراقی براہ راست ہلاک ہوئے۔ اسرائیل کی وجہ سے ایک لاکھ فلسطینی قتل ہوئے، دو لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے ہلاک اور ستر لاکھ بے گھر ہوئے۔ افریقہ میں ظالم حکمرانوں کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کروڑوں بتائی جاتی ہے۔

مملکت شام کی ظالم جابر حکومت کی وجہ سے شامی مہاجرین کی تعداد افغان مہاجرین سے بھی زیادہ ہوتے ہوئے 40 لاکھ ہوچکی ہے اور بے گھر افراد کی تعداد 76 لاکھ ہوچکی ہے جب کہ افغان مہاجرین کی تعداد 25 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ عراقی کٹھ پتلی حکومت کی پالیسیوں و فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کی وجہ سے عراقی مہاجرین کی تعداد اکیس لاکھ سے زیادہ تجاوز ہوگئی ہے۔ یمن جنگ میں حوثی باغیوں کی وجہ سے اب تک پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔

دنیا بھر میں تین کروڑ اسی لاکھ افراد اپنے ملکوں میں خانہ جنگی، بحران اور بدامنی کے نتیجے میں بے گھر ہیں، جن میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایران کو عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی اور عرب ممالک میں امن کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایران اب ایٹمی طاقت نہیں رہا، اس لیے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں مثبت اضافہ ایران کی ضرورت بھی ہے اور پاکستان کی اس اہمیت سے کوئی انکا ر بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کا پڑوسی ملک ہے اور پراکسی وار کا شکار ہے جس سے پاکستان کی عسکری قوت بڑے حوصلے سے مقابل کررہی ہیں۔ ایران، افغانستان کو پاکستان کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات میں مزید بہتری لانی ہوگی کیونکہ پاکستان کا امن خود ان ممالک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
Load Next Story