اﷲ کے نام پر کوئی عقل دے دو
جب آنکھوں کا پانی مرجائے تو پھر کس کو فکر ہوتی ہے کہ کتنے جسموں کا پانی خشک ہوچکا۔
HARIPUR:
جب آنکھوں کا پانی مرجائے تو پھر کس کو فکر ہوتی ہے کہ کتنے جسموں کا پانی خشک ہوچکا۔ یہ عجیب ملک ہے جہاں لوگ پانی زیادہ ہوجائے تو مرجاتے ہیں اور پانی کم ہو تو ان کی لاشوں کی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں اگر سورج اپنی شدت دکھائے تو ٹھنڈک صرف اس وقت ملتی ہے جب وہ لاش بن کر سرد خانے کا زیور بن جاتی ہیں۔
اور اگر سورج تھوڑا ٹھنڈا ہوجائے تو ہم اپنے لوگوں کو گرمی نہیں دے سکتے، سیکڑوں لوگ سردی میں مرجاتے ہیں۔ سب یہ کہہ کر اپنے کپڑے جھاڑ لیتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، یہ تو قدرتی آفت ہے۔ جب وزیر یہ بیان دے کہ دعا کیجیے کہ بارش ہوجائے تو بجلی کا مسئلہ حل ہوجائے گا، جب اعلیٰ عہدیدار یہ بول کر اگلی سواری میں بیٹھ جائے کہ اب اﷲ ہی اس آگ کو بجھائے گا تو پھر یہ سارا حکومتی ڈرامہ کیوں ہوتا ہے؟
کیا چترال میں یہ پہلا سیلاب ہے؟ ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والا یہ علاقہ کیا پہلی بار اس عذاب میں مبتلا ہوا ہے؟ اپنی نیک نیتی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی صوبائی حکومت کا یہ پہلا سال ہے؟ کیا وفاق میں اپنا سکہ چلانے والی جماعت کا یہ پہلا مون سون ہے؟ وہاں برسوں سے بیٹھی بیوروکریسی نے کیا پہلی بار پانی دیکھا ہے یا پھر ان کی آنکھوں میں پانی ہی نہیں ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ صوبائی، وفاقی حکومت کا سب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ مٹی کی نذر ہی کیوں ہوجاتا ہے۔
کروڑوں نہیں، اربوں نہیں بلکہ ہم اپنے قیام سے لے کر آج تک کھربوں روپے پانی کے نظام پر خرچ کرچکے ہیں۔ مگر یہ پیسہ اسی طرح پانی میں بہہ جاتا ہے؟ کیا ہماری نیتوں میں کھوٹ ہے؟ یا پھر ہمارا یہ نظام اپنی آبادی اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے؟ یہ باتوں کا دنگل سجانے والے یہ کیوں نہیں سمجھ پارہے کہ ان کا انتظامی نظام جدید خطوط پر نہیں ہے بلکہ ایک بوسیدہ سی عمارت ہے جو پانی کے ہلکے سے جھٹکے میں بہہ جاتی ہے۔ اگر ہمارا انتظامی نظام مضبوط اور اچھا ہوتا تو کبھی یہ سوال نہیں ہوتا کہ ہمارے لیڈران کہاں ہیں۔ لیکن ہم یہ نظام بہتر کرنا ہی نہیں چاہتے کہ کہیں ہماری ضرورت ختم نہ ہوجائے۔
کیا لیہ، راجن پور میں پانی خود سے اتنا عقل مند ہوچکا ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنی مرضی سے چلا جائے۔ اور کیا وہ اتنا شاطر ہے کہ یہ جان سکے کہ کون کون اس کا دشمن ہے۔ ہمیں اتنا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ سال بھر ہمارے یہاں کتنی بارش ہوتی ہے اور کتنا بوجھ ہمارے بند برداشت کرسکتے ہیں۔
مان لیتے ہیں کہ خادم اعلیٰ کی طبیعت خراب تھی اور وہ اپنے علاج کے لیے مصروف تھے۔ تو پھر اتنی طاقت ور بیورکریسی اور وہ نائب کہاں تھے جو پنجاب حکومت میں شامل نہ ہونے کے باوجود ہر بڑے فیصلے میں ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہم کیوں اپنے نظام کی اصلاح نہیں چاہتے۔ کیا سیلاب جان بوجھ کر لایا جاتا ہے کہ جہاں کئی لوگوں کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں وہاں ہر سال ان پراجیکٹ کے نام پر کئی لوگوں کے گھر بھر جاتے ہیں۔ ہم 68 سال میں بھی وہ بات نہیں سمجھ سکے جو انگریز برسوں پہلے یہاں کا نہری نظام بنا کر چلے گئے۔
ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ کراچی شہر میں دو سال بعد بارش ہوئی اور ہر بارش کی طرح یہاں کا نظام بیٹھ گیا۔ شدید ٹریفک جام میں لوگ گھنٹوں پھنسے رہے۔ پولیس کی طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ ٹریفک پولیس تو ہر جگہ موجود ہے کہیں بھی نظام خراب نہیں ہوا لیکن پانی اتنا زیادہ کھڑا ہے کہ ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی ہے۔ پانی نکالنا تو شہری انتظامیہ کا کام ہے۔ شہری انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ ہمارے یہاں اعلیٰ عہدوں پر اتنی جلدی جلدی تبدیلیاں ہوئی ہیں کہ چیزوں کا کنٹرول مشکل ہوگیا ہے۔
ایک اعلیٰ عہدیدار تو یہ بھی کہہ گئے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس شہر کا 40 فیصد بھی نہیں ہے، باقی اداروں سے کیوں نہیں پوچھا جاتا۔ دو قطرے گرتے ہی بجلی چلی جاتی ہے۔ ان کے ترجمان کہتے ہیں کہ ہماری طرف سے لوڈشیڈنگ نہیں کی گئی بلکہ جن علاقوں میں بارش سے بجلی کے نظام میں خرابی آئی ہے وہاں پانی اتنا کھڑا ہے۔
فوری طور پر کام نہیں ہوسکتا۔ شہری حکومت کہتی ہے کہ ہم پانی کہاں سے نکالیں جب ہمارے پاس صوبائی حکومت کی طرف سے بجٹ ہی نہیں آیا۔ ہم اپنے ملازمین کو تنخواہ دیتے ہیں وہ ہی بڑی بات ہے۔ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ وفاق کی طرف سے پیسے ہی نہیں آئے نا تو ہمیں ٹیکس میں حصہ دیا جارہا ہے اور نہ ہی اضافی پیسے۔ وفاقی حکومت یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ ہم ہر وقت صوبائی حکومت کے ساتھ ہیں، لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد تو یہ اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ اب آپ بتائیے کہ شہری کس کا گریبان پکڑیں؟ ٹریفک پولیس کا، بجلی والوں کا، شہری انتظامیہ کا، صوبائی حکومت کا یا پھر وفاقی حکومت کا؟
بات وہ ہی ہے کہ ہم وقت کے مطابق فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔ کراچی شہر آزادی کے بعد بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ آزادی کے وقت اس کی آبادی پانچ لاکھ تھی، جو اب دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ کراچی کے پرانے علاقے جو کہ انگریزوں کے زمانے میں آباد تھے وہاں نکاسی کا دہرا نظام قائم کیا گیا تھا۔ ایک وہ سیوریج کی لائنیں تھیں جو روزانہ کا گندہ پانی گھروں سے گلیوں اور گلیوں سے نالوں تک منتقل کرتی تھی، جب کہ دوسری لائن ہر گلی میں برسات کے لیے بنائی گئی تھی۔
سڑک کو اس طرح بنایا جاتا تھا کہ برسات کا سارا پانی ایک جگہ جمع ہوجاتا، جہاں ایک سیوریج کی لائن ہوتی جو پانی کو براہ راست نالے تک لے جاتی۔ آج بھی کراچی کے تمام پرانے علاقوں میں یہ لائن موجود ہے، اس لیے جب کبھی وہاں بارش ہوتی ہے تو پرانے لوگوں کو معلوم ہے وہ فوراً اس لائن کو کھول دیتے ہیں۔ لیکن جب شہر پھیلا تو کہیں پر بھی اس نظام کو نہیں اپنایا گیا اور ان تمام جگہوں پر ایک ہی سیوریج کی لائن بچھائی گئی، جس کی وجہ سے جب بارشیں ہوتی ہیں تو ان تمام لائنوں سے پانی کی ترسیل نہیں ہو پاتی اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سڑکوں پر کئی کئی فٹ پانی جمع ہوجاتا ہے۔ ٹریفک پولیس کہتی ہے کہ پانی کی وجہ سے رش ہو رہا ہے اور بجلی والے بھی پانی کا رونا روتے رہتے ہیں۔
کہنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم جو ہر جگہ فتح کے ڈھول بجاتے رہتے ہیں اور ایٹم بم سے دنیا کو ڈراتے رہتے ہیں وہ اپنے پانی اور بجلی کا نظام ہی بہتر نہیں کر پا رہے۔ سوشل میڈیا پر یقیناً یہ ایک مذاق کے طور پر پھیلا ہو ا ہے کہ ہم دنیا کو ایٹم بم چلا کر مزہ چکھا دیں گے بس دعا کریں کہ اس وقت بجلی نہ گئی ہو۔ یہ مذاق ہمارے منہ پر ایک تھپڑ ہے۔ ایسا تھپڑ جس کی گونج ہمیں روز اپنے اردگرد محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوؤں اور وعدوں میں چھپی خوشحالی کو اب لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔
جو لوگ اس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ نے ہمارے سارے گناہ دھو دیے وہ یہ بات مت بھولیں کہ عمران خان کو نوجوانوں نے اس لیے سپورٹ نہیں کیا تھا کہ وہ سچے تھے بلکہ وہ آپ سے مختلف خیالات رکھنے کی وجہ سے ان کے قریب ہوئے تھے۔ اور یہ اختلاف اصل میں یہ ہی ہے کہ ہم اپنی کوئی بھی چیز ٹھیک نہیں کرسکے ہیں۔
وہ دیکھتے ہیں کہ اربوں روپے کا بجٹ لگتا ہے لیکن چند بوندوں میں سڑک بہہ جاتی ہے۔ انھیں سیاست کا علم نہیں لیکن وہ روز اس کرب سے گزرتے ہیں کہ جب کتاب کھولی جاتی ہے تو اسی وقت لائٹ چلی جاتی ہے۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے کہ باتوں سے پیٹ بھر لیا جاتا تھا۔ اب ٹھوس قدم کی ضرورت ہے، بہتر پلاننگ چاہیے، چھوٹے موٹے پراجیکٹ دکھا کر زیادہ دیر شہرت قائم نہیں رہ سکتی۔ موٹر وے پر لال گاڑی تب ہی چلے گی جب راستے میں پانی نہیں ہوگا۔ اور اس کے لیے اللہ کے نام پر کوئی انھیں تھوڑی سی عقل اور نیت دے دے۔
جب آنکھوں کا پانی مرجائے تو پھر کس کو فکر ہوتی ہے کہ کتنے جسموں کا پانی خشک ہوچکا۔ یہ عجیب ملک ہے جہاں لوگ پانی زیادہ ہوجائے تو مرجاتے ہیں اور پانی کم ہو تو ان کی لاشوں کی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں اگر سورج اپنی شدت دکھائے تو ٹھنڈک صرف اس وقت ملتی ہے جب وہ لاش بن کر سرد خانے کا زیور بن جاتی ہیں۔
اور اگر سورج تھوڑا ٹھنڈا ہوجائے تو ہم اپنے لوگوں کو گرمی نہیں دے سکتے، سیکڑوں لوگ سردی میں مرجاتے ہیں۔ سب یہ کہہ کر اپنے کپڑے جھاڑ لیتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، یہ تو قدرتی آفت ہے۔ جب وزیر یہ بیان دے کہ دعا کیجیے کہ بارش ہوجائے تو بجلی کا مسئلہ حل ہوجائے گا، جب اعلیٰ عہدیدار یہ بول کر اگلی سواری میں بیٹھ جائے کہ اب اﷲ ہی اس آگ کو بجھائے گا تو پھر یہ سارا حکومتی ڈرامہ کیوں ہوتا ہے؟
کیا چترال میں یہ پہلا سیلاب ہے؟ ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والا یہ علاقہ کیا پہلی بار اس عذاب میں مبتلا ہوا ہے؟ اپنی نیک نیتی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی صوبائی حکومت کا یہ پہلا سال ہے؟ کیا وفاق میں اپنا سکہ چلانے والی جماعت کا یہ پہلا مون سون ہے؟ وہاں برسوں سے بیٹھی بیوروکریسی نے کیا پہلی بار پانی دیکھا ہے یا پھر ان کی آنکھوں میں پانی ہی نہیں ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ صوبائی، وفاقی حکومت کا سب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ مٹی کی نذر ہی کیوں ہوجاتا ہے۔
کروڑوں نہیں، اربوں نہیں بلکہ ہم اپنے قیام سے لے کر آج تک کھربوں روپے پانی کے نظام پر خرچ کرچکے ہیں۔ مگر یہ پیسہ اسی طرح پانی میں بہہ جاتا ہے؟ کیا ہماری نیتوں میں کھوٹ ہے؟ یا پھر ہمارا یہ نظام اپنی آبادی اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے؟ یہ باتوں کا دنگل سجانے والے یہ کیوں نہیں سمجھ پارہے کہ ان کا انتظامی نظام جدید خطوط پر نہیں ہے بلکہ ایک بوسیدہ سی عمارت ہے جو پانی کے ہلکے سے جھٹکے میں بہہ جاتی ہے۔ اگر ہمارا انتظامی نظام مضبوط اور اچھا ہوتا تو کبھی یہ سوال نہیں ہوتا کہ ہمارے لیڈران کہاں ہیں۔ لیکن ہم یہ نظام بہتر کرنا ہی نہیں چاہتے کہ کہیں ہماری ضرورت ختم نہ ہوجائے۔
کیا لیہ، راجن پور میں پانی خود سے اتنا عقل مند ہوچکا ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنی مرضی سے چلا جائے۔ اور کیا وہ اتنا شاطر ہے کہ یہ جان سکے کہ کون کون اس کا دشمن ہے۔ ہمیں اتنا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ سال بھر ہمارے یہاں کتنی بارش ہوتی ہے اور کتنا بوجھ ہمارے بند برداشت کرسکتے ہیں۔
مان لیتے ہیں کہ خادم اعلیٰ کی طبیعت خراب تھی اور وہ اپنے علاج کے لیے مصروف تھے۔ تو پھر اتنی طاقت ور بیورکریسی اور وہ نائب کہاں تھے جو پنجاب حکومت میں شامل نہ ہونے کے باوجود ہر بڑے فیصلے میں ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہم کیوں اپنے نظام کی اصلاح نہیں چاہتے۔ کیا سیلاب جان بوجھ کر لایا جاتا ہے کہ جہاں کئی لوگوں کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں وہاں ہر سال ان پراجیکٹ کے نام پر کئی لوگوں کے گھر بھر جاتے ہیں۔ ہم 68 سال میں بھی وہ بات نہیں سمجھ سکے جو انگریز برسوں پہلے یہاں کا نہری نظام بنا کر چلے گئے۔
ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ کراچی شہر میں دو سال بعد بارش ہوئی اور ہر بارش کی طرح یہاں کا نظام بیٹھ گیا۔ شدید ٹریفک جام میں لوگ گھنٹوں پھنسے رہے۔ پولیس کی طرف سے یہ کہہ دیا گیا کہ ٹریفک پولیس تو ہر جگہ موجود ہے کہیں بھی نظام خراب نہیں ہوا لیکن پانی اتنا زیادہ کھڑا ہے کہ ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی ہے۔ پانی نکالنا تو شہری انتظامیہ کا کام ہے۔ شہری انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ ہمارے یہاں اعلیٰ عہدوں پر اتنی جلدی جلدی تبدیلیاں ہوئی ہیں کہ چیزوں کا کنٹرول مشکل ہوگیا ہے۔
ایک اعلیٰ عہدیدار تو یہ بھی کہہ گئے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس شہر کا 40 فیصد بھی نہیں ہے، باقی اداروں سے کیوں نہیں پوچھا جاتا۔ دو قطرے گرتے ہی بجلی چلی جاتی ہے۔ ان کے ترجمان کہتے ہیں کہ ہماری طرف سے لوڈشیڈنگ نہیں کی گئی بلکہ جن علاقوں میں بارش سے بجلی کے نظام میں خرابی آئی ہے وہاں پانی اتنا کھڑا ہے۔
فوری طور پر کام نہیں ہوسکتا۔ شہری حکومت کہتی ہے کہ ہم پانی کہاں سے نکالیں جب ہمارے پاس صوبائی حکومت کی طرف سے بجٹ ہی نہیں آیا۔ ہم اپنے ملازمین کو تنخواہ دیتے ہیں وہ ہی بڑی بات ہے۔ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ وفاق کی طرف سے پیسے ہی نہیں آئے نا تو ہمیں ٹیکس میں حصہ دیا جارہا ہے اور نہ ہی اضافی پیسے۔ وفاقی حکومت یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ ہم ہر وقت صوبائی حکومت کے ساتھ ہیں، لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد تو یہ اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ اب آپ بتائیے کہ شہری کس کا گریبان پکڑیں؟ ٹریفک پولیس کا، بجلی والوں کا، شہری انتظامیہ کا، صوبائی حکومت کا یا پھر وفاقی حکومت کا؟
بات وہ ہی ہے کہ ہم وقت کے مطابق فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔ کراچی شہر آزادی کے بعد بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ آزادی کے وقت اس کی آبادی پانچ لاکھ تھی، جو اب دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ کراچی کے پرانے علاقے جو کہ انگریزوں کے زمانے میں آباد تھے وہاں نکاسی کا دہرا نظام قائم کیا گیا تھا۔ ایک وہ سیوریج کی لائنیں تھیں جو روزانہ کا گندہ پانی گھروں سے گلیوں اور گلیوں سے نالوں تک منتقل کرتی تھی، جب کہ دوسری لائن ہر گلی میں برسات کے لیے بنائی گئی تھی۔
سڑک کو اس طرح بنایا جاتا تھا کہ برسات کا سارا پانی ایک جگہ جمع ہوجاتا، جہاں ایک سیوریج کی لائن ہوتی جو پانی کو براہ راست نالے تک لے جاتی۔ آج بھی کراچی کے تمام پرانے علاقوں میں یہ لائن موجود ہے، اس لیے جب کبھی وہاں بارش ہوتی ہے تو پرانے لوگوں کو معلوم ہے وہ فوراً اس لائن کو کھول دیتے ہیں۔ لیکن جب شہر پھیلا تو کہیں پر بھی اس نظام کو نہیں اپنایا گیا اور ان تمام جگہوں پر ایک ہی سیوریج کی لائن بچھائی گئی، جس کی وجہ سے جب بارشیں ہوتی ہیں تو ان تمام لائنوں سے پانی کی ترسیل نہیں ہو پاتی اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سڑکوں پر کئی کئی فٹ پانی جمع ہوجاتا ہے۔ ٹریفک پولیس کہتی ہے کہ پانی کی وجہ سے رش ہو رہا ہے اور بجلی والے بھی پانی کا رونا روتے رہتے ہیں۔
کہنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم جو ہر جگہ فتح کے ڈھول بجاتے رہتے ہیں اور ایٹم بم سے دنیا کو ڈراتے رہتے ہیں وہ اپنے پانی اور بجلی کا نظام ہی بہتر نہیں کر پا رہے۔ سوشل میڈیا پر یقیناً یہ ایک مذاق کے طور پر پھیلا ہو ا ہے کہ ہم دنیا کو ایٹم بم چلا کر مزہ چکھا دیں گے بس دعا کریں کہ اس وقت بجلی نہ گئی ہو۔ یہ مذاق ہمارے منہ پر ایک تھپڑ ہے۔ ایسا تھپڑ جس کی گونج ہمیں روز اپنے اردگرد محسوس ہوتی ہے۔ بڑے بڑے دعوؤں اور وعدوں میں چھپی خوشحالی کو اب لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔
جو لوگ اس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ نے ہمارے سارے گناہ دھو دیے وہ یہ بات مت بھولیں کہ عمران خان کو نوجوانوں نے اس لیے سپورٹ نہیں کیا تھا کہ وہ سچے تھے بلکہ وہ آپ سے مختلف خیالات رکھنے کی وجہ سے ان کے قریب ہوئے تھے۔ اور یہ اختلاف اصل میں یہ ہی ہے کہ ہم اپنی کوئی بھی چیز ٹھیک نہیں کرسکے ہیں۔
وہ دیکھتے ہیں کہ اربوں روپے کا بجٹ لگتا ہے لیکن چند بوندوں میں سڑک بہہ جاتی ہے۔ انھیں سیاست کا علم نہیں لیکن وہ روز اس کرب سے گزرتے ہیں کہ جب کتاب کھولی جاتی ہے تو اسی وقت لائٹ چلی جاتی ہے۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے کہ باتوں سے پیٹ بھر لیا جاتا تھا۔ اب ٹھوس قدم کی ضرورت ہے، بہتر پلاننگ چاہیے، چھوٹے موٹے پراجیکٹ دکھا کر زیادہ دیر شہرت قائم نہیں رہ سکتی۔ موٹر وے پر لال گاڑی تب ہی چلے گی جب راستے میں پانی نہیں ہوگا۔ اور اس کے لیے اللہ کے نام پر کوئی انھیں تھوڑی سی عقل اور نیت دے دے۔