امن کی جیتجوہری تنازعہ نمٹ گیا
تہران کی پاکستان سمیت مختلف ممالک سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا
کئی برسوں کی گفت و شنید ، حملے کی دھمکیوں، جنگ کے شدید خطرات اور امن کے لیے صلاح مشوروں کے بعد بالآخر ایران اور امریکا سمیت 6 بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخ ساز معاہدہ ہوگیا۔
اس مذاکراتی عمل پر دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں اور حکومتوں کی نظر تھی۔ معاہدے کی ناکامی کی صورت میں دنیا کو ایک اور جنگ دیکھنی پڑتی، کیوں کہ ایران کے مبینہ جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شدید تحفظات تھے اور اگر مذاکرات کام یاب نہ ہوتے تو عالمی منظر نامے پر ایران کے خلاف فوج کشی کی تصاویر بھی نظر آتیں، ایک بڑا خطہ بم باری، گولیوں کی بوچھاڑ، توپوں کی گھن گرج سے گونج اٹھتا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ایسا وقت نہیں آیا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کا ایٹمی پروگرام محدود کردیا گیا ہے اور وہ اب ایٹم بم نہیں بنا سکے گا جب کہ اس کے بدلے میں ایرانی تیل کی فروخت اور تہران پر عاید دیگر اقتصادی پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے13سالہ تنازعے کے خاتمے کے بعد ایران عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری اور فوجی تنصیبات تک رسائی دے گا۔
اقوام متحدہ کے معائنہ کار 24 دنوں میں جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے ساتھ ایران کی فوجی تنصیبات کے دوروں کا مطالبہ بھی کر سکیں گے۔ ایران کو صرف پُرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ ایٹمی پروگرام کسی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ایران کو اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو تمام جوہری تنصیبات تک مکمل رسائی دینا ہوگی۔ یہ انسپکٹر طے کریں گے کہ ایران ایک مقررہ حد تک ہی یورینیم افزودہ کرے اور اس کا ذخیرہ رکھ سکے۔ ایران کو اقوامِ متحدہ کے نگرانوں کی درخواست چیلینج کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
اس صورت میں فیصلہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کا ثالثی بورڈ کرے گا۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی منظور کرایا جائے گا۔ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو 65 روز کے اندر ایران پر تجارتی اور اقتصادی پابندیاں دوبارہ عاید کر دی جائیں گی۔ معاہدے کے تحت ایران اپنی افزودہ یورینیم کے ذخائر تلف کرے گا اور آئندہ 10 سال یورینیم کی افزودگی میں کمی بھی کرے گا۔ اب ایران پر عاید پابندیاں مرحلہ وار ختم کر دی جائیں گی اور ایران کو بیرون ملک منجمد کیے گئے 100ارب ڈالر سے زائد کے مالیتی اثاثے مل جائیں گے، جن کے ذریعے ایران کو اپنی معیشت مزید مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے تجارتی معاہدوں میں بھی فائدہ ہوگا۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں عالمی طاقتوں اور ایران کے مذاکرات 18 روز تک جاری رہے، جن میں امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی نے حصہ لیا۔ اسرائیل کے سوا پاکستان اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے ممالک نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ خبریں بھی تھیں کہ سعودی حکم راں اس ڈیل سے خوش نہیں ہیں، لیکن سفارتی سطح پر فی الحال سعودی حکومت کی جانب سے معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ معاہدے کے موقع پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہم امید کا نیا باب شروع کر رہے ہیں۔
معاہدے کے فوری بعد امریکی صدر بارک اوباما نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا بہترین طریقہ کار تھا۔ اس معاہدے کے بعد ایران جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے دور ہوگیا ہے۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لیتا۔ میں 6 سال سے امریکا کا صدر ہوں اور یہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا۔ ہم ایران کے ایٹمی تنصیبات تباہ بھی کرسکتے تھے، لیکن اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ چھڑ جاتی۔اوباما نے خبردار کیا کہ اگر کانگریس نے ایران معاہدے کے خلاف کوئی قانون سازی کی تو میں اس کو ویٹو کردوں گا۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کہا کہ ان مذاکرات میں ہارجیت نہیں ہے۔ آج ہم ایک نئے مقام پر پہنچے ہیں۔ جوہری معاہدہ دنیا سے تعلقات کی نئی شروعات ہے۔خدا نے ایرانی عوام کی دعائیں قبول کرلی ہیں۔ ایران کو کبھی جوہری بم نہیں بنانا چاہا۔ جوہری معاہدہ روکنے کی صہیونی سازشیں ناکام ہوگئی ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون اور دیگر عالمی سربراہوں نے بھی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس معاہدے سے ایران اور امریکا کے درمیان برسوں سے جاری سرد جنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ جوہری معاہدے سے دنیا سکون کی گہری سانس لے گی۔ برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمونڈ نے امید ظاہر کی اب ایران کے باقی دنیا سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ ایران کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ شام میں جاری تصادم ختم کرانے میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہے۔ جرمنی کے وزیرخارجہ نے کہا وہ پرامید ہیں کہ اس معاہدے پر اسرائیل کے تحفظات دور کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان نے بھی جوہری معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ مسئلے کا بات چیت کے ذریعے پُرامن حل نکلنا چاہیے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم اس معاہدے کی شقوں پر جلد اور بلارکاوٹ عملدرآمد کے منتظر ہیں۔
معاہدے کے اگلے روز جب ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف تہران پہنچے تو ان کا شان دار استقبال کیا گیا کیوں کہ خود ایرانی عوام بھی یہ چاہتے تھے کہ ان کے سروں پر جنگ کی لٹکتی تلوار ہٹ جائے۔ معاہدے کے بعد تہران پہنچنے کے موقع پر جواد ظریف نے کہا کہ ایران کے عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے کے بعد ''من گھڑت بحران '' ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا، '' ہم اب اپنی طرف سے تمام اقدامات کریں گے وہ (عالمی طاقتیں) اپنے حصے کا کام کریں گی۔''
دوسری طرف برطانوی وزیرخارجہ فلپ ہیمونڈ اسرائیل چلے گئے ہیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے پر اسرائیل کے خدشات کو کم کرنا اور اس معاہدے کی وضاحت کرنا ہے۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں سے ایرانی معاہدے کے بعد ایران میں کاروباری مواقع کا جائزہ لینے کے لیے جلد ہی ایران کا دورہ کروں گا۔ مختلف ملکوں کے سربراہوں اور وزرا نے بھی معاہدے کو تاریخی قدم قرار دیا ہے۔
عالمی میڈیا اس ڈیل کو امریکی صدر اوباما کی سب سے بڑی سفارتی کام یابی سے تعبیر کررہا ہے، کیوں کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے تنازعہ برسوں سے جاری تھا اور کئی مواقع تو محسوس ہورہا تھا کہ امریکی فوجیں ایران پر حملہ کرنے ہی والی ہیں، لیکن فریقین کی مدبرانہ اور دانش مندانہ سوچ نے معاملے کو آگ کی نذر ہونے سے بچالیا۔ سیاسی تبصرہ نگاروں کے مطابق اس تاریخی معاہدے کا کریڈٹ ایران اور امریکا کی قیادت اور مذاکرات میں شریک دیگر ممالک کے سربراہوں کو جاتا ہے۔
جنھوں نے امن کے لیے طویل بات چیت کی۔ دورانِ مذاکرات بہت مایوس کن صورت حال بھی پیدا ہوئی، تلخ کلامی بھی نظر آئی، اختلافات کی نوعیت بھی انتہائی شدید ہوئی، لیکن اطمینان بخش بات یہ رہی کہ جنگ نہیں ہوئی۔ فریقین نے بہت بردباری کے ساتھ وقت گزارا جس کا نتیجہ اب ایک زبردست امن معاہدے کی صورت میں نکلا ہے، جس کا فائدہ صرف ایران ہی کو نہیں بل کہ ہر امن پسند کو ہوگا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس معاہدے کے بعد سے آگ لگی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو نے معاہدے کو 'تاریخی غلطی' قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے جوہری مقاصد روکنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں گے۔ نیتن یاہو نے دہائی دی ہے کہ ایران کو یقینی طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا راستہ ملنے والا ہے۔
صہیونی وزیراعظم کے علاوہ بھی بہت ایسے لوگ ہیں جن کو یہ معاہدہ پسند نہیں آیا، امریکی اپوزیشن نے اس ڈیل پر اوباما انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے کنزرویٹیو ارکان نے اس معاہدے کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔ ریپبلیکن اسپیکر جان بوہنر کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے صرف تہران کو'شہ' ملے گی۔ ریپبلیکن سینیٹرلونڈسے گراہم نے اس معاہدے کو 'خوف ناک' قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔
ادھر ایران کی جلاوطن خاتون اپوزیشن راہ نما مریم رجوی نے سمجھوتے پر کڑی تنقید کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مریم رجوی نے کہا ہے کہ اس معاہدے کی شکل میں ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کا ایک نیا موقع دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے عالمی طاقتوں سے معاہدہ کر کے ''ایٹمی زہر'' کا پیالہ منہ کو لگا لیا ہے۔ یاد رہے کہ ''زہرکا پیالہ'' منہ کو لگانے کی اصطلاح ایران میں ولایت فقیہ اور انقلاب کے بانی آیت اﷲ خمینی نے عراق ایران جنگ سے متعلق سیز فائر کے بارے میں استعمال کی تھی۔
امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں اس معاہدے کے مخالفین میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کا تعلق یہودی لابی سے ہے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایران کو عالمی منظرنامے پر سانس لینے کا موقع ملے اور وہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی و اقتصادی معاہدے کرے۔ امریکا میں یہودی دولت سے ایران کے خلاف مختلف تھنک ٹینکس بھی بنائے گئے، انھوں نے ایران کے خلاف طرح طرح کا پروپیگنڈا بھی کیا ۔ ان گروپوں یا تھنک ٹینکس میں 2008 میں قائم کیا گیا United Against Nuclear Iranاور2011 سے ایران کے خلاف سرگرم Secure America Now بھی شامل ہیں۔
ابھی تو اس یہودی لابی کے ایران پر امریکی حملے کے خواب چکناچور ہوگئے ہیں، اب آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ معاہدہ کتنا پائے دار ہے۔
٭ معاہدے کے اثرات٭
عالمی سطح پر ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری تنازعے کا حل تمام امن پسندوں کے لیے خوش آئند ہے۔ عراق ، افغانستان، شام اور یمن میں قتل و غارت گری، فوج کشی، لاشوں کے ڈھیر اور تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں دیتی، کیوںکہ جنگ خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس معاہدے سے ہمارے خطے اور دنیا بھر میں کیا اثرات مرتب ہوں:
٭اس معاہدے سے پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا مستقبل کافی روشن ہوگیا ہے۔ عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹنے کے بعد ایران کے بہت سے منصوبوں پر عاید رکاوٹیں ہٹالی جائیں گی اور تہران کی جانب سے کیے گئے بہت سے فیصلوں کو امریکا سمیت دیگر عالمی قوتوں کی حمایت اور تحفظ حاصل ہوگا۔
٭ تہران کی پاکستان سمیت مختلف ممالک سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ اس معاہدے کے بعد گوادر کی بندرگاہ بھی بہت زیادہ تیزی سے فعال ہونے کی جانب بڑھے گی۔ پاک ایران زمینی تجارت، وفود کے تبادلے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایرانی مینوفیکچررز کو اپنی مصنوعات دنیا بھر میں متعارف کرانے کا موقع ملے گا۔
٭ کچھ عالمی سروے رپورٹس کے مطابق امریکیوں کی اکثریت بھی ایران سے پرامن معاہدے کی حامی ہے اور وہ چاہتی تھی کہ ایران پر عاید پابندیاں ختم کی جائیں اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اب ایرانی شہریوں اور دنیا بھر کو ایک دوسرے کو جاننے، سمجھنے اور اپنی بات سنانے اور سننے کا موقع ملا ہے، اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
اس مذاکراتی عمل پر دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں اور حکومتوں کی نظر تھی۔ معاہدے کی ناکامی کی صورت میں دنیا کو ایک اور جنگ دیکھنی پڑتی، کیوں کہ ایران کے مبینہ جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شدید تحفظات تھے اور اگر مذاکرات کام یاب نہ ہوتے تو عالمی منظر نامے پر ایران کے خلاف فوج کشی کی تصاویر بھی نظر آتیں، ایک بڑا خطہ بم باری، گولیوں کی بوچھاڑ، توپوں کی گھن گرج سے گونج اٹھتا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ایسا وقت نہیں آیا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کا ایٹمی پروگرام محدود کردیا گیا ہے اور وہ اب ایٹم بم نہیں بنا سکے گا جب کہ اس کے بدلے میں ایرانی تیل کی فروخت اور تہران پر عاید دیگر اقتصادی پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے13سالہ تنازعے کے خاتمے کے بعد ایران عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری اور فوجی تنصیبات تک رسائی دے گا۔
اقوام متحدہ کے معائنہ کار 24 دنوں میں جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے ساتھ ایران کی فوجی تنصیبات کے دوروں کا مطالبہ بھی کر سکیں گے۔ ایران کو صرف پُرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔ ایٹمی پروگرام کسی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ایران کو اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو تمام جوہری تنصیبات تک مکمل رسائی دینا ہوگی۔ یہ انسپکٹر طے کریں گے کہ ایران ایک مقررہ حد تک ہی یورینیم افزودہ کرے اور اس کا ذخیرہ رکھ سکے۔ ایران کو اقوامِ متحدہ کے نگرانوں کی درخواست چیلینج کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
اس صورت میں فیصلہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کا ثالثی بورڈ کرے گا۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی منظور کرایا جائے گا۔ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو 65 روز کے اندر ایران پر تجارتی اور اقتصادی پابندیاں دوبارہ عاید کر دی جائیں گی۔ معاہدے کے تحت ایران اپنی افزودہ یورینیم کے ذخائر تلف کرے گا اور آئندہ 10 سال یورینیم کی افزودگی میں کمی بھی کرے گا۔ اب ایران پر عاید پابندیاں مرحلہ وار ختم کر دی جائیں گی اور ایران کو بیرون ملک منجمد کیے گئے 100ارب ڈالر سے زائد کے مالیتی اثاثے مل جائیں گے، جن کے ذریعے ایران کو اپنی معیشت مزید مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے تجارتی معاہدوں میں بھی فائدہ ہوگا۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں عالمی طاقتوں اور ایران کے مذاکرات 18 روز تک جاری رہے، جن میں امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی نے حصہ لیا۔ اسرائیل کے سوا پاکستان اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے ممالک نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ خبریں بھی تھیں کہ سعودی حکم راں اس ڈیل سے خوش نہیں ہیں، لیکن سفارتی سطح پر فی الحال سعودی حکومت کی جانب سے معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ معاہدے کے موقع پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہم امید کا نیا باب شروع کر رہے ہیں۔
معاہدے کے فوری بعد امریکی صدر بارک اوباما نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا بہترین طریقہ کار تھا۔ اس معاہدے کے بعد ایران جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے دور ہوگیا ہے۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لیتا۔ میں 6 سال سے امریکا کا صدر ہوں اور یہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا۔ ہم ایران کے ایٹمی تنصیبات تباہ بھی کرسکتے تھے، لیکن اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ چھڑ جاتی۔اوباما نے خبردار کیا کہ اگر کانگریس نے ایران معاہدے کے خلاف کوئی قانون سازی کی تو میں اس کو ویٹو کردوں گا۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کہا کہ ان مذاکرات میں ہارجیت نہیں ہے۔ آج ہم ایک نئے مقام پر پہنچے ہیں۔ جوہری معاہدہ دنیا سے تعلقات کی نئی شروعات ہے۔خدا نے ایرانی عوام کی دعائیں قبول کرلی ہیں۔ ایران کو کبھی جوہری بم نہیں بنانا چاہا۔ جوہری معاہدہ روکنے کی صہیونی سازشیں ناکام ہوگئی ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون اور دیگر عالمی سربراہوں نے بھی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس معاہدے سے ایران اور امریکا کے درمیان برسوں سے جاری سرد جنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ جوہری معاہدے سے دنیا سکون کی گہری سانس لے گی۔ برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمونڈ نے امید ظاہر کی اب ایران کے باقی دنیا سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ ایران کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ شام میں جاری تصادم ختم کرانے میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہے۔ جرمنی کے وزیرخارجہ نے کہا وہ پرامید ہیں کہ اس معاہدے پر اسرائیل کے تحفظات دور کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان نے بھی جوہری معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ مسئلے کا بات چیت کے ذریعے پُرامن حل نکلنا چاہیے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم اس معاہدے کی شقوں پر جلد اور بلارکاوٹ عملدرآمد کے منتظر ہیں۔
معاہدے کے اگلے روز جب ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف تہران پہنچے تو ان کا شان دار استقبال کیا گیا کیوں کہ خود ایرانی عوام بھی یہ چاہتے تھے کہ ان کے سروں پر جنگ کی لٹکتی تلوار ہٹ جائے۔ معاہدے کے بعد تہران پہنچنے کے موقع پر جواد ظریف نے کہا کہ ایران کے عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے کے بعد ''من گھڑت بحران '' ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا، '' ہم اب اپنی طرف سے تمام اقدامات کریں گے وہ (عالمی طاقتیں) اپنے حصے کا کام کریں گی۔''
دوسری طرف برطانوی وزیرخارجہ فلپ ہیمونڈ اسرائیل چلے گئے ہیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے پر اسرائیل کے خدشات کو کم کرنا اور اس معاہدے کی وضاحت کرنا ہے۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں سے ایرانی معاہدے کے بعد ایران میں کاروباری مواقع کا جائزہ لینے کے لیے جلد ہی ایران کا دورہ کروں گا۔ مختلف ملکوں کے سربراہوں اور وزرا نے بھی معاہدے کو تاریخی قدم قرار دیا ہے۔
عالمی میڈیا اس ڈیل کو امریکی صدر اوباما کی سب سے بڑی سفارتی کام یابی سے تعبیر کررہا ہے، کیوں کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے تنازعہ برسوں سے جاری تھا اور کئی مواقع تو محسوس ہورہا تھا کہ امریکی فوجیں ایران پر حملہ کرنے ہی والی ہیں، لیکن فریقین کی مدبرانہ اور دانش مندانہ سوچ نے معاملے کو آگ کی نذر ہونے سے بچالیا۔ سیاسی تبصرہ نگاروں کے مطابق اس تاریخی معاہدے کا کریڈٹ ایران اور امریکا کی قیادت اور مذاکرات میں شریک دیگر ممالک کے سربراہوں کو جاتا ہے۔
جنھوں نے امن کے لیے طویل بات چیت کی۔ دورانِ مذاکرات بہت مایوس کن صورت حال بھی پیدا ہوئی، تلخ کلامی بھی نظر آئی، اختلافات کی نوعیت بھی انتہائی شدید ہوئی، لیکن اطمینان بخش بات یہ رہی کہ جنگ نہیں ہوئی۔ فریقین نے بہت بردباری کے ساتھ وقت گزارا جس کا نتیجہ اب ایک زبردست امن معاہدے کی صورت میں نکلا ہے، جس کا فائدہ صرف ایران ہی کو نہیں بل کہ ہر امن پسند کو ہوگا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس معاہدے کے بعد سے آگ لگی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو نے معاہدے کو 'تاریخی غلطی' قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے جوہری مقاصد روکنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں گے۔ نیتن یاہو نے دہائی دی ہے کہ ایران کو یقینی طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا راستہ ملنے والا ہے۔
صہیونی وزیراعظم کے علاوہ بھی بہت ایسے لوگ ہیں جن کو یہ معاہدہ پسند نہیں آیا، امریکی اپوزیشن نے اس ڈیل پر اوباما انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے کنزرویٹیو ارکان نے اس معاہدے کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔ ریپبلیکن اسپیکر جان بوہنر کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے صرف تہران کو'شہ' ملے گی۔ ریپبلیکن سینیٹرلونڈسے گراہم نے اس معاہدے کو 'خوف ناک' قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔
ادھر ایران کی جلاوطن خاتون اپوزیشن راہ نما مریم رجوی نے سمجھوتے پر کڑی تنقید کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مریم رجوی نے کہا ہے کہ اس معاہدے کی شکل میں ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کا ایک نیا موقع دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے عالمی طاقتوں سے معاہدہ کر کے ''ایٹمی زہر'' کا پیالہ منہ کو لگا لیا ہے۔ یاد رہے کہ ''زہرکا پیالہ'' منہ کو لگانے کی اصطلاح ایران میں ولایت فقیہ اور انقلاب کے بانی آیت اﷲ خمینی نے عراق ایران جنگ سے متعلق سیز فائر کے بارے میں استعمال کی تھی۔
امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں اس معاہدے کے مخالفین میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کا تعلق یہودی لابی سے ہے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایران کو عالمی منظرنامے پر سانس لینے کا موقع ملے اور وہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی و اقتصادی معاہدے کرے۔ امریکا میں یہودی دولت سے ایران کے خلاف مختلف تھنک ٹینکس بھی بنائے گئے، انھوں نے ایران کے خلاف طرح طرح کا پروپیگنڈا بھی کیا ۔ ان گروپوں یا تھنک ٹینکس میں 2008 میں قائم کیا گیا United Against Nuclear Iranاور2011 سے ایران کے خلاف سرگرم Secure America Now بھی شامل ہیں۔
ابھی تو اس یہودی لابی کے ایران پر امریکی حملے کے خواب چکناچور ہوگئے ہیں، اب آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ معاہدہ کتنا پائے دار ہے۔
٭ معاہدے کے اثرات٭
عالمی سطح پر ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری تنازعے کا حل تمام امن پسندوں کے لیے خوش آئند ہے۔ عراق ، افغانستان، شام اور یمن میں قتل و غارت گری، فوج کشی، لاشوں کے ڈھیر اور تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں دیتی، کیوںکہ جنگ خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس معاہدے سے ہمارے خطے اور دنیا بھر میں کیا اثرات مرتب ہوں:
٭اس معاہدے سے پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا مستقبل کافی روشن ہوگیا ہے۔ عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹنے کے بعد ایران کے بہت سے منصوبوں پر عاید رکاوٹیں ہٹالی جائیں گی اور تہران کی جانب سے کیے گئے بہت سے فیصلوں کو امریکا سمیت دیگر عالمی قوتوں کی حمایت اور تحفظ حاصل ہوگا۔
٭ تہران کی پاکستان سمیت مختلف ممالک سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ اس معاہدے کے بعد گوادر کی بندرگاہ بھی بہت زیادہ تیزی سے فعال ہونے کی جانب بڑھے گی۔ پاک ایران زمینی تجارت، وفود کے تبادلے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایرانی مینوفیکچررز کو اپنی مصنوعات دنیا بھر میں متعارف کرانے کا موقع ملے گا۔
٭ کچھ عالمی سروے رپورٹس کے مطابق امریکیوں کی اکثریت بھی ایران سے پرامن معاہدے کی حامی ہے اور وہ چاہتی تھی کہ ایران پر عاید پابندیاں ختم کی جائیں اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اب ایرانی شہریوں اور دنیا بھر کو ایک دوسرے کو جاننے، سمجھنے اور اپنی بات سنانے اور سننے کا موقع ملا ہے، اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔