قلعہ فاضل خان ایک معدوم ہوتی تاریخی عمارت
تاریخ سے جڑی دفاعی اور تجارتی نقطہ نظر سے اہمیت کی حامل ایک شان دار تعمیر قلعہ فاضل خان کی صورت میں موجود اور مشہور ہے
BAHAWALNAGAR:
صدیوں سے پھیلی ماضی کے اسرار کی دبیز چادر میں لپٹی دھندلی گم گشتہ یادیں ہر دور میں جمالیاتی ذوق کے حامل لوگوں کے لیے ایک خاص کشش کا باعث رہی ہیں۔ مخصوص جگہوں اور مقامات سے وابستہ تاریخی واقعات ان جگہوں اور مقامات کو خاص مقام و مرتبے سے سرفراز کردیتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ ان مقامات سے جڑی یادیں خوش گوار ہوں یا ناخوش گوار، واقعات سے جڑے قصے پھر روایات اور بعدازاں دروغ گوئیوں کی صورت میں ایک عجیب تصویر کے نامکمل ٹکڑے اذہان کے پردوں پر ثبت ہوجاتے ہیں۔ ہر دور میں موجود کمالاتِ فن کی بلندیوں کو چھو لینے والی ہستیاں اپنے ہونے کا آئندہ نسلوں کو احساس دلانے کے لیے تعمیرات، سنگ تراشی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے جڑی ٹھوس اشیا چھوڑ جاتی ہیں، جو ان کے ذوق اور فن کی بلندی کا پتا دیتی ہیں۔
صاحبانِ فن آرٹ کی مختلف اشکال کو اپنی آفاقی خلاق فوقیت سے معاشروں کے لیے حیرت افزا تخلیقی تحائف پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ کسی بھی فن کی قدر و قیمت اس دور کے تہذیبی عروج کی شاہد ہوتی ہے۔ صدیوں پرانے رسوم و رواج اور ان سے منسلک مختلف عقائد و نظریات کی بنیاد پر تعمیر شدہ عمارتیں تاریخ میں سانس لیتی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ موسموں کے بے رحم اثرات اور قوموں کی اجتماعی بے حسی ان کے فطری شکست و ریخت کے عمل میں باقاعدہ حصہ دار بن کر ان کو معدومیت کے قریب لے جائیں۔
تاریخ سے جڑی دفاعی اور تجارتی نقطہ نظر سے اہمیت کی حامل ایک شان دار تعمیر قلعہ فاضل خان کی صورت میں موجود اور مشہور ہے، جوکہ صوبہ پنجاب کی آخری تحصیل صادق آباد، جوکہ سندھ کی سرحد پر واقع ہے، سے 12 کلومیٹر دور سنجر پور قصبے کے شمال میں واقع ہے۔ تاریخی اہمیت کا حامل قلعہ فاضل خان معدومیت کے دم بہ دم قریب ہوتا جا رہا ہے۔ یہ قلعہ مخصوص طرز تعمیر کی بدولت ان دیگر قلعوں سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔
جوکہ بالائی سندھ سے لے کر ملتان تک پھیلے ہوئے دریائے سندھ کے ساتھ بہاؤ کے راستوں پر اپنے وجود کو کھنڈرات کی صورت میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ آبادی کی حفاظت اور معاشی ترقی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے مخصوص حالات کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان قلعوں کو تعمیر کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک قلعہ فاضل خان ہے۔ یہ قلعہ قدیم طرز تعمیر کی بدولت اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ دیگر قلعوں کی نسبت قلعہ فاضل خان کم و بیش 20 ایکڑ پر مشتمل ایک وسیع و عریض قلعہ ہے، جب کہ اس کا پھیلاؤ 30 ایکڑ تک ہے۔
تاریخی لحاظ سے اس قلعے میں آباد اقوام ایک مکمل شہر کی اس دور کی ہیئت کے مطابق شہری حیثیت کی حامل تھیں۔ اس قلعے کے اندر آباد شہر اس دور کے مروج جدید شہری اصولوں اور سہولیات کے عین مطابق تھا۔ اس میں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات اس دور کے مروج معیار کے مطابق میسر تھیں، مثلاً آب رسانی، نکاسی آب کا نظام، مزین چوراہے اور حمام وغیرہ موجود تھے۔ بازار، گلیاں، عبادت خانے اور اس دور کی ضروریات کے مطابق سہولتیں باہم موجود تھیں۔
دریائے سندھ کے کنارے پر اس وقت کے بہاؤ کے مطابق ایک لائٹ ٹاور بھی موجود تھا، جو بحری سفر کرنے والے تاجروں اور بار برداری کے کام آنے والے چھوٹے جہازوں اور کشتیوں کی راہ نمائی کے لیے ایستادہ کیا گیا تھا۔ قلعے میں موجود آبادی کی تعداد ہزاروں میں تھی جوکہ مختلف پیشوں اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عام و خاص شہریوں پر مشتمل تھی۔
یہ قلعہ اپنی اس تعمیر سے قبل بھی دفاعی و تجارتی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل مقام تھا اور اس کا نام ''وہولہ'' تھا۔ یہاں خشکی اور دریائی راستوں سے ہندوستان میں داخل ہونے والے تجارتی راہ گزاری کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہاں کا بازار سکھر اور دیبل تک مشہور تھا۔ یہاں کے تاجر راست بازی اور خوش گفتاری کی وجہ سے تجارتی حلقوں میں موضوع سخن رہتے تھے۔
711 میں محمد بن قاسم نے اس جگہ پر حملہ کیا تو بغیر کسی مزاحمت کے قلعہ دار نے قلعے کی چابیاں علامتی طور پر اس کے حوالے کردیں اور یوں اپنی مصالحانہ حکمت عملی سے قلعے میں موجود شہری آبادی کو قتل و غارت گری سے بچا لیا۔ محمد بن قاسم نے قلعہ دار جس کا نام تاریخی کتب میں ''بُوہل'' آیا ہے کو اس کے حلیفانہ رویے کی بدولت قلعے کی چابیاں واپس کردیں۔ ملتان کو تسخیر کرنے کی مہم کے لیے شاید وہ خود کو زیادہ الجھانا نہیں چاہتا تھا۔ محمد بن قاسم نے اپنے ایک نائب کو قلعہ دار کے ساتھ مشترکہ والیٔ شہر مقرر کردیا اور اپنی شرائط پر قلعہ دار کو اعزازی طور پر دوبارہ قلعہ داری سونپ دی۔
وہ اپنی اگلی منزل ملتان کے لیے روانہ ہوا مگر اپنی خوش گوار چند دنوں پر مشتمل یادیں اہلیان شہر کے دلوں پر نقش کرگیا اور انھوں نے اس کے نائب، ایک روایت کے مطابق، ابوحارث یا حارث نامی ایک سالار جوکہ نائب محمد بن قاسم کے طور پر قلعے میں موجود تھے کو اپنا امام تسلیم کرلیا۔ اس دور میں یہاں ایک کچی مسجد تعمیر کی گئی، روایات کے مطابق محمد بن قاسم نے اس مسجد کی بنیاد رکھی رکھی تھی۔
تاریخی لحاظ سے محمد بن قاسم نے ملتان واپسی پر جب ابو حارث کو اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو ابو حارث اور اس کے 2 بیٹوں کی درخواست پر اسے قلعہ ہی میں رہنے دیا گیا اور روایت کے مطابق اہلیان شہر کے پرزور اصرار پر محمد بن قاسم نے ابو حارث کو بہ خوشی قلعہ فاضل خان میں رہنے کی اجازت دے دی۔ صدیوں بعد میں عباسی کلہوڑا خاندان کے فرزند فاضل خان نے اپنے نام پر اس قلعے کے کھنڈرات پر اپنی اس دور کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کی۔ لائٹ ٹاور کو مضبوط کیا اور فصیل کو کچی مٹی کی بجائے پختہ اینٹوں سے تعمیر کیا۔
قلعہ کی موجودہ حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے یہ قلعہ روایات کے مطابق 1857 کی جنگ آزادی کے متوالوں کی خاموش قتل گاہ بھی بنا۔ سندھ کے مہر قبیلے اور ہندوستان بھر سے اسیرانِ آزادی کو یہاں خاموشی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حریت پسندوں کو انگریز سرکار نے خاموشی اور بے دردی سے قلعے میں موجود پھانسی گھاٹ پر پھانسی دے دی۔
ہندوستان بھر سے لائے گئے دیگر حریت پسندوں کو بھی اس جیسے غیرمعروف قلعوں اور مقامات پر موت کے گھاٹ اتارا گیا اور یہ قلعہ بھی ان حریت پسندوں کا مقتل ٹھیرا۔ قلعہ فاضل خان حریت پسند متحرک شخصیات کی خاموش موت کا گواہ بھی ہے۔
انگریز سرکار نے بعدازاں اس کو باقاعدہ جیل کی شکل دے دی اور کچھ عرصہ توپ خانہ بھی رکھا۔ یہاں خطرناک باغی قیدیوں کو ہندوستان بھر سے لاکر خفیہ طریقے سے رکھا جاتا تھا اور اکثر کو اذیتیں دے کر خاموش سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ اس جیسے قلعوں کی ایک زنجیر سی ہے جن کو والیان ریاست بہاول پور نے اپنے ناموں سے منسوب کرکے ان کو دور جدید کے مطابق ڈھالنے کی حتی المقدور کوشش کی، لیکن بعدازاں اپنی نااتفاقی اور انگریزوں کے سازشی رویے کا شکار ہوکر اپنے اثر و رسوخ کو زائل کر بیٹھے، حالاں کہ وہ انگریز سرکار کے حلیف بھی رہے۔
قلعے کی موجودہ حالت دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہم اپنے تاریخی عمارات اور تعمیرات کے معاملے میں کتنے سنگ دل واقع ہوئے ہیں۔ قلعہ میں علاقہ بھر سے لوگوں نے قیام پاکستان کے بعد قبضہ جمانا شروع کیا اور اب اس میں مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد خاندانوں کی صورت میں براجمان ہیں۔ انھوں نے اردگرد کی زمینوں کو آباد کرکے اپنا رہائشی ٹھکانا قلعہ کو بنالیا ہے۔ قلعے سے ملنے والے تاریخی نوادرات مقامی لوگوں نے آپس میں بانٹ لیے۔
یہاں ایک مزار بھی ہے جوکہ رحمت شاہ غازی نامی بزرگ کا ہے۔ قلعے کی تاریخی حیثیت اور اہمیت کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قلعہ میں موجود تاریخی نوادرات جن میں ماضی قریب میں موجود مندر اور اس سے منسلکہ اشیا بھی شامل ہیں، کی حفاظت کی جاتی اور اس کی شکست و ریخت میں مزاحم ہوکر اس کی مرمت وغیرہ کا کام کرکے سیاحت کے محکمے کے حوالے کیا جاتا، لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ مہذب اقوام کی طرح اپنے تاریخی ورثوں کو محفوظ کرنا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں، جس کی وجہ سے نادر و نایاب عمارات اور محلات اب محض کھنڈرات یا خالی پلاٹ رہ گئے ہیں۔
اتنی زرخیز ثقافت کو اپنی پس ماندہ اور غیر سنجیدہ سوچ کے ذریعے کثیف کرکے نہ جانے ہم آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کہ ہم وہ لوگ تھے جن کے پاس قدرت کا دیا اور اساتذۂ فن کا تراشا ہوا بیش بہا خزانہ تھا جو ہم نے محض اس لیے گنوادیا کہ ہم اس کے اہل نہ تھے۔ انگریز دور کے بعد بدترین حالات میں ایسے ورثے کی وہی حالت ہوئی جوکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے دیگر نادر عمارات اور اشیا کی ہوئی اور قبضہ مافیا کی بھینٹ چڑھتے ہوئے ایسے مقامات اپنی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے معدومیت کو گلے لگا رہے ہیں۔
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
صدیوں سے پھیلی ماضی کے اسرار کی دبیز چادر میں لپٹی دھندلی گم گشتہ یادیں ہر دور میں جمالیاتی ذوق کے حامل لوگوں کے لیے ایک خاص کشش کا باعث رہی ہیں۔ مخصوص جگہوں اور مقامات سے وابستہ تاریخی واقعات ان جگہوں اور مقامات کو خاص مقام و مرتبے سے سرفراز کردیتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ ان مقامات سے جڑی یادیں خوش گوار ہوں یا ناخوش گوار، واقعات سے جڑے قصے پھر روایات اور بعدازاں دروغ گوئیوں کی صورت میں ایک عجیب تصویر کے نامکمل ٹکڑے اذہان کے پردوں پر ثبت ہوجاتے ہیں۔ ہر دور میں موجود کمالاتِ فن کی بلندیوں کو چھو لینے والی ہستیاں اپنے ہونے کا آئندہ نسلوں کو احساس دلانے کے لیے تعمیرات، سنگ تراشی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے جڑی ٹھوس اشیا چھوڑ جاتی ہیں، جو ان کے ذوق اور فن کی بلندی کا پتا دیتی ہیں۔
صاحبانِ فن آرٹ کی مختلف اشکال کو اپنی آفاقی خلاق فوقیت سے معاشروں کے لیے حیرت افزا تخلیقی تحائف پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ کسی بھی فن کی قدر و قیمت اس دور کے تہذیبی عروج کی شاہد ہوتی ہے۔ صدیوں پرانے رسوم و رواج اور ان سے منسلک مختلف عقائد و نظریات کی بنیاد پر تعمیر شدہ عمارتیں تاریخ میں سانس لیتی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ موسموں کے بے رحم اثرات اور قوموں کی اجتماعی بے حسی ان کے فطری شکست و ریخت کے عمل میں باقاعدہ حصہ دار بن کر ان کو معدومیت کے قریب لے جائیں۔
تاریخ سے جڑی دفاعی اور تجارتی نقطہ نظر سے اہمیت کی حامل ایک شان دار تعمیر قلعہ فاضل خان کی صورت میں موجود اور مشہور ہے، جوکہ صوبہ پنجاب کی آخری تحصیل صادق آباد، جوکہ سندھ کی سرحد پر واقع ہے، سے 12 کلومیٹر دور سنجر پور قصبے کے شمال میں واقع ہے۔ تاریخی اہمیت کا حامل قلعہ فاضل خان معدومیت کے دم بہ دم قریب ہوتا جا رہا ہے۔ یہ قلعہ مخصوص طرز تعمیر کی بدولت ان دیگر قلعوں سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔
جوکہ بالائی سندھ سے لے کر ملتان تک پھیلے ہوئے دریائے سندھ کے ساتھ بہاؤ کے راستوں پر اپنے وجود کو کھنڈرات کی صورت میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ آبادی کی حفاظت اور معاشی ترقی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے مخصوص حالات کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان قلعوں کو تعمیر کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک قلعہ فاضل خان ہے۔ یہ قلعہ قدیم طرز تعمیر کی بدولت اپنی علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ دیگر قلعوں کی نسبت قلعہ فاضل خان کم و بیش 20 ایکڑ پر مشتمل ایک وسیع و عریض قلعہ ہے، جب کہ اس کا پھیلاؤ 30 ایکڑ تک ہے۔
تاریخی لحاظ سے اس قلعے میں آباد اقوام ایک مکمل شہر کی اس دور کی ہیئت کے مطابق شہری حیثیت کی حامل تھیں۔ اس قلعے کے اندر آباد شہر اس دور کے مروج جدید شہری اصولوں اور سہولیات کے عین مطابق تھا۔ اس میں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات اس دور کے مروج معیار کے مطابق میسر تھیں، مثلاً آب رسانی، نکاسی آب کا نظام، مزین چوراہے اور حمام وغیرہ موجود تھے۔ بازار، گلیاں، عبادت خانے اور اس دور کی ضروریات کے مطابق سہولتیں باہم موجود تھیں۔
دریائے سندھ کے کنارے پر اس وقت کے بہاؤ کے مطابق ایک لائٹ ٹاور بھی موجود تھا، جو بحری سفر کرنے والے تاجروں اور بار برداری کے کام آنے والے چھوٹے جہازوں اور کشتیوں کی راہ نمائی کے لیے ایستادہ کیا گیا تھا۔ قلعے میں موجود آبادی کی تعداد ہزاروں میں تھی جوکہ مختلف پیشوں اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عام و خاص شہریوں پر مشتمل تھی۔
یہ قلعہ اپنی اس تعمیر سے قبل بھی دفاعی و تجارتی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل مقام تھا اور اس کا نام ''وہولہ'' تھا۔ یہاں خشکی اور دریائی راستوں سے ہندوستان میں داخل ہونے والے تجارتی راہ گزاری کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہاں کا بازار سکھر اور دیبل تک مشہور تھا۔ یہاں کے تاجر راست بازی اور خوش گفتاری کی وجہ سے تجارتی حلقوں میں موضوع سخن رہتے تھے۔
711 میں محمد بن قاسم نے اس جگہ پر حملہ کیا تو بغیر کسی مزاحمت کے قلعہ دار نے قلعے کی چابیاں علامتی طور پر اس کے حوالے کردیں اور یوں اپنی مصالحانہ حکمت عملی سے قلعے میں موجود شہری آبادی کو قتل و غارت گری سے بچا لیا۔ محمد بن قاسم نے قلعہ دار جس کا نام تاریخی کتب میں ''بُوہل'' آیا ہے کو اس کے حلیفانہ رویے کی بدولت قلعے کی چابیاں واپس کردیں۔ ملتان کو تسخیر کرنے کی مہم کے لیے شاید وہ خود کو زیادہ الجھانا نہیں چاہتا تھا۔ محمد بن قاسم نے اپنے ایک نائب کو قلعہ دار کے ساتھ مشترکہ والیٔ شہر مقرر کردیا اور اپنی شرائط پر قلعہ دار کو اعزازی طور پر دوبارہ قلعہ داری سونپ دی۔
وہ اپنی اگلی منزل ملتان کے لیے روانہ ہوا مگر اپنی خوش گوار چند دنوں پر مشتمل یادیں اہلیان شہر کے دلوں پر نقش کرگیا اور انھوں نے اس کے نائب، ایک روایت کے مطابق، ابوحارث یا حارث نامی ایک سالار جوکہ نائب محمد بن قاسم کے طور پر قلعے میں موجود تھے کو اپنا امام تسلیم کرلیا۔ اس دور میں یہاں ایک کچی مسجد تعمیر کی گئی، روایات کے مطابق محمد بن قاسم نے اس مسجد کی بنیاد رکھی رکھی تھی۔
تاریخی لحاظ سے محمد بن قاسم نے ملتان واپسی پر جب ابو حارث کو اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو ابو حارث اور اس کے 2 بیٹوں کی درخواست پر اسے قلعہ ہی میں رہنے دیا گیا اور روایت کے مطابق اہلیان شہر کے پرزور اصرار پر محمد بن قاسم نے ابو حارث کو بہ خوشی قلعہ فاضل خان میں رہنے کی اجازت دے دی۔ صدیوں بعد میں عباسی کلہوڑا خاندان کے فرزند فاضل خان نے اپنے نام پر اس قلعے کے کھنڈرات پر اپنی اس دور کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کی۔ لائٹ ٹاور کو مضبوط کیا اور فصیل کو کچی مٹی کی بجائے پختہ اینٹوں سے تعمیر کیا۔
قلعہ کی موجودہ حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے یہ قلعہ روایات کے مطابق 1857 کی جنگ آزادی کے متوالوں کی خاموش قتل گاہ بھی بنا۔ سندھ کے مہر قبیلے اور ہندوستان بھر سے اسیرانِ آزادی کو یہاں خاموشی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حریت پسندوں کو انگریز سرکار نے خاموشی اور بے دردی سے قلعے میں موجود پھانسی گھاٹ پر پھانسی دے دی۔
ہندوستان بھر سے لائے گئے دیگر حریت پسندوں کو بھی اس جیسے غیرمعروف قلعوں اور مقامات پر موت کے گھاٹ اتارا گیا اور یہ قلعہ بھی ان حریت پسندوں کا مقتل ٹھیرا۔ قلعہ فاضل خان حریت پسند متحرک شخصیات کی خاموش موت کا گواہ بھی ہے۔
انگریز سرکار نے بعدازاں اس کو باقاعدہ جیل کی شکل دے دی اور کچھ عرصہ توپ خانہ بھی رکھا۔ یہاں خطرناک باغی قیدیوں کو ہندوستان بھر سے لاکر خفیہ طریقے سے رکھا جاتا تھا اور اکثر کو اذیتیں دے کر خاموش سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ اس جیسے قلعوں کی ایک زنجیر سی ہے جن کو والیان ریاست بہاول پور نے اپنے ناموں سے منسوب کرکے ان کو دور جدید کے مطابق ڈھالنے کی حتی المقدور کوشش کی، لیکن بعدازاں اپنی نااتفاقی اور انگریزوں کے سازشی رویے کا شکار ہوکر اپنے اثر و رسوخ کو زائل کر بیٹھے، حالاں کہ وہ انگریز سرکار کے حلیف بھی رہے۔
قلعے کی موجودہ حالت دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہم اپنے تاریخی عمارات اور تعمیرات کے معاملے میں کتنے سنگ دل واقع ہوئے ہیں۔ قلعہ میں علاقہ بھر سے لوگوں نے قیام پاکستان کے بعد قبضہ جمانا شروع کیا اور اب اس میں مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد خاندانوں کی صورت میں براجمان ہیں۔ انھوں نے اردگرد کی زمینوں کو آباد کرکے اپنا رہائشی ٹھکانا قلعہ کو بنالیا ہے۔ قلعے سے ملنے والے تاریخی نوادرات مقامی لوگوں نے آپس میں بانٹ لیے۔
یہاں ایک مزار بھی ہے جوکہ رحمت شاہ غازی نامی بزرگ کا ہے۔ قلعے کی تاریخی حیثیت اور اہمیت کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قلعہ میں موجود تاریخی نوادرات جن میں ماضی قریب میں موجود مندر اور اس سے منسلکہ اشیا بھی شامل ہیں، کی حفاظت کی جاتی اور اس کی شکست و ریخت میں مزاحم ہوکر اس کی مرمت وغیرہ کا کام کرکے سیاحت کے محکمے کے حوالے کیا جاتا، لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ مہذب اقوام کی طرح اپنے تاریخی ورثوں کو محفوظ کرنا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں، جس کی وجہ سے نادر و نایاب عمارات اور محلات اب محض کھنڈرات یا خالی پلاٹ رہ گئے ہیں۔
اتنی زرخیز ثقافت کو اپنی پس ماندہ اور غیر سنجیدہ سوچ کے ذریعے کثیف کرکے نہ جانے ہم آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کہ ہم وہ لوگ تھے جن کے پاس قدرت کا دیا اور اساتذۂ فن کا تراشا ہوا بیش بہا خزانہ تھا جو ہم نے محض اس لیے گنوادیا کہ ہم اس کے اہل نہ تھے۔ انگریز دور کے بعد بدترین حالات میں ایسے ورثے کی وہی حالت ہوئی جوکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے دیگر نادر عمارات اور اشیا کی ہوئی اور قبضہ مافیا کی بھینٹ چڑھتے ہوئے ایسے مقامات اپنی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے معدومیت کو گلے لگا رہے ہیں۔
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!