مبارک ہو ٹیم آٹھویں پوزیشن پرآگئی

مصباح الحق ودیگر نے ون ڈے سائیڈ کا جوحشرکیا اس کی وجہ سے وہ تنزلی کی داستان تحریر کرتے ہوئے نویں نمبر تک جا پہنچی تھی


Saleem Khaliq July 26, 2015
کپتان بن کر کم بیک کے بعد اظہرکا کھیل خاصا بہتر ہوا ہے، بڑا اسکور بنانے سے ان کی دیگر کھلاڑیوں میں بھی قدر بڑھی:فوٹو فائل

آج سے چند برس قبل اگر کوئی کرکٹ شائق کسی دوسرے شخص کو اس بات پر مبارکباد دیتا کہ ون ڈے رینکنگ میں ٹیم آٹھویں نمبر پر آ گئی تو شاید دونوں کی لڑائی ہو جاتی،کہا جاتا کہ اس میں ایسی فخر کی کیا بات ہے۔

پہلی یا دوسری پوزیشن ہو تو مبارکباد دیتے، مگر افسوس کہ اب صورتحال ماضی جیسی نہیں، سابق کپتان مصباح الحق و دیگر نے ون ڈے سائیڈ کا جو حشر کیا اس کی وجہ سے وہ تنزلی کی داستان تحریر کرتے ہوئے نویں نمبر تک جا پہنچی تھی، وہ تو بھلا ہو نوجوان کھلاڑیوں کا جنھوں نے عمدہ کھیل سے بہتری کی جانب سفر شروع کر دیا، اب ٹیم کو ایک درجے ترقی مل گئی یوں چیمپئنز ٹرافی میں شرکت تقریباً یقینی ہو گئی ہے۔

بورڈ نے زمبابوے میں ٹرائنگولر سیریزکھیلنے سے انکارکر کے اپنی فاش غلطی کو سدھار لیا بصورت دیگر آگے کوئی مسئلہ ہوتا تو حکام تنقیدی نشتروں کی زد میں آ جاتے، ویسے یہ عجیب نہیں کہ پہلے ہم میگا ایونٹ جیتنے کی بات کرتے تھے اب نوبت یہ آ چکی کہ کوالیفائی کرنے پر بھی ایسا محسوس ہوگا جیسے ٹرافی ہاتھوں میں تھام لی ہو،ایساکیوں ہوا یہ ایک طویل بحث ہے، فی الحال تو سری لنکا سے ون ڈے سیریز میں فتح پر خوشیاں منانی چاہئیں، اظہر علی کی قیادت پر مجھ سمیت کئی نام نہاد تبصرہ نگار خاصی تنقیدکر رہے تھے، خدشہ تھا کہ کہیں وہ دوسرے مصباح ثابت نہ ہوں لیکن تاحال انھوں نے خود کواچھا انتخاب ثابت کیا ہے۔

کپتان بن کر کم بیک کے بعد اظہرکا کھیل خاصا بہتر ہوا ہے، بڑا اسکور بنانے سے ان کی دیگر کھلاڑیوں میں بھی قدر بڑھی،اب وہ اس قابل ہو گئے کہ ساتھیوں کو اچھا کھیلنے کی تحریک دلا سکیں، البتہ انھیں دفاعی انداز ترک کرتے ہوئے بیٹنگ میں تھوڑی جارحیت لانا ہوگی، سیریز کے دوران پاکستانی ٹیم کی فیلڈنگ میں غیرمعمولی بہتری دیکھنے کو ملی، رضوان جیسے کھلاڑیوں نے اسکواڈ میں نئی جان ڈال دی،اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جلد مضبوط ٹیموں کو بھی ٹکر دی جا سکے گی، شعیب ملک نے بھی بطور سینئر اپنا کردار بخوبی نبھایا، حفیظ کو پتا ہے کہ اب ان کیلیے بقا کا واحد راستہ بیٹنگ میں عمدہ پرفارمنس ہی ہے اس لیے وہ بھی خوب جان لگا رہے ہیں، بولرز نے بھی تاحال بہتر کھیل پیش کیا ہے۔

سری لنکا کیخلاف جونیئرز کی کارکردگی قابل تعریف مگر ہمیں سینئرز کو بھی عزت دینی چاہیے، یونس خان ان دنوں میڈیا میں خاصے ''ان'' ہیں، ایسے میں ان سے جب وقار یونس، سلیکٹرز اور مصباح الحق کے بارے میں سوالات ہوئے تو دل کی بات لبوں پر لے آئے، میں اس بات سے متفق ہوں کہ ون ڈے ٹیم میں یونس کی جگہ نہیں بنتی مگر ان کا کہنا تھا کہ ''اگر سری لنکا کیخلاف تیسرے ٹیسٹ میں وہ میچ وننگ سنچری نہ بناتے تو لوگ انھیں سابق کرکٹر کا لقب دینے پر تلے بیٹھے تھے'' یونس خان کوچ وقار یونس پر دبے الفاظ میں حوصلہ شکنی کا الزام لگا چکے ہیں، اس سے قبل عبدالرزاق بھی یہی شکوے کرتے رہے، کوچ پر الزام لگتا ہے کہ وہ سینئرز کو پسند نہیں کرتے، انھیں ٹیم میں ایسے پلیئرز چاہئیں جو ہر بات میں یس سر کہتے رہیں، حال ہی میں وقاریونس سے فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے یہ بات بھی پوچھی جس سے وہ بالکل متفق نہیں ہیں۔

انھوں نے یونس خان کو لیجنڈ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بطور کوچ انھیں ہمیشہ سپورٹ کیا، یہ اچھی بات ہے یونس جیسے پلیئرز ہماری ٹیسٹ ٹیم کی ضرورت ہیں، ٹور کے بعد وقار یونس اور مصباح الحق دونوں کو یونس خان سے ملاقات کر کے گلے شکوے دور کرنے چاہئیں، ڈریسنگ روم کا ماحول اچھا ہونے سے ٹیم مزید ترقی حاصل کرے گی۔ اسی طرح وہ نوجوان پلیئرز جو حکام کے منظور نظرنہیں انھیں بھی اعتماد دینا چاہیے۔

احمد شہزاد اگرچوتھے ون ڈے میں میچ وننگ اننگز نہ کھیلتے تو شاید وہ ان کا اس طرز میں آخری میچ ہوتا، فواد عالم گمنامی کے اندھیروں میں گم ہونے لگے ہیں،ان میں جب اعتماد آیا تو چند میچز کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر باہر کر دیا گیا، سرفراز احمد بھی بعض لوگوں کی نظروں میں کھٹکتے ہیں مگر ان کی خوش قسمتی ہے کہ بیٹ ساتھ دے رہا ہے،اگر خدانخواستہ3،4میچز میں وہ اسکور نہ کر سکے تو رضوان کو وکٹ کیپنگ گلوز مل جائیں گے۔

ان ہی باتوں کی وجہ سے ہم ون ڈے رینکنگ میں آٹھویں، نویں نمبر پر گھوم رہے ہیں، آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہا تو اگر چیمپئنز ٹرافی کیلیے کوالیفائی کر بھی لیا تو کارکردگی کیا رہے گی اسے جاننے کیلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ہمارا ملک ٹیلنٹ سے مالامال ہے، یاسر شاہ ہوں یا رضوان سب اپنے عمدہ کھیل کی جھلک دکھا چکے،اگر صرف پاکستان کو ترجیح دیتے ہوئے حکام اناکو پس پشت ڈال دیں تو ایسی بہترین ٹیم بن سکتی ہے جو بڑوں بڑوں کو ٹکر دے سکے۔

اب بات کچھ سپر لیگ کی ہو جائے، نجم سیٹھی، سبحان احمد اور امجد بھٹی انعقاد کیلیے انتھک محنت کر رہے اور ان کی کوششیں قابل تعریف ہیں، اگر یہ ایونٹ ہوگیا تو یقیناً ملک کو فائدہ ہو گا مگر بدقسمتی سے پلاننگ کا فقدان آڑے آ رہا ہے، پی سی بی نے آئندہ سال فروری میں انعقاد کا اعلان کردیا مگر وینیو ایک اہم مسئلہ ہے، زمبابوے سے سیریز کا ہوم گراؤنڈ پر کامیابی سے انعقاد ہوا مگر بورڈ کو اب بھی ملکی سیکیورٹی پر اعتبار نہیں،یا شاید کوئی ایسی بات ہے جسے عوام کو بتایا نہیں جا رہا، مگر اب کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ فلاں ٹیم کو دورے کی دعوت دے دی۔

یو اے ای کے گراؤنڈز کی عدم دستیابی کے سبب اب قطر کی جانب دیکھا جا رہا ہے، پی سی بی نے سلمان سرور بٹ کو سپر لیگ کا منتظم اعلیٰ بنایا ہے، وہ پہلے بھی اس پروجیکٹ سے منسلک رہ چکے جب بھاری رقم لٹانے کے بعد اسے بند کر دیا گیا تھا، بورڈ نے لیگ کی اعلیٰ پوسٹ پر تقرری بغیر کسی اشتہار یا گورننگ بورڈ کی منظوری کے کی، حالانکہ ایک لاکھ روپے سے زائد کی تقرری کااشتہار دینا لازمی ہے مگر خاموشی سے ایسا کر دیا گیا،اگر پی سی بی بڑے عہدوں پر باقاعدہ اشتہار دے کر تقرریاں کرے تو لوگوں کو سوال اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا، فی الحال سپر لیگ کی راہ میں کانٹے ہی کانٹے ہیں، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں