اڑن کھٹولا اور شہزادہ

عمروعیاربہت خوش تھا۔بارباراپنی زنبیل سےایک چوری کیا ہواباجا نکالتا تھا اوربجائے بغیردوبارہ زنبیل میں بند کر دیتا تھا۔

raomanzarhayat@gmail.com

عمروعیاربہت خوش تھا۔ بارباراپنی زنبیل سے ایک چوری کیا ہوا باجا نکالتا تھا اور بجائے بغیردوبارہ زنبیل میں بند کر دیتا تھا۔ مسرت کی وجہ یہ تھی کہ عمروعیارکوبادشاہ کاقرب اور اعتماد حاصل ہو چکا تھا۔ گزشتہ مہینوں میں اس نے بادشاہ سلامت کوبہت بڑی مصیبت سے بچایا تھا۔

اسی اثناء میں شاہی کبوترعمروکے پاس پہنچا۔پیغام دیاکہ حاکم نے دربارخاص میں طلب کیاہے۔عزت افزائی اورمحبت کے اظہارکے لیے اپنا خاص اڑن کھٹولابھی بھجوایا ہے۔ عمرو مزید خوش ہو گیا۔ جواب دیاکہ وہ خودکواتنی عزت کے قابل نہیں سمجھتا کہ وہ شاہی اڑن کھٹولا استعمال کرے مگرکبوتر کے اصرارپروہ بیٹھ گیا۔اصل وجہ یہ تھی کہ کچھ عرصہ پہلے عمرو عیارنے خزانے سے ایک شاہی اڑن کھٹولا چرالیا تھا اور اس کی جگہ ایک نقلی کھٹولہ رکھ دیاتھا تاکہ کسی کوپتہ نہ چلے۔وہ بیرونی ریاستوں میں پڑے ہوئے اپنے خزانے کواس سواری پر سفر کر کے چیک کرتا تھا۔ اپنے ملک میں کسی کے علم میں نہیں تھاکہ اس کی جائیداد ملک سے باہربھی موجودہے مگروہ عمرو عیار تھا۔

خیر، جب وہ محل میں پہنچا توعادی پہلوان بھی بادشاہ کا منتظر تھا۔ عادی دراصل بادشاہ کاسپہ سالارتھا۔وہ بھی شاہی خاندان کے بہت قریب تھا۔ ظاہری طورپروہ اپنے آپ کو بادشاہ سے دوررکھتاتھا۔اس کی تنقیدبھی کرتا تھا مگراندرسے وہ شاہی خزانے سے خطیررقم حاصل کرتا تھا۔ آدھے پیسے اس کی جیب میں جاتے تھے۔کسی کوبھی عادی پہلوان کے اصل روپ کاپتہ نہیں تھا مگرعمروعیارکومعلوم تھاکہ وہ شاہی خزانے سے بھرپورفیض حاصل کرتاہے مگروہ خاموش رہتاتھاکیونکہ وہ بہت طاقتور تھا اور شاہی فوج اس کے ساتھ تھی۔ خیر، عمرو عیار اور عادی پہلوان، بادشاہ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ بادشاہ بہت اچھے موڈمیں تھا۔سب سے پہلے تواس نے دونوں مشیران کوایک ایک ہاؤسنگ کالونی انعام کے طورپردی اوران کی تنخواہ ڈبل کردی۔ پھر کام کی بات کی۔کہنے لگاکہ اب اس کی سلطنت کوکوئی خطرہ نہیں۔بس اب صرف دوکام باقی رہ گئے ہیں۔ ایک تواس نے اپنی ناجائز دولت میں بہت زیادہ اضافہ کرنا ہے۔

دوسرامسئلہ شاہی خاندان کے ایک باغی شہزادہ کا دماغ درست کرناہے۔ دراصل وہ شہزادہ ابھی ابھی تعلیم مکمل کر کے اپنے ملک واپس آیا تھا۔ لوگوں کے حقوق کی بات کرتاتھا۔ شاہی خاندان کی بدعمالیوں سے رعایاکوآگاہ کرتاتھا۔ شہزادہ دراصل اپنے ملک کے حالات بہتر کرنا چاہتا تھا۔ بادشاہ اس کے خیالات کی بدولت بہت تنگ تھا۔ شہزادہ بھی اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتاتھا،جوبادشاہ کاتھالہٰذا نفرت کے باوجود اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتاتھا۔اس کی ایک اور بہت بڑی وجہ عوام میں باغی شہزادے کی بے مثال مقبولیت تھی۔یہ باغیانہ خیالات اس کے لیے ناقابل قبول تھے۔

بادشاہ کی دونوں خواہشات سن کرعمروعیاراورعادی پہلوان نے عرض کی کہ یہ توبہت آسان کام ہے۔یہ دونوں کام چٹکی میں ہوجائیں گے مگر اس کی ایک شرط ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دونوں، لوگوں میں کبھی کبھی بادشاہ سلامت کی برائی کریںگے مگریہ سب کچھ اوپر اوپر سے ہو گا۔ مقصد محض بادشاہ کے دشمنوں کااعتمادحاصل کرنا ہو گا۔ بادشاہ نے ا س حکمتِ عملی کی اجازت دے دی۔ مگر عمرو عیار بادشاہ کی سادگی پردل ہی دل میں قہقہے لگارہاتھا۔

خیرچنددن گزرگئے۔عمرونے حاکم کی ذاتی دولت میں فقیدالمثال اضافہ کے لیے مختلف منصوبہ بندیاں شروع کر دی۔ کبوتروں کاایک غول اکھٹا کیا۔ ان کے ذریعہ سلطنت کے ہرحصے میں پیغام بھجوائے کہ بادشاہ اپنی رعایاکی بہتری کے لیے بہت سے فلاحی کام شروع کر رہا ہے۔ ساتھ ساتھ دوسرا پیغام یہ تھاکہ یہ سب کچھ بادشاہ عوامی ڈراورخوف سے کر رہا ہے۔ اس خوف کوپیداکرنے والے صرف دولوگ ہیں۔ان لوگوں کانام عادی پہلوان اور عمرو ہے۔یہی وہ دومشیرہیں جو بادشاہ کے سامنے ڈٹ کرعوام کی خوشحالی کی بات کرتے ہیں۔ باقی وزیراورمشیرتوجرات ہی نہیں رکھتے۔عوام میں ان کی باتوں کا بہت اثرہوا۔وہ ان دونوں کواپنا ہمدردسمجھنے لگے۔ادھر ان دونوں نے باغی شہزادہ کوپیغام بھجوایاکہ وہ نالائق حکمران سے بہت تنگ ہیں۔اوراب شہزادے کے دوست ہیں۔مقصدمحض یہ کہ عام لوگوں کو تعلیم، انصاف اور روزگار ملے۔باغی شہزادہ رموز سلطنت سے ناواقف تھا۔اسے محلاتی سازشوں کا بھی پتہ نہیں تھا۔عمروعیارکی نظرمیں وہ ناتجربہ کارتھامگرعادی پہلوان اسے بے وقوف سمجھتا تھا۔ خیرشہزادہ ان کی باتوں میں آگیا اور ان سے خفیہ طریقے سے ملنے لگ گیا۔

اب دونوں درباریوں نے سازش کی وہ منزل پالی جس سے وہ کچھ بھی حاصل کرسکتے تھے۔انھوں نے غریب کسانوں کے لیے خزانے سے مفت قرضے جاری کروادیے۔کسانوں نے قرضوں سے بیج خریدے اور فصلیں کاشت کرنی شروع کر دیں۔ اتفاق سے اس برس بہت اچھی بارشیں ہوئیں اور پیداواربہت بہترہوگئی۔بادشاہ کے حق میں درباریوں اور لوگوں نے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ ریاست میں ہر طرف خوشحالی آنے کے وعدے وعید شروع ہوگئے۔ایسے لگتا تھا کہ انقلاب آجائے گا۔ باغی شہزادہ بھی اس بات کی گہرائی تک نہ پہنچ سکا۔اس نے بھی حاکم وقت کے اچھے کاموں کی بھرپورتعریف شروع کردی۔


ادھر عمروعیارنے اپنادوسراکام شروع کردیا۔اب باغی شہزادہ اس پرمکمل اعتماد کرتا تھا لہٰذا اب اصل منصوبہ کوعملی جامہ پہنانے کاوقت آچکا تھا۔ عادی پہلوان اور اس نے ایک مقام پرباغی شہزادے سے خفیہ ملاقات کی۔ بتایاکہ حاکم کی نیت درست نہیں ہے۔ان تمام فصلوں کولوٹنے کا پروگرام بناچکاہے لہٰذاجیسے ہی بادشاہ یہ ظالمانہ کام کرنے لگے، شہزادہ بغاوت کااعلان کر دے۔ چنددن میں حکومت اس کے ہاتھ میں ہوگی اورپھروہ اچھے کاموں سے لوگوں کی قسمت بدل دے گا۔شہزادہ ناسمجھ تھا۔ وہ ان دونوں کی سازش کا شکار ہو گیا۔

بارش سے کسانوں کی پیداواردوگنی ہوگئی۔ لوگوں کواب یقین تھاکہ ان کی اوران کے بچوں کی قسمت اب بدلنے والی ہے۔ بس جیسے ہی کٹائی ہوگی، گھربھی روشن ہو جائیں گے۔ وہ بھی اپنے بچوں کوپڑھاسکیں گے۔ان کے کچے مکانوں کی جگہ پختہ اورمعیاری گھربن جائیں گے۔ مگر بادشاہ، عمرو عیار اور عادی پہلوان اپنی جگہ چپ سادھ کربیٹھے تھے۔کٹائی سے کچھ پہلے، بادشاہ نے مشاورت سے کئی جھتے ترتیب دیے۔ اب ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ جھتے کسانوں کے کھیتوں پر یلغار کرتے تھے۔ ان کو تلوارکے زورپرفصل کاٹنے پرمجبورکرتے تھے۔ مجبور کسانوں سے زبردستی فصل کٹواتے تھے۔اس کے بعد تمام فصل زبردستی لے جاتے تھے۔ جبر سے حاصل کی گئی ان فصلوں کومنڈیوں میں بیچنے کابھیانک شاہی نظام بنایا گیا تھا۔ جوبھی پیسے آتے تھے، وہ شاہی خزانے میں جمع کروادیے جاتے تھے۔مگراصل قصہ کچھ اور تھا۔ عمر و عیار اور عادی پہلوان اس دولت میں سے آدھے پیسے اپنے پاس رکھتے تھے۔باقی پیسے خزانے میں جمع کروائے جاتے تھے۔بادشاہ کو یہ سب کچھ معلوم نہیں تھا۔کیونکہ وہ ان کواپناہمدردگردانتاتھا۔بادشاہ کے اس ظالمانہ اقدام سے تمام لوگوں میں اس کے خلاف نفرت پھیل گئی۔ ہرطرف بربادی، غربت اورمفلسی نے ڈیرے ڈال لیے۔

موقعہ دیکھ کرسپہ سالارنے باغی شہزادے کومشورہ دیاکہ اب وہ بغاوت کااعلان کردے۔چنانچہ ایسے ہی ہوا۔شہزادے نے بغاوت کا جھنڈا بلند کردیا۔ لوگوں نے اس کے اردگردجمع ہوناشروع کردیا۔نوجوان،بچے،بوڑھے اورعورتیں،سب ساتھ مل گئے۔وہ ہروقت لاکھوں لوگوں کے جھرمٹ میں رہتا تھا۔ اس کے باغیانہ خیالات لوگوں کے دل کی آوازبن گئے۔ ایسے لگاکہ مایوس انسانوں کااب وہ واحد سہارا ہے۔ عمرو عیار اور عادی پہلوان نے اب اپنی حکمت عملی تبدیل کردی۔بادشاہ کی اجازت سے وہ باغی شہزادے سے سرِعام ملنے لگے۔ایسے معلوم ہونے لگاکہ بادشاہ کاتخت ڈولنے لگاہے۔معتمدترین لوگ بھی اس کوچھوڑنے لگے تھے۔ عوام ایک انقلاب کی طرف جانے لگے تھے۔ہرطرف ایک ہی آواز تھی کہ بادشاہ کواب تخت چھوڑناپڑے گا۔حدتویہ تھی کہ عمرواورسپہ سالار،بادشاہ کی غیرموجودگی میں مذاق اڑاتے تھے۔مگریہ سب کچھ بادشاہ کی اجازت سے ہورہاتھا،یہ کسی کوبھی پتہ نہیں تھا۔لوگوں کاکام ہی بیوقوف بنناہے۔لہذاوہ آسانی سے اُلوبن گئے۔

جب ایسے لگاکہ بغاوت کامیاب ہونے کو ہے، تو دونوں مصاحبین نے باغی شہزادہ کورات گئے بتایاکہ آج شاہی دستہ اس کے گھرپرحملہ کرے گا اور قتل کردے گا۔لہذااسے کچھ دن کے لیے ایک محفوظ جگہ پرچلے جاناچاہیے۔عمروعیارنے یہ کہا کہ کیونکہ اب اس کی حکومت آنے کو ہے لہذااسے ایک محفوظ قلعے میں پہنچانا،بطورخیرخواہ اس کی ذمے داری ہے۔ شہزادہ اپناگھرچھوڑنے کے لیے تیارنہیں تھا۔اسے ایسے لگتا تھا کہ اس حرکت سے عوام متنفرہوجائیںگے اوراس کو چھوڑ دیں گے مگرعمروعیارنے سمجھایاکہ یہ صرف چنددنوں کی بات ہے۔ جب عادی پہلوان یعنی سپہ سالاراس کی حفاظت کامتبادل انتظام کردے گا تووہ واپس آجائے۔شہزادہ ان کی چال میں آ گیا۔ عمروعیارگہری رات کوشاہی اڑن کھٹولے کے ساتھ آیا۔ باغی شہزادے کواس نے چلنے کاعندیہ دیا۔خیراندھیرے میں دونوں اس اڑن کھٹولے پرسوارہوگئے۔عمرو،اس سے آنے والے وقت کی میٹھی میٹھی باتیں کرتارہا۔مستقبل کی حکومت میں نئے اورایماندارلوگوں کی وزارتوں کی باتیں ہونے لگیں۔

شہزادہ بہت خوش ہوگیا۔ جب اڑن کھٹولابادلوں سے اوپرپہنچ گیا توعمرونے کہاکہ شہزادے آپ نیچے دیکھیں۔چنددنوں میں آپ ہرجگہ کے مالک ہوںگے۔ آپ کی انصاف پسندی اور ایمانداری کی بدولت ملک ترقی کی تمام منزلیں طے کرلے گا۔ اس نے شہزادے کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بیعت کر لی۔ جیسے ہی شہزادہ نیچے دیکھنے لگا،عمرونے شہزادے کو دھکا دیا اور اسے کھٹولے سے گرادیا۔شہزادہ سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ اس کے خلاف اتنی بھیانک سازش ہو گی۔ دھکا دیتے ہوئے عمر و عیار نے باغی شہزادے کوکہا،توتونادان ہے! رموزِحکومت سے بے خبر! انصاف اورمیرٹ صرف کتابی باتیں ہیں۔ ملک کے عوام تو بیوقوف بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں،اس ملک میں صرف طاقتور کوزندہ رہنے کاحق حاصل ہے۔شہزادے کاکیاانجام ہوا ، یہ کسی کومعلوم نہیں!

سب کچھ کرنے سے پہلے عمرواورعادی پہلوان بادشاہ کوہٹانے کامنصوبہ بناچکے تھے۔اب وہ ملک میں خودحاکم بننا چاہتے تھے۔یہ داستان کسی اوروقت۔

یہ ایک فرضی کہانی ہے۔اس کا ہمارے ملک کے حالات سے کوئی تعلق نہیں۔
Load Next Story