ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے
جمعرات کی شام آرٹس کونسل میں بیٹھا تھا کہ تیز بارش شروع ہوگئی۔ حبس صبح ہی سے تھا اور تیز بارش کی پیش گوئی بھی تھی۔
جمعرات کی شام آرٹس کونسل میں بیٹھا تھا کہ تیز بارش شروع ہوگئی۔ حبس صبح ہی سے تھا اور تیز بارش کی پیش گوئی بھی تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ بارش کے باعث شدید نوعیت کا ٹریفک جام ہوجائے گا۔ اس لیے فوراً ہی واپسی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ آرٹس کونسل سے گورا قبرستان کا راستہ بمشکل 5 سے 7 منٹ کا ہے۔ لیکن مجھے یہاں تک پہنچنے میں سوا دو گھنٹے لگ گئے۔ اس اثنا میں گاڑی میں CNG ختم ہوگئی۔ وہ تو بھلا ہو کہ پٹرول موجود تھا۔ اس لیے دقت نہیں ہوئی۔ ٹریفک جام کی ایک وجہ تو بلاشبہ شہر کے اس مرکزی حصے سے اپنے گھروں کی جانب واپسی تھی۔ لیکن سب سے بڑا سبب شاہراہ فیصل پر کھڑا پانی تھا، جو ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ ڈال رہا تھا۔
شاہراہ فیصل کراچی کی سب سے بڑی اور طویل ترین شاہراہ ہے، جس میں نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارشوں میں یہ سڑک جو ائیرپورٹ کو شہر کے مختلف حصوں سے ملانے کا ذریعہ ہے، جگہ جگہ تالاب کا منظر پیش کرتی ہے۔ مگر آج تک کسی حکومت نے اس شاہراہ پر کھڑے ہونے والے برساتی پانی کی نکاسی کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی۔ بلکہ یہ انتظار کیا جاتا ہے کہ مون سون ختم ہو اور عوام بارشوں کے دوران ہونے والی تکالیف کو بھول جائیں، تاکہ نکاسی آب کا مطالبہ بھی کھٹائی میں پڑجائے۔
دوسری طرف لاہور بھی ڈیڑھ ہفتے سے ایک بڑے تالاب کا منظر پیش کررہا ہے۔ ترقی کے وہ دعوے ہوا میں تحلیل ہوچکے ہیں، جو اس شہر کے بارے میں حکمران جماعت نے پھیلائے ہوئے تھے۔ راولپنڈی کا لئی نالہ ہر سال اس شہر کو بارشوں کے موسم میںڈبو دیتا ہے۔ شاید یہ بھی دہائیوں کا معاملہ ہے۔ مگر اس برس اربوں روپوں کی لاگت سے تعمیر کیے گئے میٹرو بس اسٹاپس لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں کسی بڑے تالاب کا منظر پیش کرکے حکمرانوں کی نااہلی پر مہر صداقت ثبت کررہے ہیں۔ جہاں تک لاہور کا ہر بارشوں میں بہت بڑی جھیل میں تبدیل ہونے کا منظر ہے، وہ میں اپنے بچپن سے دیکھتا آرہا ہوں۔ ہر سال شہر کے دیگر حصوں کا جو حال ہوتا ہے، وہ اپنی جگہ، مگر نسبت روڈ، لکشمی چوک اور میکلوڈروڈ کو معمولی سی بارش میں تالاب بنتے ہمیشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ دیگر چھوٹے بڑے شہروں کا حال اس سے بھی برا ہے۔ مگر کسی بھی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ نکاسی آب کے نظام کو بہتر بناسکے۔ دوسری طرف ملک کے پہاڑی علاقے گلگت اور چترال میں بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے۔ چند برس قبل گلگت کے قریب عطا آباد کے مقام پر گلیشئر کے پگھلنے کی وجہ سے ایک بڑی جھیل بن چکی ہے۔ مگر اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے۔
اس حقیقت سے ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ پاکستان جس خطے میں واقع ہے، وہاں 15 جون سے 31 اگست تک مون سون کا موسم رہتا ہے۔ جہاں کسی برس تیز اور کبھی ہلکی بارشیں صدیوں سے ہوتی چلی آرہی ہیں۔ موسمیاتی تغیرات کے ظہورپذیر ہونے کے بعد سے ماہرین ماحولیات وموسمیات مسلسل اس بات کی نشاندہی کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہر آنے والے برس بارشوں کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ مگر عقل و خرد سے عاری حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ آج تک کسی بھی وفاقی اور صوبائی حکومت نے اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی پیش بندی نہیں کی۔ ہمارے سامنے دو بڑے سانحات کی مثالیں ہیں۔ 2005 میں آنے والا تباہ کن زلزلہ اور پھر 2010 میں ہونے والی طوفانی بارشیں اور اس کے نتیجے میں بدترین سیلاب۔ ان دونوں سانحات نے حکومتوں اور منصوبہ سازوں کو بہت کچھ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے پر اکسایا تھا۔ مگر جب نااہلی اور مفاد پرستی ہو تو پھر مستقل بنیادوں پر پائیدار حکمت عملیاں تیار نہیں ہوتیں۔
وہ اور قومیں ہوتی ہیں، جو ایک سانحہ سے بہت کچھ سیکھتی ہیں اور پھر نہ صرف اس نوعیت کے بلکہ اس سے ملتے جلتے دیگر سانحات اور حادثات سے بچاؤ کی حکمت عملیاں مرتب کرتی ہیں۔ معروف مورخ اور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ جو قومیں کبھی غلام نہیں بنیں، وہ حقیقی معنی میں عزم و حوصلہ کا اظہار کرتی ہیں۔ جب کہ وہ قومیں صدیوں سے حملہ آوروں پر تکیہ کرنے کی عادی ہوچکی ہوں ان سے قومی حمیت، عزم وحوصلے اور دوراندیشی پر مبنی تدابیر اختیار کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے حکمرانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں اتنی صلاحیت، تدبر اور بصیرت نہیں کہ وہ کسی ممکنہ قدرتی آفت سے نمٹ سکیں۔ وہ مقتدر اشرافیہ کا اس لیے حصہ ہیں کہ ان کے پاس بڑی بڑی جاگیریں دی ہیں۔ اس لیے نااہلی کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنا یہ اپنا پشتینی حق سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ٹولہ ہے، جسے ملک و ملت کی فلاح و بہبود سے کوئی علاقہ نہیں ہے، بلکہ اپنے کمیشن اور کک بیکس کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ بیچارے صدیوں سے اس مقتدر اشرافیہ کے رحم و کرم پر چلے آرہے ہیں، ان کی نہ کوئی آواز ہے اور نہ ہی کوئی سننے والا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب متاثرین کے لیے عالمی برادری نے دل کھول کر امداد دی۔ مگر بے کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں خرچ ہوئی،اس کو دیکھتے ہوئے 2011 میں آنے والے سیلاب میں عالمی برادری نے امداد دینے سے اجتناب کیا۔ زلزلہ متاثرین کو آج 10 برس گزر جانے کے باوجود معاوضہ کی آخری قسط تک نہیں مل سکی ہے۔ اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بالاکوٹ کو نئی محفوظ جگہ منتقل کیا جائے گا۔ مگر یہ منصوبہ بھی ہنوز کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ جب کہ 2010 کے سیلاب زدگان بھی آج تک دربدر خاک بسر ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ ہے ہماری حکومتوں کی کارکردگی کا عالم۔
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ مختلف اداروں کی جانب سے مہیاکردہ اطلاعات ومعلومات اور عالمی سطح پر ہونے والی تحقیقات کا علم ہوجانے کے باوجود ہماری حکومتیں پہلے سے حفاظتی اقدامات کرنے سے کیوں غافل رہتی ہیں اور تساہل سے کام لیتی ہیں۔ پھر کوئی منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس منصوبے کے نشیب وفراز اور ممکنہ مسائل پر بحث ومباحثہ کیوں نہیں کیا جاتا۔
لہٰذا یہ طے ہے کہ ہر سال مون سون میں یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ ہر سال بارشیں اور سیلاب تباہی پھیلاتے رہیں گے۔ حکمران عوام کو جھوٹے دلاسے اور تسلیاں دلاتے رہیں گے۔ ہر بار کچھ رقم بانٹ کر ان کا منہ بند کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں گے۔ جب کہ امداد کی بیشتر رقوم کو ہڑپ کرتے رہیں گے۔ مگر پیش بندی کے طور پر دھیلے کا کام نہیں کریں گے۔ کیونکہ قوموں کو مسائل ومصائب سے نکالنے کے لیے جس عزم وبصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان کی مقتدر اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) اس سے عاری ہے۔