شادی سے پہلے اور شادی کے بعد
وہ پہلے باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی تھی۔ پھر میری بیوی بن گئی اور اب میں اس کی باتوں کی بارش میں بھیگتا رہتا ہوں
وہ پہلے باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی تھی۔ پھر میری بیوی بن گئی اور اب میں اس کی باتوں کی بارش میں بھیگتا رہتا ہوں!!
یہ بات میں نے موسم کی ادا دیکھ کر لکھی اور پھر سوچنے لگا کہ ''کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں''
اب سوچتا ہوں کہ کاش! میں سندھی زباں کے عظیم مزاحیہ نگار حلیم بروہی کی یہ بات مان لیتا۔ جس نے لکھا تھا کہ ''اگر عشق کیا ہے تو پھر شادی نہ کرنا'' مگر یہ قصور میرا نہیں تھا۔ یہ سارا قصور ان رومانوی ناولوں کا تھا جن میں لکھا تھا کہ ''عشق کی منزل شادی ہوا کرتی ہے''اب سمجھ میں آتا ہے کہ اردو کے عظیم شاعر نے کیوں لکھا تھا کہ:
اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آجائے
مگر اس سفر میں انسان اپنے ساتھ کسی کو برداشت نہیں کرتا۔ رہبر کامل کو بھی نہیں۔ اگر اس سفر میں ہمارے ساتھ کوئی رہبر کامل ہوتا اور وہ ہمیں نکاح کے موڑ پر بھٹکا دیتا تو آج مجھے یہ کالم لکھنا اور آپ کو پڑھنا نہ پڑتا۔
مگر میری اس کیفیت کو وہ قاری سمجھنے سے قاصر رہیں گے جو ابھی تک عشق کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس لیے اس تحریر کو صرف شادی شدہ حضرات تک محدود سمجھا جائے۔ کیوں کہ یہ وہ مخلوق ہے جو جانتی ہے کہ ''شادی سے پہلے اور شادی کے بعد'' کی دنیا کیسی ہوتی ہے۔ جو لوگ سکے کے دونوں رخ دیکھتے ہیں انھیں معلوم ہے مرد ایک کامیاب عاشق ہونے کی کوششں میں ایک ناکام شوہر کس طرح ہوجاتا ہے؟
شادی کے بعد محبت کی بارش طوفان بن جاتی ہے اور انسان کا حشر اگر چترال جیسا نہیں تو کم از کم اس کراچی جیسا ضرور ہوجاتا ہے جہاں ابر کرم جم کر بھی نہیں برستا کہ شہر جل تھل ہوجاتا ہے۔ یہ کراچی کا کمال ہے جہاں آسمان سے بارش ابھی برسنا شروع کرتی ہے تو زیر زمین سیوریج کے سارے نالے کھل جاتے ہیں۔ گٹر ابلنا شروع ہوجاتے ہیں اور انسان خود کو دو پانیوں کے درمیاں پھنسا ہوا پاتا ہے۔
اب میں سمجھ بھی سکتا ہوں اور سمجھا بھی سکتا ہوں کہ نوجوان بارش کے موسم میں خوش کیوں ہوتے ہیں اور شادی شدہ حضرات بارش کو دیکھ کر اداس کیوں ہوجاتے ہیں؟ شادی سے پہلے محبت بارش کی رم جھم ہوا کرتی ہے اور شادی کے بعد محبت طوفانی بارش بن جاتی ہے! شادی سے پہلے بجلی کڑکتی ہے تو کوئی قریب آ جاتا ہے اور شادی کے بعد بادل گرجتا ہے تو انسان کو بیوی کا غصہ یاد آجاتا ہے۔شادی کے بعد بچے پیدا ہوں نہ ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ صرف چند برسوں کے بعد انساں خود بچہ بن جاتا ہے۔ جس طرح اچھے بچے صبح کو اسکول جاتے ہیں اور دوپہر کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ اسی طرح شادی کے بعد مرد سیدھا دفتر جاتا ہے اور دفتر سے گھر چلا آتا ہے۔
فیض احمد فیض نے لکھا تھا کہ:
گو سب کو بہم ساغر بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
کس قدر اچھا لگا کرتا تھا یہ شہر شادی سے پہلے! روشنیوں سے کھیلتا ہوا۔ ہنستا ہوا۔ گاتا ہوا۔ دل لبھاتا ہوا!! اور شادی کے بعد انسان لوگوں سے بھرے ہوئے شہر کو دیکھتے ہوئے یہ گنگنانے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے کہ:
''لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں''
اس لیے شادی شدہ شخص شہر میں آوارہ گردی نہیں کرتا۔ شادی انسان کو ایسا پرندہ بنا دیتی ہے جو پنجرے کے بغیر سکون محسوس نہیں کرتا۔
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملی بھی تو مرجائیں گے
شادی سے پہلے انسان سوچ بھی نہیں سکتا وہ آزادی جو اسے ہر چیز سے عزیز ہوا کرتی تھی؛ اس آزادی کو آوارہ گردی کہا جائے گا۔
شادی سے پہلے انسان سمجھتا ہے کہ وہ اپنی دنیا بنائے گا۔ جہاں صرف محبت ہوگی۔ محبت کی تلاش میں اس کو ایک ایسی دنیا ملتی ہے جس میں وہ تنگ بھی ہوتا ہے مگر وہاں سے نکلنا بھی اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ شادی انسان کو کیا دیتی ہے؟
ایک گھر جس میں وہ خود ساختہ قید کے مزے لوٹتا ہے۔
ایک بیوی جو اسے مسلسل احساس جرم میں مبتلا رکھتی ہے۔اور بہت سارے بچے جو اپنے باپ کا حشر دیکھ کر شادی کے نام سے ڈر جاتے ہیں!
یہی کچھ نہیں بلکہ شادی انساں کو بہت سارے رشتہ دار بھی عطا کرتی ہے۔ ان رشتہ داروں کے رشتے اتنے پیچیدہ ہوا کرتے ہیں کہ انساں اس کے لیے صرف اپنی بیوی کی سنتا ہے۔ رشتوں کے ان تانوں بانوں کو صرف وہ خاتون سمجھتی، سلجھاتی اور بسا اوقات الجھاتی رہتی ہے۔ مرد تو کچے دھاگے میں بندھا ہوا وہ غلام ہوتا ہے جو صرف ہلکے سے اشارے پر دوڑا چلا آتا ہے۔
یونان کے دانا انسان سقراط نے کہا تھا کہ ''ایک اچھا فلسفی بننے کے لیے بری بیوی کا ہونا لازمی ہے'' اس بات کو ذہن میں رکھ کر جب سقراط کی زندگی اور موت کا تجزیہ کیا جائے تو ہر شادی شدہ شخص کو یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجائے گی کہ سقراط نے ایک چھوٹی سی بات پر زہر پینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ حالانکہ اس کے بااثر شاگرد اسے آزاد کروانے کا پورا بندوبست کرچکے تھے مگر سقراط نے سوچا کہ ''اب قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے؟'' اور یہ سوچ کر اس نے زہر کا جام نوش کیا۔ نوجوان سمجھتے ہیں کہ سقراط نے سچ کی خاطر موت کو گلے سے لگایا اور شادی شدہ افراد جانتے ہیں کہ سقراط نے بیوی سے جان چھڑانے کے لیے خودکشی کرلی!
شادی کس کی ایجاد ہے؟
مرد کی یا عورت کی؟
اگر شادی مرد کی ایجاد ہوتی تو مرد شادی کے بعد خوش رہتا۔ اس لیے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ شادی صرف اور صرف عورت کی ایجاد ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ شادی کے بعد عورت آزاد اور مرد قید ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا بندھن ہے جو غلام کو آقا اور آقا کو غلام بنادیتا ہے۔
شادی سے پہلے عورت اپنے والد کے گھر میں بیحد مشکل زندگی جیتی ہے۔ اسے ہر بات کے لیے باپ کی اجازت درکار ہوا کرتی ہے۔ وہ کہاں جائے؟ وہ کیا کھائے؟ کیا پہنے؟ کس سے بات کرے؟ کس سے پردہ کرے اور کس سے ملے؟ ان باتوں کا فیصلہ ان کے والدین کرتے ہیں مگر شادی کے بعد جیسے ہی نکاح ہوتا ہے عورت کے ہاتھ آزادی کا پروانہ لگ جاتا ہے اور وہ اپنے ساتھ ہونے والی ساری زیادتیوں کا بدلہ اپنے شوہر سے لیتی ہے۔ شادی کے بعد اس بات کا فیصلہ عورت کرتی ہے کہ اس کا شوہر کہاں جائے؟ کیا کھائے؟ کیا پہنے؟ کس سے بات کرے؟ کس سے پردہ کرے؟ کس سے ملے اور کس سے ملنے کا تصور بھی نہ کرے!! ان ساری باتوں کے لیے شوہر کو بیوی کی اجازت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
معلوم نہیں کہ نفسیات کے ماہرین شادی کو مرد کے لیے سیفٹی والو کیوں نہیں قرار دیتے؟ وہ مرد جو شادی سے پہلے غصے سے بھرا ہوا رہتا ہے شادی کے بعد عورت پریشر ککر کی طرح آہستہ آہستہ اس کا سارا غصہ نکال لیتی ہے۔ شادی کے بعد وہ مرد ایک دیگچی بن جاتا ہے۔ جس میں کبھی آلو بنائے جاتے ہیں اور کبھی دال!
شادی صرف انسان کے ذاتی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ شادی کے ملکی سیاست پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوا کرتے ہیں۔ وہ عمران خان جو شادی سے قبل صرف شک کی بنیاد پر 126 دن تک دھرنا دیے بیٹھا رہا۔ شادی کے بعد اس عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ سر آنکھوں پر رکھا اور کسی قسم کی احتجاجی تحریک چلانے کا اس نے اشارہ بھی نہیں دیا۔ اس لیے سیاسی مبصر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ''شادی کے جمہوریت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں''۔