غلط فہمی

پاکستان کے بارے میں دنیا کے بیشتر لوگوں کے اندازے غلط ہیں، ہم کیسے ہیں؟ ہمارا ملک کیسا ہے؟


Wajahat Ali Abbasi July 27, 2015
[email protected]

پاکستان کے بارے میں دنیا کے بیشتر لوگوں کے اندازے غلط ہیں، ہم کیسے ہیں؟ ہمارا ملک کیسا ہے؟ غیر پاکستانیوں کو یہ سمجھنے کا مناسب موقع مل ہی نہیں پاتا اور اس میں ان کی کوئی غلطی بھی نہیں، آئے دن پاکستان کو لے کر ایسی خبریں آتی ہیں جن سے ہمارا نام خراب ہوتا ہے۔

اس سال عید کے پہلے دن بروکلین نیویارک میں رہنے والے ایک لڑکے نے رات دس بجے اپنے باپ کے ظلم و تشدد سے تنگ آکر اس کو کچن میں رکھے چاقو سے وار کرکے قتل کردیا، امریکا میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی بچے نے اپنے والدین میں سے کسی کو مارا، لیکن یہ خبر بڑی بن گئی کیونکہ اس لڑکے کا تعلق پاکستان سے تھا۔

انیس سالہ حسن رزاق کے دوست، اسکول، ماحول سب امریکن تھا لیکن خبروں میں نام اچھلا پاکستان کا، ایسے ہی کچھ عرصے پہلے شکاگو میں رہنے والے ایک صاحب محمد وقاص خان نے اپنے فیس بک پیج پر لکھ دیا کہ میں شہر کے میئر کو مار کر پاکستان بھاگ جاؤں گا جب کہ وقاص کو گرفتار بھی کیا گیا اور ان پر مقدمہ بھی چلا لیکن نام خراب ہوا بے چارے پاکستان کا، جس کا سرے سے شکاگو کے میئر سے اور کسی حد تک وقاص سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔

آج کل سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے اور یہی وہ سب سے بڑا ذریعہ ہے ہم پاکستانیوں کے پاس اپنے ملک کا امیج بہتر کرنے کا، پچھلے ایک ہفتے میں ہماری فیس بک پر کوئی تین درجن پاکستانیوں نے اس انیس سالہ لڑکے حسن رزاق کی خبر کو شیئر کیا ہے جس نے اپنے والد کو قتل کردیا۔

جس پاکستانی کو یہ بات نہیں پتہ تھی انھیں معلوم ہوگئی، ساتھ ہی ان کے فیس بک پر موجود نان پاکستانیوں نے بھی یہ خبر پڑھی اور خبر میں اس لڑکے کے نام سے پہلے پاکستان کا نام دیکھا اور لڑکے سے زیادہ ملک کے لیے برا امپریشن قائم کیا۔

دنیا کو لگتا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں، ہم لوگ اپنی خواتین کو ڈرا دھمکا کر رکھتے ہیں اور بڑے ہوجانے پر لڑکیوں کو گھر سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی، مستقبل میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ پنپنے نہیں دیتے، وہ دنیا جنھیں نہیں پتہ کہ پاکستان میں نمرہ سلیم جیسی لڑکیاں بھی موجود ہیں۔

نمرہ سلیم 1975 میں کراچی میں پیدا ہوئیں اور بچپن سے ہی انھیں دنیا Explore کرنے کا شوق تھا، شوق صرف لندن امریکا گھومنے کا نہیں بلکہ ایسی جگہوں پر جانے کا عزم جہاں کسی کا بھی جانا مشکل ہو، اگر پاکستانی سوسائٹی اور ان کا خاندان اس خواب کو پورا کرنے میں ان کا ساتھ نہیں دیتا تو یہ محض خواب ہی رہ جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اپریل 2007 میں نمرہ پہلی ایسی پاکستانی لڑکی تھی جو نارتھ پول تک پہنچی، وہ کامیابی جو دنیا میں کسی کے لیے بھی بڑی ہوگی لیکن نمرہ وہیں نہیں رکیں، 2008 میں انھوں نے ساؤتھ پول کا سفر بھی مکمل کیا۔

نمرہ وہ پہلی پاکستانی ہیں جنھوں نے ماؤنٹ ایورسٹ اسکائی ڈائیو بھی کی ہے۔ 2008 میں ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلا اسکائی ڈائیونگ ایونٹ منعقد کیا گیا جس میں نمرہ صرف پاکستان کو نہیں پورے ایشیا کی خواتین کی نمایندگی کر رہی تھیں۔

انگلینڈ کے ایک بہت بڑے بزنس مین رچرڈ برن سن نے Virgin Galctic کمپنی بنائی ہے جو دنیا کی پہلی کمرشل ایئرلائنز ہے جو عام لوگوں کو Space میں لے جاتی ہے، ریسرچرز اور سائنسدان جو اسپیس یا سیٹلائٹ پر کام کر رہے ہیں ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ ایئرلائنز بنائی گئی ہے، 2005 میں اس ایئرلائن کی ٹیسٹ پرواز ہوئی جس میں 44,000 لوگوں کی لسٹ میں سے سو (100) لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا جس میں نمرہ سلیم ایک تھیں، مارچ 2006 میں نمرہ واحد پاکستانی تھیں جو اس فلائٹ پر گئیں، اسی لیے انھیں اسپیس میں جانے والی پہلی پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اگست 2006 میں حکومت پاکستان نے آفیشلی نمرہ کو پہلی خلا باز خاتون ہونے کا اعزاز دیا جس پر نمرہ سلیم نے کہا کہ میں تو ایک عام لڑکی ہوں مگر میں امید کرتی ہوں کہ کسی بھی طرح پاکستانی خواتین کو Motivate کرسکوں۔

اکتوبر 2007 میں نمرہ نے امریکا جاکر Suborbital Certificate بھی حاصل کیا جسے وہ پاکستان لے کر واپس آئیں تو فروری 2008 میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل مشرف نے بھی انھیں اعزاز سے نوازا۔

نہ صرف نمرہ اس طرح کامیاب ہیں بلکہ انھوں نے اپنی پینٹنگس کے ذریعے امن کا پیغام بھی پھیلانے کی کوشش کی ہے، پچھلے پندرہ سال سے وہ دنیا بھر میں اپنی تصاویر کی نمائشیں منعقد کرتی ہیں اور لوگوں کو امن اور بھائی چارے کا پیغام پہنچاتی ہیں۔

23 مارچ 2011 کے صدر آصف زرداری نے تمغہ امتیاز نمرہ کو دیا، وہ اس وقت مراکو میں رہتی ہیں لیکن صرف اپنے لیے نہیں رہتیں بلکہ 2009 میں ان کی کوششوں سے پاکستان اور مراکو کے تعلقات میں بہتری آئی، مراکو نے نمرہ کو پہلا پاکستانی آنریری قونصلر بنایا اور اسی وجہ سے 2012 میں پہلی پاکستانی قونصلیٹ بھی مراکو میں کھل گئی۔

کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کو کوئی نہ کوئی سیڑھی درکار ہوتی ہے، کوئی سپورٹ سسٹم ہونا چاہیے، کبھی کوئی چاچا ماما کبھی کوئی اور رشتے دار کسی پوزیشن پر ہو تب ہی آپ آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ انسان آگے ایک ہی چیز سے بڑھتا ہے اور وہ ہے ''جذبہ''۔ وہی جذبہ جو نمرہ میں بھی تھا، جو انھوں نے کسی ایک کامیابی کے بعد ختم نہیں ہونے دیا بلکہ ایک کے بعد دوسری کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوگئیں۔

پاکستان کے بارے میں غیر ممالک کے لوگوں کو غلط فہمی ہے، یہ ان کی غلطی نہیں ہے لیکن ہم نمرہ سلیم جیسے لوگوں کی کہانی بار بار فیس بک پر شیئر نہیں کرتے تاکہ لوگوں کو ایسے پاکستانیوں کے بارے میں بھی پتہ چلے تو یہ ہماری غلطی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں