لالو کھیت کے بے تاج بادشاہ
اچھا شعر سننے اور سمجھنے کو ہر پڑھے لکھے شخص کا دل چاہتا ہے۔
اچھا شعر سننے اور سمجھنے کو ہر پڑھے لکھے شخص کا دل چاہتا ہے۔ کچھ اسی قسم کی عادت مجھ میں بھی ہے۔ مجھے پچپن ہی سے اقبال، غالب، ذوق اور میر کی شاعری سے شغف رہا ہے۔ بعد میں آنے والے شعراکرام جن میں فیض احمد فیض، عزیز حامد مدنی اور احمد فراز بھی میرے مطالعے میں آتے رہے۔ اگر آپ شاعری نہیں کرتے تو لوگ جانتے ہیں کہ آپ ایک اچھے سامع ہیں۔ اس لیے ٹٹ پونجئے قسم کے شاعر اپنے دیوان لیے آپ کے پیچھے گھومتے رہتے ہیں۔ یہ وہ شاعری ہیں جن کی اکثریت لالوکھیت میں رہتی ہے۔ ایک مثل مشہور ہے کہ لالوکھیت میں جو پتھر اٹھاؤ، اس کے نیچے سے چار پانچ شاعر نکل آتے ہیں۔ ایسے شاعر شہرت، عزت اور دولت کے لیے شاعری کرتے ہیں۔ اخبارات کے ادبی کالم نویسوں سے ان کی اٹی شٹی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا نام نامی اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے۔ اپنا نیا مجموعۂ کلام شایع کرانے کے بعد (اپنی جیب خاص سے تیس چالیس ہزار روپے خرچ کرنے کے بعد) وہ ہر اخبار میں اس کی دو جلدیں تبصرہ نگار کو دے کر آتے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ وہ اچھی جگہ تبصرہ شایع کریں۔
عزت انھیں پھر بھی نہیں ملتی اور بیوی کی دانتا کِل کِل سے تنگ آکر وہ اپنے دیوان کی ساری جلدیں ٹھیلے والے کو نہایت کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں کہ غریب قاری اسے خرید کر مجھ سے آشنا ہوجائے گا۔ جہاں تک دولت کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ ان سے روٹھی رہتی ہے۔ (ایسے شاعر وہ ہوتے ہیں جو شاعری کے سوا کچھ نہیں کرتے) دال روٹی اور گھر کے معاملات چلانے کے لیے مشاعرہ گرم ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور منتظمین کی خوشامد کرکے ایک دعوت نامہ حاصل کرلیتے ہیں تاکہ جب مشاعرے میں شرکت کرکے لوٹیں تو ایک لفافہ ان کی جیب میں ہو۔ پروگرام کرنے والے اسٹیج سیکریٹری سے تعلقات بنا کر رکھو۔ اس کی مٹھی چاپی کرتے رہو۔ اس کے پاس جاکر اپنا نام درج کراؤ اور سرگوشی میں کہہ دو کہ مجھے آخر میں پڑھوائیے گا۔ (یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ اچھے شاعر آخر ہی میں پڑھوائے جاتے ہیں اور ٹٹ پونجئے پہلے ہی نمٹا دیے جاتے ہیں۔ ورنہ اچھے شاعروں کو سننے کے بعد سب اٹھ کر اپنے گھروں کو چل دیں)۔
مجھے اس کا اعتراف ہے کہ شاعری ہمارے وطن عزیز میں کچھ زیادہ ہی ہونے لگی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سامع کم اور شاعر زیادہ ہوچکے ہیں۔ سامع تو کہیں تلاش کرنے کے بعد ہی ملتا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف مجھ پر یوں ہوا کہ بیوی نے میرے ہاتھ میں دسترخوان دے کر کہا کہ کھانے کا وقت ہورہا ہے، بازار سے جاکر چار روٹیاں لے آئیے۔
میں نے دسترخوان سنبھالا اور گھر سے باہر آگیا۔ گلی کے نکڑ پر میاں لڈن لالوکھیتوی مل گئے۔ لالوکھیت کی چند آخری یادگاروں میں سے ایک۔ انھیں بھی شاعری کا شوق تھا۔ صرف شوق تھا اور اس شوق کے نام پر وہ شاعری کے نام کو بٹّا لگا رہے تھے۔ مشاعروں میں کوئی بلاتا نہیں تھا تو خود ہی چلے جایا کرتے تھے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر لہکتی آواز میں کہا۔ ''صبغت صاحب! تازہ غزل کل رات ہی وارد ہوئی ہے، سنیے گا؟''
میں نے اثبات میں سر کو جنبش دی تو انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال لیا۔ مرزا لڈن وضع قطع کے لحاظ سے یقیناً شاعر لگتے تھے۔ بڑے بڑے بال، سلگتی آنکھیں، ملگجے کپڑے، ان کے کپڑے داغدار تھے، میں نے قیاس لگایا کہ جب صبح ان کا بیٹا اسکول جارہا ہوگا تو اسے جوتے صاف کرنے کے لیے برش نہ ملا، اس لیے اس نے ابّا کا کرتا لے کر جوتے صاف کرلیے۔ ابّا نے اٹھ کر اسی کرتے کو پہن لیا اور گلی میں پان لینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ان کا بیان (جو تھوڑی دیر بعد جاری ہوا) تھا کہ اگر انھیں صبح کی چائے اور پان ڈبل قوام کی ایک گلوری نہ ملے تو دنیا سُونی سُونی سی لگتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہی نہیں ہوئی۔
ان کے نام کے ساتھ لالوکھیتوی سن کر آپ ضرور چونکے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ افراد جو اپنا وطن مالوف چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں انھوں نے اس خطۂ زمین کو ابھی تک اپنا نہیں سمجھا۔ مثال کے طور پر وحشت کلکتوی، دلربا دہلوی، لطیف لکھنوی وغیرہ۔ وہ اپنے سروں پر اپنا وطن مالوف کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں؟ اپنا شعری نام رکھتے ہوئے انھیں ناظم آباد، لالوکھیت، چاکیواڑہ، ملیر، نیو کراچی اور ناگن چورنگی کیوں یاد نہیں آتے۔ اسی لیے انھوں نے اپنا قلمی نام لڈن لالوکھیتوی رکھ لیا تھا۔
غالباً انھیں کسی سامع کی تلاش تھی اس لیے وہ گلی میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولتے پھر رہے تھے۔ وہ شعر کم ہی کہتے تھے اور اصلاح زیادہ کرتے تھے۔ جہاں کوئی اچھی غزل دکھائی دی، وہ اس پر رندا مار دیتے تھے، جیسے بڑھئی لکڑی کو سنوارنے کے لیے رندا مارتے ہیں۔ (تیاپانچہ یا پوسٹ مارٹم بھی مناسب لفظ ہے) اس کے بعد وہ نہایت دھڑلے سے اس غزل کو اپنا بنا کر پیش کردیتے تھے۔ پان کی گلوری منہ میں رکھتے ہوئے انھوں نے کہا:
آزمائش یہ بھی کسی اور پر نہیں آئی
کہ ساری زندگی چلے اور مکان نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں بے وفائیوں کی شکایت
سفر ختم ہوا ہمسفر نہیں آیا
میں نے سمجھ لیا کہ آج وہ کسی شاعر کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرا شعر گوش گزار کرتے۔ میری اہلیہ نے کڑکتی آواز میں کہا: ''میں نے آپ کو روٹیاں لانے کے لیے بھیجا تھا، تاکہ بچے ناشتا کرکے اسکول جاسکیں۔ آپ نے یہاں محفل مشاعرہ گرم کیا ہوا ہے۔ لائیے دسترخوان مجھے دے دیجیے۔''
میں خجل سا ہوگیا۔ اس موقع پر کیا کہنا چاہیے۔ مجھے قطعی پتا نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بیگم سے معذرت کروں یا لڈن لالوکھیتوی سے معافی مانگوں۔ ان سے معافی مانگنے میں عافیت نظر آئی، اس لیے کہ بیگم کی نافرمانی میں ازدواجی زندگی خطرے میں پڑسکتی تھی۔
معلوم نہیں کہ بیگم نے لڈن لالوکھیتوی کا کیا حشر کیا۔ اس لیے کہ میں کافی دور نکل گیا، لیکن اس کے باوجود ان کی کڑوی کسیلی آواز میری سماعت سے ٹکراتی رہی۔
یوں تو لڈن لالوکھیتوی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، لیکن سب سے یادگار ملاقات یا منظر انڈو پاک مشاعرے کا تھا۔ ان کا نمبر دوسرا یا تیسرا تھا۔ مشاعرے کے منتظمین سے ان کے تعلقات غالباً بہت ہی اچھے تھے جو انھیں پڑھنے کے لیے دعوت دے دی گئی۔ ابھی انھوں نے کسی بڑے شاعر کے کلام پر اصلاح آمیز کلام سنایا تو ایک آواز آئی۔ ''کوئی ہے؟ اسے باہر نکالو۔''
دوسری آواز۔ ''اسے کس نے بلایا ہے؟''
تیسری آواز۔ ''یہ ہند و پاک مشاعرہ ہے یا بھٹیار خانہ؟''
لڈن لالوکھیتوی نے بے حیائی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، اس لیے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ غالباً انھیں فوٹو گرافر کا انتظار تھا۔ پریس کو اطلاع دیر سے دی گئی تھی یا لوگ ان کی شہرت سے واقف تھے، اس لیے کسی چینل نے اپنا کیمرا اسٹارٹ ہی نہیں کیا۔ ممکن ہے اخبارات ان کی تصویر کھینچ کر مشاعرے کو بدنام نہیں کرنا چاہتے ہوں۔ عبرت ناک منظر یہ تھا کہ مجمع سے چند لونڈے اٹھے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ، اسٹیج پر چڑھ گئے۔ پھر کچھ نے انھیں دھکا دیا اور چند ٹانگیں اور ہاتھ تھام کر ڈنگا ڈولی کرتے ہوئے انھیں کافی دور پھینک آئے۔ ایک کرم فرما کا بیان ہے کہ وہ انھیں ''فور جے'' نامی بس میں بٹھا کر آئے تھے اور انھوں نے کنڈیکڑ کو ہدایت کردی تھی کہ انھیں لالوکھیت آنے سے پیشتر نہ اترنے دیا جائے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو اس کی اچھی طرح سے درگت بنائیں گے۔
لڈن لالوکھیتوی امور خانہ داری کس طرح سے چلاتے تھے؟ اس طرح سے کہ پہلے انھیں ایک پرائمری اسکول میں اردو کا استاد مقرر کیا گیا اور جب طالب علموں کی اردو کا معیار کافی گرگیا تو انھیں اسکول سے نکالا نہیں گیا، البتہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے انھیں پیشکش کی اگر وہ چوکیداری قبول کرلیں تو اپنا روزگار سلامت رکھ سکیں گے۔ لڈن لالوکھیتوی نے بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کے مترادف اسے قبول کرلیا۔
ایک روز یہ خبر مجھ تک ایک معقول شخص نے پہنچائی کہ لڈن لالوکھیتوی نے دو شعری مجموعے ترتیب دے دیے ہیں اور وہ انھیں شایع کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سانحہ ان کے انتقال کا سبب بن گیا، اس لیے کہ کوئی ان سے زیادہ ''چلتا پھرتا'' شاعر مجموعوں کو چوری کرکے لے گیا اور اس نے انھیں اپنے نام سے شایع کروادیا۔
عزت انھیں پھر بھی نہیں ملتی اور بیوی کی دانتا کِل کِل سے تنگ آکر وہ اپنے دیوان کی ساری جلدیں ٹھیلے والے کو نہایت کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں کہ غریب قاری اسے خرید کر مجھ سے آشنا ہوجائے گا۔ جہاں تک دولت کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ ان سے روٹھی رہتی ہے۔ (ایسے شاعر وہ ہوتے ہیں جو شاعری کے سوا کچھ نہیں کرتے) دال روٹی اور گھر کے معاملات چلانے کے لیے مشاعرہ گرم ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور منتظمین کی خوشامد کرکے ایک دعوت نامہ حاصل کرلیتے ہیں تاکہ جب مشاعرے میں شرکت کرکے لوٹیں تو ایک لفافہ ان کی جیب میں ہو۔ پروگرام کرنے والے اسٹیج سیکریٹری سے تعلقات بنا کر رکھو۔ اس کی مٹھی چاپی کرتے رہو۔ اس کے پاس جاکر اپنا نام درج کراؤ اور سرگوشی میں کہہ دو کہ مجھے آخر میں پڑھوائیے گا۔ (یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ اچھے شاعر آخر ہی میں پڑھوائے جاتے ہیں اور ٹٹ پونجئے پہلے ہی نمٹا دیے جاتے ہیں۔ ورنہ اچھے شاعروں کو سننے کے بعد سب اٹھ کر اپنے گھروں کو چل دیں)۔
مجھے اس کا اعتراف ہے کہ شاعری ہمارے وطن عزیز میں کچھ زیادہ ہی ہونے لگی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سامع کم اور شاعر زیادہ ہوچکے ہیں۔ سامع تو کہیں تلاش کرنے کے بعد ہی ملتا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف مجھ پر یوں ہوا کہ بیوی نے میرے ہاتھ میں دسترخوان دے کر کہا کہ کھانے کا وقت ہورہا ہے، بازار سے جاکر چار روٹیاں لے آئیے۔
میں نے دسترخوان سنبھالا اور گھر سے باہر آگیا۔ گلی کے نکڑ پر میاں لڈن لالوکھیتوی مل گئے۔ لالوکھیت کی چند آخری یادگاروں میں سے ایک۔ انھیں بھی شاعری کا شوق تھا۔ صرف شوق تھا اور اس شوق کے نام پر وہ شاعری کے نام کو بٹّا لگا رہے تھے۔ مشاعروں میں کوئی بلاتا نہیں تھا تو خود ہی چلے جایا کرتے تھے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر لہکتی آواز میں کہا۔ ''صبغت صاحب! تازہ غزل کل رات ہی وارد ہوئی ہے، سنیے گا؟''
میں نے اثبات میں سر کو جنبش دی تو انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال لیا۔ مرزا لڈن وضع قطع کے لحاظ سے یقیناً شاعر لگتے تھے۔ بڑے بڑے بال، سلگتی آنکھیں، ملگجے کپڑے، ان کے کپڑے داغدار تھے، میں نے قیاس لگایا کہ جب صبح ان کا بیٹا اسکول جارہا ہوگا تو اسے جوتے صاف کرنے کے لیے برش نہ ملا، اس لیے اس نے ابّا کا کرتا لے کر جوتے صاف کرلیے۔ ابّا نے اٹھ کر اسی کرتے کو پہن لیا اور گلی میں پان لینے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ان کا بیان (جو تھوڑی دیر بعد جاری ہوا) تھا کہ اگر انھیں صبح کی چائے اور پان ڈبل قوام کی ایک گلوری نہ ملے تو دنیا سُونی سُونی سی لگتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہی نہیں ہوئی۔
ان کے نام کے ساتھ لالوکھیتوی سن کر آپ ضرور چونکے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ افراد جو اپنا وطن مالوف چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں انھوں نے اس خطۂ زمین کو ابھی تک اپنا نہیں سمجھا۔ مثال کے طور پر وحشت کلکتوی، دلربا دہلوی، لطیف لکھنوی وغیرہ۔ وہ اپنے سروں پر اپنا وطن مالوف کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں؟ اپنا شعری نام رکھتے ہوئے انھیں ناظم آباد، لالوکھیت، چاکیواڑہ، ملیر، نیو کراچی اور ناگن چورنگی کیوں یاد نہیں آتے۔ اسی لیے انھوں نے اپنا قلمی نام لڈن لالوکھیتوی رکھ لیا تھا۔
غالباً انھیں کسی سامع کی تلاش تھی اس لیے وہ گلی میں کٹی پتنگ کی طرح ڈولتے پھر رہے تھے۔ وہ شعر کم ہی کہتے تھے اور اصلاح زیادہ کرتے تھے۔ جہاں کوئی اچھی غزل دکھائی دی، وہ اس پر رندا مار دیتے تھے، جیسے بڑھئی لکڑی کو سنوارنے کے لیے رندا مارتے ہیں۔ (تیاپانچہ یا پوسٹ مارٹم بھی مناسب لفظ ہے) اس کے بعد وہ نہایت دھڑلے سے اس غزل کو اپنا بنا کر پیش کردیتے تھے۔ پان کی گلوری منہ میں رکھتے ہوئے انھوں نے کہا:
آزمائش یہ بھی کسی اور پر نہیں آئی
کہ ساری زندگی چلے اور مکان نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں بے وفائیوں کی شکایت
سفر ختم ہوا ہمسفر نہیں آیا
میں نے سمجھ لیا کہ آج وہ کسی شاعر کی مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرا شعر گوش گزار کرتے۔ میری اہلیہ نے کڑکتی آواز میں کہا: ''میں نے آپ کو روٹیاں لانے کے لیے بھیجا تھا، تاکہ بچے ناشتا کرکے اسکول جاسکیں۔ آپ نے یہاں محفل مشاعرہ گرم کیا ہوا ہے۔ لائیے دسترخوان مجھے دے دیجیے۔''
میں خجل سا ہوگیا۔ اس موقع پر کیا کہنا چاہیے۔ مجھے قطعی پتا نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بیگم سے معذرت کروں یا لڈن لالوکھیتوی سے معافی مانگوں۔ ان سے معافی مانگنے میں عافیت نظر آئی، اس لیے کہ بیگم کی نافرمانی میں ازدواجی زندگی خطرے میں پڑسکتی تھی۔
معلوم نہیں کہ بیگم نے لڈن لالوکھیتوی کا کیا حشر کیا۔ اس لیے کہ میں کافی دور نکل گیا، لیکن اس کے باوجود ان کی کڑوی کسیلی آواز میری سماعت سے ٹکراتی رہی۔
یوں تو لڈن لالوکھیتوی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، لیکن سب سے یادگار ملاقات یا منظر انڈو پاک مشاعرے کا تھا۔ ان کا نمبر دوسرا یا تیسرا تھا۔ مشاعرے کے منتظمین سے ان کے تعلقات غالباً بہت ہی اچھے تھے جو انھیں پڑھنے کے لیے دعوت دے دی گئی۔ ابھی انھوں نے کسی بڑے شاعر کے کلام پر اصلاح آمیز کلام سنایا تو ایک آواز آئی۔ ''کوئی ہے؟ اسے باہر نکالو۔''
دوسری آواز۔ ''اسے کس نے بلایا ہے؟''
تیسری آواز۔ ''یہ ہند و پاک مشاعرہ ہے یا بھٹیار خانہ؟''
لڈن لالوکھیتوی نے بے حیائی کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، اس لیے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ غالباً انھیں فوٹو گرافر کا انتظار تھا۔ پریس کو اطلاع دیر سے دی گئی تھی یا لوگ ان کی شہرت سے واقف تھے، اس لیے کسی چینل نے اپنا کیمرا اسٹارٹ ہی نہیں کیا۔ ممکن ہے اخبارات ان کی تصویر کھینچ کر مشاعرے کو بدنام نہیں کرنا چاہتے ہوں۔ عبرت ناک منظر یہ تھا کہ مجمع سے چند لونڈے اٹھے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ، اسٹیج پر چڑھ گئے۔ پھر کچھ نے انھیں دھکا دیا اور چند ٹانگیں اور ہاتھ تھام کر ڈنگا ڈولی کرتے ہوئے انھیں کافی دور پھینک آئے۔ ایک کرم فرما کا بیان ہے کہ وہ انھیں ''فور جے'' نامی بس میں بٹھا کر آئے تھے اور انھوں نے کنڈیکڑ کو ہدایت کردی تھی کہ انھیں لالوکھیت آنے سے پیشتر نہ اترنے دیا جائے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو اس کی اچھی طرح سے درگت بنائیں گے۔
لڈن لالوکھیتوی امور خانہ داری کس طرح سے چلاتے تھے؟ اس طرح سے کہ پہلے انھیں ایک پرائمری اسکول میں اردو کا استاد مقرر کیا گیا اور جب طالب علموں کی اردو کا معیار کافی گرگیا تو انھیں اسکول سے نکالا نہیں گیا، البتہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے انھیں پیشکش کی اگر وہ چوکیداری قبول کرلیں تو اپنا روزگار سلامت رکھ سکیں گے۔ لڈن لالوکھیتوی نے بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کے مترادف اسے قبول کرلیا۔
ایک روز یہ خبر مجھ تک ایک معقول شخص نے پہنچائی کہ لڈن لالوکھیتوی نے دو شعری مجموعے ترتیب دے دیے ہیں اور وہ انھیں شایع کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سانحہ ان کے انتقال کا سبب بن گیا، اس لیے کہ کوئی ان سے زیادہ ''چلتا پھرتا'' شاعر مجموعوں کو چوری کرکے لے گیا اور اس نے انھیں اپنے نام سے شایع کروادیا۔