شفا سے عائشہ تک
ہم مسلمانوں کی تاریخ کچھ اتنی طویل نہیں صرف تیرہ چودہ سو سال، لیکن اس کی روداد کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں۔
ISLAMABAD:
ہم مسلمانوں کی تاریخ کچھ اتنی طویل نہیں صرف تیرہ چودہ سو سال، لیکن اس کی روداد کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں۔ صحراؤں پہاڑوں جنگلوں کو عبور کرتا ہوا بڑھتا ہی رہتا ہے۔ تاریخ کے پہلے مسلمان سے لے کر اب تک ہر مسلمان ایک اٹوٹ رشتے میں پرویا ہوا ہے۔ وہ اچھا ہے یا برا ہے، دلیر ہے یا بزدل ہے، لائق ہے یا نالائق ہے، وہ ایک ایسی درسگاہ کا طالب علم ہے ۔
جس کا معلم اول اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک رہنما ہے اور اس کی رہنمائی میں وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے معلم اول ﷺ نے اسے صفائی کا سبق سکھایا، اسے اس کے ایمان کا حصہ قرار دیا اور اس کے سامنے اپنی زندگی کا ہر لمحہ رکھ دیا جو صفائی کی ایک مثال تھا اور ہے یہانتک کہ دانتوں کی صفائی کو بھی اس قدر لازم قرار دیا کہ ساتھیوں کو شک گزرا کہ کہیں مسواک فرض نہ ہو جائے۔
عام صفائی تو اپنی جگہ مسجدوں تک کو ہمیشہ اچھی خوشبو سے معطر رکھنے کا حکم دیا۔ جسمانی صفائی اور لباس کی چمک دمک کو بہت پسند کیا۔ مسلمانوں کے اسی ابتدائی دور کی ایک بات سناتا ہوں جو ان دنوں یہاں لاہور میں بہت یاد آ رہی ہے جس میں طعام خانوں کی صفائی کو ہر قیمت پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک خاتون عائشہ ممتاز کو خصوصی اختیارات دے کر طعام خانوں کی صفائی کی نگرانی پر مامور کیا ہے جنہوں نے لاہور میں اعلیٰ ترین اور انتہائی مہنگے ہوٹلوں کو بھی صاف ستھرا رکھنے پر مجبور کر دیا ہے اور ان کی کوششوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اب تک ان گراں ترین ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کتنا گند کھاتے رہے ہیں اور کھا رہے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مجھے اس خاتون سے وہ خاتون یاد آئی ہے جسے میرے معلم اول نے اپنے دور میں اس کام پر متعین کیا تھا۔ اس تاریخی مماثلت اور تاریخ کو دہرانے پر میں تو حیرت زدہ رہ گیا ہوں اور اب آپ کو بھی حیران کر رہا ہوں، یہ خاتون تھیں شفاء بنت عبداللہ ابن شمس رضی اللہ عنہا۔ حضور پاکﷺ نے مدینہ کے بازار اور مارکیٹوں کی قیمتوں میں توازن قائم رکھنے اور اشیائے ضرورت کی کوالٹی اور معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اس سخت گیر خاتون کو مقرر کیا، وہ اپنے سخت مزاج کی وجہ سے اس کام کے لیے موزوں ترین تھیں۔
بعد میں جب حضرت عمر بن خطابؓ کا دور آیا تو آپ نے بھی اس خاتون کو اسی عوامی منصب پر قائم رکھا اوراس خاتون محترم کو نہایت احترام کے ساتھ اس قومی فرض کی ادائیگی میں ہر قسم کی مدد کی۔ اب دیکھئے کہ بازار کی صفائی اور اس میں فروخت ہونے والی اشیاء کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوں کے اولین منتظموں نے کس حد تک اہمیت دی تھی۔ بے حد خطرات میں گھرے ہوئے اس نئے دین و مذہب اور ریاست کے استحکام کے لیے کھانے پینے اور بازار کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے کس حد تک اہمیت دی۔ یہ سب انسانی حقوق کا مسئلہ تھا جن کے لیے ایک نیا دین اور نئی ریاست قائم ہوئی تھی۔
ہماری موجودہ حکومت کو خدا جانے تاریخ کے اس حیرت انگیز واقعے کا علم تھا یا نہیں۔ غالباً نہیں لیکن ان کے ہاتھوں سے وہی کام ہو گیا جس کا آغاز حضور پاکﷺ نے فرمایا تھا اور جس کو حضرت عمرؓ نے اپنی بے مثل حکمرانی میں قائم رکھا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ آج اسی کام پر مامور ایک خاتون عائشہ ممتاز کو اس بات کا احساس ہے کہ نہیں کہ قدرت نے ان کو تاریخ کے کتنے بڑے منصب پر فائز کر دیا ہے۔ اس خاتون کی کتنی خوش نصیبی ہے کہ ان کی سرکاری ملازمت ان کے لیے سنت نبوی کی ایک پیروی بن گئی ہے اور وہ شفا بنت عبداللہؓ کے بعد تاریخ میں اپنا نام لکھا ہوا پائیں گی۔
اللہ کرے وہ مسلمانوں کی تاریخ کے اس باب کو زندہ کر دیں اور جس طرح وہ کام کر رہی ہیں خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کام کو اپنا ایمان سمجھ کر رہی ہیں۔ کیا ہمارے حکمران بھی اس آزمائش پر پورے اتریں گے اور خلیفۃ المسلمین عمر بن خطابؓ کی مثال قائم کر دیں گے۔ انھیں اتنی بڑی سعادت کتنی آسانی کے ساتھ مل رہی ہے اور ان کی حکمرانی کا ایک معمول ان کو کہاں سے کہاں لے جا رہا ہے۔
گرانی اور اشیائے خوردنی میں ملاوٹ بلکہ غلاظت جس عروج تک پہنچ گئی ہے اس کے لیے کسی انقلاب کی ضرورت ہے۔ اب جب سے بازاروں کی نگرانی باقاعدگی اور سنجیدگی کے ساتھ شروع کی گئی ہے ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ ہم کتنے گندے لوگ ہیں اور کس قدر گنہ گار بھی۔ کم تولنے اور ناقص اشیاء فروخت کرنے کی سزا میں قوموں پر عذاب نازل ہوا ہے اور وہ نشان عبرت بن کر اپنے تباہ گھروں کے ساتھ موجود ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہم مسلمانوں کو ہمیشہ یاد رہا ہے کہ قوم کے ساتھ اس قسم کی زیادتی کیا رنگ لاتی ہے۔ ہم ابھی ابھی رمضان المبارک سے گزرے ہیں دنیا بھر میں تہواروں کے موقع پر عام اشیاء سستی کر دی جاتی ہیں۔ مسلمان تاجروں کے لیے باعث شرم ہے کہ یورپ کے بعض عیسائی ممالک بھی رمضان اور عید کے موقع پر مسلمانوں کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان اور کئی دوسرے مسلمان ملکوں میں ضروری اشیاء الٹی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس سانحہ پر ایک خاتون قاری نے جو اکثر یاد کرتی رہتی ہیں، ایک مراسلہ بھجوایا ہے جو شکریے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
محترمی! قوموں کی تقدیر بدلنے کو آسمان سے فرشتے تو نازل نہیں ہوتے۔ انھی میں سے بعض افراد نمودار ہوتے ہیں جو ''ملت کے مقدر کا ستارہ'' بن کر چمکتے ہیں۔ ''گڈ گورننس'' اور ''بیڈ گورننس'' کی بے شمار تھیوریاں اور فلسفے جنم لے رہے ہیں لیکن بنیادی جزو تو ہر عمل کا ''فرد'' ہی ہے۔ سیاسی رہنما ہوں یا سول سرونٹ' ان کی صلاحیت' قابلیت اور خلوص ہی قوم کی ترقی کی راہ متعین کر سکتا ہے۔
''مارکیٹ کنٹرول آفیسر'' کے عہدہ کی اہمیت کا احساس تو دنیا کے عظیم ترین منتظم آنحضرت محمدﷺ نے ہی ثابت کر دیا تھا اور انھوں نے مدینہ کی مارکیٹ میں قیمتوں کا توازن اور اشیاء فروخت کی کوالٹی پر نظر رکھنے کے لیے جس کا انتخاب کیا وہ ایک خاتون تھیں' شفا بنتِ عبداللہ ابن شمسؓ۔ بعدازاں حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں بھی انھی کا تقرر اس عہدہ کے لیے کیا گیا۔ وہ ایک باصلاحیت اور ذہین خاتون تھیں اور اپنی ذمے داری اوالعزمی اور دلجمعی کے ساتھ نبھاتی رہیں۔
خواتین کو ویسے بھی بہتر منتظم تصور کیا جاتا ہے۔ وہ معاشرے کی بنیادی اکائی ''خاندان'' کا انتظام و انصرام سنبھالتی ہیں اور ''آٹے دال کا بھاؤ'' خوب جانتی ہیں۔
ہمارے ''بیڈ گورننس'' اور کبھی کبھی تو ''نو گورننس'' کے دور میں ایک نام سامنے آیا ہے۔ یہ خاتون عائشہ ممتاز ہیں جو پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر آپریشنز ہیں۔ آئے دن ایک خبر سامنے آتی ہے کہ فلاں فلاں بڑے نام والے ریسٹورنٹ' بیکری یا فوڈ چین کو معیار سے گری ہوئی خوراک فروخت کرنے اور صفائی ستھرائی کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے جرمانہ کر دیا گیا۔ ہم صارفین جو سمجھ چکے تھے کہ اب ہمارا کوئی والی وارث نہیں ہے اور کاروباری طبقہ ''جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے'' کے مطابق ہمارے ساتھ ہر طرح کا سلوک روا رکھنے پر قادر ہے' ہمیں بی بی عائشہ ممتاز تو جھیل سیف الملوک پر اترنے والی پریوں میں سے کوئی نظر آتی ہیں۔
وہ پری جو اپنی نظامت کی جادوئی چھڑی سے اس شہر بے مثل لاہور' جو دنیا بھر میں لذیذ کھانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے' میں کھانے کا معیار درست کر دے۔ کاروباری طبقہ جان جائے کہ انھیں کوئی پوچھنے والا بھی ہے اور صارف امید باندھ لیں کہ ان کی کوئی سننے والا بھی ہے۔
ہر سخت گیر اور دیانت دار'دوسرے الفاظ میں ''سر پھرے'' ناظم کی طرح عائشہ ممتاز کے بھی دشمن پیدا ہو چکے ہیں یا انھوں نے ادائیگی فرض اور جوش دیانت میں پیدا کر لیے ہیں۔ ان کی صلاحیت اور دیانت پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ جو ہوٹل وغیرہ انھوں نے بند کروائے ہیں یا انھیں سزا دی ہے' ان کے گندگی اور بد انتظامی کے باتصویر ثبوت میڈیا پر جگہ جگہ موجود ہیں۔
بہر حال ''بدحکومتی'' کے ڈسے ہوئے شہریوں نے پھر ایک بت تراشا ہے۔ امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ زرخیز مٹی کی نمی خوشبو دینے لگی ہے۔ ہمیں بچانے کے لیے' سنبھالنے کے لیے' اٹھانے کے لیے ہم میں سے ہی لوگ اٹھیں گے۔ انشاء اللہ
ان خاتون کی دیانت اور خلوص کے لیے دعا ہے اور چند ستائشی جملے تو ان کا حق ہیں۔ اللہ ان کے کام میں برکت پیدا کرے۔
ہم مسلمانوں کی تاریخ کچھ اتنی طویل نہیں صرف تیرہ چودہ سو سال، لیکن اس کی روداد کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں۔ صحراؤں پہاڑوں جنگلوں کو عبور کرتا ہوا بڑھتا ہی رہتا ہے۔ تاریخ کے پہلے مسلمان سے لے کر اب تک ہر مسلمان ایک اٹوٹ رشتے میں پرویا ہوا ہے۔ وہ اچھا ہے یا برا ہے، دلیر ہے یا بزدل ہے، لائق ہے یا نالائق ہے، وہ ایک ایسی درسگاہ کا طالب علم ہے ۔
جس کا معلم اول اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک رہنما ہے اور اس کی رہنمائی میں وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے معلم اول ﷺ نے اسے صفائی کا سبق سکھایا، اسے اس کے ایمان کا حصہ قرار دیا اور اس کے سامنے اپنی زندگی کا ہر لمحہ رکھ دیا جو صفائی کی ایک مثال تھا اور ہے یہانتک کہ دانتوں کی صفائی کو بھی اس قدر لازم قرار دیا کہ ساتھیوں کو شک گزرا کہ کہیں مسواک فرض نہ ہو جائے۔
عام صفائی تو اپنی جگہ مسجدوں تک کو ہمیشہ اچھی خوشبو سے معطر رکھنے کا حکم دیا۔ جسمانی صفائی اور لباس کی چمک دمک کو بہت پسند کیا۔ مسلمانوں کے اسی ابتدائی دور کی ایک بات سناتا ہوں جو ان دنوں یہاں لاہور میں بہت یاد آ رہی ہے جس میں طعام خانوں کی صفائی کو ہر قیمت پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک خاتون عائشہ ممتاز کو خصوصی اختیارات دے کر طعام خانوں کی صفائی کی نگرانی پر مامور کیا ہے جنہوں نے لاہور میں اعلیٰ ترین اور انتہائی مہنگے ہوٹلوں کو بھی صاف ستھرا رکھنے پر مجبور کر دیا ہے اور ان کی کوششوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اب تک ان گراں ترین ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کتنا گند کھاتے رہے ہیں اور کھا رہے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مجھے اس خاتون سے وہ خاتون یاد آئی ہے جسے میرے معلم اول نے اپنے دور میں اس کام پر متعین کیا تھا۔ اس تاریخی مماثلت اور تاریخ کو دہرانے پر میں تو حیرت زدہ رہ گیا ہوں اور اب آپ کو بھی حیران کر رہا ہوں، یہ خاتون تھیں شفاء بنت عبداللہ ابن شمس رضی اللہ عنہا۔ حضور پاکﷺ نے مدینہ کے بازار اور مارکیٹوں کی قیمتوں میں توازن قائم رکھنے اور اشیائے ضرورت کی کوالٹی اور معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اس سخت گیر خاتون کو مقرر کیا، وہ اپنے سخت مزاج کی وجہ سے اس کام کے لیے موزوں ترین تھیں۔
بعد میں جب حضرت عمر بن خطابؓ کا دور آیا تو آپ نے بھی اس خاتون کو اسی عوامی منصب پر قائم رکھا اوراس خاتون محترم کو نہایت احترام کے ساتھ اس قومی فرض کی ادائیگی میں ہر قسم کی مدد کی۔ اب دیکھئے کہ بازار کی صفائی اور اس میں فروخت ہونے والی اشیاء کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوں کے اولین منتظموں نے کس حد تک اہمیت دی تھی۔ بے حد خطرات میں گھرے ہوئے اس نئے دین و مذہب اور ریاست کے استحکام کے لیے کھانے پینے اور بازار کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے کس حد تک اہمیت دی۔ یہ سب انسانی حقوق کا مسئلہ تھا جن کے لیے ایک نیا دین اور نئی ریاست قائم ہوئی تھی۔
ہماری موجودہ حکومت کو خدا جانے تاریخ کے اس حیرت انگیز واقعے کا علم تھا یا نہیں۔ غالباً نہیں لیکن ان کے ہاتھوں سے وہی کام ہو گیا جس کا آغاز حضور پاکﷺ نے فرمایا تھا اور جس کو حضرت عمرؓ نے اپنی بے مثل حکمرانی میں قائم رکھا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ آج اسی کام پر مامور ایک خاتون عائشہ ممتاز کو اس بات کا احساس ہے کہ نہیں کہ قدرت نے ان کو تاریخ کے کتنے بڑے منصب پر فائز کر دیا ہے۔ اس خاتون کی کتنی خوش نصیبی ہے کہ ان کی سرکاری ملازمت ان کے لیے سنت نبوی کی ایک پیروی بن گئی ہے اور وہ شفا بنت عبداللہؓ کے بعد تاریخ میں اپنا نام لکھا ہوا پائیں گی۔
اللہ کرے وہ مسلمانوں کی تاریخ کے اس باب کو زندہ کر دیں اور جس طرح وہ کام کر رہی ہیں خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کام کو اپنا ایمان سمجھ کر رہی ہیں۔ کیا ہمارے حکمران بھی اس آزمائش پر پورے اتریں گے اور خلیفۃ المسلمین عمر بن خطابؓ کی مثال قائم کر دیں گے۔ انھیں اتنی بڑی سعادت کتنی آسانی کے ساتھ مل رہی ہے اور ان کی حکمرانی کا ایک معمول ان کو کہاں سے کہاں لے جا رہا ہے۔
گرانی اور اشیائے خوردنی میں ملاوٹ بلکہ غلاظت جس عروج تک پہنچ گئی ہے اس کے لیے کسی انقلاب کی ضرورت ہے۔ اب جب سے بازاروں کی نگرانی باقاعدگی اور سنجیدگی کے ساتھ شروع کی گئی ہے ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ ہم کتنے گندے لوگ ہیں اور کس قدر گنہ گار بھی۔ کم تولنے اور ناقص اشیاء فروخت کرنے کی سزا میں قوموں پر عذاب نازل ہوا ہے اور وہ نشان عبرت بن کر اپنے تباہ گھروں کے ساتھ موجود ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہم مسلمانوں کو ہمیشہ یاد رہا ہے کہ قوم کے ساتھ اس قسم کی زیادتی کیا رنگ لاتی ہے۔ ہم ابھی ابھی رمضان المبارک سے گزرے ہیں دنیا بھر میں تہواروں کے موقع پر عام اشیاء سستی کر دی جاتی ہیں۔ مسلمان تاجروں کے لیے باعث شرم ہے کہ یورپ کے بعض عیسائی ممالک بھی رمضان اور عید کے موقع پر مسلمانوں کے استعمال کی اشیاء کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان اور کئی دوسرے مسلمان ملکوں میں ضروری اشیاء الٹی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس سانحہ پر ایک خاتون قاری نے جو اکثر یاد کرتی رہتی ہیں، ایک مراسلہ بھجوایا ہے جو شکریے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
محترمی! قوموں کی تقدیر بدلنے کو آسمان سے فرشتے تو نازل نہیں ہوتے۔ انھی میں سے بعض افراد نمودار ہوتے ہیں جو ''ملت کے مقدر کا ستارہ'' بن کر چمکتے ہیں۔ ''گڈ گورننس'' اور ''بیڈ گورننس'' کی بے شمار تھیوریاں اور فلسفے جنم لے رہے ہیں لیکن بنیادی جزو تو ہر عمل کا ''فرد'' ہی ہے۔ سیاسی رہنما ہوں یا سول سرونٹ' ان کی صلاحیت' قابلیت اور خلوص ہی قوم کی ترقی کی راہ متعین کر سکتا ہے۔
''مارکیٹ کنٹرول آفیسر'' کے عہدہ کی اہمیت کا احساس تو دنیا کے عظیم ترین منتظم آنحضرت محمدﷺ نے ہی ثابت کر دیا تھا اور انھوں نے مدینہ کی مارکیٹ میں قیمتوں کا توازن اور اشیاء فروخت کی کوالٹی پر نظر رکھنے کے لیے جس کا انتخاب کیا وہ ایک خاتون تھیں' شفا بنتِ عبداللہ ابن شمسؓ۔ بعدازاں حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں بھی انھی کا تقرر اس عہدہ کے لیے کیا گیا۔ وہ ایک باصلاحیت اور ذہین خاتون تھیں اور اپنی ذمے داری اوالعزمی اور دلجمعی کے ساتھ نبھاتی رہیں۔
خواتین کو ویسے بھی بہتر منتظم تصور کیا جاتا ہے۔ وہ معاشرے کی بنیادی اکائی ''خاندان'' کا انتظام و انصرام سنبھالتی ہیں اور ''آٹے دال کا بھاؤ'' خوب جانتی ہیں۔
ہمارے ''بیڈ گورننس'' اور کبھی کبھی تو ''نو گورننس'' کے دور میں ایک نام سامنے آیا ہے۔ یہ خاتون عائشہ ممتاز ہیں جو پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر آپریشنز ہیں۔ آئے دن ایک خبر سامنے آتی ہے کہ فلاں فلاں بڑے نام والے ریسٹورنٹ' بیکری یا فوڈ چین کو معیار سے گری ہوئی خوراک فروخت کرنے اور صفائی ستھرائی کا ناقص انتظام ہونے کی وجہ سے جرمانہ کر دیا گیا۔ ہم صارفین جو سمجھ چکے تھے کہ اب ہمارا کوئی والی وارث نہیں ہے اور کاروباری طبقہ ''جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے'' کے مطابق ہمارے ساتھ ہر طرح کا سلوک روا رکھنے پر قادر ہے' ہمیں بی بی عائشہ ممتاز تو جھیل سیف الملوک پر اترنے والی پریوں میں سے کوئی نظر آتی ہیں۔
وہ پری جو اپنی نظامت کی جادوئی چھڑی سے اس شہر بے مثل لاہور' جو دنیا بھر میں لذیذ کھانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے' میں کھانے کا معیار درست کر دے۔ کاروباری طبقہ جان جائے کہ انھیں کوئی پوچھنے والا بھی ہے اور صارف امید باندھ لیں کہ ان کی کوئی سننے والا بھی ہے۔
ہر سخت گیر اور دیانت دار'دوسرے الفاظ میں ''سر پھرے'' ناظم کی طرح عائشہ ممتاز کے بھی دشمن پیدا ہو چکے ہیں یا انھوں نے ادائیگی فرض اور جوش دیانت میں پیدا کر لیے ہیں۔ ان کی صلاحیت اور دیانت پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ جو ہوٹل وغیرہ انھوں نے بند کروائے ہیں یا انھیں سزا دی ہے' ان کے گندگی اور بد انتظامی کے باتصویر ثبوت میڈیا پر جگہ جگہ موجود ہیں۔
بہر حال ''بدحکومتی'' کے ڈسے ہوئے شہریوں نے پھر ایک بت تراشا ہے۔ امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ زرخیز مٹی کی نمی خوشبو دینے لگی ہے۔ ہمیں بچانے کے لیے' سنبھالنے کے لیے' اٹھانے کے لیے ہم میں سے ہی لوگ اٹھیں گے۔ انشاء اللہ
ان خاتون کی دیانت اور خلوص کے لیے دعا ہے اور چند ستائشی جملے تو ان کا حق ہیں۔ اللہ ان کے کام میں برکت پیدا کرے۔