مسلم ممالک کا مستقبل

ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مستقبل کو آج جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ ہے مذہبی انتہا پسندی


Zaheer Akhter Bedari July 28, 2015
[email protected]

57 مسلم ممالک کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مستقبل کو آج جو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے وہ ہے مذہبی انتہا پسندی۔ مذہبی انتہا پسندی کسی نہ کسی شکل میں اگرچہ مسلم ممالک میں موجود رہی ہے لیکن 9/11 کے بعد مذہبی انتہا پسندی میں جس شدت سے اضافہ ہوا ہے، اس سے مسلم ملک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا خوفزدہ ہے، مذہبی انتہا پسندی کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک انتہا پسندی وہ ہے جو مسالک کے حوالے سے مسلمانوں کو خاک وخون میں نہلا رہی ہے جس کا مشاہدہ ہم پاکستان، عراق اور شام میں کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندی کی خوفناک جنگ میں 50ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانی مسلمان مارے گئے ہیں۔ خودکش حملے دہشت گردی کا سب سے مہلک ہتھیار بنے ہوئے ہیں۔ ویسے تو دہشت گردی کی ہر واردات ہی خوفناک ہوتی ہے لیکن پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں معصوم طلبا کا جو قتل عام کیا گیا۔ اس سے مذہبی انتہا پسندی کے عفریت کی خوفناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

بلوچستان میں ایران جانے والے زائرین کو بسوں سے اتر کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر جس طرح گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کوئٹہ میں بار بار جس بربریت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کے حوالے سے معصوم انسانوں کا جس طرح خون بہایا جاتا رہا ہے یہ ایسے شرمناک المیے ہیں جس کی وجہ ساری دنیا میں مسلمان اور دین اسلام بدنام ہوکر رہ گئے ہیں اور دنیا مسلمانوں کو ایک وحشی قوم کا نام دے رہی ہے۔

عراق میں اگرچہ دونوں فقہوں کے ماننے والے بڑی تعداد میں رہتے رہے ہیں لیکن صدام حسین کے دور حکومت میں فقہہ کے حوالے سے شدت پسندی کا وہ عالم نہیں تھا جو عراق پر امریکی قبضے کے بعد دیکھا جا رہا ہے۔ صورتحال اس قدر بھیانک ہوگئی ہے کہ آئے دن دہشت گردی خودکش حملوں بم دھماکوں میں دونوں فقہوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں لوگ انتہائی المناک موت کا شکار ہو رہے ہیں، سنی علاقوں میں شیعہ نہیں جاسکتے شیعہ علاقوں میں سنیوں کا داخلہ موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

اس بربریت کا دائرہ عبادت گاہوں تک پھیلا ہوا ہے۔یہ دہشت گردی کا وہ حصہ ہے جس میں کوئی غیر ملکی سازش ملوث نہیں ہے۔ یہ خالص فرقہ وارانہ اختلافات ہیں جن کا سلسلہ صدیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس انتہا پسندی نے مسلم ممالک کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے ، ایک کا مرکز سعودی عریبیہ ہے دوسرے کا مرکز ایران ہے۔

اس تقسیم کو زیادہ واضح شکل میں ہم یمن میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ جنگ سعودی عرب اور ایران کے مفادات کی جنگ ہے۔اب جوہری مسئلے پر امریکا کے ساتھ ایران کے معاہدے کے بعد صورتحال اور زیادہ نازک ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر جو معاہدہ ہوا ہے اس پر ساری دنیا میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اس معاہدے کو خلیجی ممالک کی تباہی کا نام دے رہے ہیں، اس سیاست سے مسلم ممالک کے درمیان موجود نظریاتی خلیج کی وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کا دوسرا حصہ داعش جیسی تنظیموں کی سرگرمیوں پر مبنی ہے یہ مذہبی انتہا پسند تنظیم مسلم دنیا میں خلافت کے قیام کی دعویدار ہے بلکہ اس تنظیم نے اپنا ایک خلیفہ چن لیا ہے لیکن دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ اس تنظیم کے مجاہدین آئے دن مسلمانوں کو ذبح کر رہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک کے نوجوان مرد اور خواتین اس تنظیم میں شامل ہونے کے لیے عراق اور شام پہنچ رہے ہیں اور اس جنگ میں عملی طور پر حصہ لے رہے ہیں۔

مسلم عوام اس تنظیم کے بے رحمانہ قتل و غارت پر حیران ہیں کہ دنیا بھر میں اسلام کو سربلند کرنے کی دعویدار یہ تنظیم مسلمانوں کو کس بے دردی سے ذبح کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ اسے اسرائیل کی حمایت حاصل ہے جس کا مقصد دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنا ہے۔

اس بدترین صورتحال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک مجموعی طور پر ابھی تک قبائلی کلچر سے باہر نہیں آسکے اور اس کی دوسری بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ مسلم ملک ابھی تک بادشاہتوں اور خاندانی قبائلی حکمرانی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، ان ممالک میں کہیں عوامی جمہوری نظام نظر نہیں آتا جو قومی اور بین الاقوامی مسائل کو اپنی اجتماعی دانش سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے فیصلے قوم و ملک کے اجتماعی مفادات مٰں ہوتے ہیں جب کہ مسلم ممالک میں یا تو جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کی خاندانی حکمرانیاں قائم ہیں یا یہ ملک براہ راست ماضی کی بادشاہتوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، جہاں فیصلوں کا اختیار جابر حکمرانوں کو حاصل ہے اور ان کے فیصلے قوم اور ملک کے اجتماعی مفادات کے حق میں ہونے کے بجائے اپنے انفرادی اجتماعی اور خاندانی قبائلی مفادات کے حق میں ہوتے ہیں ۔

یہ صورتحال 57 مسلم ممالک میں رہنے والے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کے مستقبل پر موت کی طرح منڈلا رہی ہے اور کسی ملک کو اس صورتحال پر نہ تشویش ہے، نہ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے کوئی آگے آتا نظر آتا ہے۔ مسلم ممالک کی ایک نمایندہ تنظیم اوآئی سی کی شکل میں عشروں سے موجود تو ہے جس کا کام مسلم ممالک کی اجتماعی بھلائی اور ان کے درمیان موجود تنازعات کو حل کرنا ہے لیکن بدقسمتی یا سازش کی وجہ یہ تنظیم امریکا کی پٹھو بنی ہوئی ہے اور مسلم ممالک کے انفرادی اور اجتماعی مسائل سے قطعی لاتعلق ہے۔

مسلم ممالک میں بڑھتی پھیلتی پھولتی مذہبی انتہا پسندی نے عوام کے مستقبل کو یرغمال بنا لیا ہے لیکن او آئی سی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ کیا 57 مسلم ممالک میں کوئی ایسی طاقت موجود ہے جو مسلم ممالک کے عوام کے مستقبل کو مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چنگل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہو؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں