متاثرین سیلاب کے لیے حکومتی اقدامات
بارشوں اور سیلابی ریلوں میں متعدد افرادجاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔
پاکستان ایک بار پھر سیلاب کی زد میں ہے۔ وطن عزیز کے بالائی علاقوں سے ملیر سندھ کے متعدد اضلاع کو سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔ مسلسل بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے چترال، گلگت اور دیگر علاقوں میں تباہی مچی ہوئی ہے۔ بارشوں اور سیلابی ریلوں میں متعدد افرادجاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔
جب کہ سڑکوں، بندوں اور آبادیوں کے بہہ جانے سے بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ مویشی پانی میں بہہ گئے،کھڑی فصلیں زیر آب آگئی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان میں 2 بند ٹوٹنے سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اور شہر کی حفاظتی دیواروں میں کٹاؤ سے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ سیلابی صورتحال سے جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں صورتحال ابتر ہوچکی ہے۔ گڈو اور سکھر بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور اونچے درجے کے سیلاب کا بھی خدشہ ہے۔ کراچی میں بھی کافی بارش ہوئی ہے جس سے سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جب کہ بجلی کے کرنٹ اور بارش کے باعث کافی جانی نقصان ہوا ہے۔
اس سلسلے میں پی ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے اربن فیلڈ وارننگ بھی جاری کردی تھی۔ سیلابی ریلوں کے باعث کوٹری بیراج پر بھی پانی کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے۔ گلگت بلتستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے علاوہ مقامی آبادی اور غیر ملکی سیاحوں کو نکالنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔
اس صورتحال کے بعد دوسرا مرحلہ مختلف دریاؤں میں بالائی مقامات سے آنیوالے سیلابی ریلوں کو مختلف علاقوں سے گزارنے کا ہوگا۔ مگر ریاستی مشینری کے تیزی سے حرکت میں آجانے اور مل جل کر کام کرنے کی صورتحال میں اس دوسرے اور زیادہ خطرناک مرحلے کے نقصانات بڑی حد تک کم کیے جاسکتے ہیں۔ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ لوگوں کی جان و مال بچانے اور سیلابی پانی سے بستیوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ مستعدی سے کام نہیں ہورہا ۔
ریلیف کی سرگرمیوں میں تیزی لا کر اس تاثر کو بھی جلد ختم کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اسباب کی ہے کہ صوبائی حکومتیں ایسی ٹھوس منصوبہ بندی کریں کہ جہاں جہاں سے سیلابی ریلا گزرے گا وہاں وہاں پہلے سے امدادی کاموں اور احتیاطی تدابیر کے لیے منظم تیاریاں کی جائیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت مل جل کر سیلاب متاثرین کی مدد کر رہی ہے۔
اس کے لیے میں وزیر اعظم محمد نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہمارے فوجی جوانوں نے بر وقت امدادی کارروائی کرکے مزید جانی و مالی نقصان سے محفوظ کردیا ہے اور سول فوجی انتظامیہ مل جل کر تاحال امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔
بلاشبہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہر مشکل گھڑی میں ہمیں متحد ہوکر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان گلگت بلتستان اورچترال میں ہوا ہے، جہاں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوئے۔گلگت بلتستان کے 15 اضلاع میں بارش اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے، جب کہ صرف بلوچستان میں 21 افراد پانی میں بہہ گئے ہیں۔
ڈی جی خان، مظفر گڑھ اور راجن پور میں پانی نے تباہی مچا دی ہے اور متاثرین فوری امداد کے منتظر ہیں۔اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے سیلاب کے باعث اپنا طبی دورہ لندن ملتوی کرکے ہنگامی طور پر لندن سے راجن پور و دیگر سیلابی علاقوں کا دورہ کیا اور فوری ریلیف کے لیے اقدامات کیے۔ فوجی جوانوں نے چترال اور گلگت و بلتستان میں فوری امدادی کارروائیوں کو شروع کر کے راستے بحال کردیے ہیں اور کئی پلوں کی مرمت کا کام مکمل کرلیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں فوجی جوان خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جس سے متاثرین کی داد رسی میں آسانی ہوگئی ہے اور دوسری جانب ملک میں جاری سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت بھی پوری طرح تیار ہے اور سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ دنوں چترال کا دورہ کیا اور اس آفت زدہ علاقہ قرار دیدیا اور سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔
جس میں سے 50 کروڑ روپے وفاق اور 50 کروڑ روپے خیبر پختونخوا حکومت دے گی۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے سیلاب متاثرین کے زرعی قرضے بھی معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔انھوں نے چترال کے دورے کے دوران سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرین سے ملاقات کرنے کے علاوہ ان میں امداد بھی تقسیم کی۔ ان کے ہمراہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان بھی تھے۔
اس موقعے پر جی سی او مالاکنڈ میجر جنرل نادر خان نے چترال میں بارش اور سیلاب سے ہونیوالے نقصانات ، امدادی کارروائیوں اور متاثرین کی نقل مکانی سے متعلق بریفنگ دی۔ جس پر وزیراعظم نے اطمینان کا اظہار کیا۔اس موقعے پر میاں محمد نوازشریف نے متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومت چترال کے متاثرین کے ساتھ ہے۔ سیلاب متاثرین کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور ان کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ متاثرین نے قدرتی آفت کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے متاثرین کو یقین دلایا کہ مکمل تباہ ہونیوالے مکانات کو دوبارہ تعمیر کرایا جائیگا۔
ہر خاندان کو 5 لاکھ روپے زر تلافی دیا جائے گا۔ یقینا وزیر اعظم کے دورۂ چترال سے سیلاب متاثرین کے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے اور وزیر اعظم نے جو امدادی اعلانات کیے ہیں اس سے ان کی اشک شوئی میں مدد ملے گی۔ وفاقی حکومت نے سیلاب متاثرین کے لیے ابتک جو اقدامات کیے ہیں وہ بڑے حوصلہ افزاء ہیں اور اس ضمن میں وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کے دوران اس عزم کا اظہار کیا کہ مشکل کی اس گھڑی میں سیلاب متاثرین کو اکیلا نہیں چھوڑا جائیگا اور میں خود پورے ملک میں ریلیف اور سیلابی صورتحال کی نگرانی کررہا ہوں اور جہاں جہاں ملک میں مجھے جانا پڑا میں خود وہاں دورہ کرونگا۔ خود صدر مملکت ممنون حسین نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اطمینان کا اظہارکیا ہے اور امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ چترال بارشوں اور سیلاب سے ڈوب رہا تھا دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک عید کی چھٹیاں اسلام آباد میں منا رہے تھے اور وہ کئی روز تک اس صورتحال سے لاتعلق رہے۔ دوسری جانب سندھ حکومت سیلابی صورتحال سے بچاؤ کے لیے موثر اقدامات کرتی نظر نہیں آرہی۔
پیپلز پارٹی کی پوری قیادت سندھ کے بجائے دبئی میں اپنی پارٹی کی میٹنگوں میں مصروف تھی۔ گھوٹکی سے ٹھٹھہ تک سیلابی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں ، روایتی اقدامات اور اعلانات سے بڑھ کر سندھ کے عوام کے تحفظ کے لیے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے کراچی میں بھی برساتی نالے بند ہوچکے ہیں یا ان پر قبضہ کرلیا گیا ہے ۔ ہنگامی صورتحال میں سیلابی ریلے گزارنے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ جب کہ ندی نالوں کے اطراف آبادی کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے مگر ان علاقوں سے ابتک نقل مکانی شروع نہیں کرائی گئی ہے۔
ایمرجنسی ریلیف کیمپس کو محض نمائشی اقدامات ہی قرار دیاجاسکتا ہے، جب کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں پینے کے پانی اور بجلی کے نا ہونے سے تکلیف سے گزرنا پڑ رہا تھا اور بارشوں کے بعد سندھ کے باسیوں کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں تیزی سے موسمی تبدیلیاں رونما ہیں۔
پاکستان بھی اس سے متاثر ہورہا ہے۔ ماحولیات اور ارضیات کے ماہرین واضح کرچکے ہیں کہ آنیوالے برسوں میں زمین پر بڑھتے درجہ حرارت کے باعث دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت میں بارش کی شرح 65 فیصد تک زیادہ ہوچکی ہے۔ اس لیے پاکستان کئی برسوں سے سیلاب کی زد میں رہا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں چھوٹے آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جائے۔ آیندہ بجٹ میں اس ضمن میں خصوصی فنڈز مختص کرنا ہونگے۔ اگر ہم نے اب بھی اس مسئلے پر توجہ نہ دی تو سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔