سِول سروس سیلاب اور ٹوبے

مولوی عبدالحق نے اپنے ایک مضمون’’آئی سی ایس‘‘ میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے۔

shaikhjabir@gmail.com

''انگریزوں نے غیر منقسم ہندوستان کے باشندوں کو ایک طویل عرصے تک نہایت کامیابی کے ساتھ اپنا غلام بنائے رکھا۔اِس کامیابی کا سہرا انڈین سول سروس کے سر جاتا ہے جس کے ارکان کی تعداد ایک وقت میں ہزار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔یہ ہزار ڈیڑھ ہزار افراد ہندوستان کے کروڑوں عوام کی قسمت کے مالک تھے۔

اِس سروس میں زیادہ تر انگریز ہوتے تھے لیکن ایک خاص تعداد میں ہندوستانیوں کو بھی لیا جاتا تھا۔یہ ''کالے انگریز'' انگریزوں سے بڑھ کر تاج برطانیہ کے وفادار تھے۔یہ ہی نہیں، وہ اپنے ہندوستانی ہونے اور ہندوستانی ماں باپ کی اولاد ہونے پر بھی نادم رہتے تھے۔اِس لیے نہیں چاہتے تھے کہ اُنھیں اُن کے ماضی کے حوالے سے پہچانا جائے۔

مولوی عبدالحق نے اپنے ایک مضمون''آئی سی ایس'' میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے۔ایک کالا انگریزاپنے کسی دوست کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اُس کے والد کمرے میں بے تکلفانہ چلے آئے۔اُن کی دیہاتی وضع قطع ایسی تھی کہ صاحب بہادر کو اپنے دوست کے سامنے انُھیں اپنا والد صاحب بتاتے ہوئے شرم آئی،لہٰذا یہ کہہ کر تعارف کرایا:''یہ میرے والد کے ایک دوست ہیں''۔والدِ محترم کو غصہ آگیا، انھوں نے بیٹے کے دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:''میں اِن کے والد کا نہیں،والدہ کا دوست ہوں۔''

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو لوگ سِول سروس کے لیے منتخب کیے جاتے تھے،وہ لیاقت و صلاحیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوتے تھے۔یہ سِول سروس برطانیہ اور ہندوستان کے بہترین دماغوں پر مشتمل ہوتی تھی۔یہ لوگ نہایت قابلیت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے اور خالی اوقات میں بھی کوئی نہ کوئی مفید کام کرتے رہتے تھے۔برصغیر کی تاریخ، تہذیب، ثقافت،آثارِ قدیمہ اور لسانیات پر جتنا کام انگریز سرکاری ملازموں نے کیا،اتنا اور ایسا کام پھر کبھی نہیں ہوا۔

بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بر صغیر کی شاید ہی کوئی زبان ہوگی جس کی تاریخ انھوں نے نہ لکھی ہو۔اِس سلسلے میں حکومت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں تھی، یہ کام افسروں نے خود اپنے ذوق و شوق سے انجام دیے۔آزادی کے بعد سِول سروس کا یہ ہی ڈھانچہ پاکستان کو ورثے میں ملا۔جو آئی سی ایس افسر پاکستان کے حصے میں آئے وہ کچھ زیادہ تعداد میں نہیں تھے اور اُن میں بھی تجربہ کار اور کار گزار افسرکم تھے۔

چونکہ ایڈمنسٹریشن کا بُرا بھلا تجربہ صرف اُنھیں کو تھا ،اِس لیے نئی حکومت پر وہ اِس طرح چھا گئے کہ سفیدوسیاہ کے مالک بن بیٹھے۔ سیاست دان اور فوجی طالع آزما اقتدار میں آتے اور جاتے رہے، لیکن اصل اقتدار بیورو کریسی کے ہاتھ میں رہا۔اِس طرح بیورو کریسی بھی ایک سیاسی جماعت بن کر رہ گئی۔

انگریز کے عہد میں تو بہترین دماغی صلاحیتیں رکھنے والے سِول سروس میں شریک ہوتے تھے لیکن پاکستان میں اولاً اوسط درجے کے صلاحیتوں والے سامنے آئے اور پھر معیار ایسا گرا کہ معمولی ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے بھی اِس نظام کا جزو بنتے چلے گئے۔

اِن لوگوں نے ملک کی خدمت کی بجائے اپنی خدمت کے اصول پرعمل کیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں اعلیٰ سرکاری ملازموں کا ایک ایسا مراعات یافتہ طبقہ وجود میں آگیا جو ایک طرف تو سیاسی جوڑ توڑ میں ماہر تھا اور دوسری طرف اپنے اور اپنی آنیوالی نسلوں کے لیے ناجائز ذرایع سے دولت کمانے کا گُرجانتا تھا۔ظاہر ہے یہ لوگ جو کچھ دفتری اوقات میں کرتے تھے، وہی کچھ فارغ اوقا ت میں بھی کیا جاتا تھا،اِس لیے پرانے آئی سی ایس افسروں کی طرح علمی کام کرنے کی روایت قائم نہ رہ سکی''۔ (خامہ بہ گوش کے قلم سے۔ص21-22)


ہمارے ہاں سول سروس کا ادارہ، دیگر اداروں کی طرح کیوں زوال کا شکار ہوا؟یہ ایک اہم سوال ہے۔جواب جاننے کی کوشش میں ہم نظر ڈالتے ہیں۔ امین اللہ چوہدری کی زندگی پر آپ سِول سروس کے اعلیٰ ترین گریڈ سے 2004میں سبکدوش ہوئے ہیں ۔بعد ازاں آپ نے پاکستان سول سروس کے بارے میں ایک کتاب بھی تحریر کی۔ کتاب کا نام ہے''پولیٹیکل ایڈمنسٹریٹرز،دا اسٹوری آف دا سِول سروس آف پاکستان''۔اِس کتاب کو اوکسفورڈ پاکستان نے شایع کیا ہے۔

یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے اِس لیے بھی اہم سمجھی جاتی ہے کہ اِسے گھر کی گواہی کہا جا سکتا ہے۔آپ کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ''ساؤتھ ایشیا گلوبل افئیر'' کے تبصرہ نگار لکھتے ہیں کہ امین اللہ چوہدری کا افسوس ناک طور پر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی محاذ آرائی میں پِسنا سِول سروس کے حوالے سے ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ایک جانب وزیر اعظم نواز شریف کے احکامات تھے کہ اپنے ہی ملک کے حاضر سروس آرمی چیف کی کولمبوکی فلائٹ کو کہیں بھی پاکستان میں اُترنے نہ دیا جائے، تو دوسری جانب فوج تھی۔فوج کا کہنا تھا کہ فلائٹ کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کرے گی۔

یہ حضرت بے چارے وزیرِ اعظم نواز شریف کے عتاب کا نشانہ بن چکے تھے۔ مشرف دور میں آپ کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ 1999 سے 2003 تک آپ معطل رہے۔ اِس تمام عرصے میں نہ تو کوئی محکمانہ انکوائری ہی ہوئی اور نہ ہی انھیں بحال کیا گیا۔یہاں تک کہ بحالی کے بعد سے ریٹائرمنٹ تک آپ کو کسی عہدے یا ذمے داری کا اہل بھی نہیں سمجھا گیا۔یہ سب کچھ کسِی اور کے ساتھ نہیں 22 ویں گریڈ کے ایک افسر کے ساتھ ہوتا ہے۔سِول سروس کا ادارہ برطانوی راج میں بہت ہی کم افراد کے ساتھ بہترین خدمات فراہم کرتا نظر آتا ہے۔ افسوس کہ آج وہ معیار عنقا ہے۔

سول سروس جس کا آغاز قدیم چین کے شاہی دور میں ہوا تھا ،لگتا ہے کہ آج پاکستان میں اپنے مطلوبہ معیار اور اہداف کے حصول میںناکام ہے۔آج کا سِول سرونٹ عوامی مشکلات اور اُن کے حل سے اِس طرح غافل اور فارغ نظر آتا ہے گویا یہ اُن کا کام ہی نہ ہو۔آج پھر ملک کو سیلاب کا سامنا ہے ۔کیا اِس حوالے سے کبھی کسی سول سرونٹ کا کوئی کارنامہ آپ کے سامنے آیا؟کیا اپنے اپنے علاقوں میں بے پناہ اختیارات کے مالک یہ حضرات سال کے گیارہ مہینے کبھی،کہیں سیلاب سے بچاؤ کی کسی حکمت ِ عملی پر کام کرتے نظر آئے؟آخر ایسا کیوں ہے؟ڈیم کی تعمیر تو اِن کے لیے ممکن نہیں لیکن کیا جِن علاقوں میں سیلابی ریلوں کا خطرہ ہوتا وہاں کے غیر آباد علاقوں میں مصنوعی جھیلوں کی تعمیر بھی ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں یہ طریقہ کامیابی سے اپنایا گیا ہے۔

بیلنسنگ لیکس،فلڈ بیسِن،بیلنسنگ پونڈ وغیرہ کی اصطلاحات اِن مقاصد کے لیے عام استعمال ہوتی ہیں۔اور دورکیوں جائیں یہ جو ہمارے ہاں''ٹوبے'' بنائے گئے تھے۔

وہ کیا تھے؟سیلاب سے بچاؤ کی روایتی دانش۔کیا اِس کا استعمال بھی محال ہے؟ہم نہیں کہتے کہ آپ ''نیدر لینڈ'' اور ''بیلجیئم'' کی طرز پر اعلیٰ شاہ کار تخلیق اور تعمیر کریں،کہ یہ ممالک اور اِن کا کام سیلاب کے بچاؤ کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے آگے اور سب سے بہترین ہے،لیکن خالی جگہوں میں مصنوعی جھیلیں تیار کرلینا کیا مشکل ہے۔ہمارے پیارے پاکستان میں جوانوں کی وافر قوت موجود ہے جو اپنے علاقوں کو محفوظ کرنے کے لیے اعزازی خدمات کی فراہمی سے بھی دریغ کرنیوالے نہیں۔بغیر کسی بجٹ، بغیر کسی خرچے کے مفت میں سیلاب کا علاج ہو سکتا ہے بس ایک خدمت کی خواہش کی ضرورت ہے۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ''سولِ سروس ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔حکومتیں آتی ہیں چلی جاتی ہیں، وزرائیِ اعظم آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔وزیر آتے ہیں چلے جاتے ہیںلیکن آپ اپنے مقام پر رہتے ہیں،لہٰذا آپ کے کاندھوں پر عظیم ذمے داریاں ہیں۔'' سوال یہ ہے کہ کیا یہ ذمے داریاں محسوس کی گئیں؟آج سِول سروس خود کو'' ریاستی انجن چلانے کے بنیادی پہیے '' قرار دیتی ہے۔یہ بنیاد کھوکھلی تو نہیںہو گئی؟بتایا جاتا ہے کہ سول سروس صرف7.5فی صد پاکستانیوں کو میرٹ، تعلیم اور اہلیت کی بنیاد پر منتخب کرتی ہے جب کہ 92.5 کا چناؤ ''کوٹہ سسٹم'' کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

مزید برآں بعض اہم اداروں کا کوٹہ10فی صد تمام سروس گروپس میں ہے۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صرف پاکستان ایڈ منسٹریٹیو سروس(سابقہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ)،آفس مینجمنٹ گروپ،فارن سروس آف پاکستان اور پولیس سروس آف پاکستان ہی جوائن کرتے ہیں۔کیوں؟آپ تو واقف ہی ہوں گے۔حال ہمارے ہمسائے بھارت کا بھی کچھ مختلف نہیں لگتا ۔

مجھے تو جواہر لال نہرو کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو انھوں نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کوجیل سے لکھے تھے،بعد کو یہ ایک مشہور کتاب بنے''گلمپسز آف ورلڈ ہسٹری'' نہرو انڈین سول سروس کے بارے میں لکھتے ہیں۔''بد قسمتی سے ہم اِس ملک میں اب تک اِس مصیبت میں مبتلا ہیں، یہ نہ تو انڈین ہے، نہ ہی سِول ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی سروس۔''
Load Next Story