رب ذوالجلال اس قوم پر رحم فرما

17 جون کو کراچی میں جو قیامت برپا ہوئی وہ نہ بیان کی جاسکتی ہے نہ تحریر میں لائی جاسکتی ہے

ISLAMABAD:
17 جون کو کراچی میں جو قیامت برپا ہوئی وہ نہ بیان کی جاسکتی ہے نہ تحریر میں لائی جاسکتی ہے مگر لمحہ فکریہ کے چراغ کو تو ہر حال میں بصیرت کا تیل دینا ہوتا ہے، ایک سانحہ تھا جس نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔ مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ملکر شرمندگی کے پانی سے غسلِ صحت کیا اور قوم بے یارومددگار تپتے صحرا میں ننگے پاؤں دوڑتی رہی، اب تو وہ مثال ہے کہ مرگیا جو شدید گرمی سے لاش اس کی ہے سرد خانے میں اور بقول منیر نیازی ۔

زندہ رہیں توکیا ہے جو مرجائیں ہم توکیا

دنیا سے خاموشی سے گزرجائیں ہم توکیا

اجلاسوں کا زمانہ گزشتہ 7 سال سے ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔ قوم اجلاس پر اجلاس کا تماشہ دیکھ رہی ہے،کراچی میں گرمی کی شدت سے بارہ سو افراد جاں بحق، اجلاس طلب کرلیا گیا، نامعلوم افرادکی فائرنگ سے دس افراد جاں بحق ،اجلاس طلب ، چند اوباش نوجوانوں نے گھر میں ڈاکا ڈالا گھر کے افراد کو زخمی اور خواتین کے ساتھ زیادتی، اجلاس طلب، بوسیدہ اور ناکارہ بس کا سلنڈر پھٹنے سے کئی افراد جاں بحق اور بے شمار زخمی وزرا اور سینئر افسران نے اجلاس طلب کرلیا، بیشترعلاقوں میں دوگھنٹے ٹریفک جام اجلاس طلب،چینلز ان اجلاسوں کی کوریج بھی کرتے ہیں مگر دوسرے دن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اجلاس ازراہ مذاق طلب کیے گئے تھے۔

ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے یا صرف قیاس آرائیاں تھیں، مرنے والوں پر سیاست دانوں کے جاذب نظر بیانات آتے ہیں جنھیں پڑھ کر یہ مفلس اورلاچار عوام اوپردیکھتے ہیں کہ کب اس ملک میں نیک لوگ آکر اس قوم کی تقدیر بدلیں گے۔

کراچی میں گرمی کی وجہ سے جو اموات ہوئی ہیں ،ان پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑکہتی ہیں کہ فرانس میں جب 2010ء میں شدید گرمی پڑی تو وہاں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ ہمارے وزرا سمجھتے ہیں کہ قابلیت کے سمندر میں صرف وہی تیرنا جانتے ہیں۔ بی بی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں فرانس الیکٹرک تھی جو متواتر کام کررہی تھی۔ کے الیکٹرک نہیں تھی وہاں مرنیوالوں کی اکثریت مفلس غریب اور لاوارث نہیں تھی ہمارے ہاں تو مرنیوالے مفلس تھے جو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے ویسے بھی محترمہ صاحبہ غریبوں کے نام نہیں ہوتے ان کی صرف گنتیاں ہوتی ہیں۔


وزیراعلیٰ اور ان کے رفقا نے کے الیکٹرک کے خلاف دھرنا دیا یہ مسائل کا حل نہیں مگر آپ اسے اپنی نا اہلیت کہہ سکتے ہیں۔ ویسے بھی آپ کا یہ بیان سندھ کے شہریوں کے دل کی تقویت کے لیے کافی تھا کہ ہم شہری اور دیہی علاقوں میں فرق نہیں رکھتے۔ ہمارے لیے سب برابر ہیں۔ واقعی صوبائی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے آپ کی حکومت نے جو اعلیٰ مقام پایا ہے انھیں تو مرنیوالے بھی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

یاد رکھیں کہ رب عظیم بناوٹی وضاحتوں کی وکالت کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا اور وہ ان سے سختی سے نمٹے گا آج کی نوجوان نسل کے لیے تاریخ کے چراغ بجھا دیے گئے ہیں۔ 18 جون 1979ء میں بھی ریکارڈ گرمی پڑی تھی جو 47 سینٹی گریڈ ریکارڈ کی گئی تھی جب کہ عوام اب 43 سینٹی گریڈ گرمی برداشت نہیں کرسکے اس کی وجہ یہ تھی کہ کراچی میں بسنے والوں کا خون تو برے حالات کی وجہ سے نچوڑ لیا گیا رہی سہی کسر جسم کے پانی کی کمی اور بجلی کی کمی نے پوری کردی یہ سب کیا ہے، غلط منصوبہ بندی، بدانتظامی، نااہلی اورکرپشن کا کمال ہے۔ 18 جون 1979ء میں تو دس افراد بھی نہیں مرے تھے۔

اس شہر میں بجلی کا آنا جانا اب ڈراؤنا کھیل بن گیا ہے، جس شہر میں جنازے تدفین کے لیے جگہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہوں وہاں کے ارباب اختیار کو اپنے سر شرم سے جھکا لینے چاہیں ۔ ہمارے سیاست دان حضرت عمرؓ کے اس قول کو بھول گئے ہیں کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی مرجائے تو عمر اس کا ذمے دار ہوگا۔ یہ سیاست دان ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر معصوم لوگوں کی میتوں پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہے اور قوم کو ماہرانہ مشورے دیتے رہے مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہ کرسکے جس کے نتیجے میں عوام کے مصائب میں کچھ کمی واقع ہوتی۔

دوسری طرف کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی کا پردہ بار بار چاک ہوتا رہا مگر اس کا قبلہ درست کرنے میں وفاقی اورصوبائی دونوں حکومتیں بے بس نظر آتی رہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں ہی عوام سے مذاق کر رہی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ علانیہ اور غیر علانیہ معمو ل کی کہانی کا مرکزی کردار بن گئی ہے ، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں... ایدھی، شوکت خانم اورخواجہ غریب نواز ٹرسٹ جیسے اداروں کا وجود غنیمت ہے جو سفید پوش مستحقین کی خدمت کر رہے ہیں، عبد الستار ایدھی انتہائی عمر رسیدہ ہونے کے باوجود وہیل چیئر پرغریبوں، مفلسوں کے لیے مختلف شعبہ زندگی سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، یہ ان کا لاچار، مفلس اورغریبوں پر احسان ہے۔

جن کے لواحقین کے پاس کفن اور قبر خریدنے کے پیسے نہیں، شوکت خانم کینسر اسپتال کینسر کے معاملات کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے، ایک عزیز جن کی تنخواہ بیس ہزار تھی انھیں ڈاکٹروں نے کینسر بتایا اورکیمو تھراپی کی تجویز دی جس کے اخراجات 41 لاکھ روپے تھے۔ اب قارئین آپ بتائیں کہ جن کی تنخواہ بیس ہزار روپے ہو وہ کیا کرے گا۔ شوکت خانم نے ان کا علاج کروایا آج وہ زندگی کی گاڑی کو عزت و تکریم سے کھینچ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں خواجہ غریب نواز ٹرسٹ نے اس شہر کے ایک شہری کا علاج کروایا جسے کینسر تھا۔

ان صاحب کے علاج پر 18 لاکھ روپے خرچ کیے اور سال بھر بے شمار مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سارا سال دو وقت غریبوں کے لیے دستر خوان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بیوہ اور بزرگوں میں راشن تقسیم اور بقر عید کے وقت ہزاروں ٹن گوشت مفت تقسیم کیا جاتا ہے اور سیکڑوں بچیوں کی شادی اس ادارے کے تحت ہوتی ہے۔ ان تینوں اداروں کے آپ اشتہارات اخبارات میں نہیں دیکھیں گے لوگ خود چل کر ان اداروں میں زکوۃ دیتے ہیں اگر ایدھی، شوکت خانم، خواجہ غریب نواز فلاحی کام چھوڑ دیں تو غریب اور مفلس تو ویسے ہی آسودہ خاک ہوجائے گا اور بقول۔ استاد قمر جلالوی ؎

مقدرمیں جو سختی تھی وہ مرکر بھی نہیں نکلی
لحدکھودی گئی میری تو پتھریلی زمیں نکلی
Load Next Story