پاکستان سپر لیگ کا انعقاد پھر کھٹائی میں پڑ گیا
موجودہ حالات میں ایونٹ کیلیے قطر میں تمام تر انتظامات کا بروقت مکمل ہونا مشکل نظر آرہا ہے
پاکستان سپر لیگ ایک بارپھرکھٹائی میں پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا، چیئرمین پی سی بی شہریار خان کا کہنا ہے کہ ایونٹ کا انعقاد خطرے میں دکھائی دے رہا ہے، موجودہ حالات میں قطر میں تمام ترانتظامات کا بروقت مکمل ہونا مشکل نظر آرہا ہے، میری دانست میں اگر کوئی کام اچھے طریقے سے نہ ہوسکے تو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔
ایونٹ کی ملک سے باہر میزبانی کے حق میں نہیں تھا،میری بات سے اتفاق نہیں کیا گیا، متبادل نیوٹرل وینیوز کیلیے بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے نام بھی زیرغور ہیں، سلیکٹرز سہیل تنویر، توفیق عمر اور ناصر جمشید جیسوں کو بار بار لاتے ہیں، کوچ اورکپتان شکست کے خوف سے نئے ٹیلنٹ کو موقع دینے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لندن میں دیے گئے ایک انٹرویو میں چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے کہا ہے کہ ذاتی طور پر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا، پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کا منصوبہ نجم سیٹھی اور دیگر پر چھوڑ دیا ہے، تاہم ایونٹ کا انعقاد خطرے میں دکھائی دے رہا ہے،موجودہ حالات میں قطر میں مقابلوں کا انعقاد کرنے کیلیے تمام ترانتظامات کا بروقت مکمل ہونا مشکل نظر آرہا ہے، اس صورتحال میں اگر پی ایس ایل قطر میں ہوبھی گئی تو کامیاب نہ ہونے کا خدشہ موجود رہے گا، میرا نظریہ ہے کہ اگر کوئی کام اچھے طریقے سے نہ ہوسکے تو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ سپر لیگ کے پاکستان میں انعقاد کا مشورہ دیا تھا، خواہ ایونٹ میں سیکیورٹی وجوہات پر ٹاپ کلاس کے کرکٹرز نہ آتے تب بھی اس کو ملک میں ہی ہونا چاہیے تھا، لاہور،کراچی، ملتان، فیصل آباد ممکنہ وینیوز ہوسکتے تھے، میرا خیال تھا کہ لیگ پاکستان میں ہی کروائی جاتی تو نامور کھلاڑیوں کو پرکشش معاوضوں کی پیش کش کرکے یہاں آنے پر آمادہ کیا جاسکتا تھا لیکن انھوں نے اس معاملے میں میری بات سے اتفاق نہ کیا۔
شہریار خان نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کیون پیٹرسن، گلین میکسویل، اے بی ڈیویلیئرز جیسے کرکٹرز کو نہ بلا سکیں لیکن ڈیوائن براوو، جیسن ہولڈر، ایلٹن چگمبرا اور چند سری لنکن پلیئرز کو تو آسانی سے پاکستان آنے پر راضی کرسکتے تھے،تھوڑی رقم دے کر اس بار غیر ملکی کھلاڑیوں کو بلائیں،اپنے اسٹیڈیم بھریں اور اگلے سال یو اے ای میں بڑی پاکستان لیگ کیلیے پلیٹ فارم بھی تیار کرلیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے معاملے میں پی سی بی دو گروپوں میں تقسیم ہے۔
چیئرمین پی سی بی شہریار خان اگلے ایونٹ کے انعقاد کے حق میں نہیں جبکہ دوسرے گروپ کی سربراہی گورننگ باڈی کے رکن نجم سیٹھی کررہے ہیں جو ہر حال میں اگلے سال سپر لیگ کرانا چاہتا ہے، تاہم فی الحال حالات اس کے لیے قطعی طور پر سازگار نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب چیئرمین پی سی بی نے مستقبل کی ہوم سیریز کیلیے متبادل نیوٹرل وینیوزکے انتخاب کا بھی اشارہ دیا ہے، پاکستان کو رواں سال یواے ای میں انگلینڈ کی میزبانی کرنا ہے۔
تاہم بورڈ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ امارات میں ویسے تو کوئی مسائل نہیں لیکن اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، بنگلہ دیش کے گراؤنڈز اچھے اورتماشائیوں کا رویہ بھی دوستانہ ہے، جنوبی افریقہ بھی ہمیں سہولیات دینے کی خواہش ظاہرکرچکا ہے، دونوں بورڈزسے بات چیت چل رہی ہے، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ پر بھی غور ہوا لیکن وہاں کا موسم ناقابل اعتبار ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں بمشکل آٹھویں پوزیشن پر جگہ بنانے کے سوال پر انھوں نے کہاکہ جدید کرکٹ بہت آگے نکل چکی،ہم اب بھی 80اور 90کی دہائی کے انداز میں کھیل رہے ہیں،دوسرے ٹیم میں نیا ٹیلنٹ لانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔
ہم ابھی تک شعیب ملک اور محمد سمیع کوکم بیک کرارہے ہیں، سلیکٹرز سہیل تنویر، توفیق عمر اور ناصر جمشید جیسوں کو بار بار لاتے ہیں کیونکہ وہ وقار یونس، مصباح الحق اور شائقین کی نظر میں جانے پہچانے نام ہیں،کوچ اور کپتان شکست کے خوف سے نئے ٹیلنٹ کوموقع دینے سے گریزکرتے رہے ہیں، تاہم اس طرح کے فیصلوں میں اب میری طرف سے رکاوٹ سامنے آتی ہے، میں چیزوں کواپنے انداز میں آگے بڑھارہا ہوں، اظہر علی اورسرفراز احمد کی کارکردگی قابل ستائش ہے، شعیب ملک کی واپسی پر تحفظات تھے لیکن انھوں نے ابھی تک اپنی افادیت ثابت کی ہے۔
ایونٹ کی ملک سے باہر میزبانی کے حق میں نہیں تھا،میری بات سے اتفاق نہیں کیا گیا، متبادل نیوٹرل وینیوز کیلیے بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے نام بھی زیرغور ہیں، سلیکٹرز سہیل تنویر، توفیق عمر اور ناصر جمشید جیسوں کو بار بار لاتے ہیں، کوچ اورکپتان شکست کے خوف سے نئے ٹیلنٹ کو موقع دینے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لندن میں دیے گئے ایک انٹرویو میں چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے کہا ہے کہ ذاتی طور پر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا، پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کا منصوبہ نجم سیٹھی اور دیگر پر چھوڑ دیا ہے، تاہم ایونٹ کا انعقاد خطرے میں دکھائی دے رہا ہے،موجودہ حالات میں قطر میں مقابلوں کا انعقاد کرنے کیلیے تمام ترانتظامات کا بروقت مکمل ہونا مشکل نظر آرہا ہے، اس صورتحال میں اگر پی ایس ایل قطر میں ہوبھی گئی تو کامیاب نہ ہونے کا خدشہ موجود رہے گا، میرا نظریہ ہے کہ اگر کوئی کام اچھے طریقے سے نہ ہوسکے تو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ سپر لیگ کے پاکستان میں انعقاد کا مشورہ دیا تھا، خواہ ایونٹ میں سیکیورٹی وجوہات پر ٹاپ کلاس کے کرکٹرز نہ آتے تب بھی اس کو ملک میں ہی ہونا چاہیے تھا، لاہور،کراچی، ملتان، فیصل آباد ممکنہ وینیوز ہوسکتے تھے، میرا خیال تھا کہ لیگ پاکستان میں ہی کروائی جاتی تو نامور کھلاڑیوں کو پرکشش معاوضوں کی پیش کش کرکے یہاں آنے پر آمادہ کیا جاسکتا تھا لیکن انھوں نے اس معاملے میں میری بات سے اتفاق نہ کیا۔
شہریار خان نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کیون پیٹرسن، گلین میکسویل، اے بی ڈیویلیئرز جیسے کرکٹرز کو نہ بلا سکیں لیکن ڈیوائن براوو، جیسن ہولڈر، ایلٹن چگمبرا اور چند سری لنکن پلیئرز کو تو آسانی سے پاکستان آنے پر راضی کرسکتے تھے،تھوڑی رقم دے کر اس بار غیر ملکی کھلاڑیوں کو بلائیں،اپنے اسٹیڈیم بھریں اور اگلے سال یو اے ای میں بڑی پاکستان لیگ کیلیے پلیٹ فارم بھی تیار کرلیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان سپر لیگ کے معاملے میں پی سی بی دو گروپوں میں تقسیم ہے۔
چیئرمین پی سی بی شہریار خان اگلے ایونٹ کے انعقاد کے حق میں نہیں جبکہ دوسرے گروپ کی سربراہی گورننگ باڈی کے رکن نجم سیٹھی کررہے ہیں جو ہر حال میں اگلے سال سپر لیگ کرانا چاہتا ہے، تاہم فی الحال حالات اس کے لیے قطعی طور پر سازگار نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب چیئرمین پی سی بی نے مستقبل کی ہوم سیریز کیلیے متبادل نیوٹرل وینیوزکے انتخاب کا بھی اشارہ دیا ہے، پاکستان کو رواں سال یواے ای میں انگلینڈ کی میزبانی کرنا ہے۔
تاہم بورڈ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ امارات میں ویسے تو کوئی مسائل نہیں لیکن اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، بنگلہ دیش کے گراؤنڈز اچھے اورتماشائیوں کا رویہ بھی دوستانہ ہے، جنوبی افریقہ بھی ہمیں سہولیات دینے کی خواہش ظاہرکرچکا ہے، دونوں بورڈزسے بات چیت چل رہی ہے، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ پر بھی غور ہوا لیکن وہاں کا موسم ناقابل اعتبار ہے۔ ون ڈے کرکٹ میں بمشکل آٹھویں پوزیشن پر جگہ بنانے کے سوال پر انھوں نے کہاکہ جدید کرکٹ بہت آگے نکل چکی،ہم اب بھی 80اور 90کی دہائی کے انداز میں کھیل رہے ہیں،دوسرے ٹیم میں نیا ٹیلنٹ لانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔
ہم ابھی تک شعیب ملک اور محمد سمیع کوکم بیک کرارہے ہیں، سلیکٹرز سہیل تنویر، توفیق عمر اور ناصر جمشید جیسوں کو بار بار لاتے ہیں کیونکہ وہ وقار یونس، مصباح الحق اور شائقین کی نظر میں جانے پہچانے نام ہیں،کوچ اور کپتان شکست کے خوف سے نئے ٹیلنٹ کوموقع دینے سے گریزکرتے رہے ہیں، تاہم اس طرح کے فیصلوں میں اب میری طرف سے رکاوٹ سامنے آتی ہے، میں چیزوں کواپنے انداز میں آگے بڑھارہا ہوں، اظہر علی اورسرفراز احمد کی کارکردگی قابل ستائش ہے، شعیب ملک کی واپسی پر تحفظات تھے لیکن انھوں نے ابھی تک اپنی افادیت ثابت کی ہے۔