تعلیم کا میدان اور ٹھیکیداری کا نظام
پوزیشنز حاصل کرنا اب ایک سائنس ہے جسے چند اداروں نے سیکھ کر اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔
ISLAMABAD:
پہلے پہل کوئی تعمیراتی کام جلدی نمٹانا ہو یا پھر معیار کے بجائے رفتار مطلوب ہو اور اس کے ساتھ ساتھ چار پیسے بھی بچانے ہوں تو اُسے کسی ٹھیکیدار کے حوالے کر دیا جاتا تھا، ایسا اب بھی ہوتا ہے مگر اب ٹھیکیدار کنٹریکٹر کہلاتے ہیں کیوںکہ اس پیشے میں ''پیسہ'' بڑا ہے اور جس بھی پیشے میں پیسہ بہت ہو تو اس کے لئے نام، الفاظ اور استعارے بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کامیاب ٹھیکیدار وہی ہوتا ہے جو پیسے بنانے کے ساتھ ساتھ گاہک بڑھانے یعنی اپنی ساکھ بنانے میں بھی کامیاب ہو کیونکہ ٹھیکیدار ایک کام ختم کرکے دوسرا کام پکڑنے کے لئے مریخ پر تو نہیں جاسکتا۔
تعمیراتی کاموں کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سارے کام اس ملک میں خوبصورتی کے ساتھ ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں۔ بھلے وہ کوئی ٹیکسی، رکشہ یا پھر چنگ چی خرید کر کسی ڈرائیور کو ٹھیکے پر دینے جیسا کوئی چھوٹا کام اور چھوٹی ٹھیکیداری ہو یا پھر موٹر وے بنانے اور چلانے جیسا بڑا کام۔ تازہ مثال کے طور پر ہم گوادر پورٹ کو بھی لے سکتے ہیں جسے چین ہمارے لئے بنا بھی رہا ہے اور چلائے گا بھی۔ یہ ٹھیکیداری ہم اور بھی بہت سارے شعبوں میں رائج ہوچکی ہے جیسے روزگار، صحت اور گھر کی بنیادی ضروریات دنیا بھر میں حکومتوں اور اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔ باقی ٹھیکیدار تو پھر کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں مگر تعلیم کا شعبہ اور موضوع اس لئے بروقت ہے کہ ان دنوں میٹرک کے امتحانات کے نتائج آرہے ہیں اور اس وقت تک اعلان شدہ بورڈز کے نتائج پر نظر دوڑانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت دراصل تعلیم کا شعبہ غیر اعلانیہ طور پر ٹھیکے پر دے چکی ہے۔
اگر ہم پنجاب بورڈز کے حالیہ نتائج پر نظر ڈالیں تو دس بورڈز کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر تعلیم کا شعبہ حکومت سے ہتھیا چکا ہے یا دوسرے لفظوں میں حکومت ہی اسے ایک بوجھ سمجھتے ہوئے اپنے کندھوں سے اُتار کر پھینک چکی ہے۔ لاہور بورڈ کی پہلی اٹھارہ میں سے 9 پوزیشنز نجی ملکیتی اداروں کے بچوں نے حاصل کی ہیں تو 9 پوزیشنز عملاً خود مختار اداروں نے حاصل کیں اور براہ راست حکومتی کنٹرول والے اسکول کوئی ایک بھی پوزیشن حاصل نہ کرسکے۔ پنجاب بورڈز کے نتائج کے بعد واضح ہے کہ پہلی تین پوزیشنز میں سے صرف دو پوزیشنز سرکاری اسکولوں نے حاصل کی ہیں اور وہ بھی طالبات نے اگر صورتحال ذرا سی مختلف نظرآتی ہے تو وہ آزاد کشمیر میں جہاں پر پوزیشنز تو غیر سرکاری اداروں نے ہی حاصل کی ہیں لیکن ان غیر سرکاری اداروں میں ایک غیر کاروباری، رفاہی ادارے نے بھی نہ صرف پہلی پوزیشن حاصل کی ہے بلکہ پہلی 20 میں سے 13 پوزیشنز بھی یہ ہی ادارہ لے اُڑا ہے۔
کچھ بھی ہو پرائیویٹ تعلیم ایک صنعت کے طور پر معرض وجود میں آچکی ہے اور اب اس کے فوائد اور نقصانات دونوں ہی پرغور کرکے ایک قومی پالیسی اختیار کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی اور اس ضمن میں چند اہم پہلوؤں پر غور و فکر وقت کی ضرورت ہے۔ پوزیشنز حاصل کرنا اب ایک سائنس ہے جسے چند اداروں نے سیکھ کر اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ یہ ادارے کا نام روشن کرنے کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ بچوں کو کئی کئی ماہ تک متواتر مختلف ٹیوشنز دی جاتی ہیں اور امتحان کی مشقیں کروائی جاتی ہیں اور مخصوص اداروں کی اجارہ داری کے باعث ہی اچھے اساتذہ تک عام آدمی کے بچوں کی رسائی ناممکن ہوچکی ہے۔ وہ وقت اب بیت گیا جب ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا بچہ بھی اپنی ذہانت، محنت اور استاد کی مہارت اور توجہ کی بدولت نمایاں پوزیشن حاصل کرسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب دیہات میں بہت کم بچے پوزیشنز لے پاتے ہیں۔
اسکولوں میں نمبر حاصل کرنے پر زور کی دوڑ کی وجہ سے بچوں کے اس عمر میں لازمی اوصاف یعنی کردار سازی اور اقدار پروان چڑھانے کا عمل مفقود ہوکر رہ گیا ہے جو انتشار، ناپختگی، انفرادیت پسندی اور کنفیوزڈ نسلیں پروان چڑھانے کا ایک اہم سبب بن رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی کیریئر کاؤنسلنگ پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ بچے بھی اپنے والدین کے دباؤ اور معاشرتی رحجان کے پیشِ نظر اپنی کیرئیر کے لئے بڑے مقاصد طے کرنے کے بجائے مادیت پسند ہو کر محدود پیشوں میں جانے اور سماجی حیثیت میں اضافے اور دولت کے حصول کے لئے چند گنے چنے شعبوں پر ہی دھیان مرکوز رکھتے ہیں اور ملک چلانے والے بنیادی شعبوں میں جانے کو اپنی ترجیح بنانے کے بجائے صرف اور صرف ڈاکٹر یا انجنئیر ہی بننا چاہتے ہیں۔
اگر اب بھی اربابِ اختیار تعلیم پر توجہ نہ دینا چاہیں یا پھر یہ ان کی سوچوں میں اس لئے نہ سما رہی ہو کہ اس شعبے سے ان کو براہِ راست کوئی فائدہ نہیں مل رہا تو پھر اس کے لیے بھی میٹرو بس، ڈائیوو، موٹروے یا پھر گوادر پورٹ کی طرح کوئی مستقل ٹھیکیدار تلاش کرلیں کیونکہ چھوٹے ٹھیکیدار صاحبانِ اختیار کو براہِ راست کوئی فائدہ شاید ہی پہنچا سکیں، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
[poll id="564"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پہلے پہل کوئی تعمیراتی کام جلدی نمٹانا ہو یا پھر معیار کے بجائے رفتار مطلوب ہو اور اس کے ساتھ ساتھ چار پیسے بھی بچانے ہوں تو اُسے کسی ٹھیکیدار کے حوالے کر دیا جاتا تھا، ایسا اب بھی ہوتا ہے مگر اب ٹھیکیدار کنٹریکٹر کہلاتے ہیں کیوںکہ اس پیشے میں ''پیسہ'' بڑا ہے اور جس بھی پیشے میں پیسہ بہت ہو تو اس کے لئے نام، الفاظ اور استعارے بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کامیاب ٹھیکیدار وہی ہوتا ہے جو پیسے بنانے کے ساتھ ساتھ گاہک بڑھانے یعنی اپنی ساکھ بنانے میں بھی کامیاب ہو کیونکہ ٹھیکیدار ایک کام ختم کرکے دوسرا کام پکڑنے کے لئے مریخ پر تو نہیں جاسکتا۔
تعمیراتی کاموں کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سارے کام اس ملک میں خوبصورتی کے ساتھ ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں۔ بھلے وہ کوئی ٹیکسی، رکشہ یا پھر چنگ چی خرید کر کسی ڈرائیور کو ٹھیکے پر دینے جیسا کوئی چھوٹا کام اور چھوٹی ٹھیکیداری ہو یا پھر موٹر وے بنانے اور چلانے جیسا بڑا کام۔ تازہ مثال کے طور پر ہم گوادر پورٹ کو بھی لے سکتے ہیں جسے چین ہمارے لئے بنا بھی رہا ہے اور چلائے گا بھی۔ یہ ٹھیکیداری ہم اور بھی بہت سارے شعبوں میں رائج ہوچکی ہے جیسے روزگار، صحت اور گھر کی بنیادی ضروریات دنیا بھر میں حکومتوں اور اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔ باقی ٹھیکیدار تو پھر کسی وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں مگر تعلیم کا شعبہ اور موضوع اس لئے بروقت ہے کہ ان دنوں میٹرک کے امتحانات کے نتائج آرہے ہیں اور اس وقت تک اعلان شدہ بورڈز کے نتائج پر نظر دوڑانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت دراصل تعلیم کا شعبہ غیر اعلانیہ طور پر ٹھیکے پر دے چکی ہے۔
اگر ہم پنجاب بورڈز کے حالیہ نتائج پر نظر ڈالیں تو دس بورڈز کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر تعلیم کا شعبہ حکومت سے ہتھیا چکا ہے یا دوسرے لفظوں میں حکومت ہی اسے ایک بوجھ سمجھتے ہوئے اپنے کندھوں سے اُتار کر پھینک چکی ہے۔ لاہور بورڈ کی پہلی اٹھارہ میں سے 9 پوزیشنز نجی ملکیتی اداروں کے بچوں نے حاصل کی ہیں تو 9 پوزیشنز عملاً خود مختار اداروں نے حاصل کیں اور براہ راست حکومتی کنٹرول والے اسکول کوئی ایک بھی پوزیشن حاصل نہ کرسکے۔ پنجاب بورڈز کے نتائج کے بعد واضح ہے کہ پہلی تین پوزیشنز میں سے صرف دو پوزیشنز سرکاری اسکولوں نے حاصل کی ہیں اور وہ بھی طالبات نے اگر صورتحال ذرا سی مختلف نظرآتی ہے تو وہ آزاد کشمیر میں جہاں پر پوزیشنز تو غیر سرکاری اداروں نے ہی حاصل کی ہیں لیکن ان غیر سرکاری اداروں میں ایک غیر کاروباری، رفاہی ادارے نے بھی نہ صرف پہلی پوزیشن حاصل کی ہے بلکہ پہلی 20 میں سے 13 پوزیشنز بھی یہ ہی ادارہ لے اُڑا ہے۔
کچھ بھی ہو پرائیویٹ تعلیم ایک صنعت کے طور پر معرض وجود میں آچکی ہے اور اب اس کے فوائد اور نقصانات دونوں ہی پرغور کرکے ایک قومی پالیسی اختیار کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی اور اس ضمن میں چند اہم پہلوؤں پر غور و فکر وقت کی ضرورت ہے۔ پوزیشنز حاصل کرنا اب ایک سائنس ہے جسے چند اداروں نے سیکھ کر اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ یہ ادارے کا نام روشن کرنے کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ بچوں کو کئی کئی ماہ تک متواتر مختلف ٹیوشنز دی جاتی ہیں اور امتحان کی مشقیں کروائی جاتی ہیں اور مخصوص اداروں کی اجارہ داری کے باعث ہی اچھے اساتذہ تک عام آدمی کے بچوں کی رسائی ناممکن ہوچکی ہے۔ وہ وقت اب بیت گیا جب ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والا بچہ بھی اپنی ذہانت، محنت اور استاد کی مہارت اور توجہ کی بدولت نمایاں پوزیشن حاصل کرسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب دیہات میں بہت کم بچے پوزیشنز لے پاتے ہیں۔
اسکولوں میں نمبر حاصل کرنے پر زور کی دوڑ کی وجہ سے بچوں کے اس عمر میں لازمی اوصاف یعنی کردار سازی اور اقدار پروان چڑھانے کا عمل مفقود ہوکر رہ گیا ہے جو انتشار، ناپختگی، انفرادیت پسندی اور کنفیوزڈ نسلیں پروان چڑھانے کا ایک اہم سبب بن رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی کیریئر کاؤنسلنگ پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی، اور شاید یہی وجہ ہے کہ بچے بھی اپنے والدین کے دباؤ اور معاشرتی رحجان کے پیشِ نظر اپنی کیرئیر کے لئے بڑے مقاصد طے کرنے کے بجائے مادیت پسند ہو کر محدود پیشوں میں جانے اور سماجی حیثیت میں اضافے اور دولت کے حصول کے لئے چند گنے چنے شعبوں پر ہی دھیان مرکوز رکھتے ہیں اور ملک چلانے والے بنیادی شعبوں میں جانے کو اپنی ترجیح بنانے کے بجائے صرف اور صرف ڈاکٹر یا انجنئیر ہی بننا چاہتے ہیں۔
اگر اب بھی اربابِ اختیار تعلیم پر توجہ نہ دینا چاہیں یا پھر یہ ان کی سوچوں میں اس لئے نہ سما رہی ہو کہ اس شعبے سے ان کو براہِ راست کوئی فائدہ نہیں مل رہا تو پھر اس کے لیے بھی میٹرو بس، ڈائیوو، موٹروے یا پھر گوادر پورٹ کی طرح کوئی مستقل ٹھیکیدار تلاش کرلیں کیونکہ چھوٹے ٹھیکیدار صاحبانِ اختیار کو براہِ راست کوئی فائدہ شاید ہی پہنچا سکیں، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔
[poll id="564"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس