ہمارے ٹائیگر …ہمیں تم پر فخر ہے

دہشت گردی کا عفریت خیبرپختونخوا پولیس کے کیسے کیسے ہیرے نگل گیا۔کیسے کیسے بہادر اور نڈر پولیس افسر لقمہء اجل بن گئے



PARIS: د ہشت گردی کا عفریت خیبرپختونخوا پولیس کے کیسے کیسے ہیرے نگل گیا۔کیسے کیسے بہادر اور نڈر پولیس افسر لقمہء اجل بن گئے۔ آئی جی صفوت غیور،ڈی آئی جی ملک سعد، ایس ایس پی اقبال مروت، ایس پی کالام خان، ایس پی خورشید خان، ایس پی ہلال خان وطن پر قربان ہوگئے ، ان کے علاوہ سیکڑوں انسپکٹر، سب انسپکٹر، ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل جنہوں نے دہشت گردی کے دیو کو للکارااور آگے بڑھ کر موت کو گلے لگالیا۔ مگر لاکھوں شہریوں کو بچا لیا۔ پچھلے دس سالوں میں دنیا نے فرض شناسی اور جرأ ت کے ایسے منظر سیکڑوں بار دیکھے ہیں کہ اِدھر شہید وں کی میتّیں اُٹھائی گئیں، اُدھر چند منٹوں میں اس کی جگہ لینے کے لیے نئے افسر اورتازہ دم جوان پہنچ گئے۔کسی محاذ سے کوئی پیچھے نہیں ہٹا۔کبھی کوئی مورچہ خالی نہیں چھوڑاگیا۔

پنجاب کے جانبازوں کی قربانیاں بھی بہت ہیں مگر خیبر پختونخوا پولیس کی جرأتیں بے مثال ہیں۔ ڈیرہ اسمعیل خان ، ایبٹ آباد اور کوہاٹ ڈویژن میں اس بہادر فورس کو کمانڈ کرنا میرے کیرئیر کا انتہائی قابلِ فخر حصّہ ہے۔ جب میں کوہاٹ اور ڈی آئی خان میں ڈی آئی جی تھا اس وقت لیفٹینٹ جنرل مسعود اسلم صوبے کے کورکمانڈر تھے۔ وہ میرے ہم مکتب تھے۔ برسوں پہلے وہ اور میں کیڈٹ کالج حسن ابدال کے ایک ہی ہوسٹل میں رہتے تھے۔۔ 2009 میں راولپنڈی کی پریڈ لین میں نمازجمعہ کے دوران مسجد میں دھماکا ہوا جس میں جنرل صاحب کا جواں سال اور اکلوتا بیٹا شہید ہوگیا۔

دوسرے روز میں تعزیّت کے لیے گیاتو بہادرجرنیل پورے حوصلے میں تھا۔ اس صدمے کی حالت میں بھی انھوں نے مجھے تین چار مرتبہ کہا کہ "میں پشاورپولیس کی بہادری کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ جانتے اور دیکھتے ہوئے بھی آپ کا جوان موت کو جَپھّا ضرورڈالتا ہے" انھوں نے ٹھیک کہا تھا ۔ پشاور میں کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ضلع کچہری کے اندر جانے والے خودکش بمبارکوڈیوٹی پر تعینات پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل یا اے ایس آئی نے للکارا۔ خودکش بمبار کی صورت سامنے کھڑی موت نے پولیس ملازم کو وارننگ دیتے ہوئے کہا "پیچھے ہٹ جاؤ اور اپنی جان بچاؤ"۔ تو قوم کے محافظ نے للکار کر جواب دیا "میں نے یہ وردی پیچھے ہٹنے کے لیے نہیں پہنی " محافظ نے آگے بڑھ کر خود کش کو جپھّا ڈالا ۔دھماکا ہوا، محافظ شہید ہوگیا مگر اس نے سیکڑوں شہریوں کی جانیں بچالیں۔ موت اور محافظ کا آمنا سامنا کئی بار ہوا اور کئی بار یہی مکالمہ دھرایا گیا۔

دنیا سمجھتی ہے کہ ہم محسنوں کو فراموش کردینے والی قوم ہیں۔ اپنے بہادر سپوتوں کو ان کی زندگی میں یاد نہیں کرتے۔ان کی شہادت کے بعد ان کے ترانے لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب تو ٹیلیویژن کے بیسیوں چینل ہیں مگر سب کئی مہینوں تک ایک جرم کی مرتکب اسمگلر ماڈل کو گلیمرائز کرنے میں مصروف رہے۔ میڈیا سے وابستہ ایک دانشور کہہ رہا تھا کہ ہمارے چینلوں پر خاتون کے علاوہ دو ہی چیزیں نظر آتی ہیں، موبائل فون یا کرکٹ کا جنون۔ اگر کسی چینل کے پاس جان ہتھیلی پر رکھ کر شہریوں کا تحفّظ کرنے والے نِڈر جانبازوں کی خدمات اور کارنامے اجاگر کرنے کا وقت ہوتا تو وہ "ٹائیگر" سے ملنے کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان ضرور جاتا۔

اکیسویں صدی کے آغاز تک سارا خیبرپختونخوا امن کا گہوارہ تھا اور ڈیرہ اسماعیل خان تو بہت ہی پُرامن علاقہ سمجھا جاتاتھا۔ 2005میں مجھے ڈی آئی جی، ڈیرہ اسماعیل خان تعینات کیا گیا تو علاقے کا امن مثالی تھا۔کسی میٹنگ میں پشاورجانا ہواتو میں دن کو اپنا کام ختم کرکے اکثر رات کو سفر کرتا تھا۔ رات نو بجے ڈیرہ سے چل کر ایک بجے پشاور پہنچ جاتے تھے۔

رات آٹھ بجے اسلام آباد سے روانہ ہوکر تلہ گنگ، میانوالی اور چشمہ بیراج سے ہوتے ہوئے ایک ڈیڑھ بجے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ جانا معمول تھا۔ اس وقت ڈیرے وال بموں اور دھماکوں سے ناآشنا تھے۔ پرسکون زندگی گزارنے کے خواہشمند پختون بنوں اور لکی مروت سے ڈیرہ اسماعیل خان آکر رہائش اختیار کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں اداروں کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کا امن بھی بربادہوگیا۔ جگہ جگہ بم دھماکوں سے انسانی جسموں کے پرخچے اڑنے لگے اور جنت نظیر خطہ لہو رنگ ہوگیا۔

مجھے یاد ہے2006 میں پہلی مرتبہ ڈیرہ اسماعیل خان کی رِنگ روڈ پر آئی ای ڈی کے ذریعے پولیس وین پر حملہ ہوا جس میں ہمارے تین جوان شہید ہوگئے۔ جب ہرشخص موقع سے دور بھاگ رہا تھا ایک پتلے جسم کا اسمارٹ سا نوجوان ہر خطرے سے بے نیازہوکر جائے وقوعہ کی طرف دوڑتا ہواآیا اور کریٹر(crator) اور بکھرے ہوئے ٹکڑوں کا معائنہ کرنے لگا۔ پھر دہشت گردی کی بلاؤں نے جیسے اس علاقے کی راہ دیکھ لی۔کچھ عرصہ بعد پھر دھماکا ہوا تو اسی نوجوان کی مستعدی اور دلیری نے مجھے متوجہ کیا۔ دریافت کیا تو بتایا گیا کہ وہ کانسٹیبل عنایت اﷲہے ۔ اس نے بموں کو ناکارہ بنانے کا کورس کیا ہوا ہے۔ عام پولیس والے جن جگہوں پر جانے سے کَنّی کتراتے عنایت وہاں پہنچتا ہے۔

میں نے خود دیکھا کہ فرض کی ادائیگی میں موت کا خوف اس کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بن سکا۔ وہ مہلک بموں سے شہریوں کو بچانا نوکری کا نہیں ایمان کا حصّہ سمجھتا ہے ، پھر انھی فرائض کی ادائیگی میں عنایت 2008 میں زخمی ہوگیا مگر اگلے ہی روز وہ زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ڈیوٹی پر موجود تھا۔ بم اور بارود عنایت کو کبھی خوفزدہ نہیں کرسکے۔ اس کی بہادری اور جرأت دیکھ کر شہریوں نے اسے ٹائیگر کا خطاب دیا۔دہشت گردی پروان چڑھتی گئی اور علاقے کے حالات مزید خراب ہوتے گئے۔

آئی ای ڈی کے ساتھ ساتھ خودکش دھماکے بھی شروع ہوگئے مگر ایسی حالت میں بھی ٹائیگر موقع پر پہنچ جاتا تو شہری پرسکون ہوجاتے۔ پولیس کے جوانوں نے کسی خودکش بمبار کو روکا تو عنایت ٹائیگر شاہین کی طرح لپک کر موقع پر پہنچااور مہلک جیکٹ کو defuseکردیا۔ ان جیکٹوں کو ناکارہ بناتے ہوئے عنایت کئی بار زخمی ہوا۔ مگر نہ اس کی فرض شناسی میں کمی آئی اور نہ اس کے جذبے ماند پڑے۔ پھر کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ بارود سے بھری ہوئی گاڑی شہرکی جانب آئی مگر موت اور شہریوں کے درمیان ٹائیگر آکھڑا ہوا اور اس نے بارود سے بھری گاڑی کو ناکارہ بنا کر ہزاروں گھرانے اُجڑنے سے بچالیے۔

عوام کے تحفظّ کی دھن میں بموں کو ناکارہ بناتے بناتے اس کے جسم کے کئی اعضاء ناکارہ ہوگئے مگر وہ جذبوں اور جراتوں کے سفر پر اسی رفتار سے گامزن رہا۔ 2012 میں گومل یونیورسٹی کے پاس شہر کو تباہ کرنے کے لیے نصب کیے گئے بم ناکارہ بناتے ہوئے عنایت ٹائیگر کا دایاں کندھا بری طرح زخمی ہوا مگر اس نے کبھی آرام کی خواہش کی نہ چھٹی کی درخواست دی، اس کا جوش وجنون اسی طرح آسمان کو چھوتا رہا ۔

کچھ عرصہ قبل ڈیرہ کے دوستوں سے حالات دریافت کیے تو بتانے لگے کہ بڑی تباہی ہونے والی تھی کہ خدا نے ٹائیگر کو بھیج دیا، اس نے بم تو ناکارہ بنادیے مگر اس کا دایاں ہاتھ بری طرح زخمی ہوا اور دائیں ٹانگ بالکل ناکارہ ہوگئی۔

اب (اے ایس آئی) عنایت کا جسم زخموں سے چورمگر دل جذبوں اور ولولوں سے بھرپور ہے۔ یہ گوشت پوست کا انسان ہے مگر اس کے اندر فولاد کا جگر ہے۔ وہ کوہِ گراں کے سامنے تیشہ لے کر کھڑا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ اپنے تیشے سے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیگا۔ اس نے بارہا موت کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈالی ہیں اور ہمیشہ موت کو شکست دی ہے۔ وہ کہتا ہے "میرا جسم اور میری طاقت میرے وطن کے لیے ہے۔ جسم میںجب خون کاصرف ایک قطرہ رہ گیا تو بھی شہریوں کی حفاظت کے لیے اسی طرح لڑتا رہونگا"۔

ہمارے بہادر بیٹے،ہمارے محافظ ، ہمارے ٹائیگر! ہمیں تم پر فخر ہے۔ تم لاکھوں پرامن شہریوں کے محافظ ہو۔ صرف ڈ یرہ نہیں پوری قوم تم جیسے بہادر بیٹے پر ناز کرتی ہے۔ صدر مملکت سے تمہیں ایک تمغہء شجاعت ملاہے مگر ڈیرے اور خیبر کے لاکھوں شہری تم پرنچھاور کرنے کے لیے اپنی آنکھوں میں محبتوں کے تمغے سجائے ہوئے ہیں۔ کائناتوں کے خالق اور مالک سے دعا ہے کہ وہ تمہاری حفاظت کرے اور تمہیں اور تم جیسے قابلِ فخر محافظوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھّے۔

عالمی چوراہوں پرتماشہ لگا کر ملک کو رسوا نہ کریں

دو روز پہلے لندن کی سڑکوں پر ایک با ر پھر پاکستان کی دو سیاسی پارٹیوں نے تماشا لگایا اور ملک کو رسوا کیا۔ پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اختلافات کتنے ہی گہرے ہوں اور الزامات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں اس کا اظہار ٹریفالگر اسکوائر اور ڈاؤننگ اسٹریٹ پر نہیں ملک کے اندر ہونا چاہیے۔ الطاف حسین کے خلاف قتل و غارتگری کے سنگین الزامات ہیںجنکی تفصیل بر طانوی حکام کو خطوط اور میلز کے ذریعے فراہم کی جا سکتی ہے مگر برطانیہ کے چوکوں اور چوراہوں پر تماشا لگا کر اور ایک دوسرے کو گالیاں دیکر وطنِ عزیز کو رسواء کرنے کا مذموم کاروبار بند ہونا چاہیے ۔

اپنی خواہش اور گزارش کا پھر اعادہ کرونگا کہ ملک کی حدود سے باہر پاکستان کی سیاسی پارٹیوںکی کسی قسم کی بھی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہونی چاہیں۔ بڑی پارٹیوں کے لیڈر پہل کریں اور ملک کے وقار کی خاطر مسلم لیگ (ن)، تحریک ِ انصاف، ایم کیو یم (اور دوسری پارٹیاں بھی)اپنی اوورسیز برانچز ختم کرنے کا اعلان کر دیں، باہر رہنے والے پاکستانی ایک دوسرے پر جوتے پھینکیں یہ پوری قوم کے لیے شرم کی بات ہے۔ دیار ِ غیر میں انھیں چاہیے کہ وہ متحد رہیں، ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں ، مختلف پارٹیوں اور گروہوں کے جھنڈے رکھ دیںاور صرف پاکستان کا قومی پرچم اُٹھا لیں۔

نوٹ:جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر تحریکِ انصاف کی قیادت کو چند سال پہلے امریکا میں ہونے والا بش اور الگور کا صدارتی انتخاب یا د دلانا چاہونگا۔

عدالت کے فیصلے پر تحفظات کے باوجود الگور نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میں یہ فیصلہ ملک کے وقار کی خاطر تسلیم کرتا ہوں کیونکہ امریکا کی عزّت اور وقار میری اور بُش کی اناؤں سے کہیں زیادہ بلند اور زیادہ مقدّس ہے" ۔ اس کے بعد الگور کی زبانی کسی نے اس فیصلے پر تنقید نہیں سُنی۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور گورننس کا اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اگر حکمران جماعت تکبّر میں مبتلا ہو گئی تو پھر اُسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں