پرافل بدوائی کی یاد میں
دنیا میں کچھ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جو کسی ایک ملک میں پیدا ہوتے ہیں
PESHAWAR:
دنیا میں کچھ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جو کسی ایک ملک میں پیدا ہوتے ہیں، ان کا پاسپورٹ بھی کسی ایک ملک کا ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ ساری دنیا کے شہری ہوتے ہیں۔ پرافل بدوائی بھی ایک ایسے ہی انسان تھے۔
پاکستا ن اور ہندوستان میں ایسے بہت سے دانشور، ادیب اورصحافی ہیں جنہوں نے ان دونوں ملکوں کے بیچ ہمیشہ دوستی کا پل بنانے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک پرافل بدوائی تھے۔ برصغیر کے ایک بڑے اور نامور دانشور، کالم نویس اور امن کے سرگرم کارکن کے طور پر وہ کئی مرتبہ پاکستان آئے۔ کراچی کی محفلوں میں شرکت کے دوران ان سے ملاقاتیں رہیں۔
کراچی میں ان کے بہت سے دوست اور چاہنے والے موجود ہیں۔ چند ہفتوں پہلے ایمسٹرڈم سے جب یہ خبر آئی کہ ایک کانفرنس کے بعد ریستوران میں ڈنر کے دوران وہ اس جہان سے گزر گئے، تو ان کے تمام دوست اورچاہنے والے صدمے سے دوچار ہوئے۔ چند دنوں پہلے پائلر کے سربراہ کرامت علی نے ان کی یاد میں ایک ریفرنس منعقد کیا جس میں شہر کے اہم دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں نے شرکت کی اور انھیں شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
اس موقع پر بدوائی جی کی زندگی پر ایک مختصر ڈاکومنٹری فلم دکھائی گئی اور ان کی ایک تقریر بھی سنوائی گئی۔ پرافل بدوائی کی رخصت کے چند دنوں بعد ہی انگریزی کے روزنامہ ''ڈان'' کے مستقل کالم نویس جاوید نقوی نے انھیں بہت محبت سے یاد کیا تھا، جاوید نقوی دلی میں رہتے ہیں اور پاکستان میں ان کی تحریروں کا انتظار رہتا ہے۔
بدوائی جی ریسرچ اسکالر تھے، کالمسٹ تھے، کتابیں لکھتے تھے، ٹائمز آف انڈیا کے سینئر ایڈیٹر رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی کلاسیکی موسیقی کے رسیا بھی تھے۔ انھوں نے خود بھی موسیقی سیکھی تھی۔ علی اکبر خان اور بڑے غلام علی خان کو سنتے ہوئے انھیں اسی طرح 'حال' آتا جیسے لوگوں کو قوالی سنتے ہوئے آتا ہے۔
پاکستان میں ہم موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہیں۔ اس وقت بھی ہمارے سیکڑوں دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سیکڑوں دیہات اپنے ہزاروں رہنے والوں اور ان کے مال مویشی کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے ہمارے لوگ اور ہندوستان کی دیہاتی آبادی ہر سال دوچار ہوتی ہے۔ بدوائی جی کے خیال میں یہ آسمانی آفت نہیں، اسے وہ اپنی غریب آبادی پر اپنے حکمرانوں کی لائی ہوئی مصیبت سمجھتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف برصغیر نہیں، ساری دنیا کے امیروں نے اپنی آسائش اور بڑے بڑے صنعت کاروں نے اپنے منافعے کے لیے دنیا کے موسم کو تباہ کردیا ہے۔ اس بارے میں 2012ء میں ان کی کتاب ''The Politics of Climate Change and the Global Crisis'' شایع ہوئی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے بہت سے صاحب حیثیت لوگ اپنے آج کے منافعے کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل موسمیاتی تباہی کے ہاتھوں گروی رکھ رہے ہیں۔
وہ ہندوستان کے ایک کڑے ناقد تھے اور اپنی مختلف حکومتوں کے اقدامات کو ایک عام ہندوستانی کے مفاد کی نظر سے دیکھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ ہندوستان کی نیوکلیائی پالیسی کے خلاف آواز بلند کی۔ 'ساؤتھ ایشیا آن اے شارٹ فیوز' کے عنوان سے ان کی کتاب جو انھوں نے اچن ونائیک کے ساتھ مل کر لکھی تھی، اسے بہت اہمیت دی گئی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے اسے ملینیم پبلی کیشن کے طور پر شایع کیا۔
ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کو چین کے ساتھ ان پروگراموں میں مسابقت نہیں کرنی چاہیے جس کا کوئی فائدہ غریب ہندوستانی عوام کو نہیں پہنچتا۔ عین اس وقت جب ہندوستانیوں کی اکثریت مریخ کے مدار میں ہندوستان کے خلائی جہاز کے پہنچنے کا جشن منا رہی تھی، پرافل بدوائی نے اسے 'خلا میں ہندوستان کی جھوٹی انا' سے تعبیر کیا اور 460 کروڑ روپوں کے اس پروجیکٹ کو خلائی تسخیر کے حوالے سے غیر اہم اور غیر متعلق قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندوستانی سائنسی یا خلائی پروگرام میں ترجیحات کو درست سمت میں نہ رکھنے کا رویہ ہے۔ وہ اسے چین اور ہندوستان کے درمیان خلا میں فوجی دوڑ اور مسابقت سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی فوجی مسابقت عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
اپنے ان خیالات کی بنا پر انھیں ہندوستان میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن وہ اپنے ان خیالات اور موقف سے کبھی نہیں ہٹے جسے وہ خطے اور دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے درست سمجھتے تھے۔ کئی برس پہلے کی بات ہے جب انھوں نے اس موضوع پر ایک کالم لکھا تھا کہ ہندوستان اس التباس میں مبتلا ہے کہ وہ عالمی سطح کا کھلاڑی بن چکا ہے۔ ہمارے لوگ اس خوش گمانی میں گرفتار ہوسکتے ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔
ہمارے یہاں ان کے بہت سے قدر دان ہیں جو کہتے ہیں کہ بدوائی ایک سچے اورکھرے انسان تھے۔ ایک ایسے سچے انسان کا چلا جانا ہم سب کا ایک بڑا نقصان ہے۔ اس کا اندازہ ان جلسوں سے لگایا جاسکتا ہے جو کراچی اور لاہور میں ان کی یاد میں منعقد ہوئے۔ ان کو یاد کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ برصغیر میں آج بھی ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو انسانوں کے دکھ درد کو ہندوستانی اور پاکستانی یا ہندو اور مسلمان اور سکھ عیسائی میں بانٹ کر نہیں دیکھتے۔
ان کے خیال میں دنیا کے ہر گورے، کالے اور ہندوستانی پاکستانی کی رگوں میں دوڑتے ہوئے لہو کا رنگ ایک ہے، اس کے زخموں سے اٹھتی ہوئی درد کی لہر بھی دوسرے سے مختلف نہیں۔ آج ہم پاکستان میں تیزی سے گرم ہوتے ہوئے موسم اور اس کے نتیجے میں گلیشیئروں کا پگھلنا اور گرمی کی ایسی لہر کو دیکھ رہے ہیں جس نے صرف سندھ میں سیکڑوں انسانوں کی جانیں نگل لیں، یہ تمام تلخ حقائق ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے شاخسانے ہیں جن کے خلاف پرافل بدوائی اور اقوام متحدہ میں بولیویا کے سفیر پابلوسولن اور دوسرے بہت سے اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں اور دنیا کے طاقتور صنعتی اداروں کی دشمنی مول لیتے رہے ہیں۔
وہ کشمیریوں، اسامیوں، دلتوں اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ ایسے سچے انسان کا جانا ان لوگوں کا نقصان ہے جو سیاسی، مذہبی، صنفی یا طبقاتی تقسیم کی بنا پر امتیاز کا شکار ہوتے ہیں۔
جنوبی افریقا میں جب موسمیاتی تغیر پر 2011ء میں کانفرنس ہورہی تھی، تو اس میں بدوائی جی نے بھی شرکت کی تھی، جس میں انھوں نے امریکا اور دوسری ترقی یافتہ قوموں کو ان گرین ہاؤس گیسوں کا ذمے دار ٹھہرایا تھا جو ان کے کارخانوں اورصنعتی اداروں سے بلند ہوئیں۔ یہ گیسیں اب ہزاروں برس کے لیے فضا میں موجود رہیں گی اور ہماری زمین کو مصائب سے دوچار رکھیں گی۔ انھوں نے کہا تھا کہ سرد جنگ کے دوران دنیا اور اس کے وجود کو ایٹمی ہتھیاروں سے جو خطرہ تھا، اب موسمیاتی تغیر دنیا کے لیے اس سے کہیں بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایسی کانفرنسوں میں حکومتوں کے بجائے دنیا بھر کے عوام کے لیے پائیدار ترقی اور خطرناک گیسوں میں کمی کی بات کرتے تھے۔
ایسی ہی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے اختتام پر جب ترقی یافتہ ملکوں نے 2020ء تک گیسوں کے اخراج میں 13 سے 20 فیصد تک کمی کا معاہدہ کیا اور اسے دنیا کے غریبوں پر 'احسان' تصور کیا تو پرافل بدوائی نے شدید احتجاج کیا اور لکھا کہ ان زہریلی گیسوں کے اخراج میں 40 فیصد کی کمی کی جانی چاہیے۔ دوسری صورت میں وہ ملک جو سطح سمندر سے نیچے ہیں۔
ان کی غرقابی کو ہم روک نہیں سکیں گے اور نہ دنیا کے عوام کی غذائی ضرورتیں پوری ہوسکیں گی۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بولیویا کے نمایندے پابلوسولن نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں ایک ایسی دستاویز پر دستخط کروں جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ پرافل بدوائی نے سولن کے اس بیان کی حمایت کی تھی اور اس حوالے سے کئی تندوتیز کالم لکھے تھے۔
پرافل بدوائی خود کو برصغیر کا شہری سمجھتے تھے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ کا ایک حصہ پاکستان لے جایا جائے اور اسے وہاں سندھو دریا میں بہادیا جائے۔ ان کی وصیت کے مطابق ہندوستان سے ان کی راکھ کا ایک حصہ پاکستان لایا گیا اور جامشورو سے دریائے سندھ کے سپرد کردیا گیا۔ ان دنوں سندھو چڑھا ہوا ہے، اس کی لہریں ایک وسیع القلب انسان کی راکھ کو دور تک لے جائیں گی۔
دنیا میں کچھ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جو کسی ایک ملک میں پیدا ہوتے ہیں، ان کا پاسپورٹ بھی کسی ایک ملک کا ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ ساری دنیا کے شہری ہوتے ہیں۔ پرافل بدوائی بھی ایک ایسے ہی انسان تھے۔
پاکستا ن اور ہندوستان میں ایسے بہت سے دانشور، ادیب اورصحافی ہیں جنہوں نے ان دونوں ملکوں کے بیچ ہمیشہ دوستی کا پل بنانے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک پرافل بدوائی تھے۔ برصغیر کے ایک بڑے اور نامور دانشور، کالم نویس اور امن کے سرگرم کارکن کے طور پر وہ کئی مرتبہ پاکستان آئے۔ کراچی کی محفلوں میں شرکت کے دوران ان سے ملاقاتیں رہیں۔
کراچی میں ان کے بہت سے دوست اور چاہنے والے موجود ہیں۔ چند ہفتوں پہلے ایمسٹرڈم سے جب یہ خبر آئی کہ ایک کانفرنس کے بعد ریستوران میں ڈنر کے دوران وہ اس جہان سے گزر گئے، تو ان کے تمام دوست اورچاہنے والے صدمے سے دوچار ہوئے۔ چند دنوں پہلے پائلر کے سربراہ کرامت علی نے ان کی یاد میں ایک ریفرنس منعقد کیا جس میں شہر کے اہم دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں نے شرکت کی اور انھیں شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
اس موقع پر بدوائی جی کی زندگی پر ایک مختصر ڈاکومنٹری فلم دکھائی گئی اور ان کی ایک تقریر بھی سنوائی گئی۔ پرافل بدوائی کی رخصت کے چند دنوں بعد ہی انگریزی کے روزنامہ ''ڈان'' کے مستقل کالم نویس جاوید نقوی نے انھیں بہت محبت سے یاد کیا تھا، جاوید نقوی دلی میں رہتے ہیں اور پاکستان میں ان کی تحریروں کا انتظار رہتا ہے۔
بدوائی جی ریسرچ اسکالر تھے، کالمسٹ تھے، کتابیں لکھتے تھے، ٹائمز آف انڈیا کے سینئر ایڈیٹر رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی کلاسیکی موسیقی کے رسیا بھی تھے۔ انھوں نے خود بھی موسیقی سیکھی تھی۔ علی اکبر خان اور بڑے غلام علی خان کو سنتے ہوئے انھیں اسی طرح 'حال' آتا جیسے لوگوں کو قوالی سنتے ہوئے آتا ہے۔
پاکستان میں ہم موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہیں۔ اس وقت بھی ہمارے سیکڑوں دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سیکڑوں دیہات اپنے ہزاروں رہنے والوں اور ان کے مال مویشی کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے ہمارے لوگ اور ہندوستان کی دیہاتی آبادی ہر سال دوچار ہوتی ہے۔ بدوائی جی کے خیال میں یہ آسمانی آفت نہیں، اسے وہ اپنی غریب آبادی پر اپنے حکمرانوں کی لائی ہوئی مصیبت سمجھتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف برصغیر نہیں، ساری دنیا کے امیروں نے اپنی آسائش اور بڑے بڑے صنعت کاروں نے اپنے منافعے کے لیے دنیا کے موسم کو تباہ کردیا ہے۔ اس بارے میں 2012ء میں ان کی کتاب ''The Politics of Climate Change and the Global Crisis'' شایع ہوئی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے بہت سے صاحب حیثیت لوگ اپنے آج کے منافعے کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل موسمیاتی تباہی کے ہاتھوں گروی رکھ رہے ہیں۔
وہ ہندوستان کے ایک کڑے ناقد تھے اور اپنی مختلف حکومتوں کے اقدامات کو ایک عام ہندوستانی کے مفاد کی نظر سے دیکھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ ہندوستان کی نیوکلیائی پالیسی کے خلاف آواز بلند کی۔ 'ساؤتھ ایشیا آن اے شارٹ فیوز' کے عنوان سے ان کی کتاب جو انھوں نے اچن ونائیک کے ساتھ مل کر لکھی تھی، اسے بہت اہمیت دی گئی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے اسے ملینیم پبلی کیشن کے طور پر شایع کیا۔
ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کو چین کے ساتھ ان پروگراموں میں مسابقت نہیں کرنی چاہیے جس کا کوئی فائدہ غریب ہندوستانی عوام کو نہیں پہنچتا۔ عین اس وقت جب ہندوستانیوں کی اکثریت مریخ کے مدار میں ہندوستان کے خلائی جہاز کے پہنچنے کا جشن منا رہی تھی، پرافل بدوائی نے اسے 'خلا میں ہندوستان کی جھوٹی انا' سے تعبیر کیا اور 460 کروڑ روپوں کے اس پروجیکٹ کو خلائی تسخیر کے حوالے سے غیر اہم اور غیر متعلق قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندوستانی سائنسی یا خلائی پروگرام میں ترجیحات کو درست سمت میں نہ رکھنے کا رویہ ہے۔ وہ اسے چین اور ہندوستان کے درمیان خلا میں فوجی دوڑ اور مسابقت سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی فوجی مسابقت عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
اپنے ان خیالات کی بنا پر انھیں ہندوستان میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن وہ اپنے ان خیالات اور موقف سے کبھی نہیں ہٹے جسے وہ خطے اور دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے درست سمجھتے تھے۔ کئی برس پہلے کی بات ہے جب انھوں نے اس موضوع پر ایک کالم لکھا تھا کہ ہندوستان اس التباس میں مبتلا ہے کہ وہ عالمی سطح کا کھلاڑی بن چکا ہے۔ ہمارے لوگ اس خوش گمانی میں گرفتار ہوسکتے ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔
ہمارے یہاں ان کے بہت سے قدر دان ہیں جو کہتے ہیں کہ بدوائی ایک سچے اورکھرے انسان تھے۔ ایک ایسے سچے انسان کا چلا جانا ہم سب کا ایک بڑا نقصان ہے۔ اس کا اندازہ ان جلسوں سے لگایا جاسکتا ہے جو کراچی اور لاہور میں ان کی یاد میں منعقد ہوئے۔ ان کو یاد کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ برصغیر میں آج بھی ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو انسانوں کے دکھ درد کو ہندوستانی اور پاکستانی یا ہندو اور مسلمان اور سکھ عیسائی میں بانٹ کر نہیں دیکھتے۔
ان کے خیال میں دنیا کے ہر گورے، کالے اور ہندوستانی پاکستانی کی رگوں میں دوڑتے ہوئے لہو کا رنگ ایک ہے، اس کے زخموں سے اٹھتی ہوئی درد کی لہر بھی دوسرے سے مختلف نہیں۔ آج ہم پاکستان میں تیزی سے گرم ہوتے ہوئے موسم اور اس کے نتیجے میں گلیشیئروں کا پگھلنا اور گرمی کی ایسی لہر کو دیکھ رہے ہیں جس نے صرف سندھ میں سیکڑوں انسانوں کی جانیں نگل لیں، یہ تمام تلخ حقائق ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے شاخسانے ہیں جن کے خلاف پرافل بدوائی اور اقوام متحدہ میں بولیویا کے سفیر پابلوسولن اور دوسرے بہت سے اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں اور دنیا کے طاقتور صنعتی اداروں کی دشمنی مول لیتے رہے ہیں۔
وہ کشمیریوں، اسامیوں، دلتوں اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ ایسے سچے انسان کا جانا ان لوگوں کا نقصان ہے جو سیاسی، مذہبی، صنفی یا طبقاتی تقسیم کی بنا پر امتیاز کا شکار ہوتے ہیں۔
جنوبی افریقا میں جب موسمیاتی تغیر پر 2011ء میں کانفرنس ہورہی تھی، تو اس میں بدوائی جی نے بھی شرکت کی تھی، جس میں انھوں نے امریکا اور دوسری ترقی یافتہ قوموں کو ان گرین ہاؤس گیسوں کا ذمے دار ٹھہرایا تھا جو ان کے کارخانوں اورصنعتی اداروں سے بلند ہوئیں۔ یہ گیسیں اب ہزاروں برس کے لیے فضا میں موجود رہیں گی اور ہماری زمین کو مصائب سے دوچار رکھیں گی۔ انھوں نے کہا تھا کہ سرد جنگ کے دوران دنیا اور اس کے وجود کو ایٹمی ہتھیاروں سے جو خطرہ تھا، اب موسمیاتی تغیر دنیا کے لیے اس سے کہیں بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایسی کانفرنسوں میں حکومتوں کے بجائے دنیا بھر کے عوام کے لیے پائیدار ترقی اور خطرناک گیسوں میں کمی کی بات کرتے تھے۔
ایسی ہی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے اختتام پر جب ترقی یافتہ ملکوں نے 2020ء تک گیسوں کے اخراج میں 13 سے 20 فیصد تک کمی کا معاہدہ کیا اور اسے دنیا کے غریبوں پر 'احسان' تصور کیا تو پرافل بدوائی نے شدید احتجاج کیا اور لکھا کہ ان زہریلی گیسوں کے اخراج میں 40 فیصد کی کمی کی جانی چاہیے۔ دوسری صورت میں وہ ملک جو سطح سمندر سے نیچے ہیں۔
ان کی غرقابی کو ہم روک نہیں سکیں گے اور نہ دنیا کے عوام کی غذائی ضرورتیں پوری ہوسکیں گی۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بولیویا کے نمایندے پابلوسولن نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں ایک ایسی دستاویز پر دستخط کروں جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ پرافل بدوائی نے سولن کے اس بیان کی حمایت کی تھی اور اس حوالے سے کئی تندوتیز کالم لکھے تھے۔
پرافل بدوائی خود کو برصغیر کا شہری سمجھتے تھے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ کا ایک حصہ پاکستان لے جایا جائے اور اسے وہاں سندھو دریا میں بہادیا جائے۔ ان کی وصیت کے مطابق ہندوستان سے ان کی راکھ کا ایک حصہ پاکستان لایا گیا اور جامشورو سے دریائے سندھ کے سپرد کردیا گیا۔ ان دنوں سندھو چڑھا ہوا ہے، اس کی لہریں ایک وسیع القلب انسان کی راکھ کو دور تک لے جائیں گی۔