پولیس میں سیاسی مداخلت

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ سیاسی مداخلت نے سندھ پولیس کا بیڑا غرق کر دیا ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ سیاسی مداخلت نے سندھ پولیس کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور سندھ حکومت میں پولیس افسران کو دو ہفتے بھی ان کے عہدوں پر ٹکنے نہیں دیا جاتا جب کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے بھی اعلیٰ پولیس افسران کو کہا ہے کہ وہ ہمیں سبز باغ نہ دکھائیں پولیس کی بہتری کے لیے کام کریں۔ 81 فیصد پولیس افسران کا تو کیریکٹر رول ہی نہیں ہے اور برطرف پولیس افسروں کو تو ایک ماہ میں ہی بحال کر دیا گیا ہے۔

ملک میں سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹس کی طرف سے آئے دن پولیس کے خلاف ایسے ریمارکس آتے رہتے ہیں مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اعلیٰ عدالتوں کی پروا ہے نہ اعلیٰ پولیس افسروں کو پولیس کی ایسی ہونے والی بے عزتیوں کا کوئی احساس۔ یوں تو ملک میں دیگر محکموں نے کرپشن، لاقانونیت، من مانیوں، بدانتظامی و دیگر معاملات میں پولیس کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے مگر سب سے زیادہ بدنام پولیس ہی کا محکمہ ہے۔

جس کے زیادہ تر معاملات اعلیٰ عدالتوں میں زیر غور رہتے ہیں کیونکہ دیگر محکموں کے مقابلے میں عوام کا زیادہ واسطہ پولیس سے پڑتا ہے اور جن کا نہیں بھی پڑتا وہ پولیس کی کارکردگی اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور میڈیا کے ذریعے جانتے رہتے ہیں۔ پولیس اور سیاستدانوں کا باہمی تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور سیاسی مخالفت میں انتقام کا نشانہ بھی سیاستدان اپنے مخالفین کو پولیس کے ذریعے ہی بناتے ہیں۔

پولیس وہ محکمہ ہے جہاں لحاظ برائے نام یا کسی مخصوص وجہ سے ہی نظر آتا ہے اور جہاں مال ملنے کی امید ہو وہاں پولیس اہلکار اپنے پیٹی بھائیوں کا بھی خیال نہیں کرتے۔ اصل یہ سارا قصور پولیس اہلکاروں کی تربیت اور پولیس ٹریننگ اداروں کا ہے اور وہاں جیسی انھیں تربیت ملتی ہے جیسا بداخلاقی کا مظاہرہ دوران تربیت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوران کورس جو گالیاں انھیں پڑتی ہیں اور رشوت دے کر انھیں اپنا ہر جائز کام کرانا پڑتا ہے اس کے بعد وہ جان جاتے ہیں کہ جیسے تیسے ٹریننگ لو اور کورس پاس کر لو بعد میں انھیں بھی عوام کو ان ہی حالات سے گزارنا ہے جس سے وہ خود دوچار ہوئے ہیں۔

سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ مرحوم افسر الطاف علی خان نے راقم کو بتایا تھا کہ انگریز دور میں پولیس میں بھرتی ہونے والوں ہی کے متعلق نہیں بلکہ ان کے خاندانی پس منظر کی بھی معلومات لی جاتی تھیں تب کہیں جا کر انھیں پولیس میں ملازمت ملتی تھی اور انگریز تو ایسے ہیں کہ وہ اگر اپنی حفاظت کے لیے کتا بھی رکھتے ہیں تو پہلے کتے کی نسل دیکھتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں اور سندھ میں ایک ایسا سیاسی دور بھی گزرا ہے جب سیاسی مفاد کے لیے پالش والوں کو بھی پولیس کانسٹیبل بھرتی کر لیا گیا تھا جن میں اکثریت ان پڑھوں کی تھی اور وہ کھاتے کماتے ریٹائر ہو گئے اور ترقی نہ کر سکے تھے۔

ایک زمانے میں سندھ کے لوگوں کی پولیس میں بہت کمی تھی اور دیگر صوبوں کے لوگ سندھ پولیس میں اکثریت میں تھے جو بعد میں ریٹائر ہوتے گئے مگر سندھ والوں کو کمائی کا راستہ دکھا گئے اور سیاسی حکومتوں میں سیاسی مفاد کے لیے جو بھرتیاں ہوئیں ان میں اقربا پروری نمایاں تھی اور بھاری رشوت کے عوض پولیس میں ملازمتیں دی گئیں جن پر شور ہوا تو میرٹ پر تقرریوں کا اعلان ہوا مگر سیاسی مداخلت، سیاسی سفارش اور رشوت پھر بھی چلتی رہی اور پولیس کی تعداد بڑھنے کے ساتھ پولیس کے مظالم اور شکایات بھی بڑھتی رہی مگر محکمہ پولیس میں بہتری نہیں آئی اور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ سپریم کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ سیاسی مداخلت نے پولیس کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور ہمیں بھی سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔


اس میں بھی شک نہیں کہ دیگر محکموں کے ملازمین کا کوئی جانی نقصان ڈیوٹی کے دوران نہیں ہوتا اور پولیس واحد محکمہ ہے جہاں جانی نقصان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں سپاہی سے لے کر پولیس افسروں کی جانیں گئیں اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں ڈی ایس پی، ایس ایس پی اور ڈی آئی جی پولیس سطح کے اعلیٰ افسر بھی شہید ہوئے ہیں۔ کرپشن، لاقانونیت کے الزامات میں جب سرکار یا اعلیٰ پولیس افسر ایکشن لیتے ہیں تو نزلہ ہمیشہ انسپکٹر سطح کے اہلکاروں پر گرتا ہے۔

ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق نچلی سطح کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ رشوت سے کوئی محفوظ نہیں ہے مگر رشوت کے الزام میں کبھی اعلیٰ پولیس افسروں کے خلاف محکمانہ کارروائی نہیں ہوتی۔ کراچی کے نئے پولیس چیف مشتاق احمد مہر نے اپنی پہلی پریس بریفنگ میں بتایا ہے کہ کرپٹ پولیس افسران کی نئی فہرست میں اعلیٰ پولیس افسروں کے نام بھی ہیں اور آنے والا وقت بتائے گا کہ اعلیٰ پولیس افسروں کے خلاف بھی محکمانہ طور پر کارروائی ہوتی بھی ہے یا نہیں۔

اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف کرپشن کے الزام میں کبھی کارروائی تو نہیں ہوئی اور اگر کوئی اعلیٰ افسر اپنے ضمیر کو مطمئن رکھنے کے لیے کوئی غیر قانونی کام کرنے سے انکار کر دے تو حکومت ضرور اس کے خلاف کارروائی فوری کر ڈالتی ہے جیسا گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایس ایس پی کے خلاف ہوا، مگر معاملہ سیاسی تھا اگر کرپشن کا معاملہ ہوتا تو کبھی ایس ایس پی برطرف نہ ہوتا۔

سندھ پولیس میں سیاسی مداخلت دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہی پولیس کا بیڑا غرق ہوا ہے۔ اعلیٰ پولیس افسر خود سیاست زدہ ہیں اور مکمل سیاسی حمایت کے حامل ہیں۔ اہم سیاسی رہنما ان کے ''پِیا'' بنے ہوئے ہیں اور جسے ''پِیا'' چاہتا ہے بڑے عہدوں پر ترقی اور اہم عہدے دلا دیتا ہے اور یہ سب گزشتہ سات سالوں میں زیادہ ہوا ہے۔ سندھ میں آج کل ڈی آئی جیز کی بھرمار ہے جب کہ پہلے صوبے میں چند ڈی آئی جی ہوتے تھے۔

سندھ میں گریڈ 21 کے کم اور گریڈ بیس کے ڈی آئی جی ہی نہیں بلکہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس زیادہ ہیں جنھیں مختلف جگہوں پر کھپایا گیا ہے۔ سندھ میں اب ٹریفک پولیس میں ایڈیشنل آئی جی اور لائسنس برانچ میں ڈی آئی جی پولیس لگائے گئے ہیں اور ڈی آئی جیز کے تبادلے و تقرر مذاق بنے ہوئے ہیں جس کا ثبوت ڈی آئی جی ایسٹ کا 5 روز میں ہی ہٹا دیا جانا ہے۔ پولیس میں انصاف کا یہ حال ہے کہ ضلع شرقی میں بہادر آباد کی سابق خاتون ایس ایچ او نے موجودہ SHO کو تھپڑ مار دیا اور ایس ایس پی نے ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں لا کر دونوں کو معطل کر دیا۔

سیاسی ادوار میں پولیس کو سیاسی مفاد کے لیے سیاست میں اس قدر ملوث کر دیا گیا ہے کہ محکمے کا بیڑا غرق ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو سندھ پولیس کے متعدد معاملات میں آئی جی اور ہوم سیکریٹری کو طلب کرنا پڑ گیا ہے مگر پھر بھی سپریم کورٹ کی حکم عدولی جاری ہے جس کا ثبوت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سب سے طویل تعیناتی ہے جن پر ماورائے عدالت قتل کے بھی الزامات ہیں۔
Load Next Story