جنرل راحیل شریف کڑے امتحان میں سرخرو
ہمیں ایک دہشت گرد قوم سمجھ کر ہم سے کنارہ کشی اختیار کر رہی تھی
اللہ تعالیٰ کا ہم پر خصوصی فضل و کرم ہے کہ اُس کی مسلسل نافرمانی کے با وجود اُس نے ہمیں انتہائی کٹھن اور مشکل دور سے نجات دلا کر ایک خوش آیند اُمید افزا مستقبل کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ آج سے چند برس پہلے ہم نہایت مایوس اور نا اُمیدی کے حالات سے گزر رہے تھے۔ ہر طرف دہشت، خوف و ہراس اور ڈر کا عالم طاری تھا۔ لوگوں کی جانیں محفوظ نہیں تھیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی بم بلاسٹ یا خودکش حملہ ہو جایا کرتا تھا۔ ہزاروں بے گناہ لوگ مارے جاتے تھے۔
جانی اور مالی نقصان کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ دہشت گردی کی عالمی جنگ میں اگر کسی قوم نے بے پناہ نقصان اُٹھایا ہے تو وہ پاکستانی قوم تھی۔ اِس جنگ کو چھیڑنے والے تو امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہاں کوئی بم بلاسٹ یا خودکش حملہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ کسی کی جان اور آبرو ہماری طرح خطروں سے دوچار نہیں تھی۔ ہمارا کاروبار ہمارا بزنس سب کچھ تباہ ہو کر رہ گیا تھا۔ دنیا ہم سے ہمدردی کرنے کی بجائے ہمارا تمسخر اُڑایا کرتی تھی۔
ہمیں ایک دہشت گرد قوم سمجھ کر ہم سے کنارہ کشی اختیار کر رہی تھی۔ کوئی ہم سے تجارتی اور ثقافتی تعلق بنائے رکھنے پر آمادہ نہیں تھا۔ کھیلوں کے میدان میں بھی ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہم دوسروں سے التجائیں کرتے پھر رہے تھے اور کوئی ہمارے یہاں آ کر کرکٹ کھیلنے پر راضی تک نہ تھا۔ جنرل پرویز مشرف دور کا بویا ہوا بیج زرداری دور میں پھل پھول کے تناور درخت بن چکا تھا۔ دہشت گردی کے عالمی جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے کرتے ہم تباہ و برباد اور نیست و نابود ہوتے چلے گئے۔ مذہب اور اسلام کا نام لینے والوں نے ہمارا ہی جینا دوبھر کر کے رکھ دیا تھا۔ پیار محبت، بات چیت اور گفت و شنید سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز آنے کو تیار نہ تھے۔
ہم یہ صورتحال بالآخر کب تک برداشت کر سکتے تھے۔ ایک نہ ایک دن تو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا۔ بات چیت کے تمام دروازے اب بند ہو چکے تھے۔ قوم کے دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ضربِ عضب کے ذریعے ہماری افواج نے قوم کے قاتلوں سے آخر دم تک لڑنے کا عہد کر لیا۔ جس کے نتیجے میں دشمن پسپا ہونا شروع ہو گیا اور بد حواسی کے عالم میں اُس نے پشاور میں ہمارے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔
پھر کیا تھا ساری قوم اکٹھی ہو گئی۔ آرمی چیف نے آگے بڑھ کر سارے معاملے کی ذمے داری سنبھال لی۔ واقعے والے دن ہی وہ کابل روانہ ہو گئے اور وہاں کے حکمرانوں پر واضح کر دیا کہ اب ہم تمھارے یہاں سے آئے ہوئے دراندازوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے، خواہ اِس کے لیے ہمیں افغانستان کی سرزمین پر ہی کارروائی کیوں نہ کرنی پڑے۔ خود اپنے یہاں دشمنوں کے خلاف سخت آپریشن کے لیے ساری سیاسی اکائیوں کو اعتماد میں لیا۔ سب کو ایک میز پر بٹھا کر تاریخ ساز فیصلے کروائے۔
آئین میں ضروری ترمیم کر کے مناسب طریقہ کار استوار کیا گیا۔ اب صرف اُن دشمنوں کے خلاف ہی کارروائی نہیں کی گئی جو اسلام کا نام لے کر ہمیں تباہ و برباد کر رہے تھے بلکہ اُنہیں بھی قانون کی زد میں لایا گیا جو کراچی یا ملک کے دیگر علاقوں میں خرابیِ امن کے ذمے دار تھے۔کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے یہاں اگر امن و امان نہیں ہو گا تو پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اِس لیے یہاں امن کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو ہم کسی طور نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ کراچی کا معاملہ ہمیشہ سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھتا رہا۔ گزشتہ پچیس تیس سالوں سے یہاں مسلسل قتل غارت گری ہوتی آئی ہے۔
چوری ڈکیتی، لوٹ مار، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، جبری چندہ وصولی اور ٹارگٹ کلنگ نجانے کیسے کیسے جرائم یہاں پھل پھول نہیں رہے تھے۔ کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ ہر کسی کو اپنا اقتدار عزیز تھا۔ دوستی اور مفاہمت کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا جاتا رہا۔ چند دنوں کا امن قائم کر کے کریڈٹ تو لے لیا جاتا لیکن عوام کو پھر اُنہیں جرائم پیشہ افراد کے سپرد کر دیا جاتا۔ یہ سلسلہ عرصہِ دراز سے جاری تھا۔ لیکن کسی میں اتنی ہمت و جرات نہ تھی کہ کراچی کے عوام کو اِس مصیبت سے نجات دلا سکے۔ مگر ہماری افواج اور رینجرز نے مل کر اِس کا م کا بھی بیڑہ اُٹھا لیا اور یہاں امن قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں سے نمٹنے کا بھی تہیہ کر لیا۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ کافی سالوں کے بعد اہلِ کراچی نے اِس بار کوئی تہوار امن و سکون کے ماحول میں بڑے اطمینان کے ساتھ منایا۔ اِس بار کراچی سے پشاور تک قوم نے کئی سالوں بعد ماہِ رمضان اور عید الفطر کے دن نہایت پرسکون حالات میں امن و آشتی کے ساتھ گزارے۔ یہ سب ہماری افواج کی قربانیوں اور اُنکے غیر متزلزل عزم کے سبب ممکن ہو پایا۔
ہماری افواج جسے مشرف دور میں ایک متنازعہ ادارہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا اللہ کے فضل و کرم سے اب ایک نہایت معتبر اور باوقار ادارہ بن کر اُبھرا ہے۔ موجودہ آرمی چیف جس طرح قوم کو مشکلات سے نکال باہر کر رہے ہیں ساری قوم کی اُنہیں مکمل حمایت اور آشیرواد حاصل ہے۔ اُنہوں نے ہماری افواج کا مورال بہت بلند کر دیا ہے۔ وہ جس طرح اپنا آرام اور سکون غارت کر کے ہر بڑے موقعے پر ا گلے مورچوں پر جا کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں ایسا شاید آج تک کسی اور نے نہیں کیا۔ اُن کے اِس بے مثال کردار پر ساری قوم اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔
جنہوں نے اُنہیں دھمکیاں دیں۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کیں وہ خود آج وطن ِ عزیز سے فرار اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ آرمی چیف نے جو فریضہ ادا کیا ہے ویسے تو وہ اُنکی منصبی ذمے داریوں میں شامل تھا لیکن جس دلیری، شجاعت، بہادری، اول العزمی اور ثابت قدمی کا اُنہوں نے مظاہرہ کیا ہے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اچھے اچھے ہر امتحان میں پورے نہیں اترتے۔ مگر جنرل راحیل شریف خدا کے کرم سے ہر سخت اور کڑے امتحان میں اب تک سرخرو ثابت ہوئے ہیں۔ اُن کا کردار آئینہ کی مانند صاف اور شفاف ہے۔ اِسی لیے وہ بے خوف و خطر ہر محاذ پر نبرد آزما ہیں۔
وہ اِس ملک کو امن کا گہوراہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ ہر سازش اور دہشت گردی سے پاک وہ اِس سرزمین کو گوشہ عافیت اور ایک پر سکون آماجگاہ بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ وہ اگر چاہتے تو ماضی کے دوسرے جرنیلوں کی طرح اپنا وقت بھی کسی مصیبت میں پڑے بغیر گزار سکتے تھے۔ اُنہیں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی لیکن قوم کا درد اُنہیں اِس فریضہ پر اُکساتا رہا ہے اور وہ بلا کسی غرض اور لالچ کے اپنا یہ فریضہ ادا کیے جا رہے ہیں۔ قوم اُن کے اِس کردار پر اُنہیں سلام پیش کرتی ہے۔
دو سال سے بھی کم عرصے میں اُنہیں فوج پر لگے بدنامی کے داغوں کو بھی دھویا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کی نظروں میں اُس کی عزت، احترام اور اُس کا مقام بہت بلند بھی کر دیا ہے۔ وہ اِس وقت ہماری قوم کی اُمیدوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ لو گ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مشن میں مکمل کامیاب ہوں اور اِس ملک کے لیے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوں۔ چوروں اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کریں۔
جانی اور مالی نقصان کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ دہشت گردی کی عالمی جنگ میں اگر کسی قوم نے بے پناہ نقصان اُٹھایا ہے تو وہ پاکستانی قوم تھی۔ اِس جنگ کو چھیڑنے والے تو امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہاں کوئی بم بلاسٹ یا خودکش حملہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ کسی کی جان اور آبرو ہماری طرح خطروں سے دوچار نہیں تھی۔ ہمارا کاروبار ہمارا بزنس سب کچھ تباہ ہو کر رہ گیا تھا۔ دنیا ہم سے ہمدردی کرنے کی بجائے ہمارا تمسخر اُڑایا کرتی تھی۔
ہمیں ایک دہشت گرد قوم سمجھ کر ہم سے کنارہ کشی اختیار کر رہی تھی۔ کوئی ہم سے تجارتی اور ثقافتی تعلق بنائے رکھنے پر آمادہ نہیں تھا۔ کھیلوں کے میدان میں بھی ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہم دوسروں سے التجائیں کرتے پھر رہے تھے اور کوئی ہمارے یہاں آ کر کرکٹ کھیلنے پر راضی تک نہ تھا۔ جنرل پرویز مشرف دور کا بویا ہوا بیج زرداری دور میں پھل پھول کے تناور درخت بن چکا تھا۔ دہشت گردی کے عالمی جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے کرتے ہم تباہ و برباد اور نیست و نابود ہوتے چلے گئے۔ مذہب اور اسلام کا نام لینے والوں نے ہمارا ہی جینا دوبھر کر کے رکھ دیا تھا۔ پیار محبت، بات چیت اور گفت و شنید سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز آنے کو تیار نہ تھے۔
ہم یہ صورتحال بالآخر کب تک برداشت کر سکتے تھے۔ ایک نہ ایک دن تو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ہی تھا۔ بات چیت کے تمام دروازے اب بند ہو چکے تھے۔ قوم کے دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ضربِ عضب کے ذریعے ہماری افواج نے قوم کے قاتلوں سے آخر دم تک لڑنے کا عہد کر لیا۔ جس کے نتیجے میں دشمن پسپا ہونا شروع ہو گیا اور بد حواسی کے عالم میں اُس نے پشاور میں ہمارے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔
پھر کیا تھا ساری قوم اکٹھی ہو گئی۔ آرمی چیف نے آگے بڑھ کر سارے معاملے کی ذمے داری سنبھال لی۔ واقعے والے دن ہی وہ کابل روانہ ہو گئے اور وہاں کے حکمرانوں پر واضح کر دیا کہ اب ہم تمھارے یہاں سے آئے ہوئے دراندازوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے، خواہ اِس کے لیے ہمیں افغانستان کی سرزمین پر ہی کارروائی کیوں نہ کرنی پڑے۔ خود اپنے یہاں دشمنوں کے خلاف سخت آپریشن کے لیے ساری سیاسی اکائیوں کو اعتماد میں لیا۔ سب کو ایک میز پر بٹھا کر تاریخ ساز فیصلے کروائے۔
آئین میں ضروری ترمیم کر کے مناسب طریقہ کار استوار کیا گیا۔ اب صرف اُن دشمنوں کے خلاف ہی کارروائی نہیں کی گئی جو اسلام کا نام لے کر ہمیں تباہ و برباد کر رہے تھے بلکہ اُنہیں بھی قانون کی زد میں لایا گیا جو کراچی یا ملک کے دیگر علاقوں میں خرابیِ امن کے ذمے دار تھے۔کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے یہاں اگر امن و امان نہیں ہو گا تو پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اِس لیے یہاں امن کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو ہم کسی طور نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ کراچی کا معاملہ ہمیشہ سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھتا رہا۔ گزشتہ پچیس تیس سالوں سے یہاں مسلسل قتل غارت گری ہوتی آئی ہے۔
چوری ڈکیتی، لوٹ مار، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، جبری چندہ وصولی اور ٹارگٹ کلنگ نجانے کیسے کیسے جرائم یہاں پھل پھول نہیں رہے تھے۔ کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ ہر کسی کو اپنا اقتدار عزیز تھا۔ دوستی اور مفاہمت کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا جاتا رہا۔ چند دنوں کا امن قائم کر کے کریڈٹ تو لے لیا جاتا لیکن عوام کو پھر اُنہیں جرائم پیشہ افراد کے سپرد کر دیا جاتا۔ یہ سلسلہ عرصہِ دراز سے جاری تھا۔ لیکن کسی میں اتنی ہمت و جرات نہ تھی کہ کراچی کے عوام کو اِس مصیبت سے نجات دلا سکے۔ مگر ہماری افواج اور رینجرز نے مل کر اِس کا م کا بھی بیڑہ اُٹھا لیا اور یہاں امن قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں سے نمٹنے کا بھی تہیہ کر لیا۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ کافی سالوں کے بعد اہلِ کراچی نے اِس بار کوئی تہوار امن و سکون کے ماحول میں بڑے اطمینان کے ساتھ منایا۔ اِس بار کراچی سے پشاور تک قوم نے کئی سالوں بعد ماہِ رمضان اور عید الفطر کے دن نہایت پرسکون حالات میں امن و آشتی کے ساتھ گزارے۔ یہ سب ہماری افواج کی قربانیوں اور اُنکے غیر متزلزل عزم کے سبب ممکن ہو پایا۔
ہماری افواج جسے مشرف دور میں ایک متنازعہ ادارہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا اللہ کے فضل و کرم سے اب ایک نہایت معتبر اور باوقار ادارہ بن کر اُبھرا ہے۔ موجودہ آرمی چیف جس طرح قوم کو مشکلات سے نکال باہر کر رہے ہیں ساری قوم کی اُنہیں مکمل حمایت اور آشیرواد حاصل ہے۔ اُنہوں نے ہماری افواج کا مورال بہت بلند کر دیا ہے۔ وہ جس طرح اپنا آرام اور سکون غارت کر کے ہر بڑے موقعے پر ا گلے مورچوں پر جا کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں ایسا شاید آج تک کسی اور نے نہیں کیا۔ اُن کے اِس بے مثال کردار پر ساری قوم اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔
جنہوں نے اُنہیں دھمکیاں دیں۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کیں وہ خود آج وطن ِ عزیز سے فرار اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ آرمی چیف نے جو فریضہ ادا کیا ہے ویسے تو وہ اُنکی منصبی ذمے داریوں میں شامل تھا لیکن جس دلیری، شجاعت، بہادری، اول العزمی اور ثابت قدمی کا اُنہوں نے مظاہرہ کیا ہے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اچھے اچھے ہر امتحان میں پورے نہیں اترتے۔ مگر جنرل راحیل شریف خدا کے کرم سے ہر سخت اور کڑے امتحان میں اب تک سرخرو ثابت ہوئے ہیں۔ اُن کا کردار آئینہ کی مانند صاف اور شفاف ہے۔ اِسی لیے وہ بے خوف و خطر ہر محاذ پر نبرد آزما ہیں۔
وہ اِس ملک کو امن کا گہوراہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ ہر سازش اور دہشت گردی سے پاک وہ اِس سرزمین کو گوشہ عافیت اور ایک پر سکون آماجگاہ بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ وہ اگر چاہتے تو ماضی کے دوسرے جرنیلوں کی طرح اپنا وقت بھی کسی مصیبت میں پڑے بغیر گزار سکتے تھے۔ اُنہیں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی لیکن قوم کا درد اُنہیں اِس فریضہ پر اُکساتا رہا ہے اور وہ بلا کسی غرض اور لالچ کے اپنا یہ فریضہ ادا کیے جا رہے ہیں۔ قوم اُن کے اِس کردار پر اُنہیں سلام پیش کرتی ہے۔
دو سال سے بھی کم عرصے میں اُنہیں فوج پر لگے بدنامی کے داغوں کو بھی دھویا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کی نظروں میں اُس کی عزت، احترام اور اُس کا مقام بہت بلند بھی کر دیا ہے۔ وہ اِس وقت ہماری قوم کی اُمیدوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ لو گ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مشن میں مکمل کامیاب ہوں اور اِس ملک کے لیے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوں۔ چوروں اور ڈاکوؤں کا خاتمہ کریں۔