بلوچ مڈل کلاس سیاست کی پسپائی
یوں تو بات ایک فقرے میں نمٹائی جا سکتی ہے کہ مڈل کلاس وہ منافق ترین طبقہ ہے
یوں تو بات ایک فقرے میں نمٹائی جا سکتی ہے کہ مڈل کلاس وہ منافق ترین طبقہ ہے، جس کے پاؤں سدا کیچڑ میں اور نظریں آسمان پر ہوتی ہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ سیاست و معاشرت جیسے پیچیدہ و سنجیدہ معاملات محض سستی و سہل فقرے بازی کی نذر نہیں کیے جا سکتے۔ پھر یہ جو بلوچستان ہے نا، اس کے معاملات کسی غیر سنجیدگی کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔
یہاں کے خارزارِ سیاست میں پھونک پھونک کے قدم رکھنا پڑتا ہے، رک رک کے دیکھنا پڑتا ہے، ٹھہر ٹھہر کے چلنا ہوتا ہے، سوچ سوچ کے بولنا ہوتا ہے۔ بلوچستانی معاشرے کی بُنت پہ بولنا، پل صراط پہ چلنے جیسا ہے۔ بال سے باریک اور تلوار کی دھار جیسا نازک معاملہ، ذرا سی بے احتیاطی آپ کو قبائلیت کے جہنم زار میں جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔
ہمارا اوائلی قبائلی سماج کبھی ایسا جہنمی نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ یہ تو ابتدائی کمیون سسٹم کا ایک نادر نمونہ رہا ہے۔ جہاں مل جل کر رہنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ 'تیرا، میرا' کا رواج نہ تھا، سب' اپنا' تھا۔ قبیلے کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ایک امیر منتخب کیا جاتا تھا، جو 'سردار' کہلاتا تھا... واضح رہے کہ اسے 'منتخب' کیا جاتا تھا، یہ موروثی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے لیے جو اوصاف مقرر کیے گئے تھے، ان پہ پورا اترنا ہر ایرے غیرے کے بس میں نہ تھا۔
سرداری منصب پہ فائز ہونے کے لیے شریف ترین، معزز ترین، قابل ترین فرد کو اتفاقِ رائے سے منتخب کیا جاتا تھا، سب سے اہم یہ کہ اسے نااہلی پر برطرف بھی کیا جا سکتا تھا اور پھر یہ کہ جب تک وہ سردار ہے، نجی ملکیت کا حقدار نہ تھا۔ اور پھر انگزیز آیا... اپنے ساتھ تباہیاں لاتا ہوا انگریز۔ انگریزوں کے ہم پہ بہت سارے احسانات ہیں۔ اس نے ہمیں تار، فون، ریل اور چھاپے خانے جیسی جدید ایجادات سے روشناس کرایا۔
لیکن وہ چونکہ بنیادی طور پر سامراج تھا، اور سامراج اپنی سرشت میں عوام دشمن ہوتا ہے، اس لیے محض اپنے کاروباری مفاد کی تکمیل کے لیے اس نے جس طرح ہمارے صاف ستھرے سرداری نظام کو موروثیت میں بدل کر ہمیں ایک منحوس چکر میں ڈال دیا، اس سے ہمارا ارتقائی سفر کئی برس پیچھے چلا گیا۔ خدا سامراج کو کبھی چین کی نیند نصیب نہ فرمائے۔ (کہیے آمین)
فرعون کے گھر میں مگر موسیٰ کی پرورش لکھی ہے۔ سو، سرداری فرعونیت کے ہاں، بالآخر یوسف عزیز نامی موسیٰ کا جنم ہوتا ہے۔ گو کہ بلوچستان کے قبائلیت، خانیت اور سرداریت والے جوہڑ بھرے سماج میں سیاست کی خشتِ اول رکھنے والے یوسف عزیز مگسی خود ایک نواب زادہ تھے، لیکن اس عظیم انسان نے بابِ سیاست میں داخل ہوتے ہی پہلے قبائلیت کا چولا اتار پھینکا، پھر خود کو 'ڈی کلاس' کر کے مکمل طور پر عوام میں گھل مل گئے۔
ایک قائد، ایک رہنما بننے کی خداداد صلاحیتوں سے منور اس نابغہ روزگار نے اپنے دوست کو اُس تاریخی واقعے کا حال بتاتے ہوئے لکھا، جب انھوں نے اپنی خاندانی نیم پلیٹ کے سامنے لکھا نواب کا لفظ کھرچ کا مٹا ڈالا، اور پھر لکھا کہ، ''سچ پوچھیے تو مجھے صرف دو ہی لفظ اچھے لگتے ہیں ؛ بلوچ اور مسلمان، اور اس سے بھی بڑھ کر انسان!''۔ تو یہ جو بلوچستان میں سیاست کا بہتا ہوا دھارا ہے، یہ ایسے عظیم الفکر انسانوں کے ذہنِ رسا سے پھوٹا ہے۔
جھل مگسی کے 'ڈی کلاس' ہونے والے سردار زادے نے سیاست کا جو بیج اس دھرتی میں بویا تھا، اس کی آبیاری آگے چل کر نوشکی کے ایک مینگل (گل خان نصیر) اور نال کے ایک بزنجو (غوث بخش) نے کرنی تھی۔ بابو شورش نے کرنی تھی، مچھ کے محمد حسین عنقا نے کرنی تھی، دشت کے بابو عبدالرحمان کرد نے کرنی تھی۔
ایک کہکشاں ہے نچلی سطح سے آئے ہوئے اخلاص بھرے سیاسی کارکنوں کی، جنھوں نے سرداروں، اور انگریزوں سے نواب کا خطاب پانے والے زرداروں کے بیچ عوامی سیاست کا عَلم بلند کیے رکھا۔ مڈل کلاس سیاست کی ترویج کرنے والے بزنجو سے مگر 'غلطی' یہ ہوئی کہ انھوں نے سرداروں کو بھی سیاسی بنانے کی کوشش کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انگریز کا بنایا ہوا موروثی سردار کبھی بھی 'سیاسی' نہیں ہو سکتا، کہ سیاسی ہونے کے لیے عوامی ہونا پڑتا ہے۔
عوام نامی مخلوق کے در پہ جھکنا پڑتا ہے، بحث' مباحثہ اور دلیل کے دربار میں عاجزی کے ساتھ آنا پڑتا ہے، اور سردار کی سرشت میں ہی انا لکھ دی گئی ہے۔ کیوں کہ وہ جعلی طور پر ہزاروں انسانوں کی تقدیر کا مالک بنا دیا گیا ہے، اس لیے اپنے جعلی پن کو برقرار رکھنے کے لیے اندھی طاقت کا سہارا استعمال کرتا ہے۔ خوف' سردار کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ عوام کو اپنا مطیع بنائے رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ خوف کی فضا قائم رکھتا ہے۔ خوف برقرار رکھنے کے لیے اسے طاقت چاہیے، اور فی زمانہ طاقت کا منبع اقتدار ہے اور اقتدار تک رسائی کا ذریعہ سیاست۔ اور موجودہ نظامِ سیاست کا مقصد ہے، سامراجی مفادات کا تحفظ، کہ ساری آسائشیں، سبھی مراعات، سبھی دنیاوی لالچ کا محور و مرکز یہی ہے۔ سامراج دشمن سیاست کا مطلب ہے، دربدری، خواری، ذلت، رسوائی، گمنامی۔ اور یہ سب سردار کے متضاد ہیں۔
اس لیے سردار سے کچھ بھی کرا لیں، وہ مراعات سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ (جو اس سے دست بردار ہو گیا، وہ پھر سردار نہیں رہتا، رہنما بن جاتا ہے)۔ وگرنہ ایک عام موروثی سردار کے لیے اس کی مراعات کے سامنے قوم، ملک، وطن، رعایا، سب ہیچ ہیں۔ انگریزوں کی بگھی کھینچنی ہو، یا پرویز مشرف کا ہاتھ بٹانا ہو، یہ طبقہ اپنی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔
جمہوری سیاست میں چونکہ موروثیت نہیں چلتی... تحقیر پہ مت جائیے، ہم اصولی جمہوری سیاست کی بات کر رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر موجودہ کھلواڑ کا ذکر نہیں... سو' ان سرداروں کی موروثیت کے لیے ہمیشہ سب سے بڑا خطرہ عام سیاسی کارکن رہا ہے۔ نچلی سطح سے ابھر کر' بلوچستان میں ایک ابھرتی ہوئی مڈل کلاس سیاست کی بنیادیں جوڑنے والا سیاسی کارکن... یوسف عزیز کے بوئے ہوئے بیج کی آبیاری کرتا، فکرِ بزنجو سے شعور پاتا ' جدید سیاسی افکار سے لیس' وطن کی مٹی سے جڑا بے لوث سیاسی کارکن۔ جو محض سردار کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے سوال کرتا ہے' بحث کرتا ہے' دلیل لاتا ہے' عوام کو منظم کرتا' انھیں باشعور بناتا ہے۔
پاکستان میں چونکہ سیاست سامراجی مفادات ہی کے گرد گھومتی ہے، اس لیے اس سیاسی نظام کو بھی ایسے مخلص سیاسی کارکن سے زیادہ اس سردار میں زیادہ کشش نظر آتی ہے، جو اپنی تعیشات کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی کارکن برسوں کی جدوجہد سے سرداری نظام کی خستہ حال کشتی میں بمشکل کوئی سوراخ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ وفاق کا جِن پھر ان کی مدد کو آ پہنچتا ہے۔ اپنے مفادات کی جنگ میں کبھی انھیں جیلوں میں ڈال کر، کبھی دامنِ کوہ میں قتل کر کے، تو کبھی اقتدار بخش کر، سیاست کو پسپا کر دیا جاتا ہے۔
سردار پھر ہیرو بن جاتا ہے، سیاسی کارکن کا سفر پھر زیرو سے شروع ہوتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ اب کی بار سرداروں کو ہیرو بنانے کا کام، مڈل کلاس کے نام پر سیاست کرنے والے خود ہی انجام دے رہے ہیں۔ یہ عجب مڈل کلاس ہے، جس کی نمایندگی کرنے والے ہر فرد کے نام کے ساتھ سردار، سردار زادہ و میر کے القابات لگے ہیں۔
یہ عجب مڈل کلاس ہے، جو اپنے ہی طبقاتی دشمن کو خود دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ نہ صاحب، یہ مڈل کلاس سیاست نہیں، یہ اس سیاست کی پسپائی ہے، جس کا آغاز یوسف عزیز نے کیا، جس کا خواب گل خان اور بزنجو نے دیکھا۔ سرداری بیل کو نکیل ڈالنے والی مڈل کلاس سیاست، آج اسی کے قدموں میں جا بیٹھی ہے۔
وہ جنھیں 'متبادل' سمجھا گیا تھا، وہ اسی دشمنِ جاں سے جا ملے۔ ماضی کے ایک متحرک سیاسی کارکن رحیم ظفر نے بی ایس او کی تاریخ پر اپنی کتاب 'سنگ ِ لرزاں' میں اسی المیے سے متعلق تو کہا تھا، ''اب سوائے زخم چاٹنے اور بے کار درخت (گز) کو اس امید کے ساتھ، کہ شاید اس میں شہد کا چھتہ ہو، منہ مارنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔'' یہ ایک زخم سہی، وار سہی، ایک اور ہار سہی، سیاست میں مگر کوئی جیت کوئی ہار حتمی نہیں ہوتی۔ ایک متبادل ناکام ہو تو دوسرا متبادل تلاش کرنا ہوتا ہے... مڈل کلاس سیاست کی اس کھلی پسپائی کی ہار کے زخم سہتے ہوئے، بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کو ایک اور متبادل تلاش کرنا ہو گا' ایک اور متبادل کہیں منتظرِ نگاہ ہے۔
یہاں کے خارزارِ سیاست میں پھونک پھونک کے قدم رکھنا پڑتا ہے، رک رک کے دیکھنا پڑتا ہے، ٹھہر ٹھہر کے چلنا ہوتا ہے، سوچ سوچ کے بولنا ہوتا ہے۔ بلوچستانی معاشرے کی بُنت پہ بولنا، پل صراط پہ چلنے جیسا ہے۔ بال سے باریک اور تلوار کی دھار جیسا نازک معاملہ، ذرا سی بے احتیاطی آپ کو قبائلیت کے جہنم زار میں جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔
ہمارا اوائلی قبائلی سماج کبھی ایسا جہنمی نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ یہ تو ابتدائی کمیون سسٹم کا ایک نادر نمونہ رہا ہے۔ جہاں مل جل کر رہنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ 'تیرا، میرا' کا رواج نہ تھا، سب' اپنا' تھا۔ قبیلے کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ایک امیر منتخب کیا جاتا تھا، جو 'سردار' کہلاتا تھا... واضح رہے کہ اسے 'منتخب' کیا جاتا تھا، یہ موروثی نہیں ہوتا تھا۔ اس کے لیے جو اوصاف مقرر کیے گئے تھے، ان پہ پورا اترنا ہر ایرے غیرے کے بس میں نہ تھا۔
سرداری منصب پہ فائز ہونے کے لیے شریف ترین، معزز ترین، قابل ترین فرد کو اتفاقِ رائے سے منتخب کیا جاتا تھا، سب سے اہم یہ کہ اسے نااہلی پر برطرف بھی کیا جا سکتا تھا اور پھر یہ کہ جب تک وہ سردار ہے، نجی ملکیت کا حقدار نہ تھا۔ اور پھر انگزیز آیا... اپنے ساتھ تباہیاں لاتا ہوا انگریز۔ انگریزوں کے ہم پہ بہت سارے احسانات ہیں۔ اس نے ہمیں تار، فون، ریل اور چھاپے خانے جیسی جدید ایجادات سے روشناس کرایا۔
لیکن وہ چونکہ بنیادی طور پر سامراج تھا، اور سامراج اپنی سرشت میں عوام دشمن ہوتا ہے، اس لیے محض اپنے کاروباری مفاد کی تکمیل کے لیے اس نے جس طرح ہمارے صاف ستھرے سرداری نظام کو موروثیت میں بدل کر ہمیں ایک منحوس چکر میں ڈال دیا، اس سے ہمارا ارتقائی سفر کئی برس پیچھے چلا گیا۔ خدا سامراج کو کبھی چین کی نیند نصیب نہ فرمائے۔ (کہیے آمین)
فرعون کے گھر میں مگر موسیٰ کی پرورش لکھی ہے۔ سو، سرداری فرعونیت کے ہاں، بالآخر یوسف عزیز نامی موسیٰ کا جنم ہوتا ہے۔ گو کہ بلوچستان کے قبائلیت، خانیت اور سرداریت والے جوہڑ بھرے سماج میں سیاست کی خشتِ اول رکھنے والے یوسف عزیز مگسی خود ایک نواب زادہ تھے، لیکن اس عظیم انسان نے بابِ سیاست میں داخل ہوتے ہی پہلے قبائلیت کا چولا اتار پھینکا، پھر خود کو 'ڈی کلاس' کر کے مکمل طور پر عوام میں گھل مل گئے۔
ایک قائد، ایک رہنما بننے کی خداداد صلاحیتوں سے منور اس نابغہ روزگار نے اپنے دوست کو اُس تاریخی واقعے کا حال بتاتے ہوئے لکھا، جب انھوں نے اپنی خاندانی نیم پلیٹ کے سامنے لکھا نواب کا لفظ کھرچ کا مٹا ڈالا، اور پھر لکھا کہ، ''سچ پوچھیے تو مجھے صرف دو ہی لفظ اچھے لگتے ہیں ؛ بلوچ اور مسلمان، اور اس سے بھی بڑھ کر انسان!''۔ تو یہ جو بلوچستان میں سیاست کا بہتا ہوا دھارا ہے، یہ ایسے عظیم الفکر انسانوں کے ذہنِ رسا سے پھوٹا ہے۔
جھل مگسی کے 'ڈی کلاس' ہونے والے سردار زادے نے سیاست کا جو بیج اس دھرتی میں بویا تھا، اس کی آبیاری آگے چل کر نوشکی کے ایک مینگل (گل خان نصیر) اور نال کے ایک بزنجو (غوث بخش) نے کرنی تھی۔ بابو شورش نے کرنی تھی، مچھ کے محمد حسین عنقا نے کرنی تھی، دشت کے بابو عبدالرحمان کرد نے کرنی تھی۔
ایک کہکشاں ہے نچلی سطح سے آئے ہوئے اخلاص بھرے سیاسی کارکنوں کی، جنھوں نے سرداروں، اور انگریزوں سے نواب کا خطاب پانے والے زرداروں کے بیچ عوامی سیاست کا عَلم بلند کیے رکھا۔ مڈل کلاس سیاست کی ترویج کرنے والے بزنجو سے مگر 'غلطی' یہ ہوئی کہ انھوں نے سرداروں کو بھی سیاسی بنانے کی کوشش کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انگریز کا بنایا ہوا موروثی سردار کبھی بھی 'سیاسی' نہیں ہو سکتا، کہ سیاسی ہونے کے لیے عوامی ہونا پڑتا ہے۔
عوام نامی مخلوق کے در پہ جھکنا پڑتا ہے، بحث' مباحثہ اور دلیل کے دربار میں عاجزی کے ساتھ آنا پڑتا ہے، اور سردار کی سرشت میں ہی انا لکھ دی گئی ہے۔ کیوں کہ وہ جعلی طور پر ہزاروں انسانوں کی تقدیر کا مالک بنا دیا گیا ہے، اس لیے اپنے جعلی پن کو برقرار رکھنے کے لیے اندھی طاقت کا سہارا استعمال کرتا ہے۔ خوف' سردار کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ عوام کو اپنا مطیع بنائے رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ خوف کی فضا قائم رکھتا ہے۔ خوف برقرار رکھنے کے لیے اسے طاقت چاہیے، اور فی زمانہ طاقت کا منبع اقتدار ہے اور اقتدار تک رسائی کا ذریعہ سیاست۔ اور موجودہ نظامِ سیاست کا مقصد ہے، سامراجی مفادات کا تحفظ، کہ ساری آسائشیں، سبھی مراعات، سبھی دنیاوی لالچ کا محور و مرکز یہی ہے۔ سامراج دشمن سیاست کا مطلب ہے، دربدری، خواری، ذلت، رسوائی، گمنامی۔ اور یہ سب سردار کے متضاد ہیں۔
اس لیے سردار سے کچھ بھی کرا لیں، وہ مراعات سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ (جو اس سے دست بردار ہو گیا، وہ پھر سردار نہیں رہتا، رہنما بن جاتا ہے)۔ وگرنہ ایک عام موروثی سردار کے لیے اس کی مراعات کے سامنے قوم، ملک، وطن، رعایا، سب ہیچ ہیں۔ انگریزوں کی بگھی کھینچنی ہو، یا پرویز مشرف کا ہاتھ بٹانا ہو، یہ طبقہ اپنی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔
جمہوری سیاست میں چونکہ موروثیت نہیں چلتی... تحقیر پہ مت جائیے، ہم اصولی جمہوری سیاست کی بات کر رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر موجودہ کھلواڑ کا ذکر نہیں... سو' ان سرداروں کی موروثیت کے لیے ہمیشہ سب سے بڑا خطرہ عام سیاسی کارکن رہا ہے۔ نچلی سطح سے ابھر کر' بلوچستان میں ایک ابھرتی ہوئی مڈل کلاس سیاست کی بنیادیں جوڑنے والا سیاسی کارکن... یوسف عزیز کے بوئے ہوئے بیج کی آبیاری کرتا، فکرِ بزنجو سے شعور پاتا ' جدید سیاسی افکار سے لیس' وطن کی مٹی سے جڑا بے لوث سیاسی کارکن۔ جو محض سردار کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے سوال کرتا ہے' بحث کرتا ہے' دلیل لاتا ہے' عوام کو منظم کرتا' انھیں باشعور بناتا ہے۔
پاکستان میں چونکہ سیاست سامراجی مفادات ہی کے گرد گھومتی ہے، اس لیے اس سیاسی نظام کو بھی ایسے مخلص سیاسی کارکن سے زیادہ اس سردار میں زیادہ کشش نظر آتی ہے، جو اپنی تعیشات کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی کارکن برسوں کی جدوجہد سے سرداری نظام کی خستہ حال کشتی میں بمشکل کوئی سوراخ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ وفاق کا جِن پھر ان کی مدد کو آ پہنچتا ہے۔ اپنے مفادات کی جنگ میں کبھی انھیں جیلوں میں ڈال کر، کبھی دامنِ کوہ میں قتل کر کے، تو کبھی اقتدار بخش کر، سیاست کو پسپا کر دیا جاتا ہے۔
سردار پھر ہیرو بن جاتا ہے، سیاسی کارکن کا سفر پھر زیرو سے شروع ہوتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ اب کی بار سرداروں کو ہیرو بنانے کا کام، مڈل کلاس کے نام پر سیاست کرنے والے خود ہی انجام دے رہے ہیں۔ یہ عجب مڈل کلاس ہے، جس کی نمایندگی کرنے والے ہر فرد کے نام کے ساتھ سردار، سردار زادہ و میر کے القابات لگے ہیں۔
یہ عجب مڈل کلاس ہے، جو اپنے ہی طبقاتی دشمن کو خود دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ نہ صاحب، یہ مڈل کلاس سیاست نہیں، یہ اس سیاست کی پسپائی ہے، جس کا آغاز یوسف عزیز نے کیا، جس کا خواب گل خان اور بزنجو نے دیکھا۔ سرداری بیل کو نکیل ڈالنے والی مڈل کلاس سیاست، آج اسی کے قدموں میں جا بیٹھی ہے۔
وہ جنھیں 'متبادل' سمجھا گیا تھا، وہ اسی دشمنِ جاں سے جا ملے۔ ماضی کے ایک متحرک سیاسی کارکن رحیم ظفر نے بی ایس او کی تاریخ پر اپنی کتاب 'سنگ ِ لرزاں' میں اسی المیے سے متعلق تو کہا تھا، ''اب سوائے زخم چاٹنے اور بے کار درخت (گز) کو اس امید کے ساتھ، کہ شاید اس میں شہد کا چھتہ ہو، منہ مارنے کے اور کوئی چارہ نہیں۔'' یہ ایک زخم سہی، وار سہی، ایک اور ہار سہی، سیاست میں مگر کوئی جیت کوئی ہار حتمی نہیں ہوتی۔ ایک متبادل ناکام ہو تو دوسرا متبادل تلاش کرنا ہوتا ہے... مڈل کلاس سیاست کی اس کھلی پسپائی کی ہار کے زخم سہتے ہوئے، بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کو ایک اور متبادل تلاش کرنا ہو گا' ایک اور متبادل کہیں منتظرِ نگاہ ہے۔