جن کے گھر آسمانوں پر ہیں

جب عوام کے سر سے پانی گزر جاتا ہے تو یہ لوگ بڑے بڑے جوتے پہن کر اپنے پاؤں پانی میں ڈال دیتے ہیں

muhammad.anis@expressnews.tv

KARACHI:
جب عوام کے سر سے پانی گزر جاتا ہے تو یہ لوگ بڑے بڑے جوتے پہن کر اپنے پاؤں پانی میں ڈال دیتے ہیں۔ خود کو ہمارا مسیحا سمجھنے والے صرف ہمارے جنازوں کو کاندھا دینے کے لیے آتے ہیں۔ جن کے گھر آسمانوں پر ہیں وہ زمین پر اترتے ہی اس وقت ہیں جب انھیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں پانی اتنا اوپر نہ ہو جائے کہ ہمارے محفوظ ٹھکانے بھی تباہ ہو جائیں۔

یہ چند جملے بول کر سمجھتے ہیں کہ اپنے کاندھے کا سارا بوجھ اتار دیا اور اب ہم محفوظ ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جب پانی، آگ بن کر ہمارے گھروں کو جلا رہا ہوتا ہے تو ہمارے دل سے نکلنے والی چنگاری تمھارا تعاقب کر رہی ہوتی ہے۔ اور وہ ایک نا ایک دن تمھیں پکڑ کر جلا دے گی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کیسے کیسے رستم اور کیسے کیسے طرم یہاں آئے اور پھر ان کا مقدر کیا بنا۔ جنھوں نے اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھا، انھیں تاریخ نے پھر دوسروں کے لیے سبق بنا دیا۔

آپ بالکل مان لیجیے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نیا پاکستان بنانے کے لیے پہلا قدم ہو گا۔ لیکن مجھ جیسا کم عقل تو یہ کہے گا کہ نیا پاکستان تو اسی لمحے بن جاتا جب یہ ظالم پانی ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں تباہ و برباد نہ کرتا۔ آپ کے پرانے لوگ اس صوبے میں اپنی آدھی مدت پوری کر چکے ہیں۔

مگر جس عوام نے آپ پر احسان کر کے خود کو پانی میں ڈبو لیا ان بدبختوں کو اور کتنی سزا ملنی ہے؟ مان لیتے ہیں کہ پچھلے سال آپ کے نامزد وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں آپ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور جس وقت خیبر پختونخوا میں بارش تباہی مچا رہی تھی اس لمحے وہ محو رقص تھے مگر اب وہ کہاں محفل سجائے بیٹھے تھے؟ کیا اتنے عرصے وزیر اور ڈھائی سال سے وزیراعلیٰ رہنے والے شخص کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ میں اپنے لوگوں کی جان کیسے بچا سکتا ہوں۔

اتنی آسانی سے ہم کہہ دیتے ہیں کہ وفاق کے اداروں نے تعاون نہیں کیا، تو آپ بتا دیجیے کہ آپ کیا راتوں کو جاگ جاگ کر لوگوں کے گھروں کا پانی نکالتے رہے۔ یہاں بھی تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب میں کوئی پانی نکالنے والا تھوڑی ہوں جو وہاں چوکیداری کروں، جیسا کہ آپ نے اسپتال کے دورے پر کہا تھا۔ پشاور میں رہنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ گزشتہ سال بھی بارش کے موقع پر بڈھنی نالہ آپے سے باہر ہو گیا تھا اور اچھی خاصی آبادیوں میں پانی داخل ہو گیا تھا۔

لیکن کیوں کہ آپ اس وقت دھرنے میں مصروف تھے اس لیے آپ کو معلوم نہیں ہوا ہو گا۔ اے خدا کے بندے گزشتہ جمعرات کو شدید بارش کی وجہ سے بڈھنی نالے کا پانی آپے سے باہر ہو گیا تھا، آپ کی جانب سے وہاں رہنے والے جب ناامید ہو چکے اور کئی گھروں میں پانی داخل ہو گیا تو علاقے کے نوجوان اور بوڑھوں نے خود سے ایک قدم بڑھایا اور مٹی کی بوریاں بھر بھر کر نالے کے آگے رکھیں کہ شاید ان کی زندگی بچ سکے۔ کاش آپ اس وقت ان کی مدد کے لیے آ جاتے۔ کاش آپ تھوڑی سی ذاتی دلچسپی ظاہر کر دیتے، تو پھر ایسا نہ ہوتا جو ہفتے اور اتوار کو ہوا۔

زیادہ کچھ نہیں ہوا، بس جب آسمان سے پانی بے رحم جلاد کی طرح گرنے لگا تو زمین نے بھی پانی لینے سے انکار کر دیا۔ دو دن پہلے علاقے کے لوگوں کی محنت انھیں بچانے میں ناکام ہو گئی اور پانی ان کے گھروں میں داخل ہونے لگا تو انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے خاندانوں کو منتقل کرنا شروع کیا۔ بڈھنی اور مسکین آباد کے سیکڑوں لوگ اپنے رشتہ داروں کی طرف منتقل ہو گئے۔ آپ کی جانب سے کیمپ اس وقت لگے جب پانی ٹھہر چکا۔ دوروں کا سلسلہ تب چلا جب بے سہارا مسافروں کو کسی اپنے نے درخت کا سایہ دے دیا تھا۔ چارسدہ روڈ کو بند کر دیا گیا۔


پشاور اور چارسدہ کا زمینی راستہ صرف پشاور اسلام آباد موٹر وے سے بچا تھا۔ ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ وہاں بھی تجاوزات قائم ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے بڈھنی نالہ صحیح طور پر پانی کی نکاسی نہیں کر سکتا۔ لیکن ان تجاوزات کو کیا ایک سال میں ہٹایا نہیں جا سکتا تھا؟ دو دن بعد آپ یہ اعلان کرتے ہیں کہ پانی میں بہہ جانے والے کو ڈھونڈھنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اس معصوم سی حفصہ کو بھی کوئی ڈھونڈ لے جو 22 جولائی سے لاپتہ ہے اور جسے پانی نا جانے کہاں لے گیا ہے۔

جس کے ماں باپ اپنی بیٹی کے لیے پریشان ہیں، وہ کس کے ہاتھوں میں اپنی بیٹی کو ڈھونڈیں؟ یہاں کسی کا قصور نہیں ہو گا۔ کوئی اسے قدرتی آفت کہہ کر آگے بڑھ جائے گا۔ کوئی اسے صوبائی حکومت کی نااہلی کہہ کر اپنی پاک دامنی کی قسم کھائے گا اور کوئی سارے نظام کو پرانا کہہ کر ہمیں نئے پاکستان کا خواب دکھائے گا۔

ہر وقت یہ ڈھول بجایا جاتا ہے کہ پچھلے سال کے دھرنوں سے اربوں روپے کا نقصان ہوا لیکن کوئی اس بات کا شور کیوں نہیں مچاتا کہ گزشتہ دس برسوں میں ہمیں سیلاب سے 26 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ کوئی یہ کیوں کہنے کی ہمت نہیں رکھتا کہ ہمارے ترقیاتی فنڈ کا ایک بہت بڑا حصہ صرف اپنے آبی نظام پر خرچ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم سیلاب کو روکنے میں ناکام ہیں۔ لیہ اور راجن پور میں تو کوئی دھرنا نہیں تھا، پھر ایسا کیوں ہوا کہ وہاں کے لوگوں کو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔

دنیا بھر میں لوگ احتیاط پر زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں تا کہ علاج پر خرچہ نا ہو سکے۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ کیسا ملک ہے جو سب سے کم احتیاط پر خرچ کرتا ہے۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر بڑے بڑے ملک تحقیق پر رقم خرچ کرتے ہیں تا کہ بڑی بڑی بیماریوں سے لے کر آفتوں سے نمٹا جا سکے۔ ہمارے یہاں سب سے کم تحقیق پر خرچ ہوتا ہے بلکہ ہم اکثر وہ بھی نہیں کرتے۔ یہ بتائیے کہ آج تک محکمہ موسمیات کو ہم نے کتنا جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے؟

ان کا تقریباً تمام بجٹ صرف تنخواہوں میں خرچ ہوتا ہے، جس NDMA کا شور مچا کر رکھا ہوا ہے کہ وہ ہمیں کسی قدرتی آفت سے بچائے گی، اس کا سال کا کل بجٹ 20 لاکھ روپے بھی نہیں ہے۔ ایسے میں کون بتائے گا کہ ایک چھوٹی سی بارش آفت میں بدلنے والی ہے؟ اربوں روپے کا ہم ایک ناکارہ پروجیکٹ چند لوگوں کی خوشی کے لیے بنا دیتے ہیں مگر کروڑوں روپے لاکھوں لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔

پولینڈ کے جنوب مشرق میں ایک جگہ ہے جس کا نام ہے جوہسن کریک ہے۔ گزشتہ صدی میں یہاں سب سے خطرناک سیلاب آئے ہیں، ہمارے یہاں ملی میٹر میں بارش ہوتی ہے تو سیلاب آ جاتا ہے جب کہ وہاں پر ''انچ'' میں بارش ریکارڈ ہوتی ہے۔ پولینڈ کی حکومت نے یہ عزم ظاہر کیا کہ اس علاقے کو سیلاب سے بچایا جائے گا۔

اس کے لیے انھوں نے حکمت عملی بنائی۔ 90 خاندانوں کو منتقل کیا اور 260 ایکڑ پر اپنے منصوبے کا آغاز کیا اور 14 ایکڑ پر پانی جمع کر نا شروع کیا، جس کے ذریعہ مچھلی اور آبی حیات کی پیداوار کو بڑھایا گیا۔ سنجیدہ کوشش کا نتیجہ بھی دیکھ لیجیے کہ کیا ہوا۔ جب 2012ء میں پولینڈ کی تاریخ کے بڑے طوفانوں میں سے ایک طوفان آیا تو اس علاقے کو کوئی نقصان نہیں ہوا، جہاں صدیوں سے طوفان اور سیلاب کا مسئلہ تھا وہاں تھوڑی سی بہتر حکمت عملی کے ذریعے ناصرف سیلاب کو روکا بلکہ وہیں صنعت کو بھی فروغ دیا۔ اب مجھے صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ ان سب سے پہلے وہاں کوئی نیا پولینڈ بنا تھا۔
Load Next Story