انتخابی اصلاحات کے لئے 80 فیصد کام مکمل 13آئینی ترامیم پراتفاق
آئندہ سال مارچ میں فوج کی نگرانی میں مردم شماری کراکے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔
انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ اپنی ذیلی کمیٹی کو ارسال کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں خامیاں دور کرنے کیلیے نشاندہی کرے۔ ذیلی کمیٹی نے 13 آئینی ترامیم پر اتفاق کیا ہے جبکہ انتخابات سے متعلقہ 6 قوانین کو ضم کرکے ایک جامع اور یکساں قانون بنایا جائیگا۔
انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے 13ویں اجلاس کے حوالے سے سب کمیٹی کے کنوینر زاہد حامد اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤتحسین علی کے ساتھ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر خزانہ اور کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار نے بتایا کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے 80فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے جن آئینی ترامیم پر اتفاق کیا ہے۔ ان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 120 دن میں ہونے، الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بنانے، انضباطی کارروائی کا اختیار دینے، تمام عملے کو الیکشن کمیشن کے ماتحت دینے، حلقہ بندیوں، نادرا کی دستاویزات کے مطابق ووٹر کے اندراج، پولنگ سٹیشن ایک کلومیٹر کے احاطے کے اندر قائم کرنے، انتخابی مہم کے دوران وال چاکنگ اور بینر آویزاں کرنے پر پابندی، انتخابی عذرداریوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شامل ہیں جبکہ جن پولنگ اسٹیشنوں پر خواتین ووٹروں کی شرح 10 فیصد سے کم ہوگی وہاں کا نتیجہ کالعدم کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا جائے گا۔
ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں آرٹیکل (1) 62' (140A) 63 سمیت 13 آئینی ترامیم پر اتفاق رائے ہوا۔ انکوائری کمیشن نے الیکشن کمیشن کی جن انتظامی خامیوں کی نشاندہی کی ہے ان کا جائزہ آج (بدھ کو) اجلاس میں لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو مالیاتی خودمختاری کے حوالے سے جس قدر ضروری ہوا اختیار دیں گے۔ شفاف آزادانہ انتخابات کیلیے ہر اقدام اٹھایا جائے گا۔ پولنگ اسٹیشنوں کا فاصلہ2 کلومیٹر سے کم کرکے ایک کلومیٹرکردیا ہے۔ نئی ترامیم کے تحت الیکشن ٹربیونل روزانہ کی بنیاد پرسماعت پرکریں گے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے متعلق طریقہ کار پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔آئندہ سال مارچ میں فوج کی نگرانی میں مردم شماری کراکے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ ایسی مردم شماری کرائیں گے جو سب کو قابل قبول ہو۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کو ہٹائے جانے کے حوالے سے خورشید شاہ کا بیان نظر سے نہیں گزرا۔ الیکشن کمیشن کی باڈی آئینی ہے۔
انکوائری کمیشن نے بھی اس باڈی کو ختم کرنے کی بات کہیں نہیں کی۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہیئے۔ اس موقع پر زاہد حامد نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اور بائیو میٹرک ویری فکیشن سسٹم کا جائزہ لے رہے ہیں اور الیکشن کمیشن آئندہ ہری پور ضمنی الیکشن میں بائیومیٹرک ووٹنگ مشین کا آزمائشی استعمال کریگا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اوورسیز پاکستانی کے ووٹ کے طریقہ کار پر 2 ارکان کے نام مانگے تھے جس پر ہم نے اپوزیشن کی طرف سے تحریک انصاف کے عارف علوی اور حکومت کی جانب سے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے نام دیے ہیں۔ ذیلی کمیٹی نے جن ترامیم پر اتفاق کیا ہے ہم نے اس پر ساتھ ساتھ ڈرافٹنگ کا کام بھی شروع کر دیا ہے تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہو۔ سب کمیٹی میں کئی چیزیں ایسی بھی ہیں جن پر اتفاق نہیں ہوا جیسا کہ سینیٹ کے انتخابات ہیں کہ یہ براہ راست ہونے چاہئیں یا نہیں۔ جن آئینی معاملات پر اتفاق نہیں ہوا ہم ان کی ایک فہرست بنا کر ارکان کو دیں گے۔ اس کے بعد وہ اپنی قیادت کے ساتھ مشاورت کرکے واپس کمیٹی میں آئیں گے۔ سب کمیٹی نے ایک ماہ کا وقت لیا ہے جس میں وہ اپنا کام مکمل کر لے گی۔ جو معاملات سب کمیٹی میں حل نہیں ہونگے، ان پر اتفاق رائے کیلئے مین کمیٹی کام کریگی۔ انھوں نے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی نشستیں خالی قرار دینے کے حوالے سے تحاریک کے بارے میں سوال پر کہا کہ پاکستان کو اس وقت سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔
آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں۔ ہمیں ایسی صورتحال میں نئے ایشوز کی طرف نہیں جانا۔ قبل ازیں اصلاحات کمیٹی کا 13 واں باضابطہ اجلاس اسحاق ڈار کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ جس میں ذیلی کمیٹی کے کام میں پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔
انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے 13ویں اجلاس کے حوالے سے سب کمیٹی کے کنوینر زاہد حامد اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤتحسین علی کے ساتھ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر خزانہ اور کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار نے بتایا کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے 80فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔ ذیلی کمیٹی نے جن آئینی ترامیم پر اتفاق کیا ہے۔ ان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 120 دن میں ہونے، الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بنانے، انضباطی کارروائی کا اختیار دینے، تمام عملے کو الیکشن کمیشن کے ماتحت دینے، حلقہ بندیوں، نادرا کی دستاویزات کے مطابق ووٹر کے اندراج، پولنگ سٹیشن ایک کلومیٹر کے احاطے کے اندر قائم کرنے، انتخابی مہم کے دوران وال چاکنگ اور بینر آویزاں کرنے پر پابندی، انتخابی عذرداریوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شامل ہیں جبکہ جن پولنگ اسٹیشنوں پر خواتین ووٹروں کی شرح 10 فیصد سے کم ہوگی وہاں کا نتیجہ کالعدم کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا جائے گا۔
ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں آرٹیکل (1) 62' (140A) 63 سمیت 13 آئینی ترامیم پر اتفاق رائے ہوا۔ انکوائری کمیشن نے الیکشن کمیشن کی جن انتظامی خامیوں کی نشاندہی کی ہے ان کا جائزہ آج (بدھ کو) اجلاس میں لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو مالیاتی خودمختاری کے حوالے سے جس قدر ضروری ہوا اختیار دیں گے۔ شفاف آزادانہ انتخابات کیلیے ہر اقدام اٹھایا جائے گا۔ پولنگ اسٹیشنوں کا فاصلہ2 کلومیٹر سے کم کرکے ایک کلومیٹرکردیا ہے۔ نئی ترامیم کے تحت الیکشن ٹربیونل روزانہ کی بنیاد پرسماعت پرکریں گے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے متعلق طریقہ کار پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔آئندہ سال مارچ میں فوج کی نگرانی میں مردم شماری کراکے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ ایسی مردم شماری کرائیں گے جو سب کو قابل قبول ہو۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کو ہٹائے جانے کے حوالے سے خورشید شاہ کا بیان نظر سے نہیں گزرا۔ الیکشن کمیشن کی باڈی آئینی ہے۔
انکوائری کمیشن نے بھی اس باڈی کو ختم کرنے کی بات کہیں نہیں کی۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہیئے۔ اس موقع پر زاہد حامد نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اور بائیو میٹرک ویری فکیشن سسٹم کا جائزہ لے رہے ہیں اور الیکشن کمیشن آئندہ ہری پور ضمنی الیکشن میں بائیومیٹرک ووٹنگ مشین کا آزمائشی استعمال کریگا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اوورسیز پاکستانی کے ووٹ کے طریقہ کار پر 2 ارکان کے نام مانگے تھے جس پر ہم نے اپوزیشن کی طرف سے تحریک انصاف کے عارف علوی اور حکومت کی جانب سے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے نام دیے ہیں۔ ذیلی کمیٹی نے جن ترامیم پر اتفاق کیا ہے ہم نے اس پر ساتھ ساتھ ڈرافٹنگ کا کام بھی شروع کر دیا ہے تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہو۔ سب کمیٹی میں کئی چیزیں ایسی بھی ہیں جن پر اتفاق نہیں ہوا جیسا کہ سینیٹ کے انتخابات ہیں کہ یہ براہ راست ہونے چاہئیں یا نہیں۔ جن آئینی معاملات پر اتفاق نہیں ہوا ہم ان کی ایک فہرست بنا کر ارکان کو دیں گے۔ اس کے بعد وہ اپنی قیادت کے ساتھ مشاورت کرکے واپس کمیٹی میں آئیں گے۔ سب کمیٹی نے ایک ماہ کا وقت لیا ہے جس میں وہ اپنا کام مکمل کر لے گی۔ جو معاملات سب کمیٹی میں حل نہیں ہونگے، ان پر اتفاق رائے کیلئے مین کمیٹی کام کریگی۔ انھوں نے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی نشستیں خالی قرار دینے کے حوالے سے تحاریک کے بارے میں سوال پر کہا کہ پاکستان کو اس وقت سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔
آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں۔ ہمیں ایسی صورتحال میں نئے ایشوز کی طرف نہیں جانا۔ قبل ازیں اصلاحات کمیٹی کا 13 واں باضابطہ اجلاس اسحاق ڈار کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ جس میں ذیلی کمیٹی کے کام میں پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔