تو جانیے کہ ہم اور آپ کیا کھاتے ہیں
عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو وہی سزا دی جائے جو کسی کی جان لینے والے کو دی جاتی ہے۔
آپ بس میں سفر کر رہے ہوں، کسی ہوٹل میں کھانا کھا رہے ہوں یا کسی محفل میں شاملِ گفتگو ہوں، آپ بس اتنا کہہ دیں کہ فلاں سیاستدان بُرا ہے یا فلاں وزیر کی کارکردگی ٹھیک نہیں یا پولیس والا سہی کام نہیں کر رہا۔ آپ کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ بس کا کنڈیکٹر، ہوٹل کا بیرا یا محفل میں بیٹھا سادہ لوح شخص سبھی اس موضوع پر گھنٹوں طویل بحث کرسکتے ہیں۔ سب کی خامیوں پر بڑی کڑی نظر رکھتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں کہ ہم دوسروں کی بُرائیاں بیان کرکے اپنے کالے دھندوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بس کا ڈرائیور آپ کو یہ تو بتا دے گا کہ کس نے اس ملک کو کتنا لوٹا ہے مگر یہ بتانا بھول جائے گا کہ اس کی بس میں لگا گیس کا سیلنڈر کب کا زائد المیعاد ہوچکا ہے اور اسکو نہ بدلوا کر وہ روز کتنے ہی مسافروں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ ہوٹل کا ویٹر آپ کو یہ تو بتا دے گا کہ فلاں اداکارہ نے واہیات اور غیر شرعی لباس پہنا لیکن یہ نہیں بتائے گا کہ آپ کو پیش کی گئی کڑاہی کا گوشت مردہ جانور سے لیا گیا۔
ہم بحثیت قوم اس مرض کا شکار ہیں کہ ہمیں دوسروں کا گریبان قریب اور اپنا دوُر نظر آتا ہے، ورکر کو تنخواہ تو وقت پر چاہیے مگر جب کام کا کہا جائے تو حیلے بہانوں سے وقت گزاری کرتے ہیں، تاجر کو مںافع تو چاہیے مگر وہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی اس سے یہ پوچھے کہ جو وہ بیچ رہا ہے وہ اصل ہے یا ملاوٹ شدہ، ٹیچر کو اپنے لیکچر سے غرض ہے شاگردوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے اسے پیسے ملنے ہی ملنے ہیں۔
ہماری رہی سہی ''شرافت'' کا جنازہ آجکل لاہور میں نکل رہا ہے جہاں آئے دن پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہم کیا کھارہے ہیں اور ہمیں کیا کھلایا جا رہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے نئی ڈائریکٹر عائشہ ممتاز کی سربراہی میں اب تک تین ملین کا جرمانہ، 230 ہوٹلوں اور ریستورانوں کو بند، جبکہ 330 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ آپ اسلامی جمہوریہ مملکت میں کاروبار کرتے ان ہوٹلوں اور ان میں تیار ہونے والی چیزوں کی تصاویر دیکھیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے، کیوں کہ آپ اور ہم سب ہی ان کا شکار ہوچکے ہیں اور یہی روش رہی تو دوبارہ پھر ہوں گے۔
آپ ایک لمحے کے لیے اپنے سامنے فہرست رکھیں کہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ اگر آپ گھی لینا چاہتے ہیں تو واضح رہے کہ کہیں یہ جانوروں کی انتڑیوں اور مردہ جانوروں کی آلائشوں سے تو نہیں بنا؟ لال مرچ میں اینٹوں کا برادہ تو شامل نہیں ہے؟ دودھ میں پانی کی ملاوٹ کس کو نہیں معلوم، گھوڑوں کی خوراک کو رنگ کرکے کالی مرچ بنایا جا رہا ہے۔ گٹر کی غلاظت جمع کرکے برتن دھونے والا صابن بنایا جا رہا ہے۔ گندے اور غلیظ پانی سے برف تیار کی جا رہی ہے۔ بکرے کی جگہ گدھے کا گوشت کھلایا جا رہا ہے۔
کھانے کی اشیاء بنانے والی فیکٹریوں اور ہوٹل انتظامیہ وما لکان کے جو کارنامے سامنے آئے ہیں انہیں دیکھ کر دل ہی نہیں کرتا کہ فیملی کے ساتھ کہیں جایا جائے اور ایسی زہریلی چیزوں سے خاطر تواضع کروائی جائے۔ یہ سب کچھ کسی فٹ پاتھ پر کھڑا ٹهیلے والا نہیں کررہا بلکہ شہر کے پوش علاقوں میں واقع غیر ملکی فوڈ چینز اور بڑے بڑے نام یہ سب نیچ حرکتیں کررہے ہیں۔ عوام شامت کے مارے اس لیے اِدھر کا رخ کرتے ہیں کہ انہیں تفریح کے ساتھ ساتھ اچھا ماحول اور صاف ستھرا حفظانِ صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا کھانا میّسر ہوتا ہوگا مگر جو تصویریں اور ویڈیوز سامنے آئی ہیں وہ الگ ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔
لاہور کی پرانی اور مشہور بیکری کی مٹھایوں کا جائزہ لیا گیا تو زائد المیعاد ہونے والی مٹھائی عوام کو فروخت کی جارہی تھی۔ معروف فاسٹ فوڈ چین کی بات کی جائے یا لوکل، ہر جگہ عوام کو بیوقوف بنانے اور جعلسازی کے دھندوں کے سوا کچھ نہیں نہیں ہورہا۔ کافی شاپس کا بڑا نام جہاں آپکو ایک کپ تین سو سے چار سو میں ملتا ہے مگر یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ دو سال پہلے زائد المیعاد ہونے والے فلیور سے کافی بنا کر لوگوں کی زندگیوں سے کس درندگی سے کھیلا جا رہا تھا۔ عائشہ ممتاز نے ہمت کرکے فائیو اسٹار ہوٹلوں کی انسپیکشن کی تو خلافِ توقع یہاں بھی وہی کچھ دیکھنے کو ملا جو باقی جگہوں پر تھا۔ کسی پراڈکٹ پر ایکسپائری نہیں تھی تو کوئی مشین ٹھیک سے واش نہیں کی ہوئی تھی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں بھی ہاتھ ڈالا گند ہی نکلا پھر چاہے وہ کوئی فٹ پاتھ پر ریڑھی والا ہو یا فائیو اسٹار ہوٹل کا وی وی آئی پی کچن، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کرنے سے سب ٹھیک ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں، یہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن اِسکو جاری بھی رہنا چاہیے اور ہمیں ایسے افسروں کی سخت ضرورت ہے جو ملک اور قوم کی سہی معنوں میں خدمت کر سکیں۔ مگر بوجھ یہاں حکومت کے کاندھوں پر بھی آتا ہے کہ وہ بھی کچھ کرکے دکهائے نہ کہ صرف ذاتی اور سیاسی بنیادوں پر اچھا کام کرنے والوں کے تبادلوں تک محدود رہے۔
زیادہ دور نہیں جاتے ابھی کچھ مہینوں پہلے یہ خبر آئی تھی کہ ملک میں بڑی تعداد میں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے لیکن اس پر کیا کارروائی ہوئی؟ اسمبلی کے کس سیشن میں بحث ہوئی؟ کونسا بل پاس ہوا؟؟ جی ہاں ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں ہوا اور یہ خبر اخبارات کی زینت بن کے بس گزر گئی۔
یہ تو صرف ایک شہر لاہور کی صورتِ حال ہے، اگر دوسرے شہروں میں بھی ایسے کریک ڈاؤن شروع کیے جائیں تو کسی حد تک صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کی اتھارٹیز کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا جائے اور انکے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے قانون بنایا جائے جس کے تحت ملزموں کو سخت سے سخت سزا دلوائی جاسکے نہ کہ صرف جرمانے پر اکتفا کیا جائے۔ اس طرح جرمانہ کرنے سے مالکان جرمانہ ادا کرکے پھر اپنا ہوٹل کھول کر بیٹھ جائیں گے اور پھر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ اس پر سخت سے سخت قانون بنایا جائے اور عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو وہی سزا دی جائے جو کسی کی جان لینے والے کو دی جاتی ہے کیونکہ یہ بے ضمیر افراد یہ ناقص اور غیر معیاری اشیاء فروخت کرکے روزانہ ہی کتنے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔
[poll id="566"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں کہ ہم دوسروں کی بُرائیاں بیان کرکے اپنے کالے دھندوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بس کا ڈرائیور آپ کو یہ تو بتا دے گا کہ کس نے اس ملک کو کتنا لوٹا ہے مگر یہ بتانا بھول جائے گا کہ اس کی بس میں لگا گیس کا سیلنڈر کب کا زائد المیعاد ہوچکا ہے اور اسکو نہ بدلوا کر وہ روز کتنے ہی مسافروں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ ہوٹل کا ویٹر آپ کو یہ تو بتا دے گا کہ فلاں اداکارہ نے واہیات اور غیر شرعی لباس پہنا لیکن یہ نہیں بتائے گا کہ آپ کو پیش کی گئی کڑاہی کا گوشت مردہ جانور سے لیا گیا۔
ہم بحثیت قوم اس مرض کا شکار ہیں کہ ہمیں دوسروں کا گریبان قریب اور اپنا دوُر نظر آتا ہے، ورکر کو تنخواہ تو وقت پر چاہیے مگر جب کام کا کہا جائے تو حیلے بہانوں سے وقت گزاری کرتے ہیں، تاجر کو مںافع تو چاہیے مگر وہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی اس سے یہ پوچھے کہ جو وہ بیچ رہا ہے وہ اصل ہے یا ملاوٹ شدہ، ٹیچر کو اپنے لیکچر سے غرض ہے شاگردوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے اسے پیسے ملنے ہی ملنے ہیں۔
ہماری رہی سہی ''شرافت'' کا جنازہ آجکل لاہور میں نکل رہا ہے جہاں آئے دن پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہم کیا کھارہے ہیں اور ہمیں کیا کھلایا جا رہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے نئی ڈائریکٹر عائشہ ممتاز کی سربراہی میں اب تک تین ملین کا جرمانہ، 230 ہوٹلوں اور ریستورانوں کو بند، جبکہ 330 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ آپ اسلامی جمہوریہ مملکت میں کاروبار کرتے ان ہوٹلوں اور ان میں تیار ہونے والی چیزوں کی تصاویر دیکھیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے، کیوں کہ آپ اور ہم سب ہی ان کا شکار ہوچکے ہیں اور یہی روش رہی تو دوبارہ پھر ہوں گے۔
آپ ایک لمحے کے لیے اپنے سامنے فہرست رکھیں کہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ اگر آپ گھی لینا چاہتے ہیں تو واضح رہے کہ کہیں یہ جانوروں کی انتڑیوں اور مردہ جانوروں کی آلائشوں سے تو نہیں بنا؟ لال مرچ میں اینٹوں کا برادہ تو شامل نہیں ہے؟ دودھ میں پانی کی ملاوٹ کس کو نہیں معلوم، گھوڑوں کی خوراک کو رنگ کرکے کالی مرچ بنایا جا رہا ہے۔ گٹر کی غلاظت جمع کرکے برتن دھونے والا صابن بنایا جا رہا ہے۔ گندے اور غلیظ پانی سے برف تیار کی جا رہی ہے۔ بکرے کی جگہ گدھے کا گوشت کھلایا جا رہا ہے۔
کھانے کی اشیاء بنانے والی فیکٹریوں اور ہوٹل انتظامیہ وما لکان کے جو کارنامے سامنے آئے ہیں انہیں دیکھ کر دل ہی نہیں کرتا کہ فیملی کے ساتھ کہیں جایا جائے اور ایسی زہریلی چیزوں سے خاطر تواضع کروائی جائے۔ یہ سب کچھ کسی فٹ پاتھ پر کھڑا ٹهیلے والا نہیں کررہا بلکہ شہر کے پوش علاقوں میں واقع غیر ملکی فوڈ چینز اور بڑے بڑے نام یہ سب نیچ حرکتیں کررہے ہیں۔ عوام شامت کے مارے اس لیے اِدھر کا رخ کرتے ہیں کہ انہیں تفریح کے ساتھ ساتھ اچھا ماحول اور صاف ستھرا حفظانِ صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا کھانا میّسر ہوتا ہوگا مگر جو تصویریں اور ویڈیوز سامنے آئی ہیں وہ الگ ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔
لاہور کی پرانی اور مشہور بیکری کی مٹھایوں کا جائزہ لیا گیا تو زائد المیعاد ہونے والی مٹھائی عوام کو فروخت کی جارہی تھی۔ معروف فاسٹ فوڈ چین کی بات کی جائے یا لوکل، ہر جگہ عوام کو بیوقوف بنانے اور جعلسازی کے دھندوں کے سوا کچھ نہیں نہیں ہورہا۔ کافی شاپس کا بڑا نام جہاں آپکو ایک کپ تین سو سے چار سو میں ملتا ہے مگر یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ دو سال پہلے زائد المیعاد ہونے والے فلیور سے کافی بنا کر لوگوں کی زندگیوں سے کس درندگی سے کھیلا جا رہا تھا۔ عائشہ ممتاز نے ہمت کرکے فائیو اسٹار ہوٹلوں کی انسپیکشن کی تو خلافِ توقع یہاں بھی وہی کچھ دیکھنے کو ملا جو باقی جگہوں پر تھا۔ کسی پراڈکٹ پر ایکسپائری نہیں تھی تو کوئی مشین ٹھیک سے واش نہیں کی ہوئی تھی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں بھی ہاتھ ڈالا گند ہی نکلا پھر چاہے وہ کوئی فٹ پاتھ پر ریڑھی والا ہو یا فائیو اسٹار ہوٹل کا وی وی آئی پی کچن، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کرنے سے سب ٹھیک ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں، یہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن اِسکو جاری بھی رہنا چاہیے اور ہمیں ایسے افسروں کی سخت ضرورت ہے جو ملک اور قوم کی سہی معنوں میں خدمت کر سکیں۔ مگر بوجھ یہاں حکومت کے کاندھوں پر بھی آتا ہے کہ وہ بھی کچھ کرکے دکهائے نہ کہ صرف ذاتی اور سیاسی بنیادوں پر اچھا کام کرنے والوں کے تبادلوں تک محدود رہے۔
زیادہ دور نہیں جاتے ابھی کچھ مہینوں پہلے یہ خبر آئی تھی کہ ملک میں بڑی تعداد میں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے لیکن اس پر کیا کارروائی ہوئی؟ اسمبلی کے کس سیشن میں بحث ہوئی؟ کونسا بل پاس ہوا؟؟ جی ہاں ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں ہوا اور یہ خبر اخبارات کی زینت بن کے بس گزر گئی۔
یہ تو صرف ایک شہر لاہور کی صورتِ حال ہے، اگر دوسرے شہروں میں بھی ایسے کریک ڈاؤن شروع کیے جائیں تو کسی حد تک صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کی اتھارٹیز کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا جائے اور انکے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے قانون بنایا جائے جس کے تحت ملزموں کو سخت سے سخت سزا دلوائی جاسکے نہ کہ صرف جرمانے پر اکتفا کیا جائے۔ اس طرح جرمانہ کرنے سے مالکان جرمانہ ادا کرکے پھر اپنا ہوٹل کھول کر بیٹھ جائیں گے اور پھر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ اس پر سخت سے سخت قانون بنایا جائے اور عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو وہی سزا دی جائے جو کسی کی جان لینے والے کو دی جاتی ہے کیونکہ یہ بے ضمیر افراد یہ ناقص اور غیر معیاری اشیاء فروخت کرکے روزانہ ہی کتنے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔
[poll id="566"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس