عبدالکلام اک عہد کا خاتمہ

ڈاکٹرعبدالکلام، جو اخبار فروش سے ملک کا صدر بن گیا لیکن کبھی عاجزی نہ چھوڑسکا۔


شاہد کاظمی July 29, 2015
بھارت جیسے متشدد معاشرے میں ڈاکٹر صاحب جیسا محنتی شخص جب احترام کا استعارہ بن جاتا ہے تو یقیناً حیرانگی بھی ہوتی ہے

KARACHI: جب میں مرجاؤں تو میری موت پر چھٹی دینے کے بجائے ایک دن اضافی کام کیا جائے۔ یہ الفاظ یقینی طور پر کسی ایسی شخصیت کے ہوسکتے ہیں جس کی پوری زندگی انتھک محنت سے عبارت ہو۔ یہ الفاظ ڈاکٹر عبدالکلام کے ہیں، جو 83 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ خدا بھی ان کی ہی مدد کرتا ہے جو سخت محنت کے عادی ہوں۔ ان دو جملوں میں ایک ممتاز انسان کی پوری زندگی عیاں ہے۔



کیا کسی کو خبر تھی کہ 1931 میں کشتیاں تیار کرنے والے غریب زین العابدین کے گھر پیدا ہونے والا بچہ ایک دن بھارت کا صدر بن جائے گا؟ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مسلمان یقیناً ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبد الکلام جیسے محسنوں کو بھارت میں اعلیٰ ترین مقام بھی دیا گیا۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے کزن شمس الدین کے ساتھ اخبار فروخت کرنے والے اس بچے کے بارے میں کسے خبر تھی کہ ایک دن وہ ''میزائل مین'' کے نام سے جانا جائے گا۔ یہ خطاب ڈاکٹر صاحب کو میزائل ٹیکنالوجی میں لافانی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ بھارت میں بھی لوگ انہیں میزائل مین کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کے علاوہ 1998 میں پوکھران کے ایٹمی دھماکوں میں ان کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں انہیں بھارت کے صدر کی مسند پر بٹھایا گیا۔

83 سالہ ڈاکٹر عبدالکلام کی زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلے کے لیے ان کے پاس ایک ہزار فیس تک نہ تھی۔ بہنیں ہمیشہ بھائیوں کے لیے قربانیاں دیتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ نے اپنی چوڑیاں گروی رکھواکر داخلے کی فیس کے پیسے جمع کروائے۔ مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے گریجوایشن کرنے کے بعد عبد الکلام نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نئی منزلیں روشن ہوتی گئیں۔ نئے راستے طے ہوتے رہے۔ انڈین ریسرچ اینڈ اسپیس آرگنائزیشن سے وابستگی ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بھی انقلاب لے کر آئی کیوںکہ روہینی 1 کی کامیابی کے بعد حکومت نے خصوصی طور پر ڈاکٹر صاحب کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے منصوبے شروع کیے۔ روہینی نام تجرباتی سیٹلائٹ کی ایک سیریز کو دیا گیا تھا۔ روہینی 1 انڈین اسپیس اینڈ ریسرچ سینٹر نے 1978 میں خلاء میں بھیجا گیا اور اسی منصوبے سے ڈاکٹر صاحب ایک محترم شخصیت کے طور پر بھارت میں ابھرے۔

ڈاکٹر صاحب کی وجہ شہرت SLV یعنی Satellite Launch Vehicle بنی۔ اس ٹیکنالوجی نے انڈیا میں خلائی تحقیق کی نئی راہیں ہموار کیں۔ ڈاکٹر عبدالکلام کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1981ء میں پدما بھوشن ایوارڈ، 1990ء میں پدماوی بھوشن ایوارڈ اور 1997 میں بھارت کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھارت رتن سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک 20 سے زائد اعزازت سے نوازا گیا۔

https://twitter.com/iamravishdesai/status/626202278685315076

ڈاکٹر عبدالکلام کو بھارت میں سب سے زیادہ معتبر شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے ان کی زندگی سے جڑے کچھ واقعات نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے وابستہ تھے تو انتظامیہ نے حفاظتی انتظامات کے لیے دیوار پر کانچ کے ٹکڑے لگانے کا منصوبہ بنایا لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ منصوبہ صرف اس وجہ سے رد کردیا کہ پرندوں کو دیوار پر بیٹھنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے اس وجہ سے مخصوص کرسی پر بیٹھنے سے انکار کردیا کیوںکہ اس کا حجم باقی کرسیوں سے بڑا تھا جو اس کو باقی نشتوں سے ممتاز کرتا تھا۔ صدارت سنبھالنے کے بعد جب وہ کیرالہ گئے تو انہوں نے صدارتی مہمان کے طور پر ایک چھوٹے سے ڈھابے کے مالک کو اپنا مہمان بنایا کیوں کہ اس کے ساتھ ان کا بہت اچھا وقت گذارا تھا۔

بھارت جیسے متشدد معاشرے میں ڈاکٹر صاحب جیسا محنتی شخص جب احترام کا استعارہ بن جاتا ہے تو یقیناً حیرانگی بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حیرانگی اس وقت مسکراہٹ میں بدل جاتی ہے کہ ایک ایسا شخص جو پرندوں کی تکالیف تک سے آگاہ ہے اسے کیونکر نہ اتنا احترام دیا جائے۔ انڈیا میزائل ٹیکنالوجی کے بانی سے محروم ہوا یا خلائی تحقیق کے گرو سے؟ نہیں، بلکہ دنیا ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئی۔ ایک ایسا انسان جو اخبار فروش سے ملک کا صدر بن گیا لیکن وہ کبھی عاجزی نہ چھوڑ سکا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں