باغی جیت گیا

باغی ہمیشہ جیتتے ہیں، باغی کا مقام سچا ہوتا ہے، باغی جھوٹ کے خلاف اٹھتا ہے۔

HARIPUR:
باغی ہمیشہ جیتتے ہیں، باغی کا مقام سچا ہوتا ہے، باغی جھوٹ کے خلاف اٹھتا ہے۔ باغی فیصلہ کر کے سر اٹھاتا ہے۔ اس کے سامنے سارے خوف، صعوبتیں، بے معنی ہو جاتی ہیں۔ باغی بہت سی منازل طے کر چکا ہوتا ہے، سارے نفع نقصان سمجھ چکا ہوتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے کتاب لکھی ''ہاں میں باغی ہوں۔'' یہ محض کتاب کا نام ہی نہیں تھا۔ یہ جاوید ہاشمی کا اپنے لیے حتمی فیصلہ تھا۔ پھر اس نے مصلحتوں کو دفن کر دیا۔ اس نے فوج کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ساتھی منع کرتے رہے، سمجھاتے رہے کہ ایسا نہ کرنا، مگر وہ فیصلہ کر چکا تھا، اور پھر وہ فوجی جرنیل پرویز مشرف کی جیل میں چلا گیا۔

مجھے یاد ہے میں نے اس کو فون کیا تھا۔ جیل خانے سے آواز آئی۔ وہ کہہ رہا تھا ''سعید بھائی! ہم تو جالبؔ صاحب کے قدموں میں بیٹھنے والوں میں سے ہیں۔ ان کے معتقد ہیں۔'' وہ جیل سے باہر آیا، باہر فضا بدل چکی تھی۔ وہ پارٹی جس کے سربراہ نواز شریف کو اس کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو اہل خانہ سمیت ملک سے نکال دیا گیا تھا تب باغی جاوید ہاشمی نے ڈولتی ہوئی پارٹی کو سنبھالا، اسے زندہ رکھا۔ فوج کا مقابلہ کون کرتا ہے، اقتدار کے مزے سب لیتے ہیں۔

لہٰذا شریف برادران کے سارے ''منے دنے'' کبوتر فوجی جرنیل کے چھجے پر جا بیٹھے۔ باغی جاوید ہاشمی کے ساتھ بس چند ہی رہ گئے۔ یہی ممنون حسین، مشاہد اللہ، احسن اقبال، تہمینہ دولتانہ (باقی نام یاد نہیں آ رہے وہ خود کو شامل سمجھیں)۔ ہمارے ہاں تو فضائیں بدلتی رہتی ہیں، سو فضا پھر بدلی، اور شریف برادران ملک میں واپس آ گئے۔ ہوا بھی شریف برادران کی طرف چل رہی تھی۔ ایسے بھرے میلے میں ''چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔'' کے خلاف باغی جاوید ہاشمی بھریا میلہ چھوڑ آیا۔ وہ جا رہا تھا تو ''دور تک اسے سمجھانے زندگی آئی'' مگر باغی کے لیے اس کا رستہ ہی زندگی ہوتا ہے۔

باغی نے عمران خان کو اپنا کندھا دے دیا مگر وہ باغی تھا۔ جھوٹے سماج کا باغی اسی لیے اس نے کراچی تحریک انصاف کے بہت بڑے جلسے میں ببانگ دہل کہہ دیا تھا ''عمران خان! اگر تم مصلحتوں کا شکار ہوئے تو پھر سمجھ لینا کہ ''میں باغی ہوں'' قائد اعظم کے مزار پر ہونے والے جلسے میں، میں خود موجود تھا۔ لاکھوں لوگ والہانہ طور پر کہہ رہے تھے ''میں باغی ہوں، میں باغی ہوں'' پھر وہی کچھ ہوا جو ہوتا چلا آ رہا ہے، کچے کانوں والا عمران خان پکی اور مضبوط باتیں نہ سن سکا نہ ہی سمجھ سکا۔ اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ''اقتدار کے مزے لوٹنے والے'' جمع تھے اور ''ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم'' یہ تو باغیوں کا چلن ہوتا ہے۔

لہٰذا عمران خان اپنے سامنے ہزاروں لاکھوں کا ہجوم دیکھ کر اپنا رستہ بدل گیا، مگر باغی جاوید ہاشمی نے اپنا رستہ نہیں بدلا۔ اس نے آخری وقت تک عمران کو سمجھانے کی کوشش کی اور آخر باغی تباہی و بربادی کے کنٹینر سے اتر گیا۔ کنٹینر سے اتر کر باغی تنہا ایک کرسی پر بیٹھا تھا کہ شاید کوئی اس کے پاس آئے مگر کنٹینر پر سواروں میں کوئی ایسا تھا ہی نہیں جو اتر کے آتا۔باغی اسمبلی میں گیا وہی اسمبلی جس کو ڈھا دینے کا منصوبہ تھا، مگر باغی کا کہنا تھا ''عمارت قائم رہنے دو' مکینوں کو بدل ڈالو'' باغی نے جس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ اس نے بغاوت کر دی تھی لہٰذا وہ اسمبلی سے آخری خطاب کے بعد باقاعدہ استعفیٰ دے کر اپنے حلقہ انتخاب میں چلا گیا۔


اس نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ شہر کے مخالف جاگیرداروں کے چند چاکروں نے باغی کو گھیر لیا اور اس کے خلاف نعرے لگائے ''داغی، داغی، داغی، داغی''۔ باغی کب ڈرتے ہیں، کب گھبراتے ہیں، وہ اپنی گاڑی سے باہر نکلا، مگر کسی ''بکاؤ'' کو جرأت نہ ہوئی کہ باغی کو ہاتھ لگاتا۔باغی الیکشن ہار گیا، یہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی باغی مرزا ابراہیم اور باغی حبیب جالبؔ الیکشن ہار چکے ہیں، مگر کوئی جانتا ہے کہ ان باغیوں کے خلاف الیکشن کون جیتے تھے! کوئی نہیں جانتا۔ باغی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ایک جاوید ہاشمی تھا، اور ایک باغی جاوید ہاشمی ہے۔

ملتان شریف کا جاوید ہاشمی۔ ملتان شریف ہمارے ابا اسی پیروں ولیوں کے شہر میں مدفون ہیں۔ جاوید ہاشمی! اسے عرصہ ہوا باغی ہوئے۔ میں باغی جاوید ہاشمی کو جانتا ہوں، کسی مخدوم کو نہیں جانتا، ان مخدوموں نے غریبوں کا بہت بیڑا غرق کیا ہے، بڑا خون چوسا ہے، اور بھی ان کے کارنامے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی کون ہے؟ میں نہیں جانتا اور نہ ہی مانتا ہوں۔

جوڈیشل کمیشن کا دو ٹوک فیصلہ آ چکا، تحریک انصاف سمیت 21 سیاسی جماعتوں نے 2013ء کے الیکشن کے خلاف دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ میں مزید کچھ نہیں لکھوں گا، کیونکہ میرا لکھا خوشامد کے زمرے میں آ جائے گا، جو مجھے گھر سے نہیں ملی ہے۔ بس اتنا ضرور لکھوں گا کہ جوڈیشل کمیشن نے دھاندلی کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے فخر الدین جی ابراہیم کے گرد چھائے اندھیرے بھی چھٹ گئے۔ یہ بھی اچھا ہوا۔

ایک اور باغی بھی ہے، وہ بھی اپنے عمل سے ثابت کر چکا ہے کہ وہ باغی ہے۔ وہ ہیں جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد۔

پاکستان تحریک انصاف نے جسٹس صاحب کے سپرد ایک کام کیا۔ جسٹس صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اپنی رپورٹ تیار کی، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے کئی نمایاں رہنماؤں کو نااہل اور پارٹی کے لیے مضر قرار دیا ہے۔ ان میں جہانگیر ترین، علیم خان اور صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی شامل ہیں۔ رپورٹ منظر عام پر آئی تو پارٹی میں بھونچال آ گیا، وجیہہ صاحب کی رپورٹ پر عمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ''ان کرموں پر کون چلے گا بولو ساتھ تمہارے۔''

2013ء کے انتخابات کے بعد میں بھی تسلسل سے یہ لکھتا رہا کہ تحریک انصاف کو صوبہ خیبر پختون خوا پر مکمل توجہ مرکوز رکھنا چاہیے کیونکہ صوبہ خیبر پختون خوا کی سرخروئی سے ہی وزیر اعظم ہاؤس کو راستہ جاتا ہے، مگر ایسی تمام صدائیں صدا بہ صحرا نکلیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ بھائی جون ایلیا کا شعر پاکستان تحریک انصاف کی نذر لکھنے پر بات ختم کرتا ہوں:

میں بھی عجیب شخص ہوں' اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا' اور ملال بھی نہیں
Load Next Story