عبایا اور اسکارف زینت بھی وقار بھی
نت نئے اسٹائلز نے اس روایت کو جدت اور خوب صورتی کے منفرد انداز عطا کردیے ہیں۔
دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کی خواتین میں عبایا اور اسکارف لینے کا رواج عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے۔
بیشتر اسلامی ممالک میں تو بغیر حجاب کے خواتین کا تصور بھی محال ہے۔ اگرچہ تمام اسلامی ممالک کی تہذیب اور روایات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ ان کے رہن سہن کے طریقے اور لباس میں بھی نمایاں فرق ہے۔ اس لیے بعض ممالک میں تو خواتین پردے میں نظر آتی ہیں، کہیں چادر یا دوپٹہ اوڑھتی ہیں۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد برقعہ بھی استعمال کرتی ہے۔ افغانستان میں کھلے ڈلے ٹوپی برقعے کا رواج آج بھی عام ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں عبایا اور اسکارف خواتین کے لباس کا لازمی حصہ ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر خواتین چادر یا دوپٹہ اوڑھتی ہیں، جو ہماری مشرقی اور اسلامی روایات کا حصہ ہے۔ دور جدید کی خواتین میں اسکارف زیادہ مقبولیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
فرانس میں پابندی کے بعد پوری دنیا میں اسکارف کلچر تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ نہ صرف مسلمان خواتین بلکہ مغربی ممالک کی خواتین بھی اسکارف پسند کرنے لگی ہیں۔ فرانس میں طالبات کے اسکارف پر پابندی لگنے کے بعد احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس سے بھی اسکارف کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسکارف کی حمایت میں تحریک ہی کے سبب مسلمان خواتین کے علاوہ دیگر مذاہب کی خواتین میں بھی اسکارف پہننے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے اب اکثر مغربی خواتین بھی جینز اور شرٹ کے ساتھ اسکارف پہننے لگی ہیں۔
پہلے اسکارف بہت محدود پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ چوںکہ عرب ممالک میں خواتین کے لباس کا حصہ رہا ہے، اسی لیے اکثر لوگ حج یا عمرہ کی غرض سے سعودی عرب جاتے تو اپنی فیملی کی خواتین کے لیے وہاں سے اسکارف تحفے میں لاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اسکارف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، وہیں اسکارف میں بھی جدت در آئی۔ اب ہمارے ہاں بھی ہر قسم اور ہر رنگ کے اسکارف عام دست یاب ہیں۔ اب اکثر خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیاں گھر سے باہر نکلتے وقت لباس سے ہم رنگ دوپٹے اور اسکارف میں نظر آتی ہیں۔
نوجوان لڑکیاں ہی نہیں بلکہ ادھیڑ عمر اور درمیانی عمر کی خواتین بھی اسکارف پہننا پسند کرتی ہیں۔ عرب ممالک میں استعمال ہونے والا چوکور یا تکونی طرز کا اسکارف ہو یا جدید طرز کے فینسی اسکارف، ان کا مقصد ایک طرف سر ڈھانپنا ہے، تو دوسری طرف ظاہری شخصیت کے حسن کو اجاگر کرنا ہے ۔ خواتین اپنی اپنی پسند کے مطابق اسکارف کا انتخاب کرتی ہیں۔ پہلے تو صرف سفید اور کالے رنگ کے اسکارف عام تھے، لیکن اب ہر رنگ اور ڈیزائن کے اسکارف استعمال کیے جارہے ہیں۔ جھالر دار خوش نما اسکارف خواتین اور لڑکیوں میں مقبول ہیں۔
ارتقا کا عمل تو جاری رہتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عمل اسکارف کی شکل اور ہیئت کو مزید کس حد تک تبدیل کرے گا۔ عام اسکارف کے ساتھ ساتھ ''دبئی اسکارف'' جسے ''مکنہ'' بھی کہا جاتا ہے، وہ بھی ہمارے ہاں کافی مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ ہمیشہ ایک اسٹائلش اسکارف اپنی دسترس میں رکھیں۔ یہ نہ صرف ہوا سے اور دھوپ سے بالوں کو بچانے کے کام آتا ہے، بلکہ فیشن بھی ہے۔ خواتین میں اسکارف کا استعمال ایک صحت مند رحجان ہے۔ اسکارف اگرچہ فیشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے نہ صرف لباس کی جاذبیت قائم رہتی ہے بلکہ تہذیب و روایات کی پاس داری بھی ممکن ہے۔
اسکارف کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں عبایا بھی خواتین میں خاصا مقبول ہے۔ عبایا کبھی صرف عرب ممالک میں زیب تن کیا جاتا تھا، لیکن آج نہ صرف عرب ممالک اور جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر میں عبایا خواتین کا پسندیدہ پہناوا بن چکا ہے۔ مختلف خطوں میں عبایا مختلف انداز اور ڈیزائن میں عام ہے۔ کہیں یہ لمبے کھلے چغے کی صورت میں تو کہیں اسٹائلش سے لمبے گائون کی شکل میں خواتین کی پسند بنتا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان لڑکیاں عبایا پسند کرنے لگی ہیں اور اس کے رحجان میں روز افروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خاص طور پر مدارس اور کالج و جامعات کی طالبات عبایا پہنی نظر آتی ہیں۔ عبایا کے ساتھ نہایت خوب صورت اسکارف اس کی دل کشی میں اضافہ کردیتے ہیں اور یوں ایک باوقار پہناوا سامنے آتا ہے، جو دور حاضر کا فیشن بھی بنتا جارہا ہے۔ عبایا کے ساتھ اسکارف اوڑھنے سے اس پہناوے میں اسٹائل بھی آجاتا ہے اور وقار بھی۔
عبایا کی تیاری میں کئی قسم کا کپڑا استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کالا رنگ زیادہ چلتا ہے، مگر برائون اور سرمئی شیڈ بھی مارکیٹ میں دست یاب ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں عام طور پر سیاہ رنگ کا عبایا عام ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین عبایا کو پردے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، لیکن اسے فیشن کے طور پر استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ عبایا ایک ایسا فیشن ہے جس میں مشرقی و مذہبی وقار ہے۔ اس پر کئی طرح کی کڑھائی بھی کی جاتی ہے۔
عبایا کا فرنٹ اوپن ہوتا ہے اور اس پر کشیدہ کاری کے علاوہ ڈیپلک ورک بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈبل اسٹف عبایا بھی ہوتا ہے، جس میں کپڑے کی دو تہوں کو استعمال کرتے ہوئے اسے زیادہ اسٹائلش بنایا جاتا ہے۔ عام طور پر سیاہ رنگ یا برائون رنگ کا عبایا ہی خواتین کی پسند بنتا ہے، کیوں کہ اس میں خواتین کی شخصیت نکھر آتی ہے۔ ان دونوں رنگوں کے ساتھ جس رنگ کا اسکارف اوڑھ لیا جائے، وہ خوب صورت لگتا ہے اور خواتین کی شخصیت باوقار بن جاتی ہے، جو انھیں حسین اور منفرد بناتی ہے۔ یہ عبایا اور اسکارف کی مقبولیت ہی تو ہے کہ ایک بار ''باربی ڈول'' کی پچاسویں سال گرہ کے موقع پر اسے بھی یہ باوقار لباس پہنایا گیا۔ سال گرہ کے موقع پر اس گُڑیا کو مکمل حجاب میں پیش کیا گیا۔ اس بات سے اندازہ لاگیا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین، چاہے ان کا تعلق کسی بھی خطے سے کیوں نہ ہو، ان میں عبایا کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہمارے ہاں مقامی عبایا کے علاوہ دیگر عرب ممالک کے اسٹائل کے عبایا بھی مقبولیت حاصل کررہے ہیں، مثلاً عربی، مصری اور دبئی کے عبایا سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں اور ان کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ چند سال قبل تک صرف مدارس میں پڑھنے والی طالبات یا وہی لڑکیاں لمبا گائون پہنتی یا برقعہ اوڑھتی تھیں، جنھیں پردہ کرنا مقصود ہوتا تھا، مگر اب زیادہ تر لڑکیاں عبایا میں نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے شاپنگ سینٹروں میں عربی، مصری، ایرانی اور دبئی کے عبایوں کی دکانیں خاص طور پر کھولی گئی ہیں، جہاں صرف انہی ممالک کے نہایت اسٹائلش عبایا ہر رنگ اور اسٹائل میں دست یاب ہیں۔
اگرچہ سیاہ، برائون یا خاکستری رنگ کے عبایا ہی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، تاہم دوسرے رنگوں میں بھی عبایا اور اسکارف دست یاب ہیں۔ شاپنگ سینٹروں میں بہت سی شاپس تو ایسی بھی ہیں جہاں خواتین ہی دکان دار ہیں، جو عبایا پہنے ہوتی ہیں اور خواتین کی سہولت کے لیے عبایا اور اسکارف فروخت کرتی ہیں۔ فیشن کے طور پر ہی سہی، نوجوان لڑکیاں اس خوب صورت پہناوے کو اپنا تو رہی ہیں، جس میں اسٹائل بھی ہے، وقار بھی اور روایت بھی۔
بیشتر اسلامی ممالک میں تو بغیر حجاب کے خواتین کا تصور بھی محال ہے۔ اگرچہ تمام اسلامی ممالک کی تہذیب اور روایات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ ان کے رہن سہن کے طریقے اور لباس میں بھی نمایاں فرق ہے۔ اس لیے بعض ممالک میں تو خواتین پردے میں نظر آتی ہیں، کہیں چادر یا دوپٹہ اوڑھتی ہیں۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد برقعہ بھی استعمال کرتی ہے۔ افغانستان میں کھلے ڈلے ٹوپی برقعے کا رواج آج بھی عام ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں عبایا اور اسکارف خواتین کے لباس کا لازمی حصہ ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر خواتین چادر یا دوپٹہ اوڑھتی ہیں، جو ہماری مشرقی اور اسلامی روایات کا حصہ ہے۔ دور جدید کی خواتین میں اسکارف زیادہ مقبولیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
فرانس میں پابندی کے بعد پوری دنیا میں اسکارف کلچر تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ نہ صرف مسلمان خواتین بلکہ مغربی ممالک کی خواتین بھی اسکارف پسند کرنے لگی ہیں۔ فرانس میں طالبات کے اسکارف پر پابندی لگنے کے بعد احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس سے بھی اسکارف کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسکارف کی حمایت میں تحریک ہی کے سبب مسلمان خواتین کے علاوہ دیگر مذاہب کی خواتین میں بھی اسکارف پہننے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے اب اکثر مغربی خواتین بھی جینز اور شرٹ کے ساتھ اسکارف پہننے لگی ہیں۔
پہلے اسکارف بہت محدود پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ چوںکہ عرب ممالک میں خواتین کے لباس کا حصہ رہا ہے، اسی لیے اکثر لوگ حج یا عمرہ کی غرض سے سعودی عرب جاتے تو اپنی فیملی کی خواتین کے لیے وہاں سے اسکارف تحفے میں لاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اسکارف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، وہیں اسکارف میں بھی جدت در آئی۔ اب ہمارے ہاں بھی ہر قسم اور ہر رنگ کے اسکارف عام دست یاب ہیں۔ اب اکثر خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیاں گھر سے باہر نکلتے وقت لباس سے ہم رنگ دوپٹے اور اسکارف میں نظر آتی ہیں۔
نوجوان لڑکیاں ہی نہیں بلکہ ادھیڑ عمر اور درمیانی عمر کی خواتین بھی اسکارف پہننا پسند کرتی ہیں۔ عرب ممالک میں استعمال ہونے والا چوکور یا تکونی طرز کا اسکارف ہو یا جدید طرز کے فینسی اسکارف، ان کا مقصد ایک طرف سر ڈھانپنا ہے، تو دوسری طرف ظاہری شخصیت کے حسن کو اجاگر کرنا ہے ۔ خواتین اپنی اپنی پسند کے مطابق اسکارف کا انتخاب کرتی ہیں۔ پہلے تو صرف سفید اور کالے رنگ کے اسکارف عام تھے، لیکن اب ہر رنگ اور ڈیزائن کے اسکارف استعمال کیے جارہے ہیں۔ جھالر دار خوش نما اسکارف خواتین اور لڑکیوں میں مقبول ہیں۔
ارتقا کا عمل تو جاری رہتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عمل اسکارف کی شکل اور ہیئت کو مزید کس حد تک تبدیل کرے گا۔ عام اسکارف کے ساتھ ساتھ ''دبئی اسکارف'' جسے ''مکنہ'' بھی کہا جاتا ہے، وہ بھی ہمارے ہاں کافی مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ ہمیشہ ایک اسٹائلش اسکارف اپنی دسترس میں رکھیں۔ یہ نہ صرف ہوا سے اور دھوپ سے بالوں کو بچانے کے کام آتا ہے، بلکہ فیشن بھی ہے۔ خواتین میں اسکارف کا استعمال ایک صحت مند رحجان ہے۔ اسکارف اگرچہ فیشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے نہ صرف لباس کی جاذبیت قائم رہتی ہے بلکہ تہذیب و روایات کی پاس داری بھی ممکن ہے۔
اسکارف کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں عبایا بھی خواتین میں خاصا مقبول ہے۔ عبایا کبھی صرف عرب ممالک میں زیب تن کیا جاتا تھا، لیکن آج نہ صرف عرب ممالک اور جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر میں عبایا خواتین کا پسندیدہ پہناوا بن چکا ہے۔ مختلف خطوں میں عبایا مختلف انداز اور ڈیزائن میں عام ہے۔ کہیں یہ لمبے کھلے چغے کی صورت میں تو کہیں اسٹائلش سے لمبے گائون کی شکل میں خواتین کی پسند بنتا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان لڑکیاں عبایا پسند کرنے لگی ہیں اور اس کے رحجان میں روز افروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ خاص طور پر مدارس اور کالج و جامعات کی طالبات عبایا پہنی نظر آتی ہیں۔ عبایا کے ساتھ نہایت خوب صورت اسکارف اس کی دل کشی میں اضافہ کردیتے ہیں اور یوں ایک باوقار پہناوا سامنے آتا ہے، جو دور حاضر کا فیشن بھی بنتا جارہا ہے۔ عبایا کے ساتھ اسکارف اوڑھنے سے اس پہناوے میں اسٹائل بھی آجاتا ہے اور وقار بھی۔
عبایا کی تیاری میں کئی قسم کا کپڑا استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کالا رنگ زیادہ چلتا ہے، مگر برائون اور سرمئی شیڈ بھی مارکیٹ میں دست یاب ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں عام طور پر سیاہ رنگ کا عبایا عام ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین عبایا کو پردے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، لیکن اسے فیشن کے طور پر استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ عبایا ایک ایسا فیشن ہے جس میں مشرقی و مذہبی وقار ہے۔ اس پر کئی طرح کی کڑھائی بھی کی جاتی ہے۔
عبایا کا فرنٹ اوپن ہوتا ہے اور اس پر کشیدہ کاری کے علاوہ ڈیپلک ورک بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈبل اسٹف عبایا بھی ہوتا ہے، جس میں کپڑے کی دو تہوں کو استعمال کرتے ہوئے اسے زیادہ اسٹائلش بنایا جاتا ہے۔ عام طور پر سیاہ رنگ یا برائون رنگ کا عبایا ہی خواتین کی پسند بنتا ہے، کیوں کہ اس میں خواتین کی شخصیت نکھر آتی ہے۔ ان دونوں رنگوں کے ساتھ جس رنگ کا اسکارف اوڑھ لیا جائے، وہ خوب صورت لگتا ہے اور خواتین کی شخصیت باوقار بن جاتی ہے، جو انھیں حسین اور منفرد بناتی ہے۔ یہ عبایا اور اسکارف کی مقبولیت ہی تو ہے کہ ایک بار ''باربی ڈول'' کی پچاسویں سال گرہ کے موقع پر اسے بھی یہ باوقار لباس پہنایا گیا۔ سال گرہ کے موقع پر اس گُڑیا کو مکمل حجاب میں پیش کیا گیا۔ اس بات سے اندازہ لاگیا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین، چاہے ان کا تعلق کسی بھی خطے سے کیوں نہ ہو، ان میں عبایا کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہمارے ہاں مقامی عبایا کے علاوہ دیگر عرب ممالک کے اسٹائل کے عبایا بھی مقبولیت حاصل کررہے ہیں، مثلاً عربی، مصری اور دبئی کے عبایا سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں اور ان کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ چند سال قبل تک صرف مدارس میں پڑھنے والی طالبات یا وہی لڑکیاں لمبا گائون پہنتی یا برقعہ اوڑھتی تھیں، جنھیں پردہ کرنا مقصود ہوتا تھا، مگر اب زیادہ تر لڑکیاں عبایا میں نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے شاپنگ سینٹروں میں عربی، مصری، ایرانی اور دبئی کے عبایوں کی دکانیں خاص طور پر کھولی گئی ہیں، جہاں صرف انہی ممالک کے نہایت اسٹائلش عبایا ہر رنگ اور اسٹائل میں دست یاب ہیں۔
اگرچہ سیاہ، برائون یا خاکستری رنگ کے عبایا ہی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، تاہم دوسرے رنگوں میں بھی عبایا اور اسکارف دست یاب ہیں۔ شاپنگ سینٹروں میں بہت سی شاپس تو ایسی بھی ہیں جہاں خواتین ہی دکان دار ہیں، جو عبایا پہنے ہوتی ہیں اور خواتین کی سہولت کے لیے عبایا اور اسکارف فروخت کرتی ہیں۔ فیشن کے طور پر ہی سہی، نوجوان لڑکیاں اس خوب صورت پہناوے کو اپنا تو رہی ہیں، جس میں اسٹائل بھی ہے، وقار بھی اور روایت بھی۔