رہے جیون میں بہار سدا
شادی شدہ زندگی کو خوش گوار بنائے رکھنا میاں بیوی دونوں کی ذمے داری ہے.
ہر دلہن اپنی آنکھوں میںیہ سپنا بسائے اپنے سسرال میں قدم رکھتی ہے، کہ اس کا شریک حیات اس کے ساتھ تا عمر محبت کے بندھن میں بندھ جائے گا۔
اس کی خواہشات کا احترام کرے گا اور ہمیشہ اس کا بن کر رہے گا۔ تاہم اس کے لیے نئی دلہن کے لیے بھی اپنے میاں جی کا دل جیتنا ضروری ہے۔ اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اس سے جُڑے رشتوں کا پاس کرنا ضروری ہے اور اپنے خلوص کے ہتھیار سے اسے چاروں خانے چت کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کی نفسیات کو سمجھنا عورت کے لیے مشکل تو ہے، تاہم ناممکن نہیں۔ اسی لیے ایک سمجھ دار بیوی کو اپنے شوہر کی متلون مزاجی کو مد نظر رکھتے ہوئے، زندگی میں کبھی ایک دوست کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، تو کبھی اس کی بہت سی باتوں پر جانتے بوجھتے بے وقوف بننا ضروری ہوتا ہے، اور اگر شوہر کو ضرورت ہو تو، ایک عقل مند عورت بن کر اس کے مسائل حل کرنے میں اس کی مدد کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں شادی شدہ بندھن کے ٹوٹنے اور میاں بیوی میں علیحدگی کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں، مگر ایک وجہ مردوں کا اپنی بیوی پر شک کرنا ہے۔ اسی لیے ہر نو بیاہتا لڑکی کو چاہیے، کہ وہ شادی کے فوراً بعد ہی اپنے شوہر سے اپنی ماضی کی ہر بات شیئر نہ کرے، بلکہ پہلے اس کو قریب سے سمجھے۔ اس کے مزاج کے موسموں سے آشنائی حاصل کرے۔ اس کے بعد اپنی کوئی بات اسے بتائے۔ بعض مرد خود بیوی کو شادی کے شروع دنوں میں اپنے راز بتانے کی ترغیب دیتے ہیں، اور جب وہ بے وقوفی میں شوہر کو اپنا دوست سمجھ کر ہر بات بتادیتی ہے، تو وہ ان باتوں کا حوالہ دے کر اس کے کردار کے پرخچے اڑاتا رہتا ہے۔ طعنے دے دے کر اس کے دل پر ضربیں لگاتا رہتا ہے۔ یوں بیوی اپنے میاں کے شکوک کا سامنا تاعمر کرتی ہے، اگر کوئی لڑکی حد سے زیادہ بیزار ہو جاتی ہے تو لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ یوں بات طلاق تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
بعض شوہر حضرات اپنے گھر والوں کی محبت میں اتنے مبتلا ہوتے ہیں کہ بیوی چاہے ان کی اور ان کے گھر والوں کی کتنی خدمت بھی کرلے یا ہر موڑ پر ان کے لیے قربانیاں دیتی آئے، وہ اس کے لیے ''باہر کی عورت'' ہی رہتی ہے۔ سسرال والے چاہے کتنے ہی پڑھ لکھ جائیں، مگر ان کے مخصوص جملے ہوتے ہیں کہ ''ان باہر کی عورتوں نے ہمارے گھر کا ماحول خراب کردیا ہے۔'' جب کہ یہ باہر کی عورت ان کے گھر کو سنبھال رہی ہوتی ہے۔ اپنے ساس سسر کی خدمت کررہی ہوتی ہے، اس گھر کی نئی نسلوں کو پروان چڑھارہی ہوتی ہے۔
ازدواجی تعلقات کی کام یابی کے پیچھے میاں بیوی دونوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر ایک لڑکی اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے گھر آتی ہے، تو وہ اپنے پَلّو میں ہزاروں سپنے باندھ کر لائی ہے۔ اسی لیے جب وہ سب کے ساتھ خلوص کا مظاہرہ کرے، تو یہ بہت ضروری ہے کہ دوسرے فرد کو بھی اسی طرح خلوص کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ دنیا کا اصول ہے کہ ''تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی'' اسی لیے اس پیارے بندھن کی کام یابی کے پیچھے دونوں فریقوں کی صاف نیت ضروری ہے۔ اگر ایک شخص کی نظروں میں صرف اپنے گھر والوں یا اپنا فائدہ اہم ہے، تو تعلقات میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ ہر رشتے کو توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔
بعض بیویاں شادی کے فوراً بعد اپنے شوہروں کو اپنی مٹھی میں دیکھنا چاہتی ہیں، اپنے سسرال والوں سے منہ بنا کر رکھتی ہیں۔ ساس یا نندوں کو اپنی زندگی کا غیرضروری حصہ سمجھتی ہیں۔ شوہر بھی بیوی کی بات پر آنکھ بن کرکے عمل کرتے ہیں۔ یہ بھی خرابی کی بات ہے۔ اسی طرح بہت سے لڑکے شادی کے بعد بھی اپنی ماں بہنوں کی رائے ہی کو اہمیت دیتے ہیں، چاہے وہ غلط بھی کہہ رہی ہو اور بیوی صحیح بھی ہو تب ہی اسے ہی غلط ثابت کرتے ہیں۔ ان حالات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مائیں اپنے بیٹوں کے کان میں ایسی باتیں ڈالتی رہتی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں صرف بیٹے کی نظر میں اچھا بننا ہوتا ہے۔
اس کے لیے چاہے، وہ دوسرے کو کتنا بھی گندا کردیں۔ یہ کام کرتے ہوئے وہ بھول جاتی ہیں کہ وہ اپنی ہی اولاد کا گھر تباہ کررہی ہیں۔ پھر اﷲ کی نظر میں، جو گناہ گار بن رہی ہیں، وہ الگ بات ہے۔ یہ ذمہ داری شوہر کی ہے کہ وہ رشتوں میں توازن قائم رکھے۔ سچ اور جھوٹ پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، یہ نہ دیکھے کہ کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھے کیا کہا جارہا ہے۔ اس میں سچ اور جھوٹ کی کتنی آمیزش ہے۔ گھر کا ماحول خوش گوار بنانے کی کوشش کرے۔ ہر ایک کی رائے سنے اور گھر کے مفاد کے لیے دی جانے والی رائے صرف اس لیے نہیں ٹھکرادینی چاہیے کہ وہ ''باہر کی عورت'' نے دی ہے۔ کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔
یہ شرائط میاں بیوی دونوں پر لاگو ہوتی ہیں، کہ اپنے پیار بھرے بندھن کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی اپنی ذمے داریاں سے مکمل طور پر ادا کریں، اپنے رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھائیں۔ اس طرح شادی کے بندھن کو بہتر اور خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔
اس کی خواہشات کا احترام کرے گا اور ہمیشہ اس کا بن کر رہے گا۔ تاہم اس کے لیے نئی دلہن کے لیے بھی اپنے میاں جی کا دل جیتنا ضروری ہے۔ اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اس سے جُڑے رشتوں کا پاس کرنا ضروری ہے اور اپنے خلوص کے ہتھیار سے اسے چاروں خانے چت کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کی نفسیات کو سمجھنا عورت کے لیے مشکل تو ہے، تاہم ناممکن نہیں۔ اسی لیے ایک سمجھ دار بیوی کو اپنے شوہر کی متلون مزاجی کو مد نظر رکھتے ہوئے، زندگی میں کبھی ایک دوست کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، تو کبھی اس کی بہت سی باتوں پر جانتے بوجھتے بے وقوف بننا ضروری ہوتا ہے، اور اگر شوہر کو ضرورت ہو تو، ایک عقل مند عورت بن کر اس کے مسائل حل کرنے میں اس کی مدد کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں شادی شدہ بندھن کے ٹوٹنے اور میاں بیوی میں علیحدگی کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں، مگر ایک وجہ مردوں کا اپنی بیوی پر شک کرنا ہے۔ اسی لیے ہر نو بیاہتا لڑکی کو چاہیے، کہ وہ شادی کے فوراً بعد ہی اپنے شوہر سے اپنی ماضی کی ہر بات شیئر نہ کرے، بلکہ پہلے اس کو قریب سے سمجھے۔ اس کے مزاج کے موسموں سے آشنائی حاصل کرے۔ اس کے بعد اپنی کوئی بات اسے بتائے۔ بعض مرد خود بیوی کو شادی کے شروع دنوں میں اپنے راز بتانے کی ترغیب دیتے ہیں، اور جب وہ بے وقوفی میں شوہر کو اپنا دوست سمجھ کر ہر بات بتادیتی ہے، تو وہ ان باتوں کا حوالہ دے کر اس کے کردار کے پرخچے اڑاتا رہتا ہے۔ طعنے دے دے کر اس کے دل پر ضربیں لگاتا رہتا ہے۔ یوں بیوی اپنے میاں کے شکوک کا سامنا تاعمر کرتی ہے، اگر کوئی لڑکی حد سے زیادہ بیزار ہو جاتی ہے تو لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ یوں بات طلاق تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
بعض شوہر حضرات اپنے گھر والوں کی محبت میں اتنے مبتلا ہوتے ہیں کہ بیوی چاہے ان کی اور ان کے گھر والوں کی کتنی خدمت بھی کرلے یا ہر موڑ پر ان کے لیے قربانیاں دیتی آئے، وہ اس کے لیے ''باہر کی عورت'' ہی رہتی ہے۔ سسرال والے چاہے کتنے ہی پڑھ لکھ جائیں، مگر ان کے مخصوص جملے ہوتے ہیں کہ ''ان باہر کی عورتوں نے ہمارے گھر کا ماحول خراب کردیا ہے۔'' جب کہ یہ باہر کی عورت ان کے گھر کو سنبھال رہی ہوتی ہے۔ اپنے ساس سسر کی خدمت کررہی ہوتی ہے، اس گھر کی نئی نسلوں کو پروان چڑھارہی ہوتی ہے۔
ازدواجی تعلقات کی کام یابی کے پیچھے میاں بیوی دونوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر ایک لڑکی اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے گھر آتی ہے، تو وہ اپنے پَلّو میں ہزاروں سپنے باندھ کر لائی ہے۔ اسی لیے جب وہ سب کے ساتھ خلوص کا مظاہرہ کرے، تو یہ بہت ضروری ہے کہ دوسرے فرد کو بھی اسی طرح خلوص کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ دنیا کا اصول ہے کہ ''تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی'' اسی لیے اس پیارے بندھن کی کام یابی کے پیچھے دونوں فریقوں کی صاف نیت ضروری ہے۔ اگر ایک شخص کی نظروں میں صرف اپنے گھر والوں یا اپنا فائدہ اہم ہے، تو تعلقات میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ ہر رشتے کو توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔
بعض بیویاں شادی کے فوراً بعد اپنے شوہروں کو اپنی مٹھی میں دیکھنا چاہتی ہیں، اپنے سسرال والوں سے منہ بنا کر رکھتی ہیں۔ ساس یا نندوں کو اپنی زندگی کا غیرضروری حصہ سمجھتی ہیں۔ شوہر بھی بیوی کی بات پر آنکھ بن کرکے عمل کرتے ہیں۔ یہ بھی خرابی کی بات ہے۔ اسی طرح بہت سے لڑکے شادی کے بعد بھی اپنی ماں بہنوں کی رائے ہی کو اہمیت دیتے ہیں، چاہے وہ غلط بھی کہہ رہی ہو اور بیوی صحیح بھی ہو تب ہی اسے ہی غلط ثابت کرتے ہیں۔ ان حالات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مائیں اپنے بیٹوں کے کان میں ایسی باتیں ڈالتی رہتی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں صرف بیٹے کی نظر میں اچھا بننا ہوتا ہے۔
اس کے لیے چاہے، وہ دوسرے کو کتنا بھی گندا کردیں۔ یہ کام کرتے ہوئے وہ بھول جاتی ہیں کہ وہ اپنی ہی اولاد کا گھر تباہ کررہی ہیں۔ پھر اﷲ کی نظر میں، جو گناہ گار بن رہی ہیں، وہ الگ بات ہے۔ یہ ذمہ داری شوہر کی ہے کہ وہ رشتوں میں توازن قائم رکھے۔ سچ اور جھوٹ پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، یہ نہ دیکھے کہ کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھے کیا کہا جارہا ہے۔ اس میں سچ اور جھوٹ کی کتنی آمیزش ہے۔ گھر کا ماحول خوش گوار بنانے کی کوشش کرے۔ ہر ایک کی رائے سنے اور گھر کے مفاد کے لیے دی جانے والی رائے صرف اس لیے نہیں ٹھکرادینی چاہیے کہ وہ ''باہر کی عورت'' نے دی ہے۔ کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔
یہ شرائط میاں بیوی دونوں پر لاگو ہوتی ہیں، کہ اپنے پیار بھرے بندھن کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی اپنی ذمے داریاں سے مکمل طور پر ادا کریں، اپنے رشتے کو خوش اسلوبی سے نبھائیں۔ اس طرح شادی کے بندھن کو بہتر اور خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔