’’کمیٹی‘‘۔۔۔ سپنے سچ کر دکھانے والی پَری
عام طور پر خواتین کو فضول خرچ اور ناسمجھ سرمایہ کار کہا جاتا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔
بلا ضرورت پیسے خرچ کرنے سے خود کو روکے رکھنا بہت کٹھن ہے۔ اگر ایک فرد طے شدہ طرزِ زندگی سے کہیں بڑھ کر اخراجات کر لے تو مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنے کو عاقبت نااندیشی کہا جائے گا۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی منہگائی میں درمیانے طبقے کے خاندان اپنی عزتِ نفس مجروح ہونے سے بچانے کے لیے محتاط رویوں کے ساتھ کئی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ اشیائے خورونوش، تعلیم اور صحت کی مد میں ہونے والے ناگزیر اخراجات گلے میں پھنسنے والی وہ ہڈی بن کر رہ گئے ہیں کہ جسے نہ تو اُگلا جا سکتا ہے، نہ نگل پاتے ہیں۔
ضروریاتِ زندگی تو جیسے تیسے پوری ہو ہی جاتی ہیں، لیکن آسائشوں سے آراستہ خوابوں بھری زندگی کی لذتیں پانے کے لیے سفید پوش طبقہ کے افراد مستقل سخت محنت میں جُتے رہتے ہیں، تاکہ منہگائی کا مقابلہ بھی کیا جاسکے اور خوابیدہ خواہشات کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ سکیں۔ جہاں مرد اپنے خاندان کو بہتر معیار ِ زندگی دینے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں، وہیں خواتین بھی کسی نہ کسی صورت میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
گھر کے اخراجات کو قابو میں رکھنا اور بچت کے طریقوں کو اپنانا فطری طور پر اس صنف کی صلاحیتوں میں قدرت نے شامل کیا ہے۔ عام طور پر خواتین کو فضول خرچ اور ناسمجھ سرمایہ کار کہا جاتا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔ سونے کے زیورات خریدنا عورت کی کم زوری ہے۔ دراصل ہر عورت زیور خریدتے وقت یہ جانتی ہے کہ زیور کی صورت میں یہ روپے مستقبل میں نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کے اہل خانہ کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوں گے۔ ورنہ اخراجات میں سے بچائی گئی رقم روزمرہ استعمال میں چٹ ہو جائے گی۔ پُرآسایش زندگی کا خواب ہو یا اپنے خاندان کی ضرورتیں اور اہم مسائل حل کرنے کا سوال، ہر عورت اپنے ذہن میں منصوبہ بندی کا تانا بانا بنتی رہتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی اگر درست انداز سے کی گئی ہو اور بروقت اس پر عمل شروع ہو جائے تو گھر کے اخراجات بھی قابو میں آجاتے ہیں اور زندگی کی چھوٹی بڑی خواہشات پوری ہونے کا راستہ بنتا چلا جاتا ہے۔ اس ضمن خواتین بچت کے مختلف راستے تلاش کرتی ہیں۔
پاکستانی خواتین کمیٹی ڈالنے یا بیسی ڈالنے کی سرگرمی میں کافی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتی ہیں، کیوں کہ کمیٹی کی رقم میں سود یا کسی قسم کی اضافی رقم شامل نہیں کی جاتی، اس لیے اس رقم غیرشرعی نہیں۔ سمجھ دار خواتین اپنے خانگی بجٹ میں سے رقم کا مخصوص حصہ کمیٹی کے لیے الگ کر دیتی ہیں ۔ یہ کمیٹیاں عموماً پانچ سو 500سے 5000ہزار تک ماہانہ رقم پر طے کی جاتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اس رقم کا انتخاب کرتا ہے کہ جو ماہانہ اخراجات میں سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ کمیٹیاں ایک سال سے تین سال اور بعض اوقات پانچ سال کے طویل عرصے کے معاہدے پر طے کی جاتی ہیں۔ کمیٹی میں شامل ہر ممبر اپنی ضرورت کے مطابق کمیٹی کا نمبر لے لیتا ہے۔ کچھ کمیٹیوں کی شروع ہی میں قرعہ اندازی کر لی جاتی ہے۔ فیگر کا تعین کرکے تمام ناموں کی پرچیاں پہلے ہی نکال لی جاتی ہیں۔
پھر باری آنے پر ہر ممبر اپنی رقم لیتا ہے۔ کچھ کی ہر ماہ قرعہ اندازی ہوتی ہے، پھر ترجیحی بنیادوں پر کمیٹیوں کی تقسیم بھی کی جاتی ہے۔ عام طور پر خواتین شادی بیاہ جیسی بڑی تقریبات، گھر کی تعمیر، کسی بڑی مشینری، مثلاً کار، فریج کی خریداری یا زیور بنوانے کے لیے اِس بچت کو کام میں لاتی ہیں۔ کمیٹی کے ذریعے تھوڑی تھوڑی بچت کے بعد یکمشت بڑی رقم ملتی ہے۔ خواتین کمیٹی کُھلنے کا انتظار کرتی ہیں اور اس طرح اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل خود کرتی ہیں، ان کے لیے اپنے شوہروں پر دبائو نہیں ڈالتیں۔ یوں گھر کا ماحول بھی پر سکون رہتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی خواہش کو مارنا آسان نہیں، لیکن وقتی طور پر طے شدہ رقم پس انداز کرنے سے بڑے فائدے کو خوش آمدید کہا جا سکتا ہے۔ اور جو خواتین ایسا نہیں سوچتیں، انہیں ایک دفعہ اس مضمون کے پڑھنے کے بعد سرمایہ کاری کے لیے اپنے اطراف کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ بظاہر لوگوں کے پاس پیسہ نظر آتا ہے، مگر ہر طبقہ منہگائی اور وسائل کی کمی کا رونا رو رہا ہے۔ خوشیاں پیسوں سے کشید نہیں کی جا سکتیں، مگر اس مادیت پسند دور میں پیسے کی اہمیت سے انکار کرنا خودفریبی ہے۔ مالی وسائل اور اخراجات پر اگر کوئی سنجیدگی سے غور کر سکتا ہے، تو خواتین ہی ہیں وہی اخراجات پر قابو پا سکتی ہیں۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی منہگائی میں درمیانے طبقے کے خاندان اپنی عزتِ نفس مجروح ہونے سے بچانے کے لیے محتاط رویوں کے ساتھ کئی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ اشیائے خورونوش، تعلیم اور صحت کی مد میں ہونے والے ناگزیر اخراجات گلے میں پھنسنے والی وہ ہڈی بن کر رہ گئے ہیں کہ جسے نہ تو اُگلا جا سکتا ہے، نہ نگل پاتے ہیں۔
ضروریاتِ زندگی تو جیسے تیسے پوری ہو ہی جاتی ہیں، لیکن آسائشوں سے آراستہ خوابوں بھری زندگی کی لذتیں پانے کے لیے سفید پوش طبقہ کے افراد مستقل سخت محنت میں جُتے رہتے ہیں، تاکہ منہگائی کا مقابلہ بھی کیا جاسکے اور خوابیدہ خواہشات کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ سکیں۔ جہاں مرد اپنے خاندان کو بہتر معیار ِ زندگی دینے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں، وہیں خواتین بھی کسی نہ کسی صورت میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
گھر کے اخراجات کو قابو میں رکھنا اور بچت کے طریقوں کو اپنانا فطری طور پر اس صنف کی صلاحیتوں میں قدرت نے شامل کیا ہے۔ عام طور پر خواتین کو فضول خرچ اور ناسمجھ سرمایہ کار کہا جاتا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔ سونے کے زیورات خریدنا عورت کی کم زوری ہے۔ دراصل ہر عورت زیور خریدتے وقت یہ جانتی ہے کہ زیور کی صورت میں یہ روپے مستقبل میں نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کے اہل خانہ کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوں گے۔ ورنہ اخراجات میں سے بچائی گئی رقم روزمرہ استعمال میں چٹ ہو جائے گی۔ پُرآسایش زندگی کا خواب ہو یا اپنے خاندان کی ضرورتیں اور اہم مسائل حل کرنے کا سوال، ہر عورت اپنے ذہن میں منصوبہ بندی کا تانا بانا بنتی رہتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی اگر درست انداز سے کی گئی ہو اور بروقت اس پر عمل شروع ہو جائے تو گھر کے اخراجات بھی قابو میں آجاتے ہیں اور زندگی کی چھوٹی بڑی خواہشات پوری ہونے کا راستہ بنتا چلا جاتا ہے۔ اس ضمن خواتین بچت کے مختلف راستے تلاش کرتی ہیں۔
پاکستانی خواتین کمیٹی ڈالنے یا بیسی ڈالنے کی سرگرمی میں کافی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتی ہیں، کیوں کہ کمیٹی کی رقم میں سود یا کسی قسم کی اضافی رقم شامل نہیں کی جاتی، اس لیے اس رقم غیرشرعی نہیں۔ سمجھ دار خواتین اپنے خانگی بجٹ میں سے رقم کا مخصوص حصہ کمیٹی کے لیے الگ کر دیتی ہیں ۔ یہ کمیٹیاں عموماً پانچ سو 500سے 5000ہزار تک ماہانہ رقم پر طے کی جاتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اس رقم کا انتخاب کرتا ہے کہ جو ماہانہ اخراجات میں سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ کمیٹیاں ایک سال سے تین سال اور بعض اوقات پانچ سال کے طویل عرصے کے معاہدے پر طے کی جاتی ہیں۔ کمیٹی میں شامل ہر ممبر اپنی ضرورت کے مطابق کمیٹی کا نمبر لے لیتا ہے۔ کچھ کمیٹیوں کی شروع ہی میں قرعہ اندازی کر لی جاتی ہے۔ فیگر کا تعین کرکے تمام ناموں کی پرچیاں پہلے ہی نکال لی جاتی ہیں۔
پھر باری آنے پر ہر ممبر اپنی رقم لیتا ہے۔ کچھ کی ہر ماہ قرعہ اندازی ہوتی ہے، پھر ترجیحی بنیادوں پر کمیٹیوں کی تقسیم بھی کی جاتی ہے۔ عام طور پر خواتین شادی بیاہ جیسی بڑی تقریبات، گھر کی تعمیر، کسی بڑی مشینری، مثلاً کار، فریج کی خریداری یا زیور بنوانے کے لیے اِس بچت کو کام میں لاتی ہیں۔ کمیٹی کے ذریعے تھوڑی تھوڑی بچت کے بعد یکمشت بڑی رقم ملتی ہے۔ خواتین کمیٹی کُھلنے کا انتظار کرتی ہیں اور اس طرح اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل خود کرتی ہیں، ان کے لیے اپنے شوہروں پر دبائو نہیں ڈالتیں۔ یوں گھر کا ماحول بھی پر سکون رہتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی خواہش کو مارنا آسان نہیں، لیکن وقتی طور پر طے شدہ رقم پس انداز کرنے سے بڑے فائدے کو خوش آمدید کہا جا سکتا ہے۔ اور جو خواتین ایسا نہیں سوچتیں، انہیں ایک دفعہ اس مضمون کے پڑھنے کے بعد سرمایہ کاری کے لیے اپنے اطراف کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ بظاہر لوگوں کے پاس پیسہ نظر آتا ہے، مگر ہر طبقہ منہگائی اور وسائل کی کمی کا رونا رو رہا ہے۔ خوشیاں پیسوں سے کشید نہیں کی جا سکتیں، مگر اس مادیت پسند دور میں پیسے کی اہمیت سے انکار کرنا خودفریبی ہے۔ مالی وسائل اور اخراجات پر اگر کوئی سنجیدگی سے غور کر سکتا ہے، تو خواتین ہی ہیں وہی اخراجات پر قابو پا سکتی ہیں۔