ایک ہی ایجنڈا تمام ملالائوں کی حفاظت
انتہا پسند ذہنیت کاخاتمہ کرنا ضروری ہے
صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے نہ صرف پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کو قتل کرنے کی کوشش کی بلکہ پاکستان پر بھی حملے کی کوشش کی،ملالہ پر حملہ خطے کے ہر بچے اورخطے کے مستقبل پر حملہ ہے۔
جب ہمارے بچوں پرحملہ ہو تو ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے،ہمیں مل کر اس سنگین جرم میں ملوث دہشت گردوں کوگرفتارکر کے انھیں کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے، ہم دہشت گردوں کوگرفتارکر کے انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔صدر نے اقتصادی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ ٹیرف اور غیر ٹیرف رکاوٹوں میں کمی سمیت آزادانہ تجارت کے سابقہ معاہدوں پرعملدرآمد تیزکیاجائے۔ وہ منگل کو باکو میں اقتصادی تعاون کے 12 ویں سربراہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔صدر زرداری نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کی عمر صرف 15سال ہے جو بچپن سے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دے رہی ہے،ملالہ یوسفزئی نے لڑکیوں اور خواتین کے عزم کی ترجمانی کی جو ہم سب کے عزم کی بھی علامت ہے، انھوں نے کہا کہ دہشتگردوںکے خلاف کارروائی میںہیروئن کی تجارت کا خاتمہ بھی شامل ہونا چاہیے ۔
حقیقت یہ ہے کہ باکو کانفرنس میں دہشت گردوں کو باہم مل کر شکست دینے کی بات کرکے صدر مملکت نے اس خاص ذہنیت کی نشاندہی کی ہے جس نے دنیا کا امن اپنے خود ساختہ اور گمراہ کن نظریات اور اسلام کی غلط توضیحات کی آڑ میں برباد کر دیا ہے ، اور یہی وہ سرکش مائنڈ سیٹ ہے جس نے پاکستان کی ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی ضد میں ملالہ یوسفزئی اور دیگر طالبات کی زندگی سے کھیلنے کی مذموم کوشش کی ۔ صدر نے بجا طور پر کہا کہ سب سے بڑھ کر اسی انتہا پسند ذہنیت کاخاتمہ کرنا ضروری ہے جو ایک چھوٹی بچی پر حملے کی اجازت دیتی ہے، یہ ذہنیت ہماری سب سے بڑی مشترکہ دشمن ہے۔
اسی مناسب موقع پر صدر نے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی پر زور دیتے ہوئے افغانستان کی قیادت اور عوام سے اپیل کی کہ ہمارے بھائی بہنوں کو یہ سمجھ لیناچاہیے کہ ہم اس جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں کیونکہ اس لعنت سے دونوں ممالک کونقصان پہنچا ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دہشت گرد یہی چاہتے ہیں کہ بھائی بھائی سے لڑے، صدر نے ای سی اوکی قیادت سنبھالنے پرآذربائیجان کے صدرکو مبارکباد دی اورتنظیم کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین ترک صدر سے بھی اظہارتشکر کیا جنھوں نے اپنے دور میں بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔مزید برآں رکن ممالک کو ای سی او کا آیندہ سربراہ اجلاس اسلام آباد میں منعقدکرانے کی بھی پیشکش کی جب کہ یکم جنوری 2013 سے ای سی اوکے تجارتی معاہدے کو فعال بنانے اورتجارت، ٹرانسپورٹ اورتوانائی کے شعبوں کی ترقی کے لیے نجی شعبے کو سہولت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔
بلاشبہ عالمی کانفرنسوں کے انعقاد اور اس میں پاکستان کی شرکت دہشت گردی کے خاتمے اور عالمی امن کے قیام کی مشترکہ کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے میں اہم کردار کی حامل ہے ، دہشت گردی ایک عالمی ناسور اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کی ہولناک علامت بن کر ضمیر انسانی پر ڈرائونے خواب کی طرح مسلط ہوچکی ہے جس سے نمٹنے کے لیے عالمی اشتراک عمل اور تمام ملکوں کا اتحاد بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے کوئی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا،یہ عفریت دنیا کی سماجی، سیاسی،اقتصادی اور عسکری شہ رگ کو کاٹ کر اپنی خیالی جنت کے قیام کے جنون میں ایک خوفناک ارضی جہنم سلگانے پر مامور ہے جس سے ایشیا،افریقہ،مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے تمام بڑے ممالک اور چھوٹے سے چھوٹے ملک اور جزائر تک کو اپنی توانائیاں استعمال کرنی چاہییں کیونکہ دہشت گردی کا وائرس کہیں بھی پہنچ سکتا ہے۔ساری دنیا اس کی زد میں ہے۔
تاہم اس حقیقت کو تمام ترقی پزیر ممالک پیش نظر رکھیں کہ دہشت گردی کے تزویراتی اور مذہبی اہداف کا مقابلہ عالمی اقتصادی تعاون اور ہر ملک کے سیاسی وداخلی معاشی استحکام سے ہی ممکن ہے، کاسہ گدائی لے کر کوئی ملک دہشت گردی کی آندھی میں اپنا چراغ اکیلا جلا نہیں سکتا۔ اسی تناظر میں غالباً صدر زرداری کی مختلف برادر ممالک اور دیگر سربراہان مملکت سے مفید ملاقاتیں بھی ہوئیں ۔ادھر وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمے داری قبول کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے سرکی قیمت دس کروڑ روپے مقررکر دی ہے جس کے بعد یقیناً واقعے کے ذمے داروں کو قانون کے شکنجے میں لایا جاسکے گا۔ سی این این کو انٹرویو میںانھوں نے ملا فضل اللہ کو اس حملے کا ذمے دار قراردیا ہے جو سوات آپریشن کے دوران افغانستان فرار ہوگیا تھا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز سے کسی قسم کی نرمی یا مکالمہ کو موخر کرتے ہوئے راست اقدام اور فیصلہ کن کارروائی کا سوچا جائے۔سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں حملے میں ملوث افرادکی تلاش میں تیزی لائیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی پرحملے کا منصوبہ افغانستان میں تیارکیا گیا تھا،چار افراد وہاں سے آئے ایک شخص کی نشاندہی ہوگئی ہے اوراس کے کچھ ساتھی گرفتار ہوئے ہیں،ایک شخص کی منگیترکو حراست میں لے لیا گیا ہے۔اس لیے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے اسے اس سانحہ کے اصل مجرموں کوکیفر کردار تک پہنچانے کا مقصد بننا چاہیے۔کوئی قاتل اس بار تفتیش اور سزا سے بچ نہ سکے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر شمالی وزیرستان آپریشن کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا یا جو لوگ ملالہ پرحملے کو شمالی وزیرستان سے جوڑ رہے ہیں وہ سب غلط ہے، تو قوم کو صحیح صورتحال سے متواتر آگاہ رکھا جائے۔
مستعد میڈیا پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملالہ کے حوالے سے معروضیت کو مجروح نہ ہونے دے۔ ملالہ کی زندگی اور اس کو لاحق خطرات کے حوالہ سے مغربی میڈیا میں مسلسل رپورٹیں آرہی ہیں۔واشنگٹن پوسٹ نے '' سوات کا اک اسکول خوف کے حصار میں''کے عنوان سے زخمی بچی کائنات کا ذکر کیا ہے۔خلیج ٹائمزشکوہ سنج ہے کہ پاکستانی قوم ایشوز پراکثر تقسیم اور پریشان ہی رہتی آئی ہے مگر ملالہ کے سانحہ کے بعد قوم میں پیدا ہونے والے اتحاد کی ننھی سی کرن کو اخبار نے ننھی سی پری ملالہ کے خواب سے تعبیر کیا ہے جب کہ ہالی ووڈ کی اداکارہ اور اقوام متحدہ کی سفیر انجلینا جولی نے نیوز ویک میں اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ میں نے اپنی تمام بیٹیوں اور دیگر لڑکیوں سے کہا ہے کہ ہم سب ملالہ ہیں،ان کا یہ فقرہ چشم کشا ہے کہ جب میری بچیوں نے پوچھا کہ ان لوگوں نے ملالہ کو مارنے کا کیوں سوچا؟ میں نے جواب دیا اس لیے کہ تعلیم ایک طاقت ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار تعلیم کی اس طاقت کو عوامی اتحاد کی صورت میں دہشت گردی سے نمٹنے میں بروئے کار لائیں تبھی پاکستان کی تمام ملالائیں محفوظ ہوں گی۔
جب ہمارے بچوں پرحملہ ہو تو ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے،ہمیں مل کر اس سنگین جرم میں ملوث دہشت گردوں کوگرفتارکر کے انھیں کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے، ہم دہشت گردوں کوگرفتارکر کے انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔صدر نے اقتصادی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ ٹیرف اور غیر ٹیرف رکاوٹوں میں کمی سمیت آزادانہ تجارت کے سابقہ معاہدوں پرعملدرآمد تیزکیاجائے۔ وہ منگل کو باکو میں اقتصادی تعاون کے 12 ویں سربراہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔صدر زرداری نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کی عمر صرف 15سال ہے جو بچپن سے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دے رہی ہے،ملالہ یوسفزئی نے لڑکیوں اور خواتین کے عزم کی ترجمانی کی جو ہم سب کے عزم کی بھی علامت ہے، انھوں نے کہا کہ دہشتگردوںکے خلاف کارروائی میںہیروئن کی تجارت کا خاتمہ بھی شامل ہونا چاہیے ۔
حقیقت یہ ہے کہ باکو کانفرنس میں دہشت گردوں کو باہم مل کر شکست دینے کی بات کرکے صدر مملکت نے اس خاص ذہنیت کی نشاندہی کی ہے جس نے دنیا کا امن اپنے خود ساختہ اور گمراہ کن نظریات اور اسلام کی غلط توضیحات کی آڑ میں برباد کر دیا ہے ، اور یہی وہ سرکش مائنڈ سیٹ ہے جس نے پاکستان کی ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی ضد میں ملالہ یوسفزئی اور دیگر طالبات کی زندگی سے کھیلنے کی مذموم کوشش کی ۔ صدر نے بجا طور پر کہا کہ سب سے بڑھ کر اسی انتہا پسند ذہنیت کاخاتمہ کرنا ضروری ہے جو ایک چھوٹی بچی پر حملے کی اجازت دیتی ہے، یہ ذہنیت ہماری سب سے بڑی مشترکہ دشمن ہے۔
اسی مناسب موقع پر صدر نے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی پر زور دیتے ہوئے افغانستان کی قیادت اور عوام سے اپیل کی کہ ہمارے بھائی بہنوں کو یہ سمجھ لیناچاہیے کہ ہم اس جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں کیونکہ اس لعنت سے دونوں ممالک کونقصان پہنچا ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دہشت گرد یہی چاہتے ہیں کہ بھائی بھائی سے لڑے، صدر نے ای سی اوکی قیادت سنبھالنے پرآذربائیجان کے صدرکو مبارکباد دی اورتنظیم کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین ترک صدر سے بھی اظہارتشکر کیا جنھوں نے اپنے دور میں بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔مزید برآں رکن ممالک کو ای سی او کا آیندہ سربراہ اجلاس اسلام آباد میں منعقدکرانے کی بھی پیشکش کی جب کہ یکم جنوری 2013 سے ای سی اوکے تجارتی معاہدے کو فعال بنانے اورتجارت، ٹرانسپورٹ اورتوانائی کے شعبوں کی ترقی کے لیے نجی شعبے کو سہولت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔
بلاشبہ عالمی کانفرنسوں کے انعقاد اور اس میں پاکستان کی شرکت دہشت گردی کے خاتمے اور عالمی امن کے قیام کی مشترکہ کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے میں اہم کردار کی حامل ہے ، دہشت گردی ایک عالمی ناسور اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کی ہولناک علامت بن کر ضمیر انسانی پر ڈرائونے خواب کی طرح مسلط ہوچکی ہے جس سے نمٹنے کے لیے عالمی اشتراک عمل اور تمام ملکوں کا اتحاد بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے کوئی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا،یہ عفریت دنیا کی سماجی، سیاسی،اقتصادی اور عسکری شہ رگ کو کاٹ کر اپنی خیالی جنت کے قیام کے جنون میں ایک خوفناک ارضی جہنم سلگانے پر مامور ہے جس سے ایشیا،افریقہ،مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے تمام بڑے ممالک اور چھوٹے سے چھوٹے ملک اور جزائر تک کو اپنی توانائیاں استعمال کرنی چاہییں کیونکہ دہشت گردی کا وائرس کہیں بھی پہنچ سکتا ہے۔ساری دنیا اس کی زد میں ہے۔
تاہم اس حقیقت کو تمام ترقی پزیر ممالک پیش نظر رکھیں کہ دہشت گردی کے تزویراتی اور مذہبی اہداف کا مقابلہ عالمی اقتصادی تعاون اور ہر ملک کے سیاسی وداخلی معاشی استحکام سے ہی ممکن ہے، کاسہ گدائی لے کر کوئی ملک دہشت گردی کی آندھی میں اپنا چراغ اکیلا جلا نہیں سکتا۔ اسی تناظر میں غالباً صدر زرداری کی مختلف برادر ممالک اور دیگر سربراہان مملکت سے مفید ملاقاتیں بھی ہوئیں ۔ادھر وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمے داری قبول کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے سرکی قیمت دس کروڑ روپے مقررکر دی ہے جس کے بعد یقیناً واقعے کے ذمے داروں کو قانون کے شکنجے میں لایا جاسکے گا۔ سی این این کو انٹرویو میںانھوں نے ملا فضل اللہ کو اس حملے کا ذمے دار قراردیا ہے جو سوات آپریشن کے دوران افغانستان فرار ہوگیا تھا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز سے کسی قسم کی نرمی یا مکالمہ کو موخر کرتے ہوئے راست اقدام اور فیصلہ کن کارروائی کا سوچا جائے۔سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں حملے میں ملوث افرادکی تلاش میں تیزی لائیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی پرحملے کا منصوبہ افغانستان میں تیارکیا گیا تھا،چار افراد وہاں سے آئے ایک شخص کی نشاندہی ہوگئی ہے اوراس کے کچھ ساتھی گرفتار ہوئے ہیں،ایک شخص کی منگیترکو حراست میں لے لیا گیا ہے۔اس لیے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے اسے اس سانحہ کے اصل مجرموں کوکیفر کردار تک پہنچانے کا مقصد بننا چاہیے۔کوئی قاتل اس بار تفتیش اور سزا سے بچ نہ سکے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر شمالی وزیرستان آپریشن کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا یا جو لوگ ملالہ پرحملے کو شمالی وزیرستان سے جوڑ رہے ہیں وہ سب غلط ہے، تو قوم کو صحیح صورتحال سے متواتر آگاہ رکھا جائے۔
مستعد میڈیا پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملالہ کے حوالے سے معروضیت کو مجروح نہ ہونے دے۔ ملالہ کی زندگی اور اس کو لاحق خطرات کے حوالہ سے مغربی میڈیا میں مسلسل رپورٹیں آرہی ہیں۔واشنگٹن پوسٹ نے '' سوات کا اک اسکول خوف کے حصار میں''کے عنوان سے زخمی بچی کائنات کا ذکر کیا ہے۔خلیج ٹائمزشکوہ سنج ہے کہ پاکستانی قوم ایشوز پراکثر تقسیم اور پریشان ہی رہتی آئی ہے مگر ملالہ کے سانحہ کے بعد قوم میں پیدا ہونے والے اتحاد کی ننھی سی کرن کو اخبار نے ننھی سی پری ملالہ کے خواب سے تعبیر کیا ہے جب کہ ہالی ووڈ کی اداکارہ اور اقوام متحدہ کی سفیر انجلینا جولی نے نیوز ویک میں اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ میں نے اپنی تمام بیٹیوں اور دیگر لڑکیوں سے کہا ہے کہ ہم سب ملالہ ہیں،ان کا یہ فقرہ چشم کشا ہے کہ جب میری بچیوں نے پوچھا کہ ان لوگوں نے ملالہ کو مارنے کا کیوں سوچا؟ میں نے جواب دیا اس لیے کہ تعلیم ایک طاقت ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار تعلیم کی اس طاقت کو عوامی اتحاد کی صورت میں دہشت گردی سے نمٹنے میں بروئے کار لائیں تبھی پاکستان کی تمام ملالائیں محفوظ ہوں گی۔