مسائل زدہ ایشیائی خواتین

خواتین کو کمتر سمجھنے کے مسئلے کا آغاز اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔


Magazine Report October 17, 2012
ایشیا میں اس وقت خواتین کی تعداد دو بلین کے قریب ہے۔ فوٹو : فائل

تعلیم اور آگہی کی بدولت اب حالات ماضی سے بہت بہتر ہیں مگر آج بھی کئی ممالک میں خواتین کو ترقی کے لئے بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

خاص طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی خطوں میں آج بھی خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے حصول میں تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں۔دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک ہی کام کا معاوضہ مردوں اور خواتین کو مختلف ملتا ہے۔ یہ بات خواتین کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

ایشیا میں اس وقت خواتین کی تعداد دو بلین کے قریب ہے۔ انہیں کام کا معاوضہ مردوں کے مقابلے میں کم ملتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی کمپنی یا دفتر میں خواتین کا کسی اہم سیٹ پر تعینات ہونا بھی ایک دشوار کام ہے۔ شاید آج بھی کچھ لوگوں کے ذہن سے یہ بات نہیں نکلی کہ خواتین' مردوں کی طرح محنت طلب کام نہیں کر سکتیں۔ آج بھی انہیں صنف نازک قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے بلکہ کئی جگہوں پر انہوں نے مردوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ہمارے ہاں دیہی علاقوں میں آج بھی عورتیں' مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں لیکن اگر ان کی بیٹی پڑھ لکھ کر کسی جگہ ملازمت کرنا چاہے تو اس کے لئے کئی طرح کے مسائل کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ اگر وہ کسی نہ کسی طرح اپنے خاندان کو راضی کر کے ملازمت حاصل کر بھی لے تو پیشہ ورانہ زندگی میں اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت جیسے ملک میں تو آج بھی لڑکیوں کو اپنی مرضی کے مضامین پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایشیا سوسائٹی کے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ صحت' تعلیم' اقتصادیات اور سیاست میں خواتین کے کردار کو بڑھا کر خطے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

آج ایشیا کے مختلف ملکوں میں خواتین کو مختلف قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایشیائی خواتین کے حوالے سے پیش کی جانے والی حالیہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے کہ خواتین کو محدود وسائل کی وجہ سے ایشیا کو سالانہ 89 بلین ڈالر نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے آسٹریلیا' نیوزی لینڈ' فلپائن اور سری لنکا میں مردوں اور عورتوں کے کردار میں زیادہ خلا نہیں ہے۔ یعنی ان ملکوں میں خواتین کو زیادہ بہتر مواقع حاصل ہیں جبکہ بھارت' پاکستان' نیپال' جنوبی کوریا اور کمبوڈیا میں یہ خلا زیادہ ہے۔ کچھ مضبوط معیشت والے ملکوں میں بھی خواتین کو قیادت کے زیادہ مواقع حاصل نہیں مثلاً جاپان اور جنوبی کوریا ۔

خواتین کو کمتر سمجھنے کے مسئلے کا آغاز اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بھارت میں تو آج بھی لڑکی کی پیدائش کو پسند نہیں کیا جاتا۔ حالیہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے چار ایشیائی ملکوں کی خواتین کی اکثریت ناخواندہ رہ جاتی ہے۔ بھوٹان میں خواتین کی شرح خواندگی دس فیصد' پاکستان میں سولہ فیصد، نیپال میں پچیس فیصد اور بنگلہ دیش میں اکتیس فیصد ہے۔ ایشیائی خواتین دیگر خطوں کی خواتین کی نسبت طویل عمر پاتی ہیں لیکن اس قسم کا امتیازی سلوک ان کی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

اگر عورتوں کو یکساں مواقع ملیں تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی بہتری میں بھی فعال کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایشیا سوسائٹی کی صدر وشاکھا این ڈیسائی کا کہا ہے کہ لڑکیوں کو شروع سے ہی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے اظہار میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ہی کام کا معاوضہ مردوں اور عورتوں کو مختلف ملتا ہے۔ اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں بیس سے تیس فیصد کم معاوضہ ملتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنسی امتیاز کے خاتمہ کے لئے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بیٹی ہونے کی صورت میں اسقاط حمل کی بھی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ حکومتوں کو بھی خواتین کی ترقی کے لئے اقدامات کرنے چاہیں۔ اگر خواتین کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے تو خاندان میں بھی ان کی اہمیت بڑھے گی۔ اس طرح والدین انہیں بوجھ نہیں سمجھیں گے۔ اس کے علاوہ وہ زیادہ پر اعتماد ہو کر معاشرے کی فلاح میں کردار ادا کر سکیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں