کیا مُلا عمر واقعی انتقال کرچکے
ہم نے بھی اجلاس اُسی وقت منعقد کروایا جب بی بی سی نے ہری جھنڈی دکھائی۔ مانتے ہو نہ ہمارے معیاری کام کو پھر؟
لگی لپٹی بات کرنے کا شوق نہیں ہے۔ بس جو بات ہے اُس پر بات کی جائے، یعنی سیدھی بات نو بکواس۔ تو جناب معاملہ یہ ہے کہ ناچیز کی آنکھوں اور کانوں نے تقریباً پانچویں بار دیکھا اور سنا کہ افغانستان میں طالبان کے سربراہ ملا عمر ایک بار پھر انتقال کرگئے۔
خبر کا اصل پہلو یہ تھا کہ ملا عمر کی وفات کوئی ڈھائی سے تین سال پہلے واقع ہوئی ہے۔ چونکہ خبر عزت مآب برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی نے دی تھی تو ہمارا میڈیا اِس خبر پر سر تسلیم خم کس طرح نہ کرتا۔ بس جو خبر جس طرح آئی اُسی طرح اپنے ناظرین تک پہنچادی۔ چونکہ تحقیق کی عادت نہیں تو آگے پیچھے کچھ دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی۔ سب سے مضحکہ خیز یا یوں کہیں کہ شرمندگی کا لمحہ یہ تھا کہ انتقال تو ڈھائی یا تین سال پہلے ہوا تھا مگر اجلاس تب شروع ہوا جب بی بی سی نے خبر بریک کی۔
آپ سچ سچ بتائیں کہ اِس طرح کی نامعقول خبریں پڑھ کر آپ کا سر نہیں جھکتا؟ (ویسے اگر اب بھی نہیں جھکا تو پریشان نہیں ہوں، ضرور جھکے گا کیونکہ آگے مزید بہت کچھ پیش کیا جانے والا ہے)۔
خبر بریک ہوئی تو یقین ہی نہیں آیا۔ وجہ؟ جناب وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں افغان امور سے متعلق اتنی بڑی تعداد میں تجزیہ کار موجود ہیں کہ ایک پتھر اُٹھاو تو اندر سے چار نکلتے ہیں۔ اب اتنی بڑی تعداد میں افغان امور کے ماہرین کی موجودگی میں بھلا کس طرح یقین آئے کہ اِس قدر بڑے واقعے کی خبر بھی ہمیں اب فرنگی دیں گے۔ وہ ماہرین کہاں ہیں جو ہمیں روزانہ کی بنیاد پر یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے کتنے گروپس ہیں؟ وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ کیا سوچتے ہیں؟ کیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا نہیں؟ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بتانے والے اِتنی بڑی خبر سے بے خبر کیسے رہے؟ کیا یہ پالیسی تھی یا سیدھی سیدھی نااہلی؟ نااہلی کے بارے میں تو فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن اگر پالیسی تھی تو پھر بی بی سی کی خبر پر طرم خان کیوں بنے؟ کیا یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ہم تحقیقات کررہے ہیں، جب تصدیق ہوگی تب ہی یہ خبر بریک کی جائے گی؟
ویسے یہ باتیں پڑھنے کے بعد اب آپ اُن ماہرین کو اِتنا بھی نکما نہ سمجھیں۔ جب بی بی سی نے خبر بریک کردی، تو اگلی صبح تمام افغان امور کے ماہرین کے ذرائع متحرک ہوگئے۔ سب اپنے اپنے انداز میں الفاظ تبدیل کرکے خبریں دینا شروع ہوگئے۔ کسی نے بتایا کہ گزشتہ روز اجلاس کتنے بجے شروع ہوا تو کسی نے یہ بتایا کہ اجلاس کتنے بجے ختم ہوا، ہاں یہ بات وہ ایک بار پھر بتانا بھول گئے کہ اگر انتقال کو کئی ماہ یا سال ہوگئے ہیں تو اُس وقت تک اجلاس کیوں نہیں ہوا؟ اِس پورے دورانیے میں طالبان کی قیادت کون کرتا رہا؟ لیکن اب بھلا انسان کہاں کہاں تک نظر رکھے؟ بڑی بات تو پتہ چل گئی نہ کہ اجلاس کب شروع ہوا اور کب ختم ہوا۔ باقی باتیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہو ہی جائیں گی، بس ایک بار فرنگیوں کی خبر تو چھپنے دیں۔ پھر دیکھیں سب کے ذرائع ایک بار پھرکیسے متحرک ہوتے ہیں۔ زیادہ جلدبازی کرنے کی ضرور نہیں آپ لوگوں کو، سمجھے!
ویسے ایک بات کی اور تعریف کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی بات پر یقین نہیں کرتے۔ صرف فرنگیوں پر ہی اندھا ایمان رکھتے ہیں۔ ثبوت؟ تو ابھی ثبوت دیے دیتے ہیں۔ 23 جولائی کو افغان نیوز ایجنسی ''خامہ'' نے یہ بات بریک کردی تھی کہ ملا عمر 2 سال قبل انتقال کرچکے ہیں لیکن ہم بھلا اتنے گرے ہوئے تھوڑی ہیں کہ چھوٹے چھوٹے اداروں پر بھروسہ کریں۔ اِس خبر پر نہ ہم نے ''خبر بریک'' کی اور نہ اجلاس کروایا۔ اجلاس ہم نے اُسی وقت منعقد کروایا جب بی بی سی نے ہری جھنڈی دکھائی۔ مانتے ہو نہ ہمارے معیاری کام کو پھر؟
اور ویسے بھی ہمارے اداروں کو اور بھی بڑی بڑی خبریں عوام تک پہنچانی ہوتی ہیں۔ اب بھلا افغانستان میں کیا ہورہا ہے اِس سے ہمیں کیا لینا دینا؟ غیروں کے لیے کیا اپنے معاملات کو بھول جائیں؟عدالتوں میں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ لوگوں کو نہیں بتائیں؟ کون کب پیش ہوتا ہے؟ کیا پہن کر پیش ہوتا ہے؟ جس انداز میں پیش ہوتا ہے اُس سے متعلق گانا ڈھونڈنا بھلا کوئی آسان کام ہے؟ ایک بار کرکے تو دیکھیں، چھٹی کا دودھ یاد نہ آجائے تو بتائیے گا۔
[poll id="571"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
خبر کا اصل پہلو یہ تھا کہ ملا عمر کی وفات کوئی ڈھائی سے تین سال پہلے واقع ہوئی ہے۔ چونکہ خبر عزت مآب برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی نے دی تھی تو ہمارا میڈیا اِس خبر پر سر تسلیم خم کس طرح نہ کرتا۔ بس جو خبر جس طرح آئی اُسی طرح اپنے ناظرین تک پہنچادی۔ چونکہ تحقیق کی عادت نہیں تو آگے پیچھے کچھ دیکھنے کی زحمت ہی نہ کی۔ سب سے مضحکہ خیز یا یوں کہیں کہ شرمندگی کا لمحہ یہ تھا کہ انتقال تو ڈھائی یا تین سال پہلے ہوا تھا مگر اجلاس تب شروع ہوا جب بی بی سی نے خبر بریک کی۔
آپ سچ سچ بتائیں کہ اِس طرح کی نامعقول خبریں پڑھ کر آپ کا سر نہیں جھکتا؟ (ویسے اگر اب بھی نہیں جھکا تو پریشان نہیں ہوں، ضرور جھکے گا کیونکہ آگے مزید بہت کچھ پیش کیا جانے والا ہے)۔
خبر بریک ہوئی تو یقین ہی نہیں آیا۔ وجہ؟ جناب وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں افغان امور سے متعلق اتنی بڑی تعداد میں تجزیہ کار موجود ہیں کہ ایک پتھر اُٹھاو تو اندر سے چار نکلتے ہیں۔ اب اتنی بڑی تعداد میں افغان امور کے ماہرین کی موجودگی میں بھلا کس طرح یقین آئے کہ اِس قدر بڑے واقعے کی خبر بھی ہمیں اب فرنگی دیں گے۔ وہ ماہرین کہاں ہیں جو ہمیں روزانہ کی بنیاد پر یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے کتنے گروپس ہیں؟ وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ کیا سوچتے ہیں؟ کیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا نہیں؟ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بتانے والے اِتنی بڑی خبر سے بے خبر کیسے رہے؟ کیا یہ پالیسی تھی یا سیدھی سیدھی نااہلی؟ نااہلی کے بارے میں تو فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن اگر پالیسی تھی تو پھر بی بی سی کی خبر پر طرم خان کیوں بنے؟ کیا یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ہم تحقیقات کررہے ہیں، جب تصدیق ہوگی تب ہی یہ خبر بریک کی جائے گی؟
ویسے یہ باتیں پڑھنے کے بعد اب آپ اُن ماہرین کو اِتنا بھی نکما نہ سمجھیں۔ جب بی بی سی نے خبر بریک کردی، تو اگلی صبح تمام افغان امور کے ماہرین کے ذرائع متحرک ہوگئے۔ سب اپنے اپنے انداز میں الفاظ تبدیل کرکے خبریں دینا شروع ہوگئے۔ کسی نے بتایا کہ گزشتہ روز اجلاس کتنے بجے شروع ہوا تو کسی نے یہ بتایا کہ اجلاس کتنے بجے ختم ہوا، ہاں یہ بات وہ ایک بار پھر بتانا بھول گئے کہ اگر انتقال کو کئی ماہ یا سال ہوگئے ہیں تو اُس وقت تک اجلاس کیوں نہیں ہوا؟ اِس پورے دورانیے میں طالبان کی قیادت کون کرتا رہا؟ لیکن اب بھلا انسان کہاں کہاں تک نظر رکھے؟ بڑی بات تو پتہ چل گئی نہ کہ اجلاس کب شروع ہوا اور کب ختم ہوا۔ باقی باتیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہو ہی جائیں گی، بس ایک بار فرنگیوں کی خبر تو چھپنے دیں۔ پھر دیکھیں سب کے ذرائع ایک بار پھرکیسے متحرک ہوتے ہیں۔ زیادہ جلدبازی کرنے کی ضرور نہیں آپ لوگوں کو، سمجھے!
ویسے ایک بات کی اور تعریف کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی بات پر یقین نہیں کرتے۔ صرف فرنگیوں پر ہی اندھا ایمان رکھتے ہیں۔ ثبوت؟ تو ابھی ثبوت دیے دیتے ہیں۔ 23 جولائی کو افغان نیوز ایجنسی ''خامہ'' نے یہ بات بریک کردی تھی کہ ملا عمر 2 سال قبل انتقال کرچکے ہیں لیکن ہم بھلا اتنے گرے ہوئے تھوڑی ہیں کہ چھوٹے چھوٹے اداروں پر بھروسہ کریں۔ اِس خبر پر نہ ہم نے ''خبر بریک'' کی اور نہ اجلاس کروایا۔ اجلاس ہم نے اُسی وقت منعقد کروایا جب بی بی سی نے ہری جھنڈی دکھائی۔ مانتے ہو نہ ہمارے معیاری کام کو پھر؟
اور ویسے بھی ہمارے اداروں کو اور بھی بڑی بڑی خبریں عوام تک پہنچانی ہوتی ہیں۔ اب بھلا افغانستان میں کیا ہورہا ہے اِس سے ہمیں کیا لینا دینا؟ غیروں کے لیے کیا اپنے معاملات کو بھول جائیں؟عدالتوں میں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ لوگوں کو نہیں بتائیں؟ کون کب پیش ہوتا ہے؟ کیا پہن کر پیش ہوتا ہے؟ جس انداز میں پیش ہوتا ہے اُس سے متعلق گانا ڈھونڈنا بھلا کوئی آسان کام ہے؟ ایک بار کرکے تو دیکھیں، چھٹی کا دودھ یاد نہ آجائے تو بتائیے گا۔
[poll id="571"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس