چترال میں سیلاب گلیشیرکے پگھلنے کی وجہ سے آیا ماہر گلیشیر
علاقے میں جھیلوں کے باعث دریاؤں اور نالوں کے پانی کے غیر معمولی بہاؤ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی، زاہد حسین
پاکستان گلوف پروجیکٹ کے ماہر کا کہنا ہے کہ چترال میں حالیہ ہولناک سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کی بنیادی وجہ گلیشیر پگھلنے اور ان پر بننے والی جھیلوں کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان گلوف پروجیکٹ سے وابستہ گلگت کے فیلڈ مینیجر سید زاہد حسین نے ایکسپریس ویب سائٹ کو خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس بار چترال اور گلگت میں غیر معمولی گرمی سے گلیشیر بہت تیزی سے پگھلے ہیں اور بعض گلیشیرز پر چھوٹی بڑی جھیلیں بنی ہیں جن کے باعث دریاؤں اور نالوں میں پانی کے غیرمعمولی بہاؤ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ہے کیونکہ گلیشیر پگھلنے سے بظاہر ٹھوس نظر آنے والے گلیشیر اندر سے پانی سے بھرنے کے باعث پھٹ پڑتے ہیں جسے گلیشئیائی جھیلوں کا سیلاب یا گلیشیر آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) کہتے ہیں اسی طرح گلیشیروں کی سطح پر بھی جھیلیں بن جاتی ہیں جو بھرجانے پر چھلک پڑتی ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق اس مرتبہ چترال اور گلگلت کے بعض علاقوں میں بجلی کڑکنے اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی بہت زیادہ ہوئے اور پھر مون سون کی بارش سے صورتحال مزید خراب ہوگئی جب کہ بارش سے گلیشیر مزید پگھلے اور آبی گزرگاہیں لبالب بھر کر باہر بہنے لگیں جس سے وہاں کناروں پر رہائش پذیر آبادی کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے میں گلیشیر حرکت بھی کرتے ہیں جن میں سے ایک برکا گلیشیر قریباً 4 کلومیٹر طویل ہے اور گزشتہ 15 برس سے 50 سے 100 فٹ تک کھسک چکا ہے جب کہ گلگت کی وادی بگروٹ میں 3 اطراف گلیشیر ہیں جہاں جھیلیں بننے کے امکانات موجود ہیں۔
انٹرنیشنل سینٹرفارانٹی گریٹڈ ماؤنٹین ڈویلمپنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی گلیشیروں پر کم ازکم ایسی 203 جھیلیں ہیں جو ابلنے کی صورت میں بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اور ان کی اکثریت چترال اور گلگت بلتستان میں واقع ہے جب کہ اس علاقے میں ایسے گلیشیرز بھی موجود ہیں جو 18 سے 20 کلومیٹر تک طویل ہیں۔ زاہد حسین کے مطابق اس بار چترال میں بندوگول وادی کے گلیشیر ہنارچی میں جھیل بنی جس کے پھٹنے سے شدید سیلاب آگیا۔
دوسری جانب محکمہ موسمیات کی ایک تحقیق کے مطابق 1977 سے 2009 تک ہنارچی گلیشیر 800 میٹر پیچھے ہٹا ہے۔ محکمہ موسمیات کے سربراہ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق شمالی علاقہ جات کے گلیشیر پگھلنے کی شرح اب تک بلند ترین ہوچکی ہے اور آئندہ برسوں میں گلیشیر پگھلنے کا عمل معمول کی مون سون بارشوں کو مزید شدید کردے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلیشیر کے پگھلے ہوئے پانی نے زمین کو کاٹا دیا اور تودے گرنے سے صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی جس سے جانی و مالی نقصان میں شدید اضافہ ہوگیا۔
محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی موسمیاتی تنظیم کے مشیرِ خاص ڈاکٹر قمرالزماں چوہدری کے مطابق اس ضمن میں مقامی آبادی کو علم اور مناسب تربیت فراہم کرنی ہوگی کہ وہ ان گلیشیروں پر غور کریں جہاں پانی جمع ہورہا ہے کیونکہ پہلے پانی بننا شروع ہوتا ہے جو بارش سے مزید بڑھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب جھیل کا پانی کناروں سے چھلک پڑتا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پگھلتے ہوئے گلیشیروں کے قریب سے آبادی کا انخلا کیا جائے۔
پاکستان گلوف پروجیکٹ سے وابستہ گلگت کے فیلڈ مینیجر سید زاہد حسین نے ایکسپریس ویب سائٹ کو خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اس بار چترال اور گلگت میں غیر معمولی گرمی سے گلیشیر بہت تیزی سے پگھلے ہیں اور بعض گلیشیرز پر چھوٹی بڑی جھیلیں بنی ہیں جن کے باعث دریاؤں اور نالوں میں پانی کے غیرمعمولی بہاؤ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ہے کیونکہ گلیشیر پگھلنے سے بظاہر ٹھوس نظر آنے والے گلیشیر اندر سے پانی سے بھرنے کے باعث پھٹ پڑتے ہیں جسے گلیشئیائی جھیلوں کا سیلاب یا گلیشیر آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) کہتے ہیں اسی طرح گلیشیروں کی سطح پر بھی جھیلیں بن جاتی ہیں جو بھرجانے پر چھلک پڑتی ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق اس مرتبہ چترال اور گلگلت کے بعض علاقوں میں بجلی کڑکنے اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی بہت زیادہ ہوئے اور پھر مون سون کی بارش سے صورتحال مزید خراب ہوگئی جب کہ بارش سے گلیشیر مزید پگھلے اور آبی گزرگاہیں لبالب بھر کر باہر بہنے لگیں جس سے وہاں کناروں پر رہائش پذیر آبادی کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے میں گلیشیر حرکت بھی کرتے ہیں جن میں سے ایک برکا گلیشیر قریباً 4 کلومیٹر طویل ہے اور گزشتہ 15 برس سے 50 سے 100 فٹ تک کھسک چکا ہے جب کہ گلگت کی وادی بگروٹ میں 3 اطراف گلیشیر ہیں جہاں جھیلیں بننے کے امکانات موجود ہیں۔
انٹرنیشنل سینٹرفارانٹی گریٹڈ ماؤنٹین ڈویلمپنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی گلیشیروں پر کم ازکم ایسی 203 جھیلیں ہیں جو ابلنے کی صورت میں بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اور ان کی اکثریت چترال اور گلگت بلتستان میں واقع ہے جب کہ اس علاقے میں ایسے گلیشیرز بھی موجود ہیں جو 18 سے 20 کلومیٹر تک طویل ہیں۔ زاہد حسین کے مطابق اس بار چترال میں بندوگول وادی کے گلیشیر ہنارچی میں جھیل بنی جس کے پھٹنے سے شدید سیلاب آگیا۔
دوسری جانب محکمہ موسمیات کی ایک تحقیق کے مطابق 1977 سے 2009 تک ہنارچی گلیشیر 800 میٹر پیچھے ہٹا ہے۔ محکمہ موسمیات کے سربراہ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق شمالی علاقہ جات کے گلیشیر پگھلنے کی شرح اب تک بلند ترین ہوچکی ہے اور آئندہ برسوں میں گلیشیر پگھلنے کا عمل معمول کی مون سون بارشوں کو مزید شدید کردے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ گلیشیر کے پگھلے ہوئے پانی نے زمین کو کاٹا دیا اور تودے گرنے سے صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی جس سے جانی و مالی نقصان میں شدید اضافہ ہوگیا۔
محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی موسمیاتی تنظیم کے مشیرِ خاص ڈاکٹر قمرالزماں چوہدری کے مطابق اس ضمن میں مقامی آبادی کو علم اور مناسب تربیت فراہم کرنی ہوگی کہ وہ ان گلیشیروں پر غور کریں جہاں پانی جمع ہورہا ہے کیونکہ پہلے پانی بننا شروع ہوتا ہے جو بارش سے مزید بڑھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب جھیل کا پانی کناروں سے چھلک پڑتا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پگھلتے ہوئے گلیشیروں کے قریب سے آبادی کا انخلا کیا جائے۔