مقبرہ نادرہ بیگم
چبوترے کے ڈھانچے میں سنگ سرخ کے اندر باریک اور نفیس کام آج بھی دکھائی دیتا ہے
نادرہ بیگم کی زندگی پر نگاہ دوڑائی جائے تو ان کا تعلق مغل عہد کے بادشاہ شاہ جہاں سے استوار ملتا ہے۔ لیکن تعلق کی نسبت کے حوالے سے مؤرخین دو الگ الگ گروہوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں ۔
اول: اس گروہ میں وہ مؤرخین شامل ہیں جو کہ نادرہ بیگم کو شاہ جہاں کی بیٹی اور داراشکوہ کی بہن گردانتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ شہزادی تمام عمر حضرت میاں میررحمتہ علیہ کی خدمت میں رہیں اور شادی بھی نہ کی اور بعداز وفات حضرت میاں میررحمتہ علیہ کے مزار کے قرب میں وسط تالاب ایک عظیم الشان مقبرے میں دفن ہوئیں۔
دوئم: مورخین کا دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ تو مانتا ہے کہ نادرہ بیگم کو حضرت میاں میرؒ سے بے انتہاء عقیدت تھی، ان کی خدمت میں بھی رہیں اور بعد ازوفات ان کے مزار کے قرب میں دفن ہوئیں، لیکن وہ شاہ جہاں کی بیٹی نہ تھیں بلکہ ان کی بہو تھیں اور ان کی شادی شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے داراشکوہ سے ہوئی ۔
راقم بذات خود مؤخرالذکر رائے کا قائل ہے کیونکہ یہ بات تاریخی حقائق کی روشنی میں درست اور حقیقت کے قریب تر نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں مزید یہ معلومات بھی ہیں کہ نادرہ بیگم، شہزادہ سلطان پرویز ابن جہانگیر کی دختر تھیں اور ان کی والدہ کا نام جہاں بانو بیگم تھا جو کہ جہانگیر کے بھائی مراد بخش کی بیٹی تھیں۔ اگر تزک جہانگیری میں شہنشاہ جہانگیر کی اولاد کا احوال دیکھیں تو درج ذیل تحریر دکھائی دیتی ہے۔ سلطان پرویز کا ایک بیٹا اور بیٹی تھی ۔ بیٹا تو باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا لیکن بیٹی شہزادہ داراشکوہ کے عقد میں آئی ۔
اس کے بعد شاہ جہاں نامہ میں نادرہ بیگم کی منگنی کا احوال یوں ملتا ہے۔
''شہزادہ داراشکوہ کی منگنی سلطان پرویز کی بیٹی سے کی گئی۔ یہ نسبت اس وقت طے پائی تھی جب شاہ جہاں دارالخلافہ سے روانہ ہو کر خاندیس پہنچے اور ملکہ زمانی ممتاز محل ان کے ہمرکاب تھیں۔ یہاں انہوں نے سلطان پرویز کی بیٹی سے داراشکوہ کی منگنی کا اظہار کیا۔ سلطان پرویز جہانگیر کا بڑا بیٹا تھا اور اس کی بیوی اکبرکی پوتی تھی۔''
شاہ جہاں نامہ میں ہی داراشکوہ کے نکاح کے بارے میں ایک تحریر یوں ملتی ہے۔
''قاضی القضاۃ قاضی محمد اسلم کو اپنے حضور طلب فرمایا اور شہزادہ سلیمان جاہ کا عقد بلقیس زمان دختر سلطان پرویز سے پڑھا ۔''
شاہ جہاں نامہ میں دارشکوہ کے بیٹے شہزادہ ممتاز شکوہ کی ولادت کے بارے میں درج ذیل حوالہ ملتا ہے۔
''30 جمادی الاول 16 اگست 1643ء اتوار کو سات گھنٹے سات منٹ گزرنے پر شہزادہ داراشکوہ کے گھر سلطان پرویز کی دختر نادرہ بیگم کے بطن سے شہزادہ پیدا ہوا۔ حضرت (شاہجہاں) نے ممتاز شکوہ نام تجویز کیا اور دس لاکھ روپے جشن کی تیاری کے لئے مرحمت فرمائے ۔''
درج بالاتمام حقائق سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ نادرہ بیگم داراشکوہ کی اہلیہ تھیں وہ قطعاً ان کی بہن نہ تھیں ۔ تاریخی حقائق کے حوالے سے ہمیں دائی انگا اور زیب النساء کے مقبروں کے بارے میں بھی کچھ غلط فہمیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ پر سچ ہے کہ نادرہ بیگم حضرت میاں میرؒ کے انتہائی عقیدت مندوں میں سے ایک تھیں ۔ کیونکہ اس عقیدت مندی میں ان کا شوہر داراشکوہ برابر کا شریک تھا۔
وہ حضرت میاں میرؒ کو اپنا استاد مانتا تھا ۔ اور ان ہی کی رفاقت میں صوفی ازم پر ایک لازوال کتاب ''سفینۃ الاولیاء'' تحریر کی ۔ نادرہ بیگم نے اپنی زندگی ہی میں حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک کے قرب میں دفن ہونے کی خواہش کی جو کہ ان کی وفات کے بعد پوری کر دی گئی۔
نادرہ بیگم نے تمام عمر شہزادہ داراشکوہ کی رفاقت اور محبت میں گزاری۔ انہیں اپنی زندگی ہی میں اپنے شوہر اور بیٹے کا انجام اورنگ زیب کے ہاتھوں دکھائی دے رہا تھا ۔ اسی غم میں ان کی موت بھی واقع ہوئی اور یوں وہ اپنی زندگی میں اپنے شوہر اور بیٹے کی اندوہناک موت دیکھنے سے بچ گئیں ۔ ان کی وفات کے بارے میں مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی کتاب تاریخ ہندوستان میں مفصل تحریر کیا ہے اور یہ بات بیان کی ہے کہ شہزادی کی وفات سندھ اور بلوچستان کے علاقے میں ہوئی اور حسب وصیت لاہور میں دفن کیا گیا۔
پروفیسر اسلم نے اپنی کتاب ''خفتگان خاک لاہور'' (ص۔289) میں یوں تحریر کیا ہے۔
''نادرہ بیگم کا انتقال سفر کے دوران بلوچستان میں ہوا تھا۔ داراشکوہ نے گل محمد بلوچ کی نگرانی میں ان کی میت تدفین کے لئے لاہور روانہ کی۔''
احوال مقبرہ :۔
نادرہ بیگم کا مقبرہ حضرت میاں میرؒ کے مزار کے قریب ایک وسیع وعریض تالاب کے وسط میں ملتا ہے۔ یہاں پر لفظ ''تالاب''کی وضاحت کرتا جاؤں کہ مغل عہد میں تالاب سے مراد ایک چھوٹی جھیل تھا جس میں مقبرے کی دیگر عمارات کے ساتھ ساتھ بارہ دری بھی ملتی تھی ۔ اسی طرح کا طرز تعمیر شیر شاہ سوری کے مقبرے اور شیخوپورہ میں جہانگیر کے تعمیر کردہ ہرن مینار میں بھی د کھائی دیتا ہے۔
نادرہ بیگم کا مقبرہ بھی اپنے وقت کی ایک ایسی ہی لاجواب اور نایاب تعمیر تھی ۔ نادرہ بیگم کا مقبرہ اور حضرت میاں میرؒ کے مزار کی عمارت کی تعمیر ان کی اور داراشکوہ کی زندگی میں ہی شروع ہو گئی تھی لیکن ان عمارات کی تکمیل نادرہ بیگم اور داراشکوہ کی کربناک موت کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے پایہ تکمیل تک پہنچائی ۔
مغل سلطنت کے زوال کے بعد مغلوں کی کئی دیگر نادر و نایاب تعمیرات کی مانند اس مقبرے کی عمارت بھی حوادث کا شکار رہی ۔ کچھ عمارات سکھ گردی کا بھی بدترین نشانہ بنیں۔ مقبرے کی عمارت کے بارے میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب تحقیقات چشتی (ص859) پر یوں تحریر کیا ہے۔
''حال عمارت بارہ دری یہ ہے کہ پہلے تا سینہ بلند سنگ مرمرم لگا ہوا تھا۔ بعملداری مہاراجہ رنجیت سنگھ سب اتروا لیا گیا۔ اب بوسیدہ عمارت شکستہ کھڑی ہے ۔ حتیٰ کہ میانہ میں قبر نادرہ بیگم بھی خام گل موجود ہے ۔ پہلے گردونواح اس تالاب غیر موجود کے شمال و جنوب رویہ دو ڈیوڑھیاں بڑی بلند شان تھیں ۔ جس میں ہزار، ہزار آدمی سما جاتا تھا اور چاروں کونوں پر تالاب کے چار بنگلہ ھشت پہلو سنگ سرخ کے بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ اب تک نشان پائے جاتے ہیں۔''
عصر حاضر میں ریلوے اسٹیشن لاہور سے علامہ اقبال روڈ سے ہوتے ہوئے دھرم پورہ پل سے گزر کر انفینٹری روڈ پر میاں میرؒ کالونی ملتی ہے۔ یہ کالونی حضرت میاں میر ؒ کے مزار کے باعث اسی نام سے منسوب ہے ۔ سڑک کے بائیں جانب مشرق رخ پر بارہ دری و مقبرہ نادرہ بیگم کی عمارات ہیں ۔ ان عمارات سے آگے ایک اور بابرکت ہستی حضرت بابا بہاری شاہؒ کا مزار مبارک بھی ہے ۔
جو کہ دربار بابا بہاری شاہؒ کے نام سے معروف ہے ۔ داراشکوہ اور نادرہ بیگم کی عقیدت حضرت میاں میرؒ سے آج روز تک مسلم ہے کیونکہ نادرہ بیگم کا مقبرہ عام و عوام میں بارہ دری حضرت میاں میرؒ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مقبرہ کے چبوترے کے ساتھ تالاب تو ایک عرصہ بیت گیا خشک ہوئے ۔ لیکن اس کی بلند و بالا چار دیواری اور ڈیوڑھیوں کے اثرات اور باقی ماندہ نشانات آج بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
مقبرہ کے چبوترے کے ساتھ پانی کی روشوں کے محرابی دامن آج بھی بحالت کھنڈر موجود ہیں اور ان قدیم آبی گزر گاہوں سے ایام رفتہ کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ یہ شہر لاہور کی بدقسمتی ہے کہ اس عظیم الشان مقبرے کی عمارات کا ایک بڑا حصہ ایام گردش کے ہاتھوں ناپید ہو چکا ہے۔ تالاب کے آبی راستوں کے خشک ہونے کے باعث 1970ء سے اب تک اس تالاب کی جگہ کا بڑا حصہ بطورکرکٹ گراؤنڈ استعمال ہوتا رہا ہے ۔
1990ء کے بعد کرکٹ کے ایک معروف کھلاڑی نے کئی برسوں تک یہ کوشش جاری رکھی کہ مقبرے کے چبوترے اور دیگر عمارات کو اس کی بنیادوں ہی سے ختم کر کے اس جگہ کو مکمل طور پر ایک کرکٹ کے میدان میں تبدیل کر دیا جائے ۔ یہ شاید نادرہ بیگم کے ان اچھے کاموں کی برکت ہے کہ یہ مقبرہ اپنے مضبوط ڈھانچے کے ساتھ آج بھی قائم و دائم ہے۔ چبوترے کے چاروں جانب خشک حوض دکھائی دیتے ہیں جن میں کبھی فوارے بھی چلا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ آبی گزرگاہیں اور سنگ سرخ سے آراستہ روشیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
چبوترے کے ڈھانچے میں سنگ سرخ کے اندر باریک اور نفیس کام آج بھی دکھائی دیتا ہے۔ نادرہ بیگم کی اصل قبر جو کہ تہہ خانے میں موجود ہے ۔ اصل قبر تک کی رسائی کے تمام راستے انگریز عہد ہی میں ختم کر دیئے گئے جس کی وجہ سے تہہ خانہ کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ۔ قبر کا تعویز ابھی بھی وسط عمارت دکھائی دیتا ہے جس کے سرہانے پر بسم اللہ الرحمن الرحیم اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ منقوش ہیں جبکہ پائنتی کی جانب درج ذیل تحریر درج ہے۔
نادرہ بیگم
زوجہ شہزادہ داراشکوہ
سنہ وفات1659-ء۔ 1069ھ
یہ دونوں تحریریں عہد حاضر میں دوبارہ سے لکھ کر نصب کی گئیں ہیں ۔ جبکہ تعویذ کی اصل کاشی کاری اور اسمائے ربی جو کہ مغل قبور کے تعویذوں کا ایک خاصا رہے ہیں وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔ مقبرے کی دیواروں اور سقف پر کہیں کہیں پچی کاری کا نفیس کام دکھائی دیتا ہے۔
بارہ دری کی وہ دیواریں جو کہ رہائشی گھروں سے متصل ہیں ان کے ساتھ ساتھ گھروں کا کوڑا کرکٹ بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ تمام دن اس کا میدان نوجوانوں کے لئے کرکٹ گراؤنڈ اور شام کو نشہ کر نے والے حضرات کی آماجگاہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ عظیم الشان مقبرہ اور اس کے ساتھ ایک وسیع میدان حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کی شدید ترین بے توجہی کا شکار ہے۔ ان عمارات کی تباہی اور بے قدری ہماری قوم کی تاریخ کی جانب سے بے حسی کے ایک کلی رجحان کا منہ بولتا ثبوت ہے شاید میر تقی میر نے اسی طرح کے موقع کے لئے درج ذیل شعر کہا تھا۔
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے
پردے میں جسم ڈھے کر دیوار و در بنے ہے
اول: اس گروہ میں وہ مؤرخین شامل ہیں جو کہ نادرہ بیگم کو شاہ جہاں کی بیٹی اور داراشکوہ کی بہن گردانتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ شہزادی تمام عمر حضرت میاں میررحمتہ علیہ کی خدمت میں رہیں اور شادی بھی نہ کی اور بعداز وفات حضرت میاں میررحمتہ علیہ کے مزار کے قرب میں وسط تالاب ایک عظیم الشان مقبرے میں دفن ہوئیں۔
دوئم: مورخین کا دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ تو مانتا ہے کہ نادرہ بیگم کو حضرت میاں میرؒ سے بے انتہاء عقیدت تھی، ان کی خدمت میں بھی رہیں اور بعد ازوفات ان کے مزار کے قرب میں دفن ہوئیں، لیکن وہ شاہ جہاں کی بیٹی نہ تھیں بلکہ ان کی بہو تھیں اور ان کی شادی شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے داراشکوہ سے ہوئی ۔
راقم بذات خود مؤخرالذکر رائے کا قائل ہے کیونکہ یہ بات تاریخی حقائق کی روشنی میں درست اور حقیقت کے قریب تر نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں مزید یہ معلومات بھی ہیں کہ نادرہ بیگم، شہزادہ سلطان پرویز ابن جہانگیر کی دختر تھیں اور ان کی والدہ کا نام جہاں بانو بیگم تھا جو کہ جہانگیر کے بھائی مراد بخش کی بیٹی تھیں۔ اگر تزک جہانگیری میں شہنشاہ جہانگیر کی اولاد کا احوال دیکھیں تو درج ذیل تحریر دکھائی دیتی ہے۔ سلطان پرویز کا ایک بیٹا اور بیٹی تھی ۔ بیٹا تو باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا لیکن بیٹی شہزادہ داراشکوہ کے عقد میں آئی ۔
اس کے بعد شاہ جہاں نامہ میں نادرہ بیگم کی منگنی کا احوال یوں ملتا ہے۔
''شہزادہ داراشکوہ کی منگنی سلطان پرویز کی بیٹی سے کی گئی۔ یہ نسبت اس وقت طے پائی تھی جب شاہ جہاں دارالخلافہ سے روانہ ہو کر خاندیس پہنچے اور ملکہ زمانی ممتاز محل ان کے ہمرکاب تھیں۔ یہاں انہوں نے سلطان پرویز کی بیٹی سے داراشکوہ کی منگنی کا اظہار کیا۔ سلطان پرویز جہانگیر کا بڑا بیٹا تھا اور اس کی بیوی اکبرکی پوتی تھی۔''
شاہ جہاں نامہ میں ہی داراشکوہ کے نکاح کے بارے میں ایک تحریر یوں ملتی ہے۔
''قاضی القضاۃ قاضی محمد اسلم کو اپنے حضور طلب فرمایا اور شہزادہ سلیمان جاہ کا عقد بلقیس زمان دختر سلطان پرویز سے پڑھا ۔''
شاہ جہاں نامہ میں دارشکوہ کے بیٹے شہزادہ ممتاز شکوہ کی ولادت کے بارے میں درج ذیل حوالہ ملتا ہے۔
''30 جمادی الاول 16 اگست 1643ء اتوار کو سات گھنٹے سات منٹ گزرنے پر شہزادہ داراشکوہ کے گھر سلطان پرویز کی دختر نادرہ بیگم کے بطن سے شہزادہ پیدا ہوا۔ حضرت (شاہجہاں) نے ممتاز شکوہ نام تجویز کیا اور دس لاکھ روپے جشن کی تیاری کے لئے مرحمت فرمائے ۔''
درج بالاتمام حقائق سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ نادرہ بیگم داراشکوہ کی اہلیہ تھیں وہ قطعاً ان کی بہن نہ تھیں ۔ تاریخی حقائق کے حوالے سے ہمیں دائی انگا اور زیب النساء کے مقبروں کے بارے میں بھی کچھ غلط فہمیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ پر سچ ہے کہ نادرہ بیگم حضرت میاں میرؒ کے انتہائی عقیدت مندوں میں سے ایک تھیں ۔ کیونکہ اس عقیدت مندی میں ان کا شوہر داراشکوہ برابر کا شریک تھا۔
وہ حضرت میاں میرؒ کو اپنا استاد مانتا تھا ۔ اور ان ہی کی رفاقت میں صوفی ازم پر ایک لازوال کتاب ''سفینۃ الاولیاء'' تحریر کی ۔ نادرہ بیگم نے اپنی زندگی ہی میں حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک کے قرب میں دفن ہونے کی خواہش کی جو کہ ان کی وفات کے بعد پوری کر دی گئی۔
نادرہ بیگم نے تمام عمر شہزادہ داراشکوہ کی رفاقت اور محبت میں گزاری۔ انہیں اپنی زندگی ہی میں اپنے شوہر اور بیٹے کا انجام اورنگ زیب کے ہاتھوں دکھائی دے رہا تھا ۔ اسی غم میں ان کی موت بھی واقع ہوئی اور یوں وہ اپنی زندگی میں اپنے شوہر اور بیٹے کی اندوہناک موت دیکھنے سے بچ گئیں ۔ ان کی وفات کے بارے میں مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی کتاب تاریخ ہندوستان میں مفصل تحریر کیا ہے اور یہ بات بیان کی ہے کہ شہزادی کی وفات سندھ اور بلوچستان کے علاقے میں ہوئی اور حسب وصیت لاہور میں دفن کیا گیا۔
پروفیسر اسلم نے اپنی کتاب ''خفتگان خاک لاہور'' (ص۔289) میں یوں تحریر کیا ہے۔
''نادرہ بیگم کا انتقال سفر کے دوران بلوچستان میں ہوا تھا۔ داراشکوہ نے گل محمد بلوچ کی نگرانی میں ان کی میت تدفین کے لئے لاہور روانہ کی۔''
احوال مقبرہ :۔
نادرہ بیگم کا مقبرہ حضرت میاں میرؒ کے مزار کے قریب ایک وسیع وعریض تالاب کے وسط میں ملتا ہے۔ یہاں پر لفظ ''تالاب''کی وضاحت کرتا جاؤں کہ مغل عہد میں تالاب سے مراد ایک چھوٹی جھیل تھا جس میں مقبرے کی دیگر عمارات کے ساتھ ساتھ بارہ دری بھی ملتی تھی ۔ اسی طرح کا طرز تعمیر شیر شاہ سوری کے مقبرے اور شیخوپورہ میں جہانگیر کے تعمیر کردہ ہرن مینار میں بھی د کھائی دیتا ہے۔
نادرہ بیگم کا مقبرہ بھی اپنے وقت کی ایک ایسی ہی لاجواب اور نایاب تعمیر تھی ۔ نادرہ بیگم کا مقبرہ اور حضرت میاں میرؒ کے مزار کی عمارت کی تعمیر ان کی اور داراشکوہ کی زندگی میں ہی شروع ہو گئی تھی لیکن ان عمارات کی تکمیل نادرہ بیگم اور داراشکوہ کی کربناک موت کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے پایہ تکمیل تک پہنچائی ۔
مغل سلطنت کے زوال کے بعد مغلوں کی کئی دیگر نادر و نایاب تعمیرات کی مانند اس مقبرے کی عمارت بھی حوادث کا شکار رہی ۔ کچھ عمارات سکھ گردی کا بھی بدترین نشانہ بنیں۔ مقبرے کی عمارت کے بارے میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب تحقیقات چشتی (ص859) پر یوں تحریر کیا ہے۔
''حال عمارت بارہ دری یہ ہے کہ پہلے تا سینہ بلند سنگ مرمرم لگا ہوا تھا۔ بعملداری مہاراجہ رنجیت سنگھ سب اتروا لیا گیا۔ اب بوسیدہ عمارت شکستہ کھڑی ہے ۔ حتیٰ کہ میانہ میں قبر نادرہ بیگم بھی خام گل موجود ہے ۔ پہلے گردونواح اس تالاب غیر موجود کے شمال و جنوب رویہ دو ڈیوڑھیاں بڑی بلند شان تھیں ۔ جس میں ہزار، ہزار آدمی سما جاتا تھا اور چاروں کونوں پر تالاب کے چار بنگلہ ھشت پہلو سنگ سرخ کے بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ اب تک نشان پائے جاتے ہیں۔''
عصر حاضر میں ریلوے اسٹیشن لاہور سے علامہ اقبال روڈ سے ہوتے ہوئے دھرم پورہ پل سے گزر کر انفینٹری روڈ پر میاں میرؒ کالونی ملتی ہے۔ یہ کالونی حضرت میاں میر ؒ کے مزار کے باعث اسی نام سے منسوب ہے ۔ سڑک کے بائیں جانب مشرق رخ پر بارہ دری و مقبرہ نادرہ بیگم کی عمارات ہیں ۔ ان عمارات سے آگے ایک اور بابرکت ہستی حضرت بابا بہاری شاہؒ کا مزار مبارک بھی ہے ۔
جو کہ دربار بابا بہاری شاہؒ کے نام سے معروف ہے ۔ داراشکوہ اور نادرہ بیگم کی عقیدت حضرت میاں میرؒ سے آج روز تک مسلم ہے کیونکہ نادرہ بیگم کا مقبرہ عام و عوام میں بارہ دری حضرت میاں میرؒ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مقبرہ کے چبوترے کے ساتھ تالاب تو ایک عرصہ بیت گیا خشک ہوئے ۔ لیکن اس کی بلند و بالا چار دیواری اور ڈیوڑھیوں کے اثرات اور باقی ماندہ نشانات آج بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
مقبرہ کے چبوترے کے ساتھ پانی کی روشوں کے محرابی دامن آج بھی بحالت کھنڈر موجود ہیں اور ان قدیم آبی گزر گاہوں سے ایام رفتہ کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ یہ شہر لاہور کی بدقسمتی ہے کہ اس عظیم الشان مقبرے کی عمارات کا ایک بڑا حصہ ایام گردش کے ہاتھوں ناپید ہو چکا ہے۔ تالاب کے آبی راستوں کے خشک ہونے کے باعث 1970ء سے اب تک اس تالاب کی جگہ کا بڑا حصہ بطورکرکٹ گراؤنڈ استعمال ہوتا رہا ہے ۔
1990ء کے بعد کرکٹ کے ایک معروف کھلاڑی نے کئی برسوں تک یہ کوشش جاری رکھی کہ مقبرے کے چبوترے اور دیگر عمارات کو اس کی بنیادوں ہی سے ختم کر کے اس جگہ کو مکمل طور پر ایک کرکٹ کے میدان میں تبدیل کر دیا جائے ۔ یہ شاید نادرہ بیگم کے ان اچھے کاموں کی برکت ہے کہ یہ مقبرہ اپنے مضبوط ڈھانچے کے ساتھ آج بھی قائم و دائم ہے۔ چبوترے کے چاروں جانب خشک حوض دکھائی دیتے ہیں جن میں کبھی فوارے بھی چلا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ آبی گزرگاہیں اور سنگ سرخ سے آراستہ روشیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
چبوترے کے ڈھانچے میں سنگ سرخ کے اندر باریک اور نفیس کام آج بھی دکھائی دیتا ہے۔ نادرہ بیگم کی اصل قبر جو کہ تہہ خانے میں موجود ہے ۔ اصل قبر تک کی رسائی کے تمام راستے انگریز عہد ہی میں ختم کر دیئے گئے جس کی وجہ سے تہہ خانہ کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ۔ قبر کا تعویز ابھی بھی وسط عمارت دکھائی دیتا ہے جس کے سرہانے پر بسم اللہ الرحمن الرحیم اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ منقوش ہیں جبکہ پائنتی کی جانب درج ذیل تحریر درج ہے۔
نادرہ بیگم
زوجہ شہزادہ داراشکوہ
سنہ وفات1659-ء۔ 1069ھ
یہ دونوں تحریریں عہد حاضر میں دوبارہ سے لکھ کر نصب کی گئیں ہیں ۔ جبکہ تعویذ کی اصل کاشی کاری اور اسمائے ربی جو کہ مغل قبور کے تعویذوں کا ایک خاصا رہے ہیں وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔ مقبرے کی دیواروں اور سقف پر کہیں کہیں پچی کاری کا نفیس کام دکھائی دیتا ہے۔
بارہ دری کی وہ دیواریں جو کہ رہائشی گھروں سے متصل ہیں ان کے ساتھ ساتھ گھروں کا کوڑا کرکٹ بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ تمام دن اس کا میدان نوجوانوں کے لئے کرکٹ گراؤنڈ اور شام کو نشہ کر نے والے حضرات کی آماجگاہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ عظیم الشان مقبرہ اور اس کے ساتھ ایک وسیع میدان حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کی شدید ترین بے توجہی کا شکار ہے۔ ان عمارات کی تباہی اور بے قدری ہماری قوم کی تاریخ کی جانب سے بے حسی کے ایک کلی رجحان کا منہ بولتا ثبوت ہے شاید میر تقی میر نے اسی طرح کے موقع کے لئے درج ذیل شعر کہا تھا۔
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے
پردے میں جسم ڈھے کر دیوار و در بنے ہے