افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا
پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ خطے میں امن قائم ہو۔
افغان طالبان کی شوریٰ نے ملا عمر کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ملا اختر محمد منصور کو نیا امیر منتخب کرلیا، سراج الدین حقانی اور ہیبت اللہ اخونزادہ کو ان کے معاونین مقرر کیا گیا ہے جب کہ گزشتہ روز جمعے کو ہونے والے مری امن مذاکرات کا دوسرا دور ملتوی کردیا گیا ہے دوسری جانب طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر نے مذاکرات سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔ امن مذاکرات کے التوا کا اعلان جمعرات کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ ملا عمر کی ہلاکت کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال کے علاوہ طالبان کی جانب سے باقاعدہ طور پر کی جانے والی درخواست کے پیش نظر امن مذاکرات ملتوی کردیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا پاکستان اور دیگر دوست ممالک امید کرتے ہیں کہ طالبان قیادت امن مذاکرات کے عمل سے منسلک رہے گی تاکہ افغانستان میں دیرپا امن کی راہ ڈھونڈی جا سکے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ امن مذاکرات سبوتاژ کرنے کی خواہشمند قوتیں اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوں گی۔
افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے سات جولائی کو مری میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا جس میں طالبان کی جانب سے ملا عباس اخوند' عبداللطیف منصور اور حاجی ابراہیم حقانی نے شرکت کی تھی۔اب ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے اور ملا اختر منصور کے افغان طالبان کے نئے امیر منتخب ہونے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آئی ہے اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جو مذاکرات جمعے کو ہونے تھے وہ ملتوی کر دیے گئے ہیں ۔
جس کے بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ مذاکرات ملتوی کرنے کی درخواست طالبان قیادت نے خود کی تھی البتہ پاکستان دوسرے دور میں بھی سہولت کار کا کردار ادا کرے گا۔ اخباری خبروں کے مطابق طالبان کے اندر دھڑے بندی کے اشارے مل رہے ہیں۔
طالبان کا ایک سیاسی دفتر قطر میں قائم ہے' اس دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق کہا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں شریک نہیں ہوں گے اور نہ اسے اس مرحلے کے مذاکراتی عمل کا کوئی علم ہے۔ افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے ترجمان مولوی شہزاد شاہد نے یہ کہا ہے کہ آیندہ مذاکرات میں طالبان کے قطر دفتر کی نمایندگی ہونی چاہیے۔
افغان امور کے بعض ماہرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں متوقع دوسرے راؤنڈ کے آغاز کے موقع پر طالبان کے قطر دفتر کی جانب سے ایسے بیانات کا سامنے آنا قیام امن کی کوششوں کے لیے اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا۔ سات جولائی کو مری میں ہونے والے مذاکرات کے بعد گزشتہ روز طالبان کی رہبر شوریٰ نے ایک بیان جاری کیا جس میں مری میں ہونے والے مذاکرات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا لیکن اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ آیندہ مذاکرات کا اختیار صرف اور صرف سیاسی دفتر ہی کو حاصل ہو گا۔
بعض ذرایع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملا اختر منصور کو ابھی تک تمام طالبان گروپوں کی حمایت حاصل نہیں ہے جس اجلاس میں انھیں امیر منتخب کیا گیا اس میں تمام طالبان کمانڈرز موجود نہیں تھے' ملا عمر کا بیٹا ملا یعقوب بھی طالبان کے امیر کا امیدوار تھا تاہم اکثریت نے اختر محمد منصور کو اپنا امیر منتخب کیا۔ بعض ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ طالبان دھڑوں کے درمیان اختلافات کے باعث یہ واضح نہیں ہو رہا کہ ملا اختر منصور کو امیر المومنین کا خطاب حاصل ہو گا یا نہیں' طالبان کے بعض دھڑے ملا اختر منصور کا سربراہ مقرر ہونے پر خوش نہیں اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ طالبان تحریک کہیں دھڑے بندی کا شکار نہ ہو جائے۔
طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کو 19سال قبل افغان صوبے قندھار میں 2000 کے قریب علماء کرام کی جانب سے مشترکہ طور پر امیر المومنین کا خطاب دیا گیا تھا۔ اختر محمد منصور نے ہی طالبان کے حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر طالبان مختلف دھڑے بندی کا شکار ہو جاتے اور ان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں تو اس سے امن مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہے۔ملا اختر منصور دھیمے مزاج کے مالک سمجھے جاتے اور مذاکرات کے حامی بتائے جاتے ہیں جب کہ قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر نے مذاکرات کے دوسرے دور میں بھی شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔
یہ صورت حال کسی طرح بھی خوشگوار قرار نہیں دی جا سکتی' پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ خطے میں امن قائم ہو۔ بعض قوتیں طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں جن کی جانب پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ نے بھی واضح اشارہ کیا ہے اس لیے امن مذاکرات کامیاب بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ طالبان کے تمام دھڑوں کو اس میں شریک کیا جائے۔ کسی ایک دھڑے کی عدم شرکت سے مسائل پیدا ہوں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ ملا عمر کی ہلاکت کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال کے علاوہ طالبان کی جانب سے باقاعدہ طور پر کی جانے والی درخواست کے پیش نظر امن مذاکرات ملتوی کردیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا پاکستان اور دیگر دوست ممالک امید کرتے ہیں کہ طالبان قیادت امن مذاکرات کے عمل سے منسلک رہے گی تاکہ افغانستان میں دیرپا امن کی راہ ڈھونڈی جا سکے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ امن مذاکرات سبوتاژ کرنے کی خواہشمند قوتیں اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوں گی۔
افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے سات جولائی کو مری میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا جس میں طالبان کی جانب سے ملا عباس اخوند' عبداللطیف منصور اور حاجی ابراہیم حقانی نے شرکت کی تھی۔اب ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے اور ملا اختر منصور کے افغان طالبان کے نئے امیر منتخب ہونے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آئی ہے اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جو مذاکرات جمعے کو ہونے تھے وہ ملتوی کر دیے گئے ہیں ۔
جس کے بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ مذاکرات ملتوی کرنے کی درخواست طالبان قیادت نے خود کی تھی البتہ پاکستان دوسرے دور میں بھی سہولت کار کا کردار ادا کرے گا۔ اخباری خبروں کے مطابق طالبان کے اندر دھڑے بندی کے اشارے مل رہے ہیں۔
طالبان کا ایک سیاسی دفتر قطر میں قائم ہے' اس دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق کہا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں شریک نہیں ہوں گے اور نہ اسے اس مرحلے کے مذاکراتی عمل کا کوئی علم ہے۔ افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے ترجمان مولوی شہزاد شاہد نے یہ کہا ہے کہ آیندہ مذاکرات میں طالبان کے قطر دفتر کی نمایندگی ہونی چاہیے۔
افغان امور کے بعض ماہرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں متوقع دوسرے راؤنڈ کے آغاز کے موقع پر طالبان کے قطر دفتر کی جانب سے ایسے بیانات کا سامنے آنا قیام امن کی کوششوں کے لیے اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا۔ سات جولائی کو مری میں ہونے والے مذاکرات کے بعد گزشتہ روز طالبان کی رہبر شوریٰ نے ایک بیان جاری کیا جس میں مری میں ہونے والے مذاکرات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا لیکن اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ آیندہ مذاکرات کا اختیار صرف اور صرف سیاسی دفتر ہی کو حاصل ہو گا۔
بعض ذرایع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملا اختر منصور کو ابھی تک تمام طالبان گروپوں کی حمایت حاصل نہیں ہے جس اجلاس میں انھیں امیر منتخب کیا گیا اس میں تمام طالبان کمانڈرز موجود نہیں تھے' ملا عمر کا بیٹا ملا یعقوب بھی طالبان کے امیر کا امیدوار تھا تاہم اکثریت نے اختر محمد منصور کو اپنا امیر منتخب کیا۔ بعض ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ طالبان دھڑوں کے درمیان اختلافات کے باعث یہ واضح نہیں ہو رہا کہ ملا اختر منصور کو امیر المومنین کا خطاب حاصل ہو گا یا نہیں' طالبان کے بعض دھڑے ملا اختر منصور کا سربراہ مقرر ہونے پر خوش نہیں اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ طالبان تحریک کہیں دھڑے بندی کا شکار نہ ہو جائے۔
طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کو 19سال قبل افغان صوبے قندھار میں 2000 کے قریب علماء کرام کی جانب سے مشترکہ طور پر امیر المومنین کا خطاب دیا گیا تھا۔ اختر محمد منصور نے ہی طالبان کے حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر طالبان مختلف دھڑے بندی کا شکار ہو جاتے اور ان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں تو اس سے امن مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہے۔ملا اختر منصور دھیمے مزاج کے مالک سمجھے جاتے اور مذاکرات کے حامی بتائے جاتے ہیں جب کہ قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر نے مذاکرات کے دوسرے دور میں بھی شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔
یہ صورت حال کسی طرح بھی خوشگوار قرار نہیں دی جا سکتی' پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ خطے میں امن قائم ہو۔ بعض قوتیں طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں جن کی جانب پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ نے بھی واضح اشارہ کیا ہے اس لیے امن مذاکرات کامیاب بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ طالبان کے تمام دھڑوں کو اس میں شریک کیا جائے۔ کسی ایک دھڑے کی عدم شرکت سے مسائل پیدا ہوں گے۔