موسمیاتی تبدیلی مستقل بچاؤ مہم کی ضرورت

موسمیاتی تبدیلی،گلوبل وارمنگ اورگرمی کی حالیہ ہولناک لہرنےسائنسدانوں سمیت حکومتی کرتادھرتاؤں کی آنکھیں کھول دی ہیں


Editorial August 01, 2015
سبزہ اور پودوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، عوامی مقامات پرکول سینٹر تعمیر کیے جائیں، گرمی سے متاثر ہونیوالے علاقوں میں ہیٹ اور ہیلتھ الرٹ وارننگ سسٹم بنایا جائے۔ فوٹو: فائل

کراچی میں گزشتہ دنوں گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کی وجوہات جاننے کے لیے ماہرین پر مشتمل قائم کمیٹی نے تحقیقاتی رپورٹ اور سفارشات وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ کو پیش کر دی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ اور گرمی کی حالیہ ہولناک لہر نے سائنسدانوں سمیت حکومتی کرتا دھرتاؤں کی آنکھیں کھول دی ہیں اور سیلاب، سمندری طوفان، سونامی، قحط اور پانی و بجلی کی کمیابی کے باعث دنیا کو ایک ہولناک ماحولیاتی بحران بلکہ تباہی کا سامنا ہے جس میں ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا بھر کے ریاستی اور حکومتی سسٹم کی اجتماعی بے حسی کا بھی عمل دخل ہے۔

آج پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشئر پگھل رہے ہیں، ابلتے دریاؤں کے سامنے شہر و دیہات کے ان فطری راستوں پر صنعتی، تعمیراتی اور کمرشل رکاوٹیں کھڑی ہیں، گرین ہاؤس گیسز کا زہر پھیل رہا ہے، ادھر بھارت خود موسمیاتی اور ماحولیاتی تباہ کاریوں میں الجھا ہوا ہے، بھارتی حکام نے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج پر خصوصی رپورٹ تیار کروائی ہے جس میں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہنگامی پلان کی تیاری کا کہا گیا ہے۔

سچ پوچھئے تو ''نام نہاد شائنگ انڈیا'' بھوک، بیماری، پسماندگی اور عوام کے لیے اچھی زندگی اور خوشگوار آب و ہوا کو ترس رہا ہے، مگر اس کے باوجود وہ پاکستان دشمنی میں مون سون بارشوں کے ساتھ دریائے ستلج کا لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ رہا ہے،۔افسوس کہ متعلقہ محکموں کی ناتدبیریوں اور افسرانہ تساہل پر جوابدہی کا کوئی میکنزم نہیں، کراچی سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گرمی کی شدید لہر کی اصل وجہ گلوبل وارمنگ کے باعث موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات تھے۔

انسانی جانوں کے ضیاع کی بنیادی وجہ وہاں کے لوگوں میں گرمی کی شدت کو برداشت کرنے کی عادت اور صلاحیت نہ ہونا تھی، عموماً گرمی کی لہر تین سے پانچ دنوں پر محیط ہوتی ہے جس دوران موسم شدید گرم اور مرطوب ہوتا ہے، کراچی میں گرمی کی شدید لہر کے دوران عموماً درجہ حرارت 45ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا لیکن اس دوران ہوا کا کم دباؤ، ہوا کی رفتار میں کمی اور نمی کے تناسب میں اضافہ کے باعث ہیٹ انڈیکس تقریباً 66 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا اسی وجہ سے لوگوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا رہا۔ رپورٹ میں سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائے۔

تعلیمی نصاب میں مضامین شامل کیے جائیں، سبزہ اور پودوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، عوامی مقامات پرکول سینٹر تعمیر کیے جائیں، گرمی سے متاثر ہونیوالے علاقوں میں ہیٹ اور ہیلتھ الرٹ وارننگ سسٹم بنایا جائے۔ برطانوی اخبار ''گارجین''نے 8موسمیاتی خطرات کا حوالہ دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی 1970ء کی رپورٹ کے مطابق اکیسویں صدی کے پہلے عشرہ نے 3496 قدری آفات کے ہولناک مناظر دیکھے،جو70ء کی دہائی سے5 گنا زیادہ سیلاب، سمندری طوفان اور قحط کی بربادیوں سے عبارت تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیوٹو پروٹوکول سے تجدید عہد کیوں نہیں ہوا؟ اس پر جن ممالک نے دستخط نہیں کیے ان کی ماحول دشمنی کیوں نظر انداز کی جا رہی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں