مینڈیٹ
غور سے دیکھا جائے مینڈیٹ پاکستان کے تاریخی اعتبار سے سامراج سے ٹکر میں رہا۔
یوں تو 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس مینڈیٹ تو تھا مگر اتنا نہ تھا ۔ یہ تو امریکی سفیر بھی اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ جب نتائج آنا شروع ہوئے تو بھٹو پریشان ہونا شروع ہوئے کیونکہ شاہ کے وفاداروں نے شاہ سے بھی زیادہ وفاداری دکھا دی اور یوں بھٹو صاحب دو تہائی اکثریت سے ایوان عامہ میں پہنچ گئے۔
بھٹو نے 73 کا آئین دیا، کیا کیا نہ دیا، مگر اتنی بھاری اکثریت سے وہ کبھی بھی نہ جیتتے۔ بھٹو صاحب کے سرکاری مینڈیٹ میں ڈینٹ تھا وہ حقیقت کا عکاس نہ تھا تو دوسری طرف PNAتحریک میں ڈالر آگیا تھا۔ 1973 میں چلی کے صدر کو بھی CIA نے فوجی انقلاب کے ذریعے رخصت کیا، یہ وہ زمانے تھے جب سرد جنگ اپنے بھرپور جوبن میں تھی۔ 1975 میں بھی سوویت نواز شیخ مجیب کو CIAنے چلتا کیا۔
بھٹو نے پاکستان کو جو ایٹمی پروگرام دیا، بہت حد تک عربوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، وہ ایلندے یا شیخ مجیب کی طرح سوویت نواز تو نہ تھا مگر امریکا نوازی سے اس ملک کو آہستہ آہستہ علیحدہ کرنا چاہتا تھا اور اس کی قیمت خود اس کے چہیتے جنرلوں کے ذریعے امریکا نے لی تھی۔
غور سے دیکھا جائے مینڈیٹ پاکستان کے تاریخی اعتبار سے سامراج سے ٹکر میں رہا۔ تین قوتیں تھیں۔ مینڈیٹ، سامراج اور اسٹیبلشمنٹ۔ اور پھر اب کے بار سامراج ٹوٹ چکا ہے تو ساتھ دنیا دوبارہ bipolarہوتی جا رہی ہے۔ چائنا دنیا کی بڑی طاقت ابھر کے سامنے آرہا ہے جس کے تعلقات پاکستان سے بہت اچھے ہیں اور آج کل پاک چائنا راہداری کے حوالے سے اس ملک کے لیے نئی راہیں کھل رہی ہیں۔
لیکن اس ملک میں مینڈیٹ اور اسٹیبلشمنٹ اب بھی دو بڑی حقیقتیں ہیں۔ CIAحکومتیں گرانے اور بنانے کے حوالے سے اب تاریخ ہوئی لیکن پاکستان پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے امریکا و یورپی یونین اپنا اثر اب بھی رکھتے ہیں۔
امریکا اور یورپ کا کردار وسیع تناظر میں آج کل مثبت ہے۔ وہ پاکستان کو sustainable اور مہذب ریاست کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ افغان جہاد کے زمانے کی طرح فرنٹ لائن ریاست کے روپ میں، یہی وجہ تھی Kerry Lugar ایکٹ بھی امریکی پارلیمنٹ نے پاس کیا کہ اپنی امداد کو جمہوریت سے مشروط کردیا۔
جس کی وجہ سے پاکستان میں 1977 کے بعد پہلی مرتبہ جمہوری دور نے پانچ سال پورے کیے اور دوسرا دور 5سال پورے کرتے ہوئے بڑی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ چین کو پاکستان میں جمہوریت سے اتنی دلچسپی نہیں کیونکہ چین میں خود جمہوریت نہیں مگر پوری دنیا جس میں چین بھی آتا ہے وہ پاکستان کو ایک ذمے دار ریاست کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں بالخصوص مذہبی رواداری کے حوالے سے۔
پاکستان کو مذہبی روایت میں ملبوس آج بھی اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے وہ ہے سعودی عرب، جس طرح NGOپر الزام ہے کہ وہ مغربی دنیا کے مفادات کے اس ملک میں ترجمانی کرتی ہیں اسی طرح بہت تیزی سے بڑھتے ہوئے بعض مدارس کو سعودی عرب سے پیسے آتے ہیں۔ پاکستان کو اگر کل سامراج نے اپنے اس خطے میں حد کے حاصلات کے لیے منفی طریقے سے استعمال کیا اسی طرح آج بھی سعودی عرب ایران سے اپنی سرد جنگ میں پاکستان کو میدان جنگ بنا بیٹھا ہے اور یقینا ایران بھی اس کے جواب میں ہماری زمین کو استعمال کرتا ہوگا۔
لیکن بھٹو کے مینڈیٹ میں اور آج کے مینڈیٹ میں فرق بھی کل کی اسٹیبلشمنٹ اور آج کی اسٹیبلشمنٹ میں بھی فرق ہے۔ ان لوگوں کو نہ مینڈیٹ نے ماضی میں اچھی حکمرانی دی نہ آمریتوں نے۔ اور بری حکمرانی نے آج پاکستان کے لیے یونان جیسا بحران دہلیز پہ لا کے کھڑا کردیا ہے۔
آج کل مینڈیٹ میں بہت ہی ملاوٹ ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ 728 پیراگراف میں کہتی ہے کہ 2008 میں مسلم لیگ کو کل پڑے ووٹوں میں سے 44 فیصد ووٹ پڑے اور 2013 میں 54 فیصد۔ عمران خان کو 78 لاکھ پڑے تو میاں صاحب کی پارٹی کو ایک کروڑ انتالیس لاکھ۔ کمیشن اس حقیقت کو اس طرح imageکرتی ہے کہ پھر بھی میاں صاحب جیت رہے تھے۔ وہ اس system کو دراصل پٹڑی سے اترتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتیں۔
مگر وہ کون سے گل تھے جو خادم اعلیٰ نے پنجاب میں کھلائے تھے کہ اتنے مقبول تھے عوام میں؟ دراصل کمیشن پنجاب میں دھاندلی کے امکان کو بالکل مانتا ہے تو یوں کہیے کہ اگرچہ پنجاب میں ECPدوسرے صوبوں کی طرح طریقہ کار مروج رکھتا کہ عمران خان کے ووٹ 78 لاکھ نہیں 90 لاکھ تو ہوئے اور میاں صاحب کی پارٹی کے ووٹ ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ نہیں ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ہوئے۔
اس طرح عمران خان قومی اسمبلی میں 28 نشستوں سے نہیں قومی اسمبلی میں 48 نشستوں سے تو پہنچے۔ کیونکہ پیراگراف نمبر 701 میں خود کمیشن کا کہنا ہے کہ ''پنجاب میں ECPبالکل ہی ایک دوسرے پلان کے تحت چل رہا تھا باقی ماندہ ECPکے تناظر میں۔''
وہ 705 پیراگراف میں کہتا ہے کہ ''پنجاب کا الیکشن کمیشن مرکزی ہدایات سے مستثنیٰ تھا۔وہ پنجاب میں نااہلیت کا مجموعہ تھا۔اور پھر ان نتائج کو کچھ اس طرح سے رکھا گیا جس سے شواہد مٹ گئے۔'' دھاندلی آج سے نہیں ، ہمارے الیکشن میں دھاندلی ازل سے شامل ہے اور ایسے ٹوٹے پھوٹے ہوئے مینڈیٹ پر آئی ہوئی سول قیادت کو اسٹیبلشمنٹ بڑی آسانی سے اپنے جوتوں کے نیچے بٹھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
سندھ کے اندر خود جاگیرداری نظام دھاندلی کا مرتکب ہے۔ وہ اپنے مزارعوں کو غلام بنا کے رکھتے ہیں اور غلام کبھی بھی ووٹ نہیں دیا کرتے۔
خیبرپختونخوا کے بہت سے علاقوں میں عورتوں کو پولنگ اسٹیشن تک آنے ہی نہیں دیا جاتا، کیا یہ دھاندلی نہیں ہے اور جب طالبان سیکولر جماعتوں کے جلوس کو بموں سے اڑاتے اور دھمکی دیا کرتے تھے جس سے عمران خان کی پارٹی میاں صاحب کی پارٹی مستثنیٰ تھی کیا وہ دھاندلی نہیں تھی؟ کیا کراچی کی مڈل کلاس بغیر خوف و خطر ووٹ دیتی ہے؟اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایسا سول لیڈر چاہیے۔
جس کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات کی تلوار لٹکتی رہے۔ جب جنرل مشرف کو میاں صاحب نے بھاری مینڈیٹ کے گھمنڈ میں رخصت کیا تھا اور جب ان کا تختہ الٹ دیا گیا تو لوگ سڑکوں پر نہیں آئے اور یہ بات خود اس بات کی تصدیق ہے ان کا بھاری مینڈیٹ درست نہیں ہے۔ اور جب اس مینڈیٹ کے بل بوتے پر انھوں نے جنرل مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ کیا تو لے کر گئے عاصمہ جہانگیر تک ۔
انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی تشریح میرے نزدیک کچھ اس طرح ہے اس بار تو ٹھیک ہے مگر 2018 والے الیکشن میں اس طرح نہ ہو۔ اس لیے کورٹ کی اس رپورٹ نے پاکستان کی ارتقا کی منزل کو ایک نئے موڑ پر لاکے کھڑا کردیا ہے۔
اور اگر اس کے برعکس رپورٹ یہ کہتی کہ ہاں دھاندلی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ کہ اس کے پیچھے ایک ذہن کام کر رہا تھا۔ ٹھیک ہے یہ رپورٹ کہتی ہے کہ رپورٹ کورٹ کے اپنوں کی طرح صادر نہیں ہوا کرتیں بلکہ ہدایات کے زمرے میں آتی ہیں لیکن آرڈیننس 2015 VII ایک معاہدے کے پس منظر میں آیا، جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ پھر پورے پاکستان میں دوبارہ انتخابات ہوں گے ، تو ایسے میں یہ رپورٹ 58(2)(b) کا قبر سے باہر نکل کر آنے کے برابر تھا۔ اور تاریخ پھر اس عدالت کو سیاہ حروف میں رقم کرتی تو خود عمران خان کو بھی۔
لہٰذا آگے بڑھو، مینڈیٹ کو اور شفاف کرو، اور انکوائری کمیشن کی اس رپورٹ کو اپنے وجود کا حصہ بناتے ہوئے ECP کے نظام کو اور بہتر کرنے کی جدوجہد کرو۔ اس لیے عمران خان اب آیندہ تاریخ میں کچھ اس طرح سے رقم ہوں گے کہ اس شخص کے مرہون منت الیکشن کا نظام شفاف ہوا اور مینڈیٹ بالآخر خود اپنے مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔