انٹرنیشنل کرکٹ انٹرٹینمنٹ

شاید وقت آگیا ہے کہ آئی سی سی کو پیسہ اور کرکٹ میں سے ایک کو چننا ہوگا۔


جواد حسین August 02, 2015
پیسہ کمانے کی یہ دوڑ شاید آئی سی سی کو تو بہت امیر کردے لیکن اس کے برعکس کرکٹ کا کھیل تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ فوٹو:فائل

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل گزشتہ کچھ برسوں سے ریسلنگ کی تنظیم ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کے نقش قدم پر چلتی دکھائی دے رہی ہے، جس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر کرپشن کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ اس لحاظ سے آئی سی سی سے بہتر دکھائی دیتی ہے کہ وہ کم ازکم اپنے شائقین سے جھوٹ بولے بنا ریسلنگ کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر دنیا بھر میں مارکیٹ کرتی ہے جس کا نتیجہ ان کی عالمی سطح پر پزیرائی کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ای اس حد تک عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کہ کمپنی نے نہ صرف اپنا چینل لانچ کردیا ہے بلکہ ''پے پر ویو'' کی بنیاد پر بے پناہ دولت بھی کما رہا ہے۔

اس کے برعکس، آئی سی سی پیسہ کمانے کی دوڑ میں اس حد تک پاگل ہوچکا ہے کہ کرکٹ کی عالمی سطح پر پذیرائی کا احساس بھی یکسر ختم ہوچکا ہے۔ پہلے تو آئی سی سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو کرکٹ کے سب سے بڑے میلے سے نکال باہر کیا اور اب اس کی نظر دو طرفہ کرکٹ سیریز کے خاتمہ پر مرکوز ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے اور وہ ہے پیسہ۔ آئی سی سی اب صرف اسی سمت دیکھنا چاہتا ہے جہاں اسے پیسہ نظر آتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو رچرڈسن کا حالیہ بیان ہے جس میں انہوں نے بائی لیٹرل یعنی دو طرفہ کرکٹ سیریز کے مستقبل کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی تمام سیریز جن میں بھارت شامل ہو اور ایشز سیریز کے علاوہ باقی تمام سیریز اسپانسرز حاصل کرنے میں اس حد تک ناکام ہوچکی ہیں کہ مستقبل میں ان کا انعقاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

یہ تو خیر رچرڈسن صاحب کا کہنا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرکٹ ہمیشہ سے نفع اور نقصان کی بنیاد پر چل رہی تھی؟ کیا کیری پیکر کے زمانے سے پہلے کرکٹرز بھوکے ننگے ہوتے تھے۔ جواب یقیناً نفی میں ہے، کیونکہ کرکٹ ہمیشہ سے ایک اسپورٹس کے طور پر دنیا بھر میں مانا جاتا ہے اور گزشتہ ایک صدی سے اس کھیل نے دنیا میں کروڑوں نئے گرویدہ بنائے ہیں۔ عالمی مسابقت اور غیر یقینی معاشی مستقبل کے اس دور میں کرکٹ کے معاملات چلانا کافی مشکل امر معلوم ہوتا ہے لیکن ایسا تب سے ہوا ہے جب سے صرف تین کرکٹ بورڈز نے دنیائے کرکٹ کو یرغمال بنا لیا ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ، کرکٹ آسٹریلیا اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے نزدیک پیسہ ہی ہر سوال کا جواب ہے لیکن اس سے کرکٹ کے کھیل کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے اس کا اندازہ شاید وہ لگانا ہی نہیں چاہتے۔



گزشتہ دہائی میں کرکٹ میں ایک نئے ٹرینڈ ''ٹوینٹی ٹوینٹی کرکٹ'' کی بنیاد رکھی گئی اور بھارت سمیت آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش، سری لنکا اور انگلینڈ نے اپنے مقامی ٹورنامنٹس کو عالمی شکل دے ڈالی۔ خاص طور پر بھارت، آسٹریلیا، اور ویسٹ انڈیز نے دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کو خطیر معاوضہ دے کر اپنی مقامی ٹیموں کا حصہ بنایا اور یوں ان ٹیموں کو کئی ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کی ٹیموں سے بھی بہتربنا دیا، جس کا خمیازہ کئی ممالک کو یوں بھگتنا پڑا کہ ان کے بہترین کھلاڑی ملکی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھتے پائے گئے۔ ان میں کئی کھلاڑی شامل ہیں جن میں ویسٹ انڈیز کے کرس گیل اور سری لنکا کے لیستھ ملنگا قابل ذکر ہیں۔ اب آئی سی سی کا خیال ہے کہ دو طرفہ کرکٹ کو بھی اب ایک لیگ سسٹم کے طور پر چلایا جائے تاکہ ان مقابلوں سے بھی پیسہ کمایا جائے۔ پیسہ کمانے کی یہ دوڑ شاید آئی سی سی کو تو بہت امیر کردے لیکن اس کے برعکس کرکٹ کا کھیل تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔

آئی سی سی کے لیے شاید فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ انہیں کرکٹ کا مفاد چاہیئے یا پیسہ، یہ فیصلہ تو اب وقت ہی کریگا لیکن میری ناقص رائے میں آئی سی سی کو کرکٹ کے پھیلاؤ پر کام کرنا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ ایسوسی ایٹ ممالک کو دھارے کا حصہ بنانا چاہیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ کی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے یا تو اینٹی کرپشن یونٹ کو مکمل بااختیار ادارہ بنا دینا چاہیئے یا پھر ٹی ٹوینٹی کرکٹ کی مختلف لیگوں پر پابندی لگا دینی چاہئیے۔ ٹیسٹ کرکٹ ہی کھیل کی اصل روح ہے اور اس کی رعنائی دو طرفہ کرکٹ دوروں پر منحصر ہے لہٰذا ان مقابلوں کو رد نہیں کرنا چاہئیے۔ اگر آئی سی سی ان میں سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر ہے تو براہ مہربانی تنظیم کا نام بدل کر انٹرنیشنل کرکٹ انٹرٹینمنٹ رکھ لے۔

[poll id="576"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں