جہاد جاری رہے گااور مذاکرات شریعت کے مطابق ہوں گے ملا اختر منصور

ہمارا مقصد اور نعرہ اسلامی نظام کا نفاذ ہے، طالبان متحد رہیں، پہلا آڈیو پیغام جاری


ویب ڈیسک August 01, 2015
شیخ رحمت اللہ اور سراج الدین حقانی میرے نائب ہیں، ملا اختر منصور. فوٹو: فائل

افغان طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے ہفتے کو جاری ہونے والے اپنے پہلے آڈیو پیغام میں گروپ میں اتحاد بنائے رکھنے کی اپیل کر دی جب کہ ان کا یہ پیغام ایسے وقت پر سامنے آیا جب ملا عمر کے انتقال کے بعد گروپ میں دراڑیں پڑنے کی قیاس آرئیاں کی جا رہی ہیں۔



طالبان گروپ کی جانب سے جاری پیغام میں ملا منصور نے کہا کہ ہمیں اتحاد برقرار رکھنے کیلیے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دھڑے بندی سے صرف ہمارے دشمنوں کو فائدہ ہو گا اور ہماری مشکلات بڑھیں گی۔ 33منٹ پر مشتمل پیغام میں نئے طالبان سربراہ نے کہا کہ ان کی لڑائی جاری رہے گی۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو طالبان تحریک سے متعلق پھیلنے والی افواہوں اور غیرملکی پروپیگنڈے پر کان نہ دھرنے کا بھی مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کا مقصد اور نعرہ شریعت اور اسلامی نظام کا نفاذ ہے اور ان مقاصد کے حصول تک جہاد جاری رہے گا۔ ملا منصور کا کہنا تھا کہ جنگ یا امن بات چیت، یہ تمام فیصلے اسلامی قوانین کی روشنی میں کیے جائیں گے۔ دریں اثنا ملا منصور کو تحریک کا سربراہ بنائے جانے پر ایسی خبریں بھی منظرعام پر آئیں کہ اس فیصلے پر طالبان کے بعض رہنما بشمول مرحوم سربراہ ملا عمر کے بیٹے اور بھائی متفق نہیں۔



غیر ملکی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ملا منصور کی تقرری شوریٰ (سپریم کونسل ) کی مشاورت کے بغیر کی گئی اور تقرری کیلیے صرف چند کمانڈرز سے ہی مشاورت کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق طالبان شوریٰ کے سینئر رکن ملا عبدالمنان نیازی کا کہنا ہے کہ تقرری کا فیصلہ صرف4 ، 5 کمانڈرز سے مشاورت کے بعد کیا گیا۔ ملا نیازی نے مزید کہا کہ ہمارے ساتھیوں نے 20سال تک قربانیاں دیں، ہم جانتے ہیں کہ کون شخص ہو سکتا ہے جو افغان روایات اور اسلامی اقدار کا علم رکھتا ہو، ملا منصور اختر نے ہماری تحریک میں کسی بھی قسم کا بڑا حصہ نہیں ڈالا۔ الجزیرہ کا دعویٰ ہے کہ ملا نیازی کا تعلق طالبان کی کوئٹہ شوریٰ سے ہے۔ ادھر بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملا عمر کی موت کے بعد تحریک کے نئے سربراہ ملا اختر منصور کی تقرری طالبان سپریم کونسل کی مشاورت کے بغیر کی گئی ہے۔ طالبان کا ایک گروہ ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب کو تحریک کا سربراہ مقرر کرنا چاہتا ہے۔



رپورٹ کے مطابق طالبان ترجمان ملا عبدالمنان نیازی نے کہا کہ ملا منصور کو منتخب کرنیوالوں نے قواعد کے مطابق فیصلہ نہیں کیا، اسلامی قوانین کے تحت جب امیر فوت ہو جاتا ہے تو شوریٰ کا اجلاس بلایا جاتا ہے اور پھر نیا امیر مقرر کیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ طالبان اپنے شوریٰ اجلاس میں نئے سربراہ کا انتخاب کرے گی۔ بی بی سی کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے جب تحریک طالبان کی قیادت میں اختلافات منظرعام پر آئے ہیں اور ملا عمر کے بعد تنظیم کیلیے نئے امیر کا انتخاب مشکل ہو گیا ہے۔ ادھر ملا منصور کے حامیوں نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ عسکری کمانڈر قیوم ذاکر ان کی تقرری کیخلاف ہیں۔ قیوم ذاکر گوانتاناموبے جیل میں قید تھے اور افغان صوبے ہلمند میں اْن کا کنٹرول ہے۔ مستقبل میں وہ طالبان کی قیادت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔



دوسری جانب افغان طالبان کے نئے امیر ملا اختر منصور کے تقرر پر اختلاقات شدید ہو گئے۔ ملا اختر منصور کے مخالف طالبان دھڑے نے تحریک کا نیا سربراہ منتخب کرنے کیلیے شوریٰ یا کونسل قائم کی ہے۔ طاقتور رہبری کونسل کے ایک سینئر رکن نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کونسل ملا اختر منصور کو تحریک کی قیادت چھوڑنے کیلئے کچھ وقت دے گی اور اگر انہوں نے قیادت چھوڑنے سے انکار کیا تو کونسل نئے سربراہ کا انتخاب کرے گی۔ ملا عمر نے اپنی زندگی کے دوران تحریک کو متحد رکھا تاہم انکی موت کی تصدیق کے بعد افغان طالبان کو اختلاقات کا سامنا ہے۔



ادھر ملا عمر کے خاندان نے بھی ملا اختر منصور کی حمایت کرنے سے انکار کیا ہے۔ ملا عمر کے خاندان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر طالبان رہنما متفقہ امیر منتخب کرنے میں ناکام رہے تو وہ کسی گروپ کی حمایت نہیں کریں گے۔ بیان میں کہ گیا کہ امیرالمومنین نے ہمیشہ اتحاد اور افہام و تفہیم کی خواہش ظاہر کی تھی اور وہ بڑی حد تک تحریک میں اتحاد کو برقرار رکھنے میں کامیاب بھی رہے۔ نئے امیر کا اتفاق رائے سے انتخابات ملا عمر کو خراچ عقیدت اور انکی خواہش کا احترام ہو گا۔ نیا امیر اتفاق رائے سے منتخب کیا جاتا ہے تو اس کی اطاعت کریں گے لیکن اگر طالبان رہنما اتحاد کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے تو ملا اختر منصور سمیت کسی کی حمایت نہیں کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں