ایشیا کی 100 جامعات اور پاکستان
آج کل ہمارے لیڈر پاکستان کے حوالے سے یہ فرما رہے ہیں کہ پاکستان ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے
آج کل ہمارے لیڈر پاکستان کے حوالے سے یہ فرما رہے ہیں کہ پاکستان ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے، اﷲ نے چاہا وہ وقت دور نہیں جب یقینا پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔ لیکن فی الحال ایسی صورت حال نہیں ہے، ضرب عضب کی کامیابی اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کامیابی کے راستوں کا نہ کہ پتہ دیں گے بلکہ امن و خوشحالی کے ڈنکے ڈنکے دور دور تک بجیں گے۔ (انشاء اﷲ)
حال ہی میں ایک خبر شایع ہوئی تھی کہ ایشیا کی سو (100) بہترین جامعات میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی پہلے، سنگا پور دوسرے، ہانگ کانگ تیسرے نمبر پر، سعودیہ، ایران، لبنان اور بھارت سمیت چین کی سب سے زیادہ جامعات شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں 170 جامعات میں سے 97 سرکاری ادارے 65 بلین روپے کے سالانہ بجٹ کے باوجود بہترین جامعات میں شامل نہیں۔ 24 یونی ورسٹیاں وفاقی حکومت کے تحت اور 24 ہی پنجاب حکومت، 19 سندھ حکومت اور 19 خیبر پختونخوا،6 بلوچستان اور 5 آزاد کشمیر کے زیر انتظام ہیں۔
یہ درجہ بندی عالمی اور معتبر ادارے ''ٹائمز ہائر ایجوکیشن'' کی جانب سے عالمی سطح پر جامعات کی درجہ بندی کے لیے رائج گلوبل گولڈ اسٹینڈرڈ فار اکیڈمک کے تحت کی گئی ہے، جس میں کارکردگی کے طور پر تدریسی ماحول، تحقیق کا معیار، تحقیقی اثرات، صنعتی روابط اور آمدنی کے علاوہ دیگر اشاریوں سے مدد حاصل کی گئی ہے۔
اول، دوئم اور سوئم درجنوں پر آنے والی یونی ورسٹیوں کے علاوہ جاپان کی 19، بھارت کی 9، سعودی عرب کی 2 ، ایران کی 3، اسرائیل کی چار جب کہ چین کی سب سے زیادہ یعنی 21 جامعات شامل ہیں۔
یقینا اس خبر نے محب وطن پاکستانیوں کو بے حد مایوس کیا ہوگا، اس کی وجہ ہمارے ملک پاکستان میں بھی بین الاقوامی معیار کی جامعات موجود ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ہمارا ملک کسی سے کم نہیں، بعض یونیورسٹیوں کا شمار بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ جہاں (BBA اور MBA) بزنس کے حوالے سے تعلیم سے ہمکنارکیا جاتا ہے، کئی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جو اپنے اعلیٰ معیار کی بدولت اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہیں۔
یہ بات یقیناً افسوس کی ہے کہ اس درجہ بندی کے بعد پاکستانی حکام اور کسی بھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن سے اس نا انصافی کا جواب طلب، کسی قسم کا احتجاج منظر عام پر نہیں آیا، ہوسکتا ہے میری معلومات کے برعکس خاموش احتجاج، تحریری طور پر ہوا ہو، لیکن اس قسم کی خبریں منظر عام پر نہیں آسکیں، میں نے کئی یونیورسٹیز کے پروفیسر صاحبان سے اس سلسلے میں بات کی لیکن وہ بھی لا علم تھے ہماری یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ دیار غیر میں ملازمت حاصل کرتے ہیں، مزید تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں، بیرون ملک سے بھی طلبا و طالبات تعلیم حاصل کرنے پاکستان آتے ہیں۔
پاکستان کی جامعات کی اہمیت تعلیمی اعتبار سے مسلم ہے۔ یہاں ہر شعبے میں طلبہ نے نام کمایا ہے۔ ارفع کریم اس ہی ملک کی طالبہ تھیں جنھوں نے چھوٹی سی عمر میں اعلیٰ و ارفع مقام پایا، اولیول کے طالب علم بھی دنیا بھر میں اپنی محنت و مشقت کی بدولت اول نمبر پر آئے۔ گنیز بک پاکستانی طلبہ اور پاکستانیوں کے نام ان کے کارناموں کی بدولت درج ہیں۔
ذرا دور جائیں تو زمانہ ماضی کے طالب علم جو اپنے کارناموں کی بدولت سایہ شجر دار کی مانند ہیں، دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں، ان ھی میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا پوری دنیا میں ڈنکا بجتا ہے، گردوں کے امراض کے ماہر ہیں، ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان جن پر پاکستانی جتنا بھی ناز کریں کم ہے، آج ہم ان کی کاوشوں اور ذہانت و فطانت کی بدولت ہی ایٹمی طاقت ہیں، بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی اپنے ملک سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر گئے، تعلیمی میدان میں پاکستان کو شامل نہ کرنا سازش ہے یا صرف اور صرف اسے دہشت گرد ملک ثابت کرنے کی کوشش؟ اس بات سے سب واقف ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔
امن کی خواہش کے لیے پڑوسی ملکوں سے بات کی جاتی ہے، مذاکرات کیے جاتے ہیں۔ انھیں بھی امن وآشتی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا رویہ درست نہیں ہے، جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے، سانحہ سقوطِ پاکستان کا بھی ذمے دار ہے اور اب بچے کچھے پاکستان کی سالمیت کو بھی کمزور کرنے کے درپے ہے، لیکن الحمد ﷲ ہماری افواج پاکستان اپنے ملک سے اپنے لوگوں سے مخلص ہے، وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے سفر شہادت کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں لیکن ملک کی بقا پر آنچ نہیں آنے دیتے ہیں۔
اﷲ کی مدد پاکستانیوں کے ساتھ ہے یہ مدد ہی تو ہے کہ جنرل راحیل شریف جیسے بہادر، راست گو، ایمان کے جذبے سے سرشار، محب اسلام اور محب وطن جرنیل کو پاکستان کے استحکام کے لیے سپہ سالار مقرر کردیاگیا ہے۔
مذہب اسلام میں تعلیم کی بے حد اہمیت ہے، پہلی وحی کے الفاظ بھی ''اقرأ باسم'' ہے۔ ابتدا ہی پڑھنے سے ہوئی ہے اور ہمارا رب خود فرما رہا ہے، پڑھ اپنے رب کے نام سے، جس نے سب کو پیدا کیا اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور پھر تعلیم کا سلسلہ مہد سے لحد تک جاری رہتا ہے، ہر لمحہ انسان کچھ نہ کچھ سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔
اگر بچے کی تعلیم و تربیت اچھی ہوئی تب یہی بچہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، مولانا رومیؒ، بایزید بسطامیؒ، بوقلندر اور حضرت لعل شہباز قلندرؒ ، بابا بلھے شاہ اور ذکریا ملتانیؒ کے روپ میں سامنے آتا ہے، تو کبھی قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا محمد علی بن کر دنیا کے اسٹیج پر نمودار ہوتا ہے اور اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت لوگوں کے دل جیت لیتا ہے، تاریخ میں امر ہوجاتا ہے۔
پاکستان کی ترقی کا راز اسی بات میں مضمر ہے کہ ہر شخص اپنی ذات اور اپنے ادارے سے مخلص ہو، ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک مضبوط ہوگا۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ کام کرنے والے اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے ہر لمحہ کوشاں رہیں تو دوسروں کو شکایت ہرگز نہیں ہوگی لیکن صد افسوس کہ پاکستان کو اپنا ملک نہیں سمجھا گیا، اسی وجہ سے اس کی تکہ بوٹی کرنے میں اہل اقتدار آگے آگے رہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جارہا ہے لیکن سب خاموش ہیں۔ ہندوستان آئے دن زیادتی کرتا ہے لیکن حکمران احتجاج کرنا تو دور کی بات ہے، بیان تک نہیں دیتے ہیں۔ مودی سرکار برسات کے موسم میں پانی چھوڑدیتی ہے ''کالا باغ ڈیم'' کی مخالف ہے، مخالف تو سندھ حکومت بھی ہے لیکن ہمارے وزیراعظم آموں کا تحفہ بھیج رہے ہیں۔ دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا جاتا ہے وہ شیر بنا رہتا ہے، بکری بنانے کے لیے یہ عمل ضروری ہے کہ اسے اس کی اوقات بتا دی جائے۔
اگر ہندوستان ایٹمی طاقت ہے تو ہم بھی کسی سے کم نہیں، بھلا خوف کس بات کا؟ اگر ڈرنا ہے تو صرف اور صرف اس سے جس سے ڈرنا چاہیے اور جوکل جہانوں کا مالک و خالق ہے،گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر شیرکی ایک دن کی زندگی ہے۔