ہر پانچ منٹ میں ایک قتل

پاکستان انڈیا کی جنگوں میں اتنے لوگ نہیں مرے جتنے لوگ اس قاتل نے مارے ہیں


انیس منصوری August 01, 2015
[email protected]

جو ہر پانچ منٹ بعد ایک پاکستانی کی جان لے لیتا ہے وہ ہمارا بڑا دشمن ہے یا پھر ہوٹلوں میں گھومنے والی چند عورتیں ہماری دشمن ہیں۔ ملا عمر کی ہلاکت ہمارے لیے بڑی خبر ہے یا پھر چند عورتیں۔ بھارت کی جارحیت اور الزام تراشیاں بڑا مسئلہ ہے یا پھر چند عورتیں ۔برسات اور سیلاب ہمارے لیے بڑا خطرہ ہے یا پھر چند عورتیں۔ یہ عورتیں ہی زیادہ اہم ہونگی اسی لیے تو سب چھوٹی موٹی خبروں کو چھوڑ کر اسمبلی کے اندر ان کا ہی ذکر ہوتا رہا ۔

جس کے خصوصی حکم بھی جاری ہوئے ۔ جن کے لیے خصوصی دھمکیاں بھی تیار ہوئیں اور جن کے لیے خصوصی بیانات بھی دیے گئے ۔ لیکن میرا سب سے بڑا مسئلہ وہ قاتل ہے جسے ہم نے خود پیدا کیا ہے ۔ وہ قاتل جو ہر پانچ منٹ میں ایک پاکستانی کی جان لے لیتا ہے ۔ کبھی سوچا ہے کہ وہ قاتل کون ہے ؟

مجھے بھی نہیں معلوم کہ منظم دھاندلی ہوئی یا نہیں ۔لیکن مجھ سمیت پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے جو منظم طور پر ہر پانچ منٹ بعد ایک پاکستانی کی جان لے لیتا ہے اور ہر 30 سیکنڈ بعد یہ ایشیا میں ایک انسان کو قتل کر دیتا ہے ۔ ایک خاموش قاتل ہے جس نے ہر دسویں پاکستانی کو اپنے نشانے پر لیا ہوا ہے ۔

پاکستان انڈیا کی جنگوں میں اتنے لوگ نہیں مرے جتنے لوگ اس قاتل نے مارے ہیں ۔ یہ کراچی میں ہونے والی دہشتگردی ، بھتے کی وارداتوں اور فطرے کی رقم لینے والوں سے زیادہ خطرناک ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس قاتل نے آپ کو اب تک نشانہ بنایا ہے یا نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ جس ایڈز کے مرض کو لوگ خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو اس نے قتل کیا ہے ۔ لیکن کسے فکر ہے جو اس قاتل سے ہمیں بچائے ؟ ابھی دو چار عورتیں اور روپوش ہیں۔ پہلے تین چار سال انھیں ڈھونڈ لے، اس کے بعد سوچیں گے کہ اب اس قاتل کو کیسے پکڑنا ہے ۔ جو انتہائی شاطر ہے ۔

یہ اتنا شاطر قاتل ہے کہ یہ اپنے ٹارگٹ کو معلوم ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ اس کا نشانہ لگا چکا ہے ۔ یہ ایک ایسا ہلکا زہر دیتا ہے جس کا اثر معلوم ہی نہیں ہوتا ۔ کچھ لوگوں کو اس کا دس سال بعد پتا چلتا ہے اور کئی بیچاروں کو تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انھیں کب زہر دیا گیا اور وہ کیسے اس زہر سے مرے ۔ لیکن یہ زہر براہ راست جگر پر اثر کرتا ہے ۔ شروع میں ایسا لگتا ہے جیسے موسم کا نزلہ ہے ۔

ہم جیسے جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو موسمی ہے اس لیے کوئی گھریلو ٹوٹکا ڈھونڈ لیا جائے ۔ پھر بخار ہوتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے معمول کی بات ہے ۔ اور کمزوری محسوس ہو تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شاید خون کا مسئلہ ہے ۔ لیکن یہ کسی کو نہیں چھوڑتا ۔ یہ ہماری جان لے کر رہتا ہے ۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر غریبوں کو معلوم بھی ہو جائے کہ اب انھیں قاتل زہر دے چکا ہے تو بھی ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ اس کا علاج کر سکیں اسی لیے تو ہر پانچ منٹ بعد پاکستان میں ایک شخص اس کا نشانہ بن جاتا ہے اور یہ قاتل اگلے مشن پر نکل جاتا ہے ۔ جہاں تک ہماری حکومتوں کا تعلق ہے کہ وہ اس سے بچنے کے لیے ہمیں دوا دیں تو اس کے لیے ٹائم چاہیے ہوتا ہے جو ہمارے پاس ہے نہیں کیونکہ ہمیں لڑکیاں (تتلیاں) بھی تو ڈھونڈنی ہے جو اسلام آباد میں فحاشی پھیلا رہی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی گرفتاریوں کے بعد اس قاتل کا بھی سراغ مل جائے۔لیکن بندہ پرور ! ہم اس قاتل کو کیسے ڈھونڈیں جسے ہم نے خود ہی بنایا ہے۔

جس کی پرورش ہم خود کرتے ہیں ۔ جسے ہم جان بوجھ کر دودھ پلاتے ہیں ۔ ہم کس کے ہاتھ پر اپنا لہو ڈھونڈیں جب ہم خود ہی اپنے بچوں کے قاتل ہیں ۔ ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ہی گناہوں کی سزا ہمیں ملتی ہے ۔بچپن میں ہمیں کہا جاتا تھا کہ گندگی کے ڈھیر کی طرف مت جاؤ وہاں بھوت ہوتا ہے ۔ اب ہمیں یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ واقعی یہ خطرناک قاتل گندگی کے ڈھیر میں ہوتا ہے۔وہیں پلتا ہے اور اسے ہم ہی پالتے ہیں کیونکہ گندگی ہم ہی تو پھیلاتے ہیں ۔ یہ ہماری رگوں میں اتر جاتا ہے ۔

ایسے ہی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بد روح داخل ہو جاتی ہے ۔ یہ ایسی بدروح ہے جو کسی جسم میں داخل ہو جائے تو پھر اس کے خون کے ایک ایک قطرے میں ہوتی ہے ۔ یہ خون کا ایک قطرہ کسی اور جسم میں چلا جائے تو اس کے اندر بسیرا کر لیتا ہے ۔ لیکن اس خون کو ایک جسم سے دوسرے جسم میں جانے سے کون روکے گا۔ یہی خون بکتا ہے۔ وہ جن کے خون سفید ہو چکے ہیں ۔؟وہ جن کے کپڑوں پر خوشبو لگی ہوتی ہے لیکن دل اتنے گندے ہوتے ہیں کہ اُن کی بدبو سے پورا معاشرہ خراب ہو چکا ہے۔ وہ ہمیں بچائینگے اس قاتل سے؟ جن کا سارا وقت چند عورتوں کی تلاش میں گزر رہا ہے ۔

بات ایک یا دو لوگوں کی نہیں ہے اس وقت پاکستان کی 10 فیصد آبادی اس قاتل کے رحم و کرم پر ہے یعنی تقریباً 2 کروڑ لوگ اس سے متاثر ہیں۔کوئی کیوں پوچھے گا کہ اس کی دوا کی رجسڑیشن میں کتنے ارب کا گھپلا ہوا۔ یہاں جب رمضان میں کھجور مہنگی ہو جاتی ہے اور گرمی میں پانی نایاب ہو جاتا ہے تو جب اس قاتل سے بچنے کے لیے دوا کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کیسے مہنگی ہو جاتی ہے ۔اس کو پکڑنیوالے بھی تو وہ ہی ادارے ہیں جو ''بے بی'' ایان علی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایسا نہیں کہ سب سو رہے ہیں ۔

اس قاتل سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت سے لے کر صوبائی حکومتوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوئی اور اربوں روپے کی دوا خریدی ہے ۔جن کی قیمت شاید کروڑوں میں بھی نہیں تھی۔ یہاں کروڑوں لوگوں کی زندگی کو داؤ پر لگا کر اربوں روپے کھا لیے جاتے ہیں ۔ ہم کیوں یہ ڈھونڈنے جائیں کہ ان کے بڑے بڑے پلازے کیسے بن چکے ہیں۔ ہم تو بس یہ ڈھونڈتے ہیں کہ اگر آپ کو کوئی مشکوک عورت اسلام آباد میں نظر آئے تو فورا اعلیٰ حکام کو بتائے کیونکہ ہم اگر اسے ڈھونڈ لینگے تو سارے مسئلے حل ہو جائینگے۔

لگتا ہے آپ تجسس کا شکار ہیں تو سُن لیجیے کہ یہ قاتل کون ہے ۔ یہ قاتل ہیپا ٹائیٹس کی شکل میں موجود ہے جس میں پاکستان کے تقریبا دو کروڑ لوگ مبتلا ہیں۔ جس کی دوا پر اربوں روپے کما لیے گئے ہیں ۔ جس سے پاکستان میں ہر پانچ منٹ بعد ایک شخص ہلاک ہو جاتا ہے ۔ آپ خود بتائیں کہ جس دوا کی دو کروڑ لوگوں کو ضرورت ہو وہ کتنی اہم ہو گی اور اُس پر کیا کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔ لیکن اس بیماری اور اس قاتل کو بھی تو ہم نے ہی پیدا کیا ہے ۔ بس تھوڑی سی احتیاط کی ہی تو ضرورت ہے ۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے تو ایک صاحب عورتوں کی تلاش میں اور دوسرے اُن صاحب کی تلاش میں ہیں ۔ جہاں تک اس قوم کا سوال ہے وہ ان سب کو ڈھونڈ رہی ہے ۔

اندازہ ان جملوں سے کیجیے ۔لیہ پنجاب میں ہے اور پنجاب کے وزیر اعلی ساڑھے سات سال سے اس منصب پر ہیں ۔فرماتے ہیں کہ نواز شریف اسپتال پر دس کروڑ روپے خرچ کیے گئے لیکن نہ تو عملہ ہے اور نہ ہی مشینری ۔ مزید کہتے ہیں کہ فائلوں کا پیٹ بھرا ہوا ہے لیکن اسپتال خالی ہے ۔ اب آپ غور کیجیے کہ یہ بات وہ کہہ رہے ہیں جس کی انتظامی کارکردگی کو سب سے بہتر کہا جاتا ہے۔

اور وہ بھی اس جگہ جہاں وہ خود اتنے عرصے سے ہیں اور اسپتال بھی وزیر اعظم کے نام کا ہے ۔ جب ان کا یہ حال ہے تو سوچیں دو کروڑ ان لوگوں کا کیا ہو گا جو منافع خوروں کیالیے اس وقت سب سے بڑی فیکٹری ہے ۔ تو چھوڑیں ساری باتوں کو اور اس بات کی فکر کریں جس کی ہماری اسمبلی میں اہم شخصیت بات کررہی ہے ۔ جو سب سے زیادہ اہم ہے کہ اور کتنی عورتیں پکڑی جائینگی ۔ ویسے اس پر سٹہ لگانا ٹھیک ہے یا نہیں کہ کتنی ہونگی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں