جمہوریت خطرے میں کیوں

آج پورا ملک بارشوں اور سیلابی ریلوں کی زد میں ہے۔ مون سون کی بارشیں کوئی نیا معاملہ نہیں ہیں۔


Muqtida Mansoor August 03, 2015
[email protected]

آج پورا ملک بارشوں اور سیلابی ریلوں کی زد میں ہے۔ مون سون کی بارشیں کوئی نیا معاملہ نہیں ہیں۔ اس خطے میں ہر سال 15 جون سے 31 اگست تک مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں۔ کبھی کم کبھی زیادہ۔ یہ صدیوں کی کہانی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمران شاید مریخ سے اترے ہیں، جنھیں اپنے خطے کے موسمیاتی نظام کا علم نہیں ہے۔ اس لیے انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ بارشیں کب ہوتی ہیں اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ ماہرین ماحولیات موسمیاتی تغیرات کے بارے میں کن خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر کوئی دیرپا منصوبہ بندی کرنے میں ناکام ہیں۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2010ء میں ہونے والی شدید بارشوں اور بدترین سیلابی ریلوں کے نتیجے میں 26 لاکھ کے قریب افراد متاثر ہوئے تھے۔ لاکھوں ٹن غذائی اجناس پانی میں بہہ گئی تھیں۔ 15 لاکھ کے قریب مویشی مارے گئے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں گھر تباہ ہوئے تھے۔ کھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوئی تھیں۔ اسی برس گلیشئر پگھلنے سے گلگت کے قریب عطا آباد کے مقام پر ایک بڑی جھیل وجود میں آئی۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی اس تباہی اور عطا آباد میں جمع ہونے والے پانی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ آنے والے برسوں میں بارشوں کی شدت، سیلابوں کی منہ زوری اور گلیشئروں کے پگھلنے کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔ لہٰذا اس تباہی سے نمٹنے کی حکمت عملی کے ساتھ ہی ان معاملات سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کر لینا چاہیے تھی۔

مگر 5 برس گزر جانے کے باوجود یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ ہر شہر، ہر گاؤں، ہر قریہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ گندگی کے ڈھیر جو ہر سڑک اور گلی میں لگے ہوئے تھے، وہ بھی ان تالابوں میں شامل ہو کر اہل پاکستان کی کسمپرسی میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ جس وقت یہ اظہاریہ تحریر کیا جا رہا ہے، ٹیلی ویژن پر خبر نشر ہو رہی ہے کہ گڈو بیراج سے 7 لاکھ کیوسک پانی گزر رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی دی جا رہی ہے کہ اس بیراج سے آنے والے دنوں میں اس سے زیادہ مقدار میں سیلابی ریلے کے گزرنے کا امکان ہے، جب کہ پورے ملک میں شدید بارشیں بھی جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صرف راجن پور ضلع میں 43 ہزار اراضی تباہ ہوئی ہیں اور 26 ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ملک کے دیگر اضلاع بالخصوص سندھ کے مختلف شہروں کا کیا حال ہو گا؟ ویسے تو حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے پورے ملک میں بدانتظامی کی ابتری کو عیاں کر دیا ہے، لیکن دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں بدانتظامی اپنی انتہاؤں کو پہنچی ہوئی ہے۔ لیکن حکمران اس تباہی سے فوائد حاصل کرنے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔

ملک آئے دن جن قدرتی آفات کاشکار ہوتا ہے اور تسلسل کے ساتھ مختلف نوعیت کے جن سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، اس کا سبب نظم حکمرانی (گورننس) کا بحران ہے۔ اس لیے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جب تک گورننس میں بہتری نہیں آتی، نہ تو قدرتی آفات پر قابو پانے کی کوئی واضح حکمت عملی تیار ہو سکتی اور نہ ہی عوام کو درپیش مشکلات میں کمی آنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا بحث کا مرکزی موضوع اور محور ملک میں جاری گورننس اور اس میں پائی جانے والی خرابیاں اور کمزوریاں ہونا چاہیے۔ ہمارے چند دانشور دوستوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جب سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی کارکردگی پر تنقید کا مطلب فوجی آمریت کی حمایت یا اس کی راہ ہموار کیا جانا ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آزاد ہونے والی جن ریاستوں میں فوجی آمریتیں قائم ہوئیں، تقریباً سبھی عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام رہیں۔ اسی طرح پاکستان میں قائم ہونے والی چار فوجی آمریتوں نے ملک کے نظم حکمرانی کو کسی بہتری کے بجائے مزید ابتری کا شکار کیا۔ اس لیے یہ تصور غلط ہے کہ جمہوریت اور جمہوری نظام اتنا زد پذیر ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی کارکردگی پر کی جانے والی تنقید سے اسے کسی قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بلکہ اچھی حکمرانی کے لیے ایسی تنقید ضروری ہے۔

سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ حکمرانی کے حوالے سے ہماری خواہشات اور ترجیحات کیا ہونا چاہئیں۔ ملک کے اہل دانش، قلمکاروں اور متوشش شہریوں کی اکثریت سیاسی جماعتوں اور منتخب حکومتوں سے کلیدی نوعیت کی پانچ خواہشات اور توقعات رکھتی ہے۔ اول، حکومت عقیدے، صنف، لسانی و نسلی بنیاد اور صوبائی تشخص کے امتیازات سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کا مظاہرہ کرے گی۔ دوئم، اچھی حکمرانی کا مظاہرہ کرے گی، تا کہ شفافیت، میرٹ، احتساب، قانون کی حکمرانی اور کسی بھی عوامی مسئلے کے سامنے آنے پر فوری ردعمل کا مظاہرہ جیسے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد یقینی ہو سکے۔ سوئم، عوامی مسائل کے حل کو اولیت دے گی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبے تیار کر کے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ چہارم، ریاستی منصوبہ سازی میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانے کے اقدامات کرے گی اور اقتدار و اختیار کو ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک پہنچانے کی کوشش کرے گی۔ پنجم، اجتماعیت کے تصور کو فروغ دیتے ہوئے اپنی جماعت کے اندر بھی انتخابی عمل کے ذریعے جمہوری اقدار کو فروغ دے گی۔

مگر حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کے تناظر میں وفاقی اور صوبائی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبہ سازی کرنے کی اہلیت، صلاحیت اور استعداد کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتوں کی خراب کارکردگی کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ اول، بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پروان چڑھنے والے موروثیت کے تصور نے انھیں مخصوص گھرانوں کی لمیٹڈ کمپنیاں بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے ان جماعتوں میں اندرونی انتخابات کا تصور مفقود ہو گیا ہے۔ نتیجتاً ایک عام کارکن کے جماعت کی اعلیٰ ترین سطح تک پہنچنے کا راستہ مسدود ہو گیا اور وہ اس عزم و ولولہ میں کمی کا شکار ہو گیا ہے، جو قومی ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

دوئم، پاکستانی معاشرہ چونکہ قبائلیت، جاگیردارانہ کلچر اور برادری سسٹم کی مضبوط گرفت میں ہے، اس لیے مختلف علاقوں کی بااثر اشرافیہ سیاست اور سیاسی عمل پر حاوی آ چکی ہیں۔ یہ اشرافیہ جس کا عوام اور عوامی مسائل سے دور کا بھی علاقہ نہیں ہے، اس کا مطمع نظر سیاسی نظریے کے بجائے صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے، اپنی طاقتور سماجی حیثیت کی وجہ سے سیاسی طاقت حاصل کر کے اپنے مخصوص علاقوں میں Electables بن چکے ہیں۔ یہ Electables آج ہر سیاسی جماعت کی ضرورت اور مجبوری ہیں۔ چنانچہ سیاسی جماعتیں سیاسی نظریات کے بجائے ان Electables پر بھروسہ کرتی ہیں۔ اس وقت جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتیں Electables کی اسیر ہیں۔

پاکستان کے سیاسی کلچر میں جماعتوں کے اندر جنم لینے والی موروثیت اور Electables کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ اجتماعیت کا راستہ روکنے کا موجب ہے۔ جو خراب کارکردگی کا ایک اہم سبب ہے۔ اس روش نے سیاسی جماعتوں سے جمہوریت کو ختم کر کے انھیں بدترین فاشزم کی راہ پر لگا دیا ہے۔ Electables کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں اپنے منشور پر عمل کرنے اور عوامی بہبود کی حکمت عملیاں تیار کرنے کے لیے دلچسپی ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ جب انھیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ یہ Electables ان کی کامیابی کی کلید ہیں، تو پھر انھیں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ سیاسی کلچر اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں بھی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول، مقامی حکومتی نظام میں عام شہریوں کے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار ہو جانے کی صورت میں Electables کی سیاسی حیثیت اور اہمیت ختم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دوئم، یہ بھی طے ہے کہ ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتوں کو منتقل ہو جانے کے بعد اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو صرف قانون سازی تک محدود ہونا پڑے گا، جس سے ان کے دبدبہ اور VVIP حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتیں مقامی حکومتی نظام کے نفاذ میں تاخیری حربے استعمال کر کے اسے ٹالنے کی کوشش کرتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر تنقید کا مقصد کسی بھی طور فوجی آمریتوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ بلکہ سیاسی عمل کو اقتدار و اختیار کی ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک پہنچا کر دراصل سیاسی جماعتوں میں اجتماعیت کے فروغ کے ذریعے جمہوری اقدار کا استحکام ہے۔ پاکستان میں اچھی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کلچر میں تبدیلی لائی جائے اور اقتدار و اختیار کو نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنائے بغیر خاندانی موروثیت اور Electables سے جان چھڑانا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا جمہوریت کو خطرہ باہر سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے اندر پائے جانے والے کلچر سے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں