ملکی معیشت کی اصل حالت
پاکستانی معیشت طویل عرصے سے بدترین صورتحال سے دو چار ہے۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ بمشکل ڈیفالٹ سے بچی۔
لاہور:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں تیسری سہ ماہی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جس کے مطابق ملکی معیشت کا انحصار قرضوں پر رہا' مہنگائی ایک عشرے کی کم ترین سطح پر آ گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے قرض لینے پڑے جس کے نتیجے میں یہ ذخائر دو گنا ہو گئے۔ جب کہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور یہ پچھلے سال کی سطح پر ہی رہی۔ بیرونی ترسیلات زر میں اضافے سے معیشت پر اچھا اثر پڑا جب کہ تیل کی قیمتوں میں کمی معیشت کے لیے غیبی مدد ثابت ہوئی۔
پاکستانی معیشت طویل عرصے سے بدترین صورتحال سے دو چار ہے۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ بمشکل ڈیفالٹ سے بچی۔ اگر عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کی شکل میں مدد کو نہ پہنچتے تو ہم کبھی کے دیوالہ ہو چکے ہوتے۔ لیکن اس مدد کی قیمت پاکستانی عوام کو اس طرح چکانی پڑی کہ روزمرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک کا یہ کہنا کہ مہنگائی ایک عشرے کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، عوام سے ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ حال ہی میں حکومت نے پھر فی یونٹ ساڑھے تین روپے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں متوسط طبقہ مزید مالی دباؤ میں آ گیا ہے۔دس سال پہلے مہنگائی کس سطح پر تھی آج کیا ہے۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان حالات میں عام عوام کی بڑی تعداد گزشتہ آمر کو یاد کرنے لگے تو اس کا کون ذمے دار ہے؟ یہ وہ خط غربت سے گرے انتہائی غریب لوگ ہیں جو گزشتہ آمر کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے دور میں ہمیں پیٹ بھر کر روٹی تو مل جاتی تھی۔
یہ وہ غریب ان پڑھ یا نیم خواندہ لوگ ہیں جو بھوک سے تنگ آ کر آمروں کو نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں۔یہ غریب کیوں ہیں کس وجہ سے ہیں۔ اس کا انھیں کچھ نہیں پتہ۔ نہ ہی وہ آئین و جمہوریت کی باریکیوں کو جانتے ہیں۔ کمزور اتنے ہیں کہ حکمران طبقوں کے خلاف نہ تو یہ سازش کر سکتے ہیں نہ کسی سازش میں شامل ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کو خطرہ کس سے ہے؟ جمہوریت کے نام پر اربوں ڈالر ملک و بیرون ملک جمع کرنے والے جمہوری حکمرانوں سے یا ان قوتوں سے جو جمہوریت مخالف ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ عام عوام کو تو دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے۔ اگر وہ انھیں مل جائے تو انھیں آمر کو یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک طرف حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی۔ ہزاروں محافظ ان کے اور ان کے خاندان کی حفاظت پر مامور۔ بیرون ملک دوروں پر اربوں روپے کے اخراجات ۔ دوسری طرف خط غربت کی طرف لڑھکے ہوئے کروڑوں عوام۔ جنھیں بھوک و غربت نے جانوروں کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے سرکاری طور پر۔ جب کہ دیہاتوں اور دور دراز علاقوں کا حال تو اس سے بھی برا ہے جہاں بجلی چند گھنٹوں کے لیے آتی ہے اور چلی جائے تو پتہ نہیں ہوتا کہ کب آئے گی۔ حکمرانوں کا طرز حکمرانی دیکھیں تو ان کی ترجیحات تعلیم و صحت نہیں کچھ اور ہیں۔
ہمارے گروپ ایڈیٹر ایاز اور ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری نے اپنے ٹی وی پروگرام میں خادم اعلیٰ پنجاب سے بار بار استدعا کی کہ گڈگورننس کا مطلب یہ نہیں کہ شہر جب بارش میں ڈوب جائے تو آپ بذات خود چمڑے کے لمبے جوتے پہن کر پانی میں اتریں۔ یہ کام آپ کا نہیں۔ آپ کے ماتحت اہلکاروں کا ہے۔ آپ اپنے آفس میں بیٹھیں اور ماتحت فیلڈ میں جائیں خو ش آیند بات یہ ہے کہ انھوں نے اس مشورے پر عمل شروع کر دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر دوگنے اس لیے نہیں ہو گئے کہ ہماری ایکسپورٹ بڑھ گئی ہیں بلکہ نئے قرضے اس لیے ملے ہیں کہ پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کی جا سکیں ورنہ ہم نادہندگی کی بنا پر دیوالیہ قرار پائیں گے جس طرح حال ہی میں یورپئین معیشت کا ایک اہم حصہ یونان قرار پایا ہے۔ حکومت کو ملنے والے نئے قرضوں کا مطلب ہے مہنگائی میں مزید بے تحاشہ اضافہ اور عوام پر مزید نئے ٹیکس جو عوام مہنگی بجلی وغیرہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ ڈوبتی ہوئی ملکی معیشت پر دو مثبت اثرات ہوئے ہیں جس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں جس میں عالمی سیاست کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہے۔
دوسرا غیر ملکی زرمبادلہ جو پاکستانی تارکین کی طرف سے بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح وہ مسلسل طویل مدت سے پاکستانی معیشت کو گرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے اس عظیم احسان کا بدلہ اس طرح چکایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ان کی جائیدادوں پر قبضہ ہو جاتا ہے اور حکومت کچھ کر نہیں پاتی۔ یونانی معیشت کو جو بیماریاں لاحق تھیں وہی پاکستانی معیشت کو بھی ہیں جن میں خطرناک حد تک بڑھتا ہوا قرضوں کا بوجھ اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینا آمدنی سے زیادہ اخراجات' کرپشن' بری گورننس خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے' بیرونی اندرونی سرمایہ کاری میں تشویشناک کمی حکمرانوں اور بیوروکریسی کا شاہانہ طرز زندگی وغیرہ شامل ہیں۔عالمی معیشت کی آج صورت حال یہ ہے کہ یورپی معیشت کا اہم حصہ یونان دیوالیہ ہو چکا۔ اٹلی کی کی صورتحال بھی اس سے کوئی مختلف نہیں۔ آئرلینڈ، پرتگال ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ یورپی معیشت عمومی طور پر ایک بڑے دباؤ کا سامنا کر رہی ہے جس میں امریکا اور چین بھی شامل ہیں۔ اسپین میں بے روز گاری کی شرح پچاس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ وہاں نئی ملازمتیں ہی نہیں۔
اگر ہمارے حکمرانوں نے حالات پر توجہ نہ دی تو یونان کی طرح کا معاشی بحران خاموشی سے قدم بہ قدم ہمیں دبوچنے کے لیے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یعنی 2016ء اور اس کے خاص مہینوں میں 2008ء کے گزرے ہولناک معاشی بحران کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں تیسری سہ ماہی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جس کے مطابق ملکی معیشت کا انحصار قرضوں پر رہا' مہنگائی ایک عشرے کی کم ترین سطح پر آ گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے قرض لینے پڑے جس کے نتیجے میں یہ ذخائر دو گنا ہو گئے۔ جب کہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور یہ پچھلے سال کی سطح پر ہی رہی۔ بیرونی ترسیلات زر میں اضافے سے معیشت پر اچھا اثر پڑا جب کہ تیل کی قیمتوں میں کمی معیشت کے لیے غیبی مدد ثابت ہوئی۔
پاکستانی معیشت طویل عرصے سے بدترین صورتحال سے دو چار ہے۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ بمشکل ڈیفالٹ سے بچی۔ اگر عالمی مالیاتی ادارے قرضوں کی شکل میں مدد کو نہ پہنچتے تو ہم کبھی کے دیوالہ ہو چکے ہوتے۔ لیکن اس مدد کی قیمت پاکستانی عوام کو اس طرح چکانی پڑی کہ روزمرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک کا یہ کہنا کہ مہنگائی ایک عشرے کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، عوام سے ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ حال ہی میں حکومت نے پھر فی یونٹ ساڑھے تین روپے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں متوسط طبقہ مزید مالی دباؤ میں آ گیا ہے۔دس سال پہلے مہنگائی کس سطح پر تھی آج کیا ہے۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان حالات میں عام عوام کی بڑی تعداد گزشتہ آمر کو یاد کرنے لگے تو اس کا کون ذمے دار ہے؟ یہ وہ خط غربت سے گرے انتہائی غریب لوگ ہیں جو گزشتہ آمر کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے دور میں ہمیں پیٹ بھر کر روٹی تو مل جاتی تھی۔
یہ وہ غریب ان پڑھ یا نیم خواندہ لوگ ہیں جو بھوک سے تنگ آ کر آمروں کو نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں۔یہ غریب کیوں ہیں کس وجہ سے ہیں۔ اس کا انھیں کچھ نہیں پتہ۔ نہ ہی وہ آئین و جمہوریت کی باریکیوں کو جانتے ہیں۔ کمزور اتنے ہیں کہ حکمران طبقوں کے خلاف نہ تو یہ سازش کر سکتے ہیں نہ کسی سازش میں شامل ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کو خطرہ کس سے ہے؟ جمہوریت کے نام پر اربوں ڈالر ملک و بیرون ملک جمع کرنے والے جمہوری حکمرانوں سے یا ان قوتوں سے جو جمہوریت مخالف ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ عام عوام کو تو دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے۔ اگر وہ انھیں مل جائے تو انھیں آمر کو یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک طرف حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی۔ ہزاروں محافظ ان کے اور ان کے خاندان کی حفاظت پر مامور۔ بیرون ملک دوروں پر اربوں روپے کے اخراجات ۔ دوسری طرف خط غربت کی طرف لڑھکے ہوئے کروڑوں عوام۔ جنھیں بھوک و غربت نے جانوروں کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے سرکاری طور پر۔ جب کہ دیہاتوں اور دور دراز علاقوں کا حال تو اس سے بھی برا ہے جہاں بجلی چند گھنٹوں کے لیے آتی ہے اور چلی جائے تو پتہ نہیں ہوتا کہ کب آئے گی۔ حکمرانوں کا طرز حکمرانی دیکھیں تو ان کی ترجیحات تعلیم و صحت نہیں کچھ اور ہیں۔
ہمارے گروپ ایڈیٹر ایاز اور ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری نے اپنے ٹی وی پروگرام میں خادم اعلیٰ پنجاب سے بار بار استدعا کی کہ گڈگورننس کا مطلب یہ نہیں کہ شہر جب بارش میں ڈوب جائے تو آپ بذات خود چمڑے کے لمبے جوتے پہن کر پانی میں اتریں۔ یہ کام آپ کا نہیں۔ آپ کے ماتحت اہلکاروں کا ہے۔ آپ اپنے آفس میں بیٹھیں اور ماتحت فیلڈ میں جائیں خو ش آیند بات یہ ہے کہ انھوں نے اس مشورے پر عمل شروع کر دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر دوگنے اس لیے نہیں ہو گئے کہ ہماری ایکسپورٹ بڑھ گئی ہیں بلکہ نئے قرضے اس لیے ملے ہیں کہ پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کی جا سکیں ورنہ ہم نادہندگی کی بنا پر دیوالیہ قرار پائیں گے جس طرح حال ہی میں یورپئین معیشت کا ایک اہم حصہ یونان قرار پایا ہے۔ حکومت کو ملنے والے نئے قرضوں کا مطلب ہے مہنگائی میں مزید بے تحاشہ اضافہ اور عوام پر مزید نئے ٹیکس جو عوام مہنگی بجلی وغیرہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ ڈوبتی ہوئی ملکی معیشت پر دو مثبت اثرات ہوئے ہیں جس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں جس میں عالمی سیاست کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہے۔
دوسرا غیر ملکی زرمبادلہ جو پاکستانی تارکین کی طرف سے بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح وہ مسلسل طویل مدت سے پاکستانی معیشت کو گرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے اس عظیم احسان کا بدلہ اس طرح چکایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ان کی جائیدادوں پر قبضہ ہو جاتا ہے اور حکومت کچھ کر نہیں پاتی۔ یونانی معیشت کو جو بیماریاں لاحق تھیں وہی پاکستانی معیشت کو بھی ہیں جن میں خطرناک حد تک بڑھتا ہوا قرضوں کا بوجھ اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینا آمدنی سے زیادہ اخراجات' کرپشن' بری گورننس خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے' بیرونی اندرونی سرمایہ کاری میں تشویشناک کمی حکمرانوں اور بیوروکریسی کا شاہانہ طرز زندگی وغیرہ شامل ہیں۔عالمی معیشت کی آج صورت حال یہ ہے کہ یورپی معیشت کا اہم حصہ یونان دیوالیہ ہو چکا۔ اٹلی کی کی صورتحال بھی اس سے کوئی مختلف نہیں۔ آئرلینڈ، پرتگال ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ یورپی معیشت عمومی طور پر ایک بڑے دباؤ کا سامنا کر رہی ہے جس میں امریکا اور چین بھی شامل ہیں۔ اسپین میں بے روز گاری کی شرح پچاس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ وہاں نئی ملازمتیں ہی نہیں۔
اگر ہمارے حکمرانوں نے حالات پر توجہ نہ دی تو یونان کی طرح کا معاشی بحران خاموشی سے قدم بہ قدم ہمیں دبوچنے کے لیے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یعنی 2016ء اور اس کے خاص مہینوں میں 2008ء کے گزرے ہولناک معاشی بحران کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔