جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہم سب کی جیت

طویل دھرنے سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہوا۔


[email protected]

زرداری حکومت کے خاتمے کے بعد مئی 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں جب میاں نوازشریف کی موجودہ حکومت بر سراقتدار آئی تو پر امن انتقال اقتدار پر قوم نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ اور جمہوری نظام کے تسلسل پر اطمینان کا اظہارکیا گیا۔ لیکن پھر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور بعض دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کیے جانے لگے۔ پہلے 4انتخابی حلقوں میں دھاندلی کا شور مچایا گیا پھر وزیر اعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبات پیش ہوئے۔ اس کے بعد الیکشن کے پورے ایک سال بعد پی ٹی آئی نے مختلف شہروں میں جلسے کیے اور عوامی تحریک کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیا۔ طویل دھرنے سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہوا۔ دارالحکومت میں توڑ پھوڑ کی گئی اور قوم کو وہ افسوسناک لمحہ بھی دیکھنا پڑا جب پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے پی ٹی وی پر قبضہ کرلیا اور نشریات بند کرنے کے علاوہ املاک کو نقصان پہنچایا۔

بالاخرطے پایا کہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور دونوں فریق اس کمیشن کے فیصلے کے پابند ہوں گے۔کمیشن نے بڑی عرق ریزی سے اس حوالے سے کام کیا۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے اس جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ چند روز قبل جاری کردی گئی جس میں کمیشن نے منظم دھاندلی کے تمام الزامات مسترد کردیے البتہ حلقوں میں انتظامی بدنظمی کی ضرور نشاندہی کی گئی۔ اسطرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس رپورٹ کے اجراء کے بعد وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت اس ذہنی دباؤ سے نکل آئی جو پی ٹی آئی کے احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ جب کہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو تسلیم تو کرلیا ہے لیکن اس میں کئی 'اگر، مگر' شامل کردیے ہیں۔

اس مسئلے پر پی ٹی آئی گروپس میں بٹ گئی ہے اور مختلف رہنماؤں کی آرا مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ انتہائی افسوسناک بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے وہ کارکن جو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے۔ اب وہی کارکن سوشل میڈیا پر کمیشن پر سخت نکتہ چینی کررہے ہیں۔ جب کہ الیکشن کمیشن کو الگ تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اب اداروں کے تقدس کو پامال کرنے کی مہم چلا رہی ہے یہ تو اس محاورے کے مصداق ہوگیا ''میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھوتھو'' عدلیہ اگر ان کی مرضی کا فیصلہ دے دیتی تو یہ عدلیہ کی تعریف میں پل باندھ رہے ہوتے لیکن ان کی حکومت اور انتخابی دھاندلی کے حوالے سے کی جانے والی غیر دانشمندانہ کوششیں ناکام ہوگئی ہیں تو وہ ہر ادارے پر انگلی اٹھانے لگے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے طویل دھرنا دے کر قوم کا وقت برباد کیا ملکی املاک کو نقصان پہنچا کارکنوں کی جان و مال سے کھیلے ملک کی ترقی کی رفتار کو روکے رکھا۔ اور بغیر ثبوت کے وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی حکومت پر گھٹیا الزام تراشی کی جاتی رہی۔ جب کہ میں تو یہ بات بھی دہراؤں گا کہ اس دوران عمران خان نے تہذیب اور شائستگی کا دامن بھی چھوڑ دیا اور وزیر اعظم کے حوالے سے انتہائی نازیبا زبان استعمال کی جس پر کئی حلقوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ عمران خان جن نادیدہ طاقتوں کی ایما پر یہ کھیل کھیل رہے تھے اب شائد انھوں نے بھی عمران خان کو الوداع کہہ دیا ہے۔ عوامی طاقت کے بجائے سازشوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے اس اہم فیصلے کے بعد وزیر اعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کیا۔ جس میں وزیر اعظم نے کہا کہ اللہ نے ہمیں سرخرو کیا، تقریباً 3 ماہ کی کارروائی کے بعد انکوائری کمیشن کی جامع رپورٹ ہمارے موقف ہی کی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی بھی توثیق ہے یہ جمہوریت، آئینی نظام اور اداروں کی بلوغت کی علامت ہے یہ اس نظریئے کی توثیق ہے مسائل سڑکوں پر نہیں، دھرنوں میں نہیں بلکہ دستوری ایوانوں میں حل ہوتے ہیں۔ انتخابات کے بعد اب تک جو کچھ ہوا ہم اسے فراموش کرتے ہیں۔ الزامات اور بہتان تراشی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں یہ مستحسن امر ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کی تقریر سیاسی بلوغت اور سنجیدہ فکر کی علامت تھی۔

اس سے قبل وہ مشاورتی اجلاس میں وزراء کو تلقین کرچکے تھے کہ فیصلے کو پی ٹی آئی کی شکست کے حوالے سے پیش نہ کریں ۔ انھوں نے واضح کیا کہ یہ کسی کی ہار یا جیت نہیں اب ہمیں ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی بھی کرنی ہوگی۔ آج کا پاکستان 2 سال پہلے والے پاکستان سے کہیں بہتر ہے اور 3 سال کا پاکستان آج کے پاکستان سے کہیں زیادہ خوش حال ہوگا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نے انتخابات کے بعد سے باہمی مشاورت، مفاہمت اور اتفاق رائے کی تعمیری روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے محب وطن حلقوں کی جانب سے ان کی تائید کی جارہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد انتخابی نتائج کی شفافیت کے بارے میں سوالات اور غیر ضروری سیاسی کشیدگی کو ختم ہوجانا چاہیے۔ اور یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ سیاسی جماعتیںایسی اصلاحات کی تیاری کو یقینی بنائیں جن کی مدد سے آیندہ انتخابات کا انعقاد صحیح معنوں میں غیر جانبدارانہ ہو، ملک کے موجودہ حالات اور حقائق و شواہد یہ تقاضا بھی کرتے ہیں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ملکی و قومی مسائل پر احتجاجی، ہڑتالی اور اشتعالی سیاسی روش ترک کرکے یہ طے کرلیں کہ وہ آیندہ تمام سیاسی، جمہوری، آئینی اور ملکی و قومی مسائل کے حل کے لیے دھرنوں اور سڑکوں کی روایت کو خیرآباد کہہ دیں گے۔

اب ایک ایسے فراخدلانہ سیاسی کلچر کو فروغ دینا ہوگا جو ملک و قوم کو آگے کی طرف لے کر جائے۔ موجودہ صورتحال سے ہٹ کر دیکھا جائے تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے پاکستان مضبوط ہوا ہے ہم ایک سمجھدار قوم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں کیونکہ ایک سیاسی جماعت نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جس پر تدبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران پارلیمنٹ نے مثالی کردار ادا کیا۔ پھر معاملہ عدلیہ کے سپرد کردیا گیا ، عدلیہ نے اس معاملے کو نہایت احسن طریقے سے نمٹایا اگرچہ پی ٹی آئی اس سیاسی شکست کو کبھی فراموش نہیں کرسکے گی لیکن ان کے پاس الزامات کے ثبوت نہیں تھے۔

انھوں نے سنی سنائی باتوں پر انحصار کیا۔ لیکن یہ خوش آیند بات ہے کہ اس معاملے کے تمام فریق نے اس فیصلے کو قبول کرلیا ہے یہ نہایت خوشگوار امر ہے۔ سیاسی تاریخ کے اس سنگ میل پر ہم کو خوش ہونا چاہیے۔ یہ ہم سب کی جیت ہے البتہ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پی ٹی آئی اور نوازلیگ کے رہنماؤں کے درمیان نئی سیاسی محاذ آرائی جنم لیتی ہوئی نظر آرہی ہے ،اس محاذ آرائی کو ختم ہونا چاہیے کہ اگر اس محاذ آرائی کو فوری طور پر روکا نہیں گیا تو خدانخواستہ کوئی ناخوشگوار صورتحال بھی جنم لے سکتی ہے اور پھر وزیر اعظم نوازشریف نے بھی بیانات میں تضحیک سے گریز کرنے کی ہدایت کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ذاتی یا پارٹی سیاست سے بلند ہوکر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کیا جائے جو ہوچکا ہے فراموش کردیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کا پیغام بھی یہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں